کیا جدید لباس ترقی کی علامت ہے؟

صدف مقبول

لباس انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ ابتدائی طور پر، لباس کا مقصد صرف جسم کو ڈھانپنا تھا اور موسمی اثرات سے خود کو محفوظ رکھنا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لباس نے ثقافت، جمالیات اور معاشرے کے اثرات کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں مختلف طرح کے لباس نمایاں نظر آنے لگے۔

انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو لباس کا یہ تنوع اپنے اندر بہت سے عناصر سمیٹے ہوئے ہے۔ اگرچہ جدید لباس میں مختلف رجحانات اور عناصر شامل ہیں، مگر زیر بحث سوال جو معاشرے کے اکثر طبقات میں خصوصاً مشرقی اور کم ترقی یافتہ ممالک میں اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا جدید لباس ترقی کی حقیقی علامت ہے؟اس سوال کا جواب لباس کے چناؤ اور بدلاؤ میں موجود مختلف عناصر کا جائزہ لیے بغیر ممکن نہیں۔

لباس سے انسان کا فطری تعلق

اللہ تعالیٰ نے انسان کو لباس کا شعور دیا تاکہ وہ اپنے جسم کو ڈھانپ سکے اور اپنی فطری ضروریات کو پورا کرے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اے اولادِ آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔ (الاعراف:۲۶)

یہ آیت لباس کے دو اہم پہلوؤں کو بیان کرتی ہے: ایک طرف لباس انسان کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی ستر پوشی کر سکے، دوسری طرف یہ انسان کی زینت کا بھی باعث بنتا ہے۔ جدید لباس میں یہ دونوں پہلو ملتے ہیں، لیکن اس میں بہت سی تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیاں بھی آئی ہیں، جن کی بنیاد معاشرتی ترقی پر ہے۔

مختلف اوقات میں انسانی پیشوں کے لحاظ سے لباس میں

جدت وقت اور پیشے کا تقاضا ثابت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر نئی ٹیکنالوجی مشینری اور بجلی کی ایجاد کے ساتھ ہی انجینیئرز اور ٹیکنیکل سٹاف کے لیے مخصوص آل اوور لباس کا استعمال ترقی کی ایک صنعتی شکل ہے اس میں لباس بھی شامل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے جیسے جیسے ترقی کی ویسے ویسے مختلف عناصر جیسے ریشم سوت اور سنتھیٹک فائبر کو لباس بنانے کے لیے استعمال کیا۔ یہ استعمال شاہی خاندانوں کے لیے ان کے شاہی خاندان اور معاشی حیثیت کی عکاسی کرتا تھا وہیں عوام الناس کے لیے سہولت ستر پوشی اور آرام کا اظہار بھی تھا۔ یہ تمام جدت پسندی قرآن کی رو سے انسانی زیب و زینت کے اظہار کی صورت ہے وہیں یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے اس کی بہترین تخلیق کیسے انسانی تہذیب کے مختلف مراحل طے کرتی ہے اور لباس میں جدت کے ساتھ وابسطہ ہو کر باطنی اثرات قبول کر رہی ہے۔

لباس اور اس میں آنے والی جدت انسان کے جمالیاتی افکار اور جمالیاتی حس کا اظہار بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ جمالیاتی حس کا اظہار چونکہ معاشی ترقی پر ہی اکتفا نہیں کرتا اس لیے اس صورت میں لباس میں جدت کو محض مادی ترقی سے جوڑا نہیں جا سکتا۔

فیشن اور جدید لباس

جدید لباس فیشن اور ذاتی نمود کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ فیشن کے نام پر دنیا کی بڑی صنعتیں چل رہی ہیں جن میں ہر سال نئے نئے رجحانات، ڈیزائنز، اور لباس کی اقسام متعارف کروائی جاتی ہیں۔ اس جدید دور میں لباس صرف جسم کی حفاظت کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ یہ فرد کی شخصیت، حیثیت، اور ذاتی انتخاب کا اظہار بھی بن چکا ہے۔ فیشن کی دنیا نے لباس کو اتنا اہم بنا دیا ہے کہ ایک شخص کی حیثیت یا ترقی کا اندازہ بھی لباس کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے۔

مختلف برانڈز اور فیشن انڈسٹری پوری ایک صنعت کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مختلف ایگزیبیشنز اور سٹائل شوز کے ذریعے عوام الناس میں مختلف طرح کے لباس کو فروغ دیا جاتا ہے اور بہت سے لوگوں کا روزگار بھی اسی شعبے سے وابستہ ہو چکا ہے۔

اگر مادی ترقی کی بات کی جائے تو جی ہاں اج کے معاشرے میں جدید لباس معاشی اور مادی ترقی کی پہچان بن چکا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں دنیا کی ترقی یافتہ تہذیبوں اور قوموں کا لباس ترقی یافتہ لباس کہلایا اور شعوری سطح پر پست اور ترقی پذیر ممالک کے عوام میں یہ بات رائج ہو چکی ہے کہ ترقی یافتہ کہلوانے کے لیے جدید یا مغربی لباس پہننا ہی ترقی کی اصل علامت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسانوں کو ایک دوسرے سے لباس کے ذریعے اپنی شناخت واضح کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اور لباس کو روز محشر ہمارے اعمال کا گواہ بنانے کا فرمان جاری کیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن میں فرمایا:

اور تمہاری زینت کی جگہ پر کھڑے ہو، اور یہ کہ تمہیں اور تمہارے لباس کو تمہارے اعمال کا گواہ بنایا جائے۔ (الفرقان:۷)

لباس اور ترقی

دورِ جدید میں بلاشبہ بدلتے ہوئے لباس کے رجحانات انسان کی معاشی ترقی کی عکاسی کرتے ہیں۔ جیسے جیسے انسان معاشی طور پر مضبوط ہوتا ہے وہ لباس پر زیادہ خرچ کرتا ہے اس لیے جدید لباس کو ترقی کی علامت سمجھنا ایک لحاظ سے درست ہو سکتا ہے، لیکن اس کی بنیاد صرف ظاہری تبدیلیوں پر نہیں ہونی چاہیے۔ لباس میں ترقی دراصل انسان کی اندرونی، فکری، اور ثقافتی تبدیلیوں کی علامت ہے۔ انسان کی فکری سطح اور اس کی سمجھ بوجھ جتنی ترقی یافتہ ہوگی، اس کے لباس میں اتنا ہی زیادہ نکھار اور اہتمام نظر آئے گا۔ لباس کے انتخاب میں انفرادی ذوق، معیار اور معاشرتی حیثیت کی عکاسی ہوتی ہے۔

جدید لباس اور ترقی کے اس باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ترقی کے اصل مفہوم سے آگاہ ہوا جائے۔ معاشی ترقی تک تو یہ بات درست ہے کہ لباس میں جدت ترقی کی علامت ہو سکتی ہے مگر روحانی ترقی لباس میں جدت کی محتاج نہیں اور نہ ہی جدید لباس روحانی ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔

دور نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بھی معاشرے میں کبر اور غرور کی علامت کے طور پر سرداران قریش اور مکہ اپنے تہبند ٹخنوں سے نیچے باندھنے کے عادی تھے۔ لیکن اقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبر کی اس علامت کو ختم کیا اور حکم دیا کہ عاجزی کے اصول کے طور پر کبر کی اس علامت کو ختم کرنے کے لیے سب اپنے تہبند ٹخنوں سے اوپر باندھا کریں۔ ۔ یہ واقعہ اور اوپر پیش کی گئی آیت مبارکہ واضح اشارہ کر رہی ہے کہ صرف ظاہری زیبائش ہی اصل ترقی نہیں، بلکہ انسان کو اپنے اندر کی صفائی اور پاکیزگی پر زیادہ دھیان دینا چاہیے۔

جدید لباس اور ترقی کے تعلق کو سمجھنے کے لیے ہمیں ثقافت، مذہب، اور معاشرتی روایات کو ایک جامع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ لباس انسان کے معاشرتی مقام، ذاتی شناخت اور ترقی کے اشارے کے طور پر کام کرتا ہے، اور اس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں بھی آئیں ہیں۔ تاہم، اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ لباس کا مقصد صرف زیب و زینت یا فیشن کی پیروی نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد انسان کی عزت، شرم، اور شناخت کی حفاظت ہے۔ ایک طرف جہاں لباس کا انتخاب فرد کی ذاتی پسند کا معاملہ بن چکا ہے، وہیں اسلام میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ لباس میں اعتدال اور سادگی اہم ہیں۔ قرآن اور حدیث میں لباس کو مخصوص ضوابط کے تحت ڈھالنے کی بات کی گئی ہے تاکہ انسان فحاشی اور تکبر سے بچ سکے۔

جدید دور میں لباس کی شکل میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں۔ فیشن کی دنیا نے ایک نیا رنگ اختیار کیا ہے، اور مختلف ثقافتوں، قوموں اور مذاہب کے لوگ اپنے لباس کے ذریعے اپنی ذاتی شناخت اور سماجی مقام کو ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم، اس جدید دور میں بھی اسلام نے لباس کے حوالے سے کچھ اہم اصول وضع کیے ہیں جن پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔

اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ لباس میں فحاشی، غرور یا خود نمائی کی ممانعت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ:

’’جو شخص تکبر سے لباس پہنے گا، اللہ اس کو قیامت کے دن ذلیل کرے گا۔ ‘‘ (صحیح مسلم)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس میں تکبر اور خودنمائی سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان کی عظمت اس کی نیکیاں اور کردار سے ہے، نہ کہ اس کے لباس سے۔

جدید لباس، اگر اسلامی ہدایات کے مطابق پہنا جائے اور اس میں سادگی اور عفت کو مدنظر رکھا جائے، تو یہ ترقی کی علامت بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جدید دور کے تقاضوں کو بالکل نظرانداز کرے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ لباس میں اتنی ہی ترقی اور جدت ہو کہ وہ انسان کے وقار کو بڑھائے، نہ کہ اس کی عزت کو مجروح کرے۔

اس طرح، جدید لباس ترقی کی علامت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ دین اسلام کی حدود کے اندر رہ کر منتخب کیا جائے۔ یہ ترقی فرد کی ذاتی آزادی کو ظاہر کرتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری بھی قائم رہنی چاہیے۔ لباس کے ذریعے انسان اپنی ذاتی حیثیت، مقام اور سماجی ترقی کا اظہار کرتا ہے، لیکن اس میں توازن اور اسلامی تعلیمات کی پابندی ضروری ہے تاکہ یہ ترقی حقیقتاً انسان کی معنوی اور اخلاقی ترقی کی علامت بن سکے۔

صنفی مساوات اور لباس

جدید دور میں دنیا بھر میں نت نئے نظریوں اور تحریکوں نے جنم لیا اور اسی کے ساتھ عورت کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے صنفی مساوات کا نعرہ لگایا گیا اور سب سے پہلے معاشرے میں مساوات کے نام پر خواتین کو باور کروایا گیا کہ انہیں اپنا لباس چننے میں ازادی ہونی چاہیے تبھی وہ جدید اور ترقی یافتہ کہلانے کی حقدار ٹھہریں گی۔ آج کے دور میں مرد اور خواتین دونوں کو اپنے لباس کے انتخاب میں آزادانہ اختیار حاصل ہے۔ جدید فیشن میں صنفی شناخت کو کم کیا جا رہا ہے، اور افراد اپنی مرضی کے مطابق لباس کا انتخاب کرتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید میں بھی مرد اور عورت کے لباس کے حوالے سے تاکید کی گئی ہے، اور دونوں کی فطری حیثیت کا احترام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

اللہ نے فرمایا:

’’اور اپ مومن عورتوں سے کہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی عصمت کی حفاظت کیا کریں اور اپنی ارائش اور زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوتا ہے اور اپنے سروں پر اوڑے ہوئے دوپٹے اپنے دیوانوں اور سینوں پر بھی ڈالے رہا کریں۔ ‘‘(النور:۳۰)

خواتین کی واضح پہچان کے لیے اور ان کی عصمت کی حفاظت کے لیے اللہ رب العزت نے واضح حکم ارشاد فرمایا تاکہ ترقی کے نام پر معاشرے کی ہوس اور گندگی کا ذریعہ نہ بنے اور پارکیزگی اور معاشرتی اصلاح کا بطور خاص اہتمام ہو سکے۔

لباس انسان کے وقار اور عزت کی علامت ہے۔ اسکا کا مقصد فیشن ٹرینڈز کو پورا کرنا نہیں بلکہ فرائض کی ادائیگی میں سہولت پیدا کرنا ہونا چاہیے۔