یکم مئی کو ہر سال مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتا ہے۔ ہر سال اس روز مختلف تنظیمیں، فیڈریشنز، تحریکیں، سیاسی و سماجی جماعتیں مزدوروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہیں اور مزدوروں کے معاشی مسائل کے حل کے لئے مختلف پیرائے میں جاری کوششوں اور کاوشوں کو تیز کرنے کا عزم کرتی ہیں۔ اس امر سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ شکاگو میں مزدوروں کے اوقات کار کے تعین کے حوالے سے جو تاریخی احتجاج ہوا تھا اس میں خواتین صف اول میں کھڑی ہوئی تھیں جہاں مردوں نے جانی قربانیاں دی تھیں وہاں خواتین بھی اس وقت ریاستی جبر و تشدد کا دیوانہ وار سامنا کررہی تھیں۔ شکاگو کے شہدا کی قربانیوں کے طفیل بالآخر اوقات کار کے تعین والا مطالبہ تسلیم کیا گیا اور مرد و زن مزدوروں کو بالآخر انسان سمجھا گیا اور بتدریج مزدوروں کے سروس سٹرکچر، سہولیات کے متعلق بین الاقوامی مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اگرچہ بین الاقوامی کنونشنز میں مزدوروں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا تاہم 1886ء کے زمانے میں کارخانہ دار کی مزدوروں کے معاملے میں جو استحصالی سوچ تھی وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ آج بھی انٹرنیشنل لیبرلاز کے مطابق مزدوروں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا۔ دوران ملازمت بین الاقوامی سٹینڈرڈ کے مطابق انہیں سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ ملازمت سے جبری برخاستگی اور واجبات کی ادائیگی سے انکار کا رویہ عام ہے۔ ترقی پذیر ممالک نے مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں ہونے دی جاتی جس کی وجہ سے مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی کسی جگہ پرشکایات ریکارڈ پر نہیں آپاتی اور یوں مل مالک، کارخانہ دار، صنعت کار، فیکٹری مالک مزدورکا کھلے بندوں استحصال کرتا رہتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ازحد ضروری ہے کہ مزدوروں کے حقوق کا باضابطہ اعتراف ہالینڈ کےشہرایمسٹرڈم میں1904ء میں کیا گیا جبکہ اسلام نے 14سو سال قبل مزدور کو اللہ کا دوست قرار دیااور آپ ﷺ نے کرہ ارض کا سب سے پہلا مزدور چارٹر یہ فرما کر جاری کیا کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دی جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مزدوروں سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے اور آپ ﷺ نے فرمایا مزدوری پہلے سے طے کر لی جائے اور پھر اپنے وعدہ پر ثابت قدم رہو۔آپ ﷺ نے فرمایا اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین افراد کامقابل ہوں گا (یعنی سخت سزا دوں گا):
- ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے۔
- وہ شخص جو کسی آزاد انسان کو بیچ دے اور پھر اس کی قیمت کھالے۔
- وہ شخص جس نے کوئی مزدور اُجرت پر لیا اور پھر اس سے کام تو پورا لیا لیکن اس کی اُجرت اسے نہ دی۔ مزدوروں کے جانی، مالی و طبی مفادات کا محافظ سب سے بڑا دین اسلام ہے۔
یکم مئی صرف مردوں کا ہی نہیں بلکہ محنت کش عورتوں کا بھی دن ہے جو مردوں کے برابر معاشی میدان میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدور خواتین اپنے گھریلو اور عائلی فرائض بھی خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ خواتین شوق سے مزدوری نہیں کرتیں انہیں اپنے گھر بار کے معاشی معاملات چلانے کے لئے معاشی سرگرمیوں کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اگرچہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور آئین پاکستان کے اندر خواتین کے ساتھ حسن سلوک کیے جانے اورویمن امپاورمنٹ کے حوالے سے آرٹیکلز موجود ہیں مگر مردوں کے خواتین کے حوالے سے استحصالی رویے تبدیل نہیں ہوئے۔ خواتین کو کسی سطح کے سماجی انصاف کی ضرورت ہو، روزگار کی ضرورت ہو، روزگار کے تحفظ کا معاملہ ہو یا پوری اجرت ادا کیے جانے کا مسئلہ ہو ہر جگہ خواتین کو امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ آئین و قانون کے برخلاف ہے بلکہ مصطفوی تعلیمات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ آج بھی فیکٹریوں، کارخانوں میں خواتین کو اعلان شدہ سرکاری معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا اور بطور مزدور انہیں حقوق اور تحفظ میسر نہیں ہیں۔ جو لوگ مزدور کا استحصال کرتے ہیں ان کی حیثیت سے زیادہ ان سے کام لیتے ہیں اور ان کو پورا معاوضہ ادا نہیں کرتے وہ آئین اور قانون کے تو مجرم ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بھی مجرم ہیں۔