تعمیر شخصیت کے مناہج کشف المحجوب اور احیاء العلوم کی روشنی میں
عائشہ صدیقہ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان الہدایہ
(قسط اوّل)
سید علی بن عثمان ؒ امام طریقت، رہبر شریعت اور علوم ظاہر و باطن کے مرشد کامل عظیم المرتبت اولیاء میں سے ایک ہیں آپ کا مشہور زمانہ نام داتا گنج بخش علی ہجویری ہے۔ سید علی بن عثمان ؒ برصغیر پاک و ہند کے اولین مبلغین میں سے ہیں۔ سید علی بن عثمان ؒ تصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز عشق حقیقی سے سر شار فنا فی اللہ بزرگ اور ولی اللہ ہیں اس لئے آپ کی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی، مسلمانوں کی خیر خواہی اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے حوالے سے پھول مہکتے نظر آتے ہیں۔ داتا گنج بخش کا لقب در حقیقت آپ کو ہی زیب دیتا ہے کیونکہ آپ نے اپنی ساری زندگی میں علوم و معارف اور حکمت و دانائی کے خزانے مخلوقِ خدا میں تقسیم فرمائے ہیں۔ شيخ سيد علي هجويري ؒ کا تعلق افغانستان کے مشهور شهر غزني سے هے آپ کا شمار پانچويں صدي هجري کے اولو العزم اولياء ميں هوتا هے۔ آپ کے علم و عمل سے اکتساب فيض کرتے هوئے هزاروں راه سلوک و تصوف کے مسافروں نے منزل پائي هے حتي که آج بھي برصغير پاک و هند سے حاضري دينے والے فيوض و برکات سے اپنا دامن بھر کر لوٹتے هيں۔ علم و عمل ميں خدائے تعاليٰ نے آپ کو بهت کمال عطا کر رکھا تھا، اکابرين اولياء و مشائخ عظام کاا آپ سے فيضياب هونا اس کي زنده مثال هے۔ آپ روحانيت و تصوف کے درجه کمال پر فائز هيں اور بجا طور پر شريعت و طريقت کا حسين امتزاج هيں۔
سلسلہ نسب:
آپ کا سلسلہ نسب حضرت سید علی ہجویریؒ بن حضرت سید عثمان بن حضرت سید علی بن حضرت سید عثمان بن حضرت سید عبداللہ (شاہ شجاع) بن حضرت ابو الحسن علی بن حضرت سید حسن (اصغر) بن حضرت سید زید بن حضرت امام حسن بن حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ہے۔ (حماد، محمد سلیم، (۲۰۰۱ء)، دیباچہ، کشف المحجوب (مترجم از محمد فاروق القادری)، لاہور، فرید بک سٹال، ص:۴۳(
جائے ولادت:
بالاتفاق آپ کا شہر ولادت غزنی ہے البتہ جائے ولادت ترجیحاً ہجویر ہے اور محلہ جلاب بھی منسوب ہے۔ امين الدين احمد دهلوى اپنی کتاب تذکره على ہجويرىؒ میں لکھتے ہیں۔
’’ آپ کی ولادت غزنی شہر کے محلہ ہجویر میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ چونکہ اس محلے کی رہنے والی تھیں۔ اور جب آپ کی پیدائش ہوئی تو وہ والدین کے گھر میں تھیں اسی نسبت سے بعد ازاں آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے ‘‘۔ (دهلوی، امين الدين احمد، (۲۰۰۲ء)، تذکره على هجويرىؒ، لاہور، شعاعِ ادب، ۴۰ اردو بازار، ص:۲)
سفینۃ الاولیاء میں ہے۔
’’حضرت علی بن عثمانؒ غزنی کے رہنے والے تھے جلاب اور ہجویر غزنی کے دو محلے تھے پہلے جلاب میں قیام پذیر تھے پھر ہجویر منتقل ہوگئے‘‘۔ (دارا شکوہ، محمد (۱۸۷۲ء)، سفینۃ الاولیاء، انڈیا، لکھنؤ، ص:۱۶۴ )
تاریخ ولادت:
محمد سلیم حماد دیباچہ میں لکھتے ہیں۔
’’حضرت سید علی ہجویریؒ کے سال ولادت کے بارے میں متعدد روایات ہیں البتہ راقم الحروف کے بزرگوں کی روایت کے مطابق آپ ۴۰۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ‘‘ ( حماد، محمد سلیم، (۲۰۰۱ء)، دیباچہ، کشف المحجوب (مترجم از محمد فاروق القادری)، لاہور، فرید بک سٹال، ص ۴۵)
کنیت و لقب:
سید علی بن عثمانؒ کی کنیت "ابو الحسن "ہے لیکن آپ عوام و خواص میں " گنج بخش" (خزانے بخشنے والا)یا "داتا صاحب" کے لقب سے مشہور ہیں۔ خزینۃ الاصفیاء میں آپ کے لقب کے بارے میں مرقوم ہے:
حضرت خواجہ معین الدین ؒ حصول مقاصد روحانیت اور قطبیت ہند کا مقام و منصب پانے کے بعد جب آپ ؒ کے مزار پر انوار سے رخصت ہوئے تومرقد اقدس کے سامنے کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا۔ (۱غلام سرور، (۱۹۹۴ء)، خزینۃ الاصفیاء، لاہور، مکتبہ نبویہ، ص: ۱۲۱)
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خد
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنم
خاندانی پس منظر:
سید علی بن عثمان ؒجیسی شخصیات یقیناً معزز اور عظیم خاندانوںکا ورثہ رہی ہیں۔ لہٰذا امین الدین احمد لکھتے ہیں۔
’’آپ کا خاندان غزنی کے ممتاز خاندانوں میں سے تھا۔ آپ کےناناجی غزنی کی ممتاز شخصیات میں سے تھے۔ مالی اعتبار سے کافی مستحکم تھے۔ دنیوی ضروریات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا تھا۔ آپ کے ننھیالی رشتہ داروں میں بہت سے افراد علم وفضل میں غزنی میں بلند مقام رکھتے تھے۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم و فضل کی وجہ سے "تاج العلماء"کے لقب سے مشہور تھےیعنی پورا خاندان علم وعمل کا گہوارہ تصور کیا جاتا تھا۔ تمام خاندان پر تصوف اور روحانیت کا غلبہ تھا۔ ‘‘(دهلوى، امين الدين احمد، (۲۰۰۲ء)، تذکره على هجويرىؒ، لاہور، شعاعِ ادب، ۴۰ اردو بازار، ص:۱۳)
’’آپ کے والد ماجد حضرت سید عثمان بن علیؒ اپنے وقت کے جید عالم اور فقیہ العصر تھے۔ حضرت سید عثمان بن علی پہلے شخص ہیں جو آلِ سبکتگین کے دور میں غزنی میں آکر آباد ہوئے۔ اس وقت آپ پر جوانی کا مرحلہ تھا۔ آپ چونکہ غزنی میں نووارد ہوکر آباد ہوئے اس لیے ابتدا میں آپ کو مالی اعتبارسے کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ‘‘(دهلوى، امين الدين احمد، (۲۰۰۲ء)، تذکره على هجويرىؒ، لاہور، شعاعِ ادب، ۴۰ اردو بازار، ص:۱۳)
’’آپ کی والدہ ماجدہ بڑی نیک عورت تھیں۔ شرافت اور دینداری میں اپنے پورے خاندان میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ آپ کا وصال غزنی میں ہوا۔ اور آپ کو آپ کے بھائی تاج الاولیاء کے مزار اقدس کے قریب دفن کیا گیا۔ آپ کی قبر مبارک شیخ تاج الاولیاء کے قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔ ‘‘(دهلوى، امين الدين احمد، (۲۰۰۲ء)، تذکره على هجويرىؒ، لاہور، شعاعِ ادب، ۴۰ اردو بازار، ص:۱۳)
ازدواجی زندگی:
حضرت سید علی بن عثمان ہجویری کی ازدواجی زندگی کے متعلق محققین کی آراء مختلف ہیں۔ البتہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر صاحب نے اپنے ایک مقالہ میں اس امر کا خوبصورت احاطہ کیا ہے۔
’’حضرت داتا صاحب کے بارے میں یہی حسن ظن بہتر ہے کہ آپ کو جس خاتون کے رشتہ میں رغبت دلائی گئی ہوگی وہ کوئی متقی اور نیک صفت خاتون ہوگی چونکہ آپ ایک عورت کے ساتھ شادی کے خوشگوار تجربے سے گزر چکے تھے اس لیے اس متقی ونیک صفت خاتون سے شادی کی خواہش آپ کے خیالوں پر چھاگئی اوریہ خواہش ذکرو عبادت میں خلل انداز ہوتی رہی مگر غالباً بات چیت آگے بڑھانے والے کوئی مخلص خاندانی بزرگ کام نہ آئے ہونگے، اس لیے ایک سال تک شادی کی یہ خواہش گو مگو کے انداز میں ہی خیالوں پر چھائی رہی ہوگئی۔ جو فطری امر اور جائز بات ہے۔ بلکہ ممکن اور معقول بات بھی ہے۔
یہ داتا صاحب کی عظمت ہے کہ اس جائز کو تاہی کو بیان کرنے میں بھی آپ نے کوئی جھجک محسوس نہ فرمائی بلکہ اعتراف کیا کہ گذشتہ زمانوں میں جو نیک مرد عورت سے متاثر ہوتے رہے تھے وہ بھی سب حق بجانب تھے جس طرح کہ خود حضرت داتا صاحب بھی یہاں متاثر ہونے اور اس کا اعتراف کرنے میں نہ صرف یہ کہ حق بجانب ہیں۔ بلکہ اعتراف کی جرأت ان کی لڑائی کی بھی دلیل بن گئی ہے‘‘۔ (اظہر، ظہور احمد، ڈاکٹر، (س ن)، معارف ہجویریہ، سلسلہ مطبوعات مسند ہجویری، لاہور، پنجاب یونیورسٹی، ص:۱۱)
اس ضمن میں اعجاز الحق قدوسی کا اسنباط بھی قابل غور ہے وہ لکھتے ہیں کہ
" آپ ؒ کی ازدواجی زندگی کے متعلق کو ئی واضح صراحت نہیں ملی، لیکن کشف المحجوب کے بعض اندراجات سے معلوم ہوتا ہے کہ سید علی بن عثمان ؒ نے نکاح نہیں کیا۔ "(قدوسی، اعجاز الحق، (۱۹۶۲ء)، تذکرہ صوفیائے پنجاب، کراچی، سلمان اکیڈمی حق نشان، ص:۷۷)
سید علی بن عثمان ؒکےاخلاق و عادات:
حضرت علی بن عثمانؒ اخلاق حمیدہ کا بہترین نمونہ تھے آپ کی زندگی نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا مکمل نمونہ تھی۔ آپ نے ہر حال میں اپنی زندگی رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ ہی کی اتباع میں گزاری اور آپ کی شخصیت میں وہ تمام اوصاف اور خوبیاں موجود تھیں جو ایک با عمل صوفی، باشرع متقی اور پرہیز گار انسان میں میں ہونی چاہئیں۔ یہ آپ کے اخلاق حسنہ کا نتیجہ ہی تھا کہ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
انداز گفتگو:
سید علی بن عثمان ؒکا انداز گفتگو نہایت نرم، مشفقانہ، حلاوت انگیز اور مؤثر کن تھا۔
آپ ہر کسی سے اچھی اور نصیحت آمیز بات کہتے، جو بھی آپ کے پاس آتا اور آپ کو سنتا تو آپ کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔
عفو و در گزر:
عفو و در گزر بھی آپؒ کی شخصیت کا ایک پہلو تھا۔ وہ لوگ جو راہ حق اختیار کرتے ہیں بہت سے لوگ ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں، حضرت گنج بخش ؒ نے بھی جب دین کی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے ہمیشہ در گزر سے کام لیا جس کی وجہ سے دشمن بھی آپ ؒ کے دوست اور گرویدہ بن گئے۔
سخاعت اور فیاضی:
سید علی ہجویریؒ بڑے سخی اور فیاض دل کے مالک تھے۔ جو مال ان کے پاس ہوتا اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے۔ اپنے پاس نہ ہوتے ہوئے بھی کسی کو دینے سے گریز نہیں کیا اور نہ ہی کبھی یہ سوچا کہ اب اگر اللہ کی راہ میں جو کچھ ہے دے دیا تو آئندہ مجھے کیسے ملے گا۔ چونکہ اولیاء اللہ دولت جمع کرنے کے حق میں نہیں ہوتے اس لئے آپ ؒ کا بھی یہی نظریہ تھا کہ مال ملنے پر ضرورت کے مطابق رکھ کر اپنی ضرورت پوری کر لو اور بقیہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔
خودداری:
خودداری کا وصف سید علی ہجویریؒ کی طبعیت میں بڑا نمایاں تھا آپ ؒ چونکہ روشن ضمیر تھے اور روشن ضمیر خودداری سے کام لیتا ہے اس لئے آپ اپنے ذاتی معاملات میں خودداری اور عزت نفس کی پاسداری کے قائل تھے۔ خودداری سے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ
" درویش کو چاہیے کہ کسی دنیادار کے بلانے پر نہ جائے اس کی دعوت کو قبول نہ کرے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز طلب کرے۔ یہ اہل طریقت کی توہین ہے۔ اس لئے کہ دنیا دار درویشوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ "(ہجویری، سید علی داتا گنج بخش، ، (۲۰۱۲ء)، کشف المحجوب، (مترجم محمد احمد قادری)، لاہور، مرکز معارف اولیاء داتا دربار کمپلیکس، ص:۴۲)
عاجزی و انکساری:
آپ ؒ کی خدمت میں جو بھی حاضر ہوتا آپؒ اس کے ساتھ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ پیش آتے، اپنا سارا کام خود کرتے کسی سے احسان نہ لیتے۔
لباس:
سید علی ہجویریؒ ایک کامل صوفی ہونے کے باوجود لباس کے معاملے میں آزاد تھے۔ صوفیوں کی تقلید میں صوف یا گدڑی نہیں پہنتے تھے بلکہ جو میسر ہوتا پہن لیتے۔ کشف المحجوب میں گدڑی کو صوفیا کا شعار اور سنت نبوی ﷺ قرار دیا ہے اور پھر اس لئے گدڑی کی ضرورت پر سیر بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
"اس زمانہ کے لوگوں کا جب حصول جاہ کا اور کوئی ذریعہ نہیں بنتا تھا تو گدڑی پہن لیتے ہیں اور فقیرانہ گدڑی کے ذریعے سرداری اور عزت و توقیر طلب کرتے ہیں "
مزید لکھتے ہیں کہ
" صوفیا کے ایک گروہ نے لباس کے بارے میں کوئی تکلف روا نہیں رکھا اگر اللہ تعالیٰ نے عبا دی تو وہ پہن لی، اگر قہاری دی تو وہ پہن لی اور اگر برہنہ رکھا تو اسے بھی قبول کیا۔ لہٰذا میں نے بھی یہی طریقہ پسند کیا اور اسی کو اپنا شعار بنایا۔ "(ہجویری، سید علی داتا گنج بخش، ، (۲۰۱۲ء)، کشف المحجوب، (مترجم محمد احمد قادری)، لاہور، مرکز معارف اولیاء داتا دربار کمپلیکس، ص:۴۲)
تعلیم و تربیت:
داتا گنج بخش ؒ کا خاندان علوم و فنون اور طریقت و تصوف میں اعلیٰ کمالات کا حامل تھا۔ علم و فضل اور روحانیت کے انوار سے بھر پور ماحول میں آپ ؒ نے آنکھ کھولی۔ آپؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ آپ ؒ کی والدہ ماجدہ ولیہ کاملہ اور والد ماجد سادات کے چشم و چراغ تھے۔ حصول علم سے متعلق آپ نے اپنے بہت سے اساتذہ کرام اور مشائخ عظام کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ ؒ نے غزنی میں ہی نامور اساتذہ سے تفسیر، فقہ، حدیث، علم الکلام اور دیگر علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔ مشائخ طریقت سے سلوک و معرفت کی منازل طے کیں اور پھر علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے لئے غزنی سے باہر مختلف علاقوں میں تشریف لے گئےاور علوم شریعت و طریقت کے ہزاروں اساتذہ و مشائخ سے اکتسابِ فیض کیا۔
سید علی بن عثمان ؒ امام طریقت، رہبر شریعت اور علوم ظاہر و باطن کے مرشد کامل عظیم المرتبت اولیاء میں سے ایک ہیں آپ کا مشہور زمانہ نام داتا گنج بخش علی ہجویری ہے۔ سید علی بن عثمان ؒ برصغیر پاک و ہند کے اولین مبلغین میں سے ہیں۔ سید علی بن عثمان ؒ تصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز عشق حقیقی سے سر شار فنا فی اللہ بزرگ اور ولی اللہ ہیں اس لئے آپ کی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی، مسلمانوں کی خیر خواہی اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے حوالے سے پھول مہکتے نظر آتے ہیں
حضرت سید علی ہجویریؒ کی تعلیم وتربیت کے بارے میں دو مختلف عبارات مذکور ہیں۔
محمد احمد قادری رقمطراز ہیں۔
’’حضرت سید علی ہجویری کے دور میں عصر حاضر کی طرح علم وہنر کی تعلیم وتربیت کے لئے باقاعدہ مکاتب اور ادارے عام نہ تھے اور نہ ہی تدریس کا کوئی نصاب رائج تھا۔ محض مساجد میں قرآن ناظرہ پڑھایا جاتا تھا۔ وسائل ومسائل کے اعتبار سے دور حاضر کی طرح ہر ایک کے لئے علم حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔ طالب علم خود سعی و کوشش کرتا اور دور ونزدیک کے فاضل اہل علم وفن کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی پیاس بجھاتا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت آپ کے نامور علمی گھرانے میں ہوئی‘‘۔ (ہجویری، سید علی داتا گنج بخش، ، (۲۰۱۲ء)، کشف المحجوب، (مترجم محمد احمد قادری)، لاہور، مرکز معارف اولیاء داتا دربار کمپلیکس، ص:۴۲)
دوسری عبارت امین الدین احمد "تذکرہ علی ہجویری "سے ملاحظہ ہو۔
’’حضرت خواجہ مستان شاہ کابلی اپنی کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جن کا دل خداوند کریم کی طرف متوجہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سید مخدوم علی ہجویری محمودغزنوی کے قائم کردہ دینی مدرسہ میں اکثر دیکھے گئے۔ اس وقت آپکی عمر بمشکل بارہ، تیرہ سال ہوگی۔ حصول علم کے جذبہ سے سرشار یہ طالب علم تعلیم میں اتنا محو ہوتا کہ صبح سے شام ہوجاتی مگر کبھی پانی تک پیتے نہ دیکھا گیا۔
رضوان نامی سفید ریش بزرگ اس مدرسہ کے مدرس تھے اور اپنے اس خاموش طبع طالب علم کو تکریم کی نگاہوں سےدیکھتے تھے۔ ایک دفعہ محمود غزنوی کا گزر اس مدرسہ کی جانب سے ہوا۔ اور اس عظیم درسگاہ میں آگیا۔ دیگر شاگردوں کے برعکس حضرت مخدوم علی ہجویری اپنے کام میں اتنے منہمک تھے کہ ان کو کوئی خبر نہ تھی۔
بزرگ رضوان نے پکارا دیکھو مخدوم علی! کون آیا ہے؟ اب کیا تھا ایک طرف محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن راہ حق کا متلاشی، عجیب منظر تھا۔ محمود غزنوی نے اس نو عمر طالب علم کے بارے میں کہا۔ ’’واللہ! یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے۔ ایسے طالب علم اس مدرسہ کی زینت ہیں۔ فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی جس کے نام سے ہندوستان کے بڑے بڑے راجے اور مہاراجے تھر تھراتے تھے اور جس کی تلوار سے سارا ہندوستان لرز اٹھا وہ ایک کمسن طالب علم کے سامنے سرنگوں ہوگیا۔ ‘‘(دهلوى، امين الدين احمد، (۲۰۰۲ء)، تذکره على هجويرىؒ، لاہور، ادارہ شعاعِ ادب، ۴۰ اردو بازار، ص:۲۱)
سید علی ہجویری کی تعلیم وتربیت کے باب میں یہ واضح ہے کہ آپ نے بلا مبالغہ ہزاروں مشائخ کی زیارت کی اور ان سے فیض حاصل کیا۔ ان کا تعلق شام وعراق، فارس، قہستان، آذر بائیجان، طبرستان اور کمش، مشائخ کرمان، مشائخ خراسان مشائخ ماوراء النہرا اور مشائخ غزنی سے ہے۔ اور ان کی تعداد (۴۲) بیالیس ذکر کی ہے۔ جبکہ جن کے نام نہیں لکھے ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے
سید علی ہجویریؒ کا ذوق مطالعہ:
سید علی ہجویریؒ کثیر المطالعہ شخصیت تھے۔ گویا دن بھر مطالعہ میں گزرتا تھا اور شب بھر مشغول عبادت رہتے ہونگے۔ اوریہ کہ جس بھی بزرگ کے بارے میں سنا یا ان سے ملے ان کی تصانیف کا مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے گویا کہ لاکھوں کتب کا مطالعہ کیا اور اس مطالعے کے نتیجے میں ان بزرگ کے متعلق رائے قائم کی ان کے علم سے اپنے قلب وذہن کو سیراب کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے پانچویں صدی تک کے جملہ علوم نقلیہ وعقلیہ کے سمندر کو اپنے قلب وذہن میں ایک خاص ترتیب سے سجا کر رکھا ہے بلکہ حفظ کے ساتھ ساتھ ان علوم کے گہرے مطالعہ کے بعد اپنی رائے قائم کرتے ہیں جس سے حق الیقین جھلکتا ہے۔
(جاری ہے)