صحبت بد کے اثرات اور ان کا ازالہ

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اس وقت ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں کہ قیامت سے قبل کی جو علامات ہیں ان میں سے علامات صغری یعنی چھوٹی نشانیاں ہیں اور جن کے لیے زمانے کا کوئی تعین نہیں کہ یہ کتنی طویل مدت تک اپنے اپنے وقت میں ظاہر ہوتی رہیں گی۔ اُن علامات صغریٰ کے ظہورکا زما نہ شروع ہو چکا ہے اور اس کے بعد پھر کسی زمانے کا تعین کرنا درست اور جائز نہیں ہے اللہ رب العزت کے ہاں اس کا علم ہے کہ کتنی مدت گزر جائے۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے جن علامات کا بیان فرمایا ان میں سے کئی علامات دو جمع دو چار کی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔

ایسے حالات میں انسان کے ایمان کے عقیدہ، دین پر، مسلمانوں کے اعمال، ان کے افکار، ظاہری اور باطنی عملی اور فکری دونوں طریق سے بے شمار حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ جن حملوں سے مسلمان کا ایمان انفرادی طور پر اور امت مسلمہ کا اجتماعی طور پر کمزور اور متزلزل ہو رہا ہے۔ نفس شیطان اور دنیا کی طرف سے بھی حملہ ہے۔ مگر یہ تین حملے ایسے ہیں کہ ہمیشہ جب سے انسان کی تاریخ کا آغاز ہوا ہے ان تین قسموں کے حملے تو ہمیشہ سے جاری ہیں۔ انسان تو نفس کے ساتھ ہی وجود میں آیا ہے۔ شیطان نے اول روز سے مہلت لے رکھی ہے۔ نفس داخلی حملہ کرتا ہے شیطان خارجی حملہ کرتا ہے۔ بہت سارے روپ دھار کر اور بہت سارے طریقوں سے حملہ کرتا ہے۔ نفس کے حملے کی بے شمار شکلیں اور بے شمار فورمز ہیں۔

تینوں قسموں کے حملوں کو قرآن مجید میں جا بجا کہیں اجملا اور کہیں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ اب ان حملوں میں شدت آگئی ہے۔

اب پوری دنیا کا گلوبل ولیج بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب جو کچھ امریکہ میں ہو رہا ہے وہ لاہور میں بیٹھا ہوا آدمی بھی ہر روز براہ راست اثر لے رہا ہے جو مغرب میں ہو رہا وہ مشرق میں بیٹھا ہوا آدمی بھی لے رہا ہے۔ اس بات سے میرا اشارہ ٹی وی کی طرف ہے۔ کمیونیکیشن اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف ہے اور سب سے بڑھ کر انٹرنیٹ کی طرف ہے۔ کمپیوٹر کی طرف ہے۔ ایک چھوٹی سی سکرین آپ کے سامنے ہے۔ اور اس سکرین پر ساری دنیا کو دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ خیر بھی اسی پہ آ رہا ہے اور شر بھی اسی پر آ رہا ہے۔ اور کوئی روک ٹوک نہیں۔ اور اب اس سے بڑھ کر وہ اتنی سکرین کا جو میں نے اشارہ کیا اب وہ پوری دنیا کی معلومات اور احوال اور اثرات اس سکرین سے سمٹ کر وہ چھوٹے سے موبائل فون کی سکرین پر بھی آ گئے ہے۔ یہ جو موبائل فون چھوٹا سا ہے یہ بھی کمپیوٹر کا کام دے رہا ہے۔ اب ایسے موبائل فون بھی ہیں کہ اس میں سارا سارا کمپیوٹر بھی ہے اس میں انٹرنیٹ بھی تجارت بھی سب کچھ اسی سکرین پر ہو رہا ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہ جو ٹی وی چینلز ہے اس کی تکلیف بھی نہیں رہے گی کہ ٹی وی کے کنکشنز اور چینلز لیں۔ سارا کمپیوٹر کے اوپر ہی کنکشن لگا کے کام کرتے رہیں گے۔ اس سے آگے بڑھ جائیں۔

جس طرح ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے اور اس کے کچھ خوشگوار اور مثبت فوائد انسانیت کو اور سوسائٹی کو مل رہے ہیں۔ اور اس سے زیادہ رفتار کے ساتھ منفی اثرات اور نقصان دہ پہلو بھی اس سے زیادہ رفتار کے ساتھ انسان کو مل رہے ہیں۔ اگر آپ پہلے کہتے تھے کہ بچوں کو ان کو بری صحبت سے بچائیں اب صحبت اچھی اور بری بچوں کے ہاتھ میں ہے۔ اب اچھی اور بری صحبت گھر کے ٹیبل پر ہے اور بچوں کے کمروں کے اندر ہے تو تنہا ایک بچہ اور بچی بھی صحبت میں ہے۔ ٹیکنالوجی نے اس جگہ پہنچا دیا ہے۔ لامحالہ سائنس میں ٹیکنالوجی میں، نالج میں جہاں ایکسس (پہنچ)بڑھ گئی ہے وہاں ہر قسم کی برائی تک بھی ایکسس اسی حساب سے بڑھ گئی ہے۔

اب جب برے اثرات اتنے طاقتور ہوگئے ہیں پہلے زمانہ تھا کہتے تھے کہ شر سے بچنے کے لئے ایمان کی حفاظت کے لئے بعض لوگوں کو خلوت میں جانا پڑ جائے گا وہ خلوت نشین ہوں گے تو برائی سے بچیں گے۔ اب تو خلوت خود جلوت بن گئی ہے اور تنہائی خود صحبت ہو گئی ہے اب کوئی بچ کے جائے تو کہاں جائے۔ ایسے حالات میں دین اور ایمان کی حفاظت کا طریقہ کیا ہو۔ اس کی ٹیکنیک کیا ہو اس کا راز کس شے میں ہے۔ آسان طریقہ اتنے بڑے جو ملٹی ڈائمنشنل اٹیک ہو رہے ہیں اور ہر وقت ایمان خطرے میں ہے۔ تو اس سے بچاؤ کی سبیل کیا ہو۔

میں بہت غور و خوص کرکے اس نتیجے پر پہنچا کہ ہر شخص اب ایک صحبت میں ہے۔ اگر سکول میں ہے تو اسکول بھی صحبت ہے۔ کالج، یونیورسٹی، تعلیمی ادارے بھی صحبت ہے اور جو کاروبار کر رہا ہے ٹریڈ میں، بزنس میں، انڈسٹری میں ہے تو وہ بھی ایک صحبت میں ہے۔ اس کا صبح سے شام تک لین دین ہے تو جب ہر روز بارہ چودہ گھنٹے جب ان کے ساتھ گزریں گے تو وہ ایک خاص قسم کی بولی سنے گا اور خاص قسم کی اس کی ڈویلپمنٹ ہوگی اور سوچ کیا ہوگی جب وہ بزنس میں ہے تواس کی سوچ صبح سے لے کے شام تک مالی نفع کیسے حاصل ہو کمانا کیسے ہے یہ اس کی تھنکنگ ہے۔ اس لیے کہ بزنس کا بنیادی سکوپ ہی یہ ہے۔ اگر ایک آدمی کمانے کے لئے بزنس نہیں کر رہا تو گنوانے کے لیے تو نہیں کرتا تو بزنس کی سائیکالوجی بھی یہ ہے کہ اس طریقے سے بزنس کریں، اس طریقے سے پروڈکشن کریں، اس طریقے سے مارکیٹنگ کریں اس طریقہ سے سیلنگ کریں کہ اس کو نفع ملے اورنفع سے مراد سادہ بات ہے کہ پیسے کا نفع ہے نوٹوں کا نفع ہے۔

یہ کسب معاش ہے جو جائز ہے۔ لیکن میں ایک لطیف بات ہر طبقہ کیلئے سمجھا رہا ہوں کہ جب اس کا یہ کسب معاش ہے تو یہی سوچے گا کہ نفع آئے ورنہ تو معاش ہی چلی جائے گی تو سوچئے کہ جب سارا دن اس کا اسی امر میں گزرا کہ مادی منافع پیسے کا نفع، معاش کا نفع کیسے کماؤں تو یہ اس کی سائیکالوجی بن گئی۔ یہ سوچ رات کو بستر پر بھی اس کو دامن گیر ہو جائے گی کہ اس سودے میں نقصان آ گیا ہے اب اس کو کس طرح کور کرنا ہے۔ اس کی ساری سوچ میں وہ معاش غالب آ گیا۔

تو یہ اس کی فکری، ذہنی اور عملی رات دن کی صحبت بن گئی اور اس کی صحبت کا نیٹ رزلٹ کیا مل رہا ہے کہ وہ مالی منفعت کا ہی سوچ رہا ہے۔ صرف اور صرف اس کا جو کاروبار اس کی صحبت بن گیا جو سارا دن اس کو آخرت کے خیال سے دور رکھے گا۔

کاروبار میں کئی ایسے طریقے اس کو اپنانے پڑ جاتے ہیں جو طریقے دین،اخلاق اور تقوی اور ایمان اجازت نہیں دیتا۔ وہ اس کی مجبوریاں بن جاتی ہیں ایسی سوسائٹیز اور ایسے سسٹم کہ خالص ایمانداری کے ساتھ، تقوی کے ساتھ وہ زندہ بھی نہیں رہ سکتا تو آپ نے دیکھا کہ کاروبار کی صحبت کے اس پر اثرات کیا ہوئے۔ سکول میں گئے۔ اب سکول ایک صحبت ہے۔ کالج یونیورسٹی،بچے بچیوں کی صحبت ہے اگر آپ اپنے بچوں کو گھر میں برائی نہ دیکھنے دیں تو سارا دن انہوں نے ان بچے بچیوں کے ساتھ جاکے گزارنا ہے جو اپنے گھروں میں رات دن برا ئی دیکھ کر آئے ہیں تو انہوں نے ہر وہ چیز آپ کے بچوں سے شیئر کرنی ہے ڈسکس کرنی ہے پھر سارے اسکول کا ایک ماحول ہے۔ اساتذہ کے اثرات ہیں خواتین ہیں مرد ہیں ان کا ایک ماحول ہے۔ ان کے اثرات بچوں پر ہوتے ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کا آپس میں ملنا جلنا ان کے اثرات ہیں۔ فنکشنز ہوتے ہیں۔ سوسائٹی کا ایک کلچر ہے تو وہ بھی ایک صحبت ہے۔ ہر وقت کی صحبت ہے اور گھر میں آکے کمپیوٹر آپریٹ کرتے ہیں تو کمپیوٹر پر ساری صحبتیں ان کو مل جاتی ہیں۔

اسی طرح دفاتر ہیں ہر دفتر میں ایک ماحول ہے ایک صحبت ہے۔ سرکاری ملازمت میں ہر شخص ایک صحبت میں ہے۔ اس کا کام خود ایک صحبت ہے۔ اس کی فائلیں خود ایک صحبت ہیں۔ اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے افسران اور اس کے جو شرکاء کار ہیں دفتر میں وہ دفتر خود ایک صحبت ہے۔ اس کا افسر بھی ایک صحبت ہے۔ اس کے ماتحت میں صحبت ہے۔ اسی طرح پورا ماحول بھی ایک صحبت ہے۔

مذہبی طبقات میں سے بھی ہر فرد ایک صحبت میں ہے۔ ان کا مخصوص ایک ماحول ہے۔ ان کا اپنا سوچنے کا انداز ہے۔ اپنی ضروریات زندگی ہیں۔ ان کی کفالت نہیں ہوتی وہ اتنی زیادہ نہیں ہیں۔ بچوں کو پڑھانے کے قابل بھی نہیں۔ وہ ساری چیزیکے بعد دیگرے ان کی شخصیت میں ایک نفسیات لاشعوری طور پر ڈویلپ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تو ماحول بندہ چاہے یا نہ چاہے ماحول ضرورت بن کر بندے کے اندر شخصیت کو بدلنے میں اپنے اثرات ڈالتا ہے۔ حالات خود بندے کی شخصیت کو بدلتے رہتے ہیں۔

وہ یہ کہ صحبت بد کے اثرات کا ازالہ صرف اور صرف صحبت نیک کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ صحبت کا توڑ صحبت کے ذریعے ہی ہوگا۔ میں نے بہت سوچا ہے اس کے علاوہ میں نے قرآن و حدیث میں،آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی سیرت طیبہ میں، سنت میں اور اولیاء کرام کی تعلیمات میں، تاریخ کے اثرات میں، معاشرتی معاملات میں ہر ہر علم کی ہر ہر جہت پر میں نے غور کرکے نچوڑ بتایا ہے۔ کہ صحبت کے اثرات کا ازالہ صحبت سے ہی ہوگا۔ اس کا اور کوئی توڑ نہیں اور یہ وہ قاعدہ ہے کہ انسان تمام عقل و شعور کی جہتیں اور مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ بروئے کار لاکر ایک نتیجہ پر پہنچتا ہےتو اللہ رب العزت نے وہ بات پہلے سبق میں ہی دے دی۔ باری تعالیٰ ہمیں سیدھی راہ دکھا۔

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم

(الفا تحہ،1: 6)

ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔

اگر سیدھی راہ پر رہنا ہے اور ہدایت کو قابو کرنا ہے تو پھر انعام یافتہ بندوں کی صحبت رکھو۔

غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ

(الفا تحہ،1: 7)

ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کااور جس پر اللہ کا غضب ہوا اور گمراہ ہوگئے۔

نیک صحبت میں آجاؤ اور بری صحبت سے بچو۔ اب اس میں جو اشارہ ہے کہ اگر نیک صحبت میں رہے اور بری صحبت سے بچیں تو یہ بھی ایک علاج ہے اور دوسرا علاج یہ کہ آپ نے دیکھا کہ بری صحبت سے بچنے کا ذکر پہلے نہیں کیا یہ نہیں فرمایا کہ غضب یافتہ اور گمراہ ہو جانے والوں کی صحبت سے بچو اور انعام یافتہ بندوں کی صحبت میں رہو اس لیے کہ وہ خالق ہے وہ جانتا ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی آجائے گا کہ جس صحبت سے بچانا ہے وہ صحبت چمٹ جائے گی۔

اگر آپ چاہتے ہیں بری صحبت کے اثرات سے زندگی بچ جائے اور ایمان محفوظ ہو جائے تو نیک صحبت اختیار کریں جس کے ذریعے ایمان کی حفاظت ہونی ہے۔ جتنی جامع، ہمہ گیر اثرات والی صحبت بد ہے جس میں ہم گھر گئے ہیں دنیا میں اسی طرح جامع، ہمہ گیر اثرات رکھنے والی نیک صحبت بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ ذہن کے ذریعے بھی اس بد صحبت کو رد کرنے کا سامان مل سکے۔ اگر اس صحبت کا اثر دل پر ہو جائے جذبات پر تو جذباتی طریق سے بھی اس صحبت سے بچاؤ کا سامان میسر ہونا چاہیے۔ اگر اس کے اثرات آپ کے عمل پر ہو جائیں تو عملی طریق سے بھی بچاؤ کا سامان ہونا چاہیے۔ اگر سائیکالوجیکلی بھی ہو رہی ہے تو سائیکالوجیکل دفاع کا سامان بھی میسر ہونا چاہیے۔ اخلاقی اثرات ہو رہے ہیں تو اخلاقی سامان ہونا چاہیے۔ روحانی اثرات ہو رہے ہیں تو روحانی دفاع ہونا چاہیے

تو اللہ تعالی نے دوسرا راز جو اس کے اندر مخفی دیا۔ فرمایا کہ صحبت بد کے اثرات سے بچ بھی نہ سکے تو اس کا علاج بھی اس میں ہے کہ اس کے توڑ کے لیے پہلے صحبت نیک کو اختیار کر لے۔ اگر صحبت صالح کو اختیار کر لے تو بہ امر مجبوری اس کی باقی ساری زندگی کسی بھی قسم کی ایسی صحبت بھی پھنسی رہے کہ جس کے اثرات برے اس پر پڑے تو اگر جتنی طاقتور صحبت صالح ہوگی وہ اس کو خود بخود ڈیفنڈ کرتی رہے گی اور اس کے اثرات کو بھگا تی رہے گی۔ اگر ایکشن اور ری ایکشن سائنس میں کہتے ہیں وہ برابر ہوتے ہیں عام طور پر اگر وہ برابر چلیں تو پھر کچھ نہیں بنتا۔ اگر آپ ایک پلڑے میں جانا چاہتے ہیں اور دوسرے پلڑے سے بچنا چاہتے ہیں۔ تو پھر جس ایک پلڑے میں جانا چاہتے ہیں دوسرے پلڑے سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے۔

یہ فطری بات ہے اور سائنسی و علمی بات ہے کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں نا دونوں کی طاقت برابر ہو تو کیا معلوم ہو کون گرا لے تو آپ چاہتے ہیں کہ فلاں ہار جائے اور یہ جیت جائے تو تب ہی جیتے گا جبکہ اس کے پاس ہنر زیادہ ہو۔ جس کا ہنر، جس کی طاقت اور قوت زیادہ ہوگی وہ ہی جیتے گا۔

اگر آپ چاہتے ہیں بری صحبت کے اثرات سے زندگی بچ جائے اور ایمان محفوظ ہو جائے تو نیک صحبت اختیار کریں جس کے ذریعے ایمان کی حفاظت ہونی ہے۔ جتنی جامع، ہمہ گیر اثرات والی صحبت بد ہے جس میں ہم گھر گئے ہیں دنیا میں اسی طرح جامع، ہمہ گیر اثرات رکھنے والی نیک صحبت بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ ذہن کے ذریعے بھی اس بد صحبت کو رد کرنے کا سامان مل سکے۔ اگر اس صحبت کا اثر دل پر ہو جائے جذبات پر تو جذباتی طریق سے بھی اس صحبت سے بچاؤ کا سامان میسر ہونا چاہیے۔ اگر اس کے اثرات آپ کے عمل پر ہو جائیں تو عملی طریق سے بھی بچاؤ کا سامان ہونا چاہیے۔ اگر سائیکالوجیکلی بھی ہو رہی ہے تو سائیکالوجیکل دفاع کا سامان بھی میسر ہونا چاہیے۔ اخلاقی اثرات ہو رہے ہیں تو اخلاقی سامان ہونا چاہیے۔ روحانی اثرات ہو رہے ہیں تو روحانی دفاع ہونا چاہیے

ایک ہمہ جہتی دفاع ہونا چاہیے اس صحبت خیر کے پاس تاکہ دشمن جس کے ذریعے سے بھی حملہ آور ہو اسی قسم کا اختیار ادھر دستیاب ہوکہ آپ روک سکیں۔ جب زمانہ صرف ٹینک کے ساتھ لڑائی کا تھا تو ٹینک کا جواب ٹینک کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ اب آپ صرف ٹینک لے کر پھر رہے ہوں تو اس سے دفاع ٹینک کی زمینی لڑائی کا تو ہو رہا ہے۔ مگر دشمن اب ایئر فورس اس کی بڑی طاقتور ہو رہی ہے تو حملہ وہ فضائی کر رہا ہو اور آپ کے پاس دفاع کا سامان صرف بندوقوں کا اور ٹینکوں کا رہ جائے تو فضائی حملے کا جواب تو نہیں ہوگا۔ لہذا اگر فضائی حملہ ہو تو پھر آپ کے پاس بھی فضائی حملے سے دفاع کا سامان ہو۔ اگر بحری حملہ ہو تو بحری دفاع کا سامان ہو۔ بری حملہ ہو، زمینی تو زمینی طریق سے مطلب کہ جس طرح لیس ہے دشمن یعنی شر اور شیطان جتنا لیس ہے برے حملوں کے لیے اسی طرح آپ کی صحبت خیر بھی اسی طرح لیس ہو ہر قسم کے سامان سے تو پھر دفاع بھی ہوگا اور اس کے اثرات بھی زائل ہونگے۔ سو میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آج کے دور اور آنے والے دور میں میری دانست میں کوئی گھرانہ اور کوئی فرد اگر تنہا رہے گا تو وہ اپنے یا اپنی نسلوں اور اگلی نسلوں کے ایمان کی دین کی اس تیز رفتاری سے خرابی کے بڑھتے ہوئے ماحول میں اگلی نسلوں کے ایمان کی بھی حفاظت کوئی نہیں کر سکے گا۔ اور اگلی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہو تو حملہ بڑا اجتماعی ہے تو اجتماعی حملے میں ایک فرد تنہا رہ کر کس طرح کر سکتا ہے ایک بندہ تو ایک بندے سے ہی لڑ سکتا ہے حملہ سو بندے کر دیں اور وہ تنہا اس کے پاس اپنی فوج نہ ہو 200 افراد کی یا سو افراد کی تو وہ لڑ بھی نہیں سکتا۔ حملہ ہو رہا ہے سو افراد، سو جہتوں سے تو تنہا رہ کر دو بندوں سے ایک اکیلا بندہ کیا لڑے گا۔ لہذا اگر اجتماعی حملہ ہے تو ایک اجتماعی نسبت اور اجتماعی نظم ہی آپ کے ایمان کو اگلی نسلوں میں بچائے گا۔ فرد تنہا رہ کر نہیں بچاسکے گا۔ لہذا لازمی ہے کہ وہ کسی ایسے تعلق کے ساتھ اور کسی ایسے ادارے کے ساتھ جڑ جائے کسی ایسے چینل کے ساتھ جڑ جائے کسی ایسے تعلق میں یا نسبت میں اپنے آپ کو مربوط کر لے۔ وہ ربط پیدا کر لینا صرف مربوط ہونا نہیں ہے مضبوط ہونا ہے۔ آپ جب کسی سے اس دور میں مربوط ہوں گے تم مت سمجھیں کہ فقط مربوط ہوگئے ہیں نہیں مضبوط ہوگئے ہیں۔ ایسا ربط کسی ایسی جگہ پیدا کرلیں جو ربط آپ کو سارا سامان دے سکے اور اگلی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کر سکیں۔ اس کے اندر اتنا پو ٹینشل ہو۔

جو سب سے بہتر جگہ مربوط اور مضبوط ایمان کے لئے نظر آئے۔ وہاں منسلک ہوں مگرہوں ضرور۔ میں نے فارمولہ آپ کو دے دیا ہے آپ کو ایک سکیم ایک میتھڈالوجی سمجھا دی ہے آپ دیکھیں، ناپے تولیں، سوچیں،سمجھیں،قریب ہو ں دیکھیں کتنے سامان کی اگلی کس قسم کے سامان کی ضرورت ہوگی کیا سب سامان (موجود)ہے۔ کیا سب ہتھیار (موجود)ہیں۔ جتنے حملے ہوں جو ایمان کو متزلزل کر سکتے ہیں کیا وہ سارے حملوں کے دفاع کے لئے سارا سامان اسلحہ ہے جو ایمان کی حفاظت کرے۔

وہ سامان مطالعہ ہیں،کتب ہیں، خطابات ہیں، نصیحتیں ہیں، گھر لے آئیں اور فیملی کو بچوں کوہر وقت پڑھائیں، سنائیں گھر میں ایک ماحول پیدا کریں۔ محض یہ کہنا کہ ہم فلاں سے منسلک ہیں منہاج القرآن سے منسلک ہیں یا میرے ساتھ آپ کا تعلق رشتہ محبت کا ہے یا کسی اور جگہ سے منسلک ہیں۔ محض منسلک ہونا اگلی نسلوں کو نہیں بچائے گا آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے گھرانوں کی اگلی نسلیں راہ سے بہہ گئیں۔ نہیں منسلک ہونا جو میں زور دے رہا ہوں وہ ایسا منسلک ہوں کہ وہ صحبت پیدا کریں۔ جسمانی طور پر ملے یا نہ ملے ملاقات ہو یا نہ ہو 25 سال بعد ہی ہوجائے ملاقات مگر ملاقات نہ ہونے کے باوجود بھی آپ ہر وقت صحبت میں رہیں۔ ملاقات میسر نہ ہونے کے باوجود بھی آپ صحبت میں رہیں کیوں کہ صحبت کے ذریعے آپ نے صحبت بد کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔

وہ سامان لے آئے اسلحہ آپ کو ملتا رہے، پیاس بجھتی رہے، تسکین ہوتی رہے، حفاظت ہوتی رہے ایسی جگہ کا چناؤ کریں جہاں سے یہ سامان دستیاب ہو۔ اور پھر آپ اور آپ کے خاندان یہ میسیج دے جو شخص بھی یہ فکر رکھتا ہے کہ ہمارا اور ہماری نسلوں کا ایمان بچ جائے بس اتنی فکر اگر کسی کو ہے تو اس تک میرا یہ پیغام ضرور پہنچا دیں۔ میری گفتگو کی کیسٹ لے لیں اور اس کو سنا دیں۔ بس میری تو اتنی بات ہے ہمارا تو دعویٰ نہیں ہے ہم ایک نوکری کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے قبول کرلی تو اچھی کہلائے گی۔ اگر عمر بھر کی ساری نوکری کر کے بالآخر فیصلہ یہ ہوا قبول نہیں رد کرتے ہیں تو اچھی نہیں ہے۔

میں اتنی بات ضرور کہتا ہوں کے آگے آنے والے حالات میں تنہا کوئی فرد یا کوئی گھر اپنی نسلوں کا ایمان نہیں بچا سکے گا۔ اجتماعی بدی کے حملے کے حالات میں ایمان اجتماعیت سے ہی بچے گا۔ ہر شخص کسی نہ کسی تنظیم سے منسلک ہوجائے جہاں سے اس کو نمی ملے، تری ملے اس کو سامان ملے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے فیض کی خیرات ملے۔ ایمان کی حفاظت کا اہتمام ملے۔ وہ کون سی جگہ ہے اس کا فیصلہ وہ خود کر لے۔ مگر میری نصیحت اتنی ہے جس جگہ کو مضبوط تر اور بہتر سمجھے وہاں منسلک ہو جائے اور خود کو اور گھرانے کو اس میں شامل کرے۔ اس سے بھی انشاءاللہ آپ کا اپنا ماحول بنے گا۔ آپ کی صحبت بنے گی۔ اور گھروں کا ماحول بدلے گا

ایک صوفی تھا، درویش کوئی جنگل میں کہیں سے سفر سے آرہا تھا ایک درویش حضور سیدنا غوث الاعظم کےفیوضات سے مالا مال تھا۔ مگرصوفی اور درویش اپنا اللہ اللہ کرتا ہوا جنگل سے گزر رہا تھا۔ تاتاریوں کا ایک پرنس شہزادہ سمجھ لیں تاتاریوں کا، چنگیز یوں کی اولاد میں سے ایک قبیلے کا سربراہ تو اس کا نام تھا عثمان۔ عثمان تو نام بعد میں ہوا تو وہ ایک شکار کر رہا تھا اب چونکہ انہوں نے حملہ کیا تھا اسلام پر تو ان کو چیڑ تھی مسلمانوں کی شکل سے بھی، صوفیاء، اللہ والوں سے بھی، داڑھی سے، عمامہ سے اس لباس سے بھی چڑتھی۔ اس نے دیکھا ایک درویش آرہا ہے ایک صوفی آرہا ہے اس نے سمجھا کہ یہ کوئی مسلمانوں کا رہبر ہے اس کے دل میں آیا کہ میں اسے زدوکوب کرو ں،کوڑے ماروں، سزا دوں۔ اپنے اندر کا جو بغض و عناد تھا اس کی تسکین ہو اس کو مار کر ضرب دوں۔ وہ اس کے پاس چلا گیا اسے روکا بلایا۔ روک کے اس درویش صوفی سے پوچھا اس کے پاس شکاری کتے بھی تھے شکار کرنے نکلا تھا اس سے پوچھا کہ بتاؤ تمہاری داڑھی اچھی ہے یا میرے کتے کی دم۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ان کے پیغمبر کی سنت ہے جوش میں آ جائے گا اور پھر جوش میں آکر مجھے گالی دے گا، لپکے گا، غیظ و غضب میں آئے گا اور میں پھر ردعمل میں اپنے کوڑے نکال کر اپنے غضب کی تسکین کروں گا۔ وہ درویش تھا اللہ والا تھا اس نے جواب میں کہا سوال سن کر اس نے کہا ہاں بھائی جن کی خاطر یہ رکھی ہے اگر تو اگلے جہان مرنے کے بعد انہوں نے اس کو قبول کرلیا اگر قبول کر لیا تو پھر یہ داڑھی اچھی ہے اگر قبول نہ کیا تو بھائی تمہارے کتے کی دم اچھی ہے۔

جو سب سے بہتر جگہ مربوط اور مضبوط ایمان کے لئے نظر آئے۔ وہاں منسلک ہوں مگرہوں ضرور۔ میں نے فارمولہ آپ کو دے دیا ہے آپ کو ایک سکیم ایک میتھڈالوجی سمجھا دی ہے آپ دیکھیں، ناپے تولیں، سوچیں،سمجھیں،قریب ہو ں دیکھیں کتنے سامان کی، کس قسم کے سامان کی ضرورت ہوگی کیا سب سامان (موجود)ہے۔ کیا سب ہتھیار (موجود)ہیں۔ جتنے حملے ہوں جو ایمان کو متزلزل کر سکتے ہیں کیا وہ سارے حملوں کے دفاع کے لئے سارا سامان اسلحہ ہے جو ایمان کی حفاظت کرے۔

اس نے جب یہ جملہ سنا تو اسی ایک جملے سے اس کے دل کی کایا پلٹ گئی وہ اس نے اپنے لوگوں کوبھیج دیا اور اس کو اپنے گھر لے گیا کچھ دن اپنے پاس رکھا، تربیت لی۔ زانوئے تلمذ طے کیے۔ اسلام قبول کرلیا اور کہا کہ اب آپ چلے جائیں کچھ عرصہ مجھے موقع دیں میں ماحول پیدا کرتا ہوں۔ پھر اس نے کچھ عرصہ اپنے حلقے میں کام کیا اور آہستہ آہستہ وہ اسلام قبول کرتے گئے۔ تو پہلے قبیلے کا وہ سربراہ تھا جب دیکھا کہ پورا قبیلہ اور موثر لوگ طاقتور لوگ میرے ساتھ ہو گئے ہیں۔ اس نے قبول اسلام کا اعلان کیا اور وہاں سے اس نے اپنا نام عثمان رکھا اور جس کو عثمانی ترک کہتے ہیں۔ پچاس سال کے بعد دوبارہ ان چنگیزیوں کی اولاد سے پھر اسلام کی شمع دوبارہ روشن ہوگی وہ جس کو علامہ اقبال نے کہا تھا

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

جہاں تک آپ کی ذمہ داری ہے آپ ہزار تک پہنچا سکتے ہیں۔ سو تک دو سو تک، پانچ سو تک اس کی ڈی وی ڈی اتنی گفتگو آج کے لیے پہنچائیں یہ میرا درد دل ہے آپ اس پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے ہر مسلمان تک پہنچائیں۔ میں اتنی بات ضرور کہتا ہوں کے آگے آنے والے حالات میں تنہا کوئی فرد یا کوئی گھر اپنی نسلوں کا ایمان نہیں بچا سکے گا۔ اجتماعی بدی کے حملے کے حالات میں ایمان اجتماعیت سے ہی بچے گا۔ ہر شخص کسی نہ کسی تنظیم سے منسلک ہوجائے جہاں سے اس کو نمی ملے، تری ملے اس کو سامان ملے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے فیض کی خیرات ملے۔ ایمان کی حفاظت کا اہتمام ملے۔ وہ کون سی جگہ ہے اس کا فیصلہ وہ خود کر لے۔ مگر میری نصیحت اتنی ہے جس جگہ کو مضبوط تر اور بہتر سمجھے وہاں منسلک ہو جائے اور خود کو اور گھرانے کو اس میں شامل کرے۔ اس سے بھی انشاءاللہ آپ کا اپنا ماحول بنے گا۔ آپ کی صحبت بنے گی۔ اور گھروں کا ماحول بدلے گا۔

تنظیمی احباب کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جب احباب تیار ہوں اگر بالفرض تحریک منہاج القرآن میں کام کرنے کو نئے لوگ تیار ہوں تو ان کو جگہ دیں۔ یہ میری نصیحت ہے جو باصلاحیت لوگ اور موثر لوگ اگر وہ فیصلہ کریں اس کام میں آگے بڑھ کے عملا کام کرنے کا ان کو موقع دیں۔ ان کو پروموٹ کریں نئی ذمہ داریاں دیں۔ خود بیک اپ کریں اس لئے کہ آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی سنت بھی یہ ہے کہ جو آدمی پیغام جتنا زیادہ مؤثر طریقے سے آگے پہنچانے کا اہل ہو اپنے حلقے میں اس کو اتنا موثر رول دیا جائے۔ تب دین آگے بڑھتا ہے۔ ورنہ قابو کرکے اگر بیٹھے رہے اور صرف شامل ہی کرتے رہے ان کو لیڈنگ رول نہ دیں تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی جو امانت ہمیں پہنچی ہے یہ بہت تیزی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکے گی۔