غزوہ بدر میں قریش کو بدترین شکست کا سامناکرناپڑا تھا۔ یہ شکست ان کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ پورے عرب میں ان کی شہرت خاک میں مل گئی تھی۔ وہ بدلہ لینے کے لیے مرے جا رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مکہ میں اعلان کر دیا: بدر کے مقتولین پر نہ تو کوئی روئے نہ ہی ان پر مرثیہ خوانی کرے۔ جن کے عزیز اس جنگ میں قتل ہوئی ان کی طرف سے کہا گیا:ہم مسلمانوں سے اس شکست کا بدلہ لے کر رہیں گے۔
اب باقاعدہ جنگ کی تیاری شروع ہوگئی۔ اردگرد کے قبائل بھی ان سے آملے۔ مشرکین نے خفیہ طور پر جنگی تیاریاں زور شور سے جاری رکھیں۔ اس دوران چھوٹے بڑے لڑائی کے واقعات ہوتے رہے، جھڑپیں ہوئیں۔ قریش کی خواہش تھی کہ مدینہ منورہ پر اچانک حملہ کر دیا جائے۔ مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ ان سے انتقام لیا جائے۔ قریش نے کئی محازوں پر لڑائی کی تیاریاں کیں۔ اردگرد کے قبائل کو وہ ساتھ ملا چکے تھے۔ ایک قدم انہوں نے اور اٹھایا کہ مدینہ منورہ کے یہودیوں سے ساز باز کی اور ان سے گٹھ جوڑ کےلیے خط و کتابت کی گئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر طرف اپنی سازشوں کے جال بچھا دیے۔ ایک سال تک یہ جنگی تیاریاں جاری رہیں۔
غزوہ بدر میں حضورﷺکے چچاسیدنا عباس رضی اللہ عنہ ابھی مکہ مکرمہ میں ہی تھے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے مگر اپنے کو چھپائے ہوئے تھے، وہ قریش کی جنگی تیاریوں سے خوب واقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک تیز رفتار قاصد کے ہاتھ ایک خط روانہ کیا۔ اس خط میں انہوں نے قریش کی جنگی تیاریوں کی تفصیل درج کی اور قریش کے اردوں سے آگاہ کیا۔ بنو غفار سے تعلق رکھنے والا یہ ایلچی صرف تین دن کے اندر مدینہ منورہ پہنچ گیا۔
خط ملتے ہی رسول اللہﷺ نے مجلس مشاورت طلب فرمائی۔ اس میں کافروں سے مقابلہ کرنے کے لیے غوروخوض کیا گیا۔ رسول اللہﷺکی اپنی خواہش یہ تھی کہ مدینہ منورہ کے اندر رہ کرجنگ لڑی جائے، جبکہ نوجوانوں کی اکثریت کھلے میدان میں لڑنا چاہتی تھی۔ سب کا مشورہ سن کر رسول اللہﷺ اندر تشریف لے گئے اور جنگی لباس پہن کر واپس تشریف لائے۔ اب صحابہ نے محسوس کیا کہ شاید انھوں نے آپ کی خواہش کے خلاف مشورہ دے کر غلطی کی ہے چنانچہ سب نے عرض کیا:’’جیسا آپ حکم دیں اور پسند کریں ہم ویسا ہی کریں گے۔ “یعنی وہ معذرت چاہنے لگے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا :’’کسی نبی کی شان نہیں کہ جب وہ ایک مرتبہ ہتھیار سجا لے تو پھر ان کو اتاردے۔ “
ہجرت کا تیسرا سال، شوال کی 6 تاریخ اور جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ رسول اللہ نے مدینہ منورہ میں عبداللہ بن ام مکتوم کو امیر مقرر فرمایا تاکہ وہ مدینہ منورہ میں باقی رہ جانے والوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر آپ ایک ہزار کا لشکر لے کر احد کی طرف روانہ ہوئے۔ ادھر قریش کا لشکر احد پہاڑ کے سامنے وادی قناہ میں ڈیرہ ڈال چکا تھا۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔
آپ شہر سے باہر نکلے تھے کہ منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی یہ کہہ کر اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ لشکر سے الگ ہو گیا کہ آپ نے چونکہ میری رائے کا احترام نہیں کیا اس لیے میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ مدینہ منورہ میں جب رسول اللہ نے مشورہ کیا تھا، اس وقت اس نے مدینہ منورہ میں رہ کر مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن صحابہ کا مشورہ چونکہ باہر نکل کر مقابلہ کرنے کا تھا، اس لیے آپ نے ان کا مشورہ منظور فرمایا تھا۔ اب اس موقع پر اس نے بہانہ کیا ورنہ دراصل یہ شخص منافق تھا اور اللہ کے رسول سے حسد کرتا تھا۔ اب مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی۔ اللہ کے رسول آگے بڑھے اور احد کے دامن میں پڑاؤ ڈالا۔ اس طرح اسلامی لشکر کی پشت پر احد کا پہاڑ تھا۔ بائیں ہاتھ پر ایک پہاڑی تھی، جس کا نام اب جبل رماۃ ہے۔
آپ نے سیدنا عبداللہ بن جبیر کی کمان میں پچاس ماہر تیر اندازوں کا ایک دستہ اس پہاڑی پر مقرر فرمایا۔ یہ پہاڑی اسلامی لشکر سے قریباً ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ آپ نے اس دستے کو بہت واضح ہدایات دیں۔ فرمایا دیکھو! دشمن پیچھے سے ہم پر نہ چڑھ آئے۔ انہیں اپنے تیروں کے ذریعے دور رکھنا۔ نزدیک نہ آنے دینا ہم جیتیں یا ہاریں بس تم اپنی جگہ پر رہنا اور ہماری پشت کی حفاظت کرنا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک ماہرکما نڈرکی طرح لڑائی کا منصوبہ تیارکیا۔ پڑاؤ کےلیے اونچی جگہ منتخب فرمائی۔ صحابہ کرام کو جھنڈے عطافرمائے۔ فوج کا جذبہ ابھارنے کے لے ان سے خطاب فرمایا۔ دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہنےکی تلقین فرمائی۔ جنت کی بشارتیں دیں۔ دلیری اور بہادری کی روح پھو نکنے کے لیے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور پوچھا:اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا؟کئی ہاتھ بلند ہوئے ، ابودجانہ آگے بڑھے اور عرض کیا:اللہ کے رسولﷺ اس تلوار کاحق کیاہے؟ میں وہ حق ادا کروں گا۔ آپﷺنےفرمایااس تلوار کا یہ حق ہے کہ اس سے دشمن کو اتنا مارہ کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے۔ ابودجانہ بہت جانباز تھے۔ انہوں نے سرخ رنگ کی پٹی پیشانی پر باندھ لی۔ میدان جنگ میں جب بھی یہ پٹی باندھتے تھے تو مسلمان ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ ابو دجانہ نے موت کی پٹی باندھ لی ہے۔ پٹی باندھنے کے بعد انہوں نے پھر کہا کہ اس تلوار کا حق میں ادا کروں گا۔ پھر دشمن کے سامنے اکڑ کر چلنے لگے۔ اس پر اللہ کے رسول نے فرمایا ایسی چال اللہ کو ناپسند ہے مگر میدان جنگ میں نہیں کیونکہ یہ دشمن پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ہے، اپنی طاقت کا اظہار کرنے کے لیے ہے۔
مشرکین صف بندی کر چکے تھے۔ فوج کے سپہ سالار ابو سفیان تھے۔ فوج کے دائیں حصے کے افسر خالد بن ولید اور بائیں حصے کے عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ پیدل فوج کی کمان صفوان بن امیہ کے ہاتھ میں تھی۔ تیر اندازی پر عبداللہ بن ربیعہ کو مقرر کیا گیا تھا۔ مشرکین کا جھنڈا بدر کے میدان کی طرح بنو عبدالدار کے ہاتھ میں تھا۔ لڑائی سے پہلے ابو سفیان نے جنگی چال کے طور پر انصار و مہاجرین میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس نے انصار کو خفیہ پیغام بھیجا۔ ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں تم پیچھے ہٹ جاؤ۔ انصار نے ان کی اس بات کا بہت سخت جواب دیا۔ بھلا وہ کیسے اللہ کے رسول کو چھوڑ سکتے ہیں۔ وہ تو اللہ کے راستے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے آئے تھے۔
لڑائی شروع ہوئی۔ قریش نے دعوتِ مبارزت دی۔ طلحہ بن ابی طلحہ اپنی صف سے نکل کر آگے آگیا یہ اونٹ پر سوار تھا اس نے للکارا :تم میں سے کون ہے جو مجھ سے مقابلہ کرے۔ سیدنا زبیر بن عوام آگے آئے۔ آگے بڑھے اور فرمایا میں کروں گا تم سے مقابلہ۔ یہ کہا اور اس کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس کے اونٹ کے نزدیک پہنچتے ہی ایک اونچی چھلانگ لگائی اور پہلے تو اسے نیچے گرایا پھر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔
جبل رماۃ کے درے پر نبی اکرمﷺ نے سیدناعبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو پچاس تیر اندازوں کی قیادت سونپی تھی اور فرمایا تھا: اس جگہ کو نہ چھوڑنا۔ یہ حضرات وہاں چوکس کھڑے تھے کہ مشرکوں کے ایک کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ یہ دستہ خالد بن ولید کاتھا۔ یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اورجنگی صلاحیت تو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی۔ وہ زبردست جنگجو تھے اور جنگ کے میدان کا خوب غور سے جائزہ لیتے تھے۔ وہ اس کام میں ماہر تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا کہ اگر مشرکین اس درے کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائیں تو کامیابی ہوسکتی ہے۔ اس طرح مسلمان پیچھے کی طرف سے گھر جائیں گے اور اس صورت حال سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ اپنے دستے کو لے کر اس طرف بڑھے اور حملہ کرنے کی کوشش کی۔ سیدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ پہلے ہی ہوشیار تھے ، انہوں نے اپنے دستے کو حکم دیا :’’دشمن پر تیر برساؤ کہ دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائے۔ ‘‘ اس طرف سے تیر اندازی شروع ہوگئی اور اس قدر مہارت سے ہوئی کہ خالد بن ولید جیسے سپہ سالار بھی اپنے دستے کے قدم جمانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ لیکن وہ بھی خالد بن ولید تھے ، اپنی جنگی صلاحیتوں کا انہیں بھی اندازہ تھا۔ چنانچہ کچھ دیر گزرنے پر وہ پھر حملہ آور ہوئے۔ سیدنا عبداللہ بن جبیر نے پھر اپنے تیر اندازوں کو تیر برسانے کا حکم دیا۔ تیر اندازوں نے خالد بن ولید کے دستے کا منہ پھیر کر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد پھر انہوں نے اس طرف سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار بھی انہیں کامبابی حاصل نہ ہوسکی۔
جنگ اب پورے زوروں پر تھی۔ سات سو مجاہدین کا چھوٹا سا ایک لشکر ایک بڑے لشکر سے ٹکرا رہا تھا۔ جب کہ یہ بڑا لشکر سازو سامان سے بھی پوری طرح لیس تھا۔ آخر کافر پورا زور لگا چکے تھے اور مسلمانوں کو ایک انچ بھی پیچھے نہ دھکیل سکے، بلکہ خود انہیں بار بار پیچھے ہٹنا پڑا تو ان کا حوصلہ جو کہ میدان جنگ میں اہم چیز ہے شکست کھا گیا۔ حوصلے کا ٹوٹنا تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان کا جھنڈا بھی گر گیا۔ پھر کسی نے ان کو اٹھانے کی کوشش نہ کی۔ ان کی عورتیں جو کچھ دیر پہلے اشعار گاگا کر اپنے مردوں کو جوش دلارہی تھیں، ان کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں ، اب وہ اپنا کام بھول کر پنڈلیوں تک کپڑے اٹھائے بھاگنے لگیں۔
مسلمانوں نے جب کافروں کو بھاگتے دیکھا تو اللہ اکبر کا زور دارنعرہ لگایا اور ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ دشمن بد حواس ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کو اپنے تعاقب میں دیکھ کر اور زیادہ بوکھلا گیا اور سر پیر رکھ کر بھاگا۔ کافی دور تک پیچھا کرنے کے بعد مسلمان لوٹ آئے اور مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے۔ میدانِ جنگ اب دشمن سے خالی ہو چکا تھا، اب مسلمان تھے اور مال غنیمت!اس وقت تیر انداز دستے سے وہ تاریخی غلطی سر زد ہوگئی جس کا خمیازہ انہیں بعد میں خوب بھگتنا پڑا۔ اللہ کے رسولﷺ نے انہیں حکم فرمایا تھا: ’’تم لوگ اس گھاٹی سے نہ ہٹنا!‘‘۔ لیکن میدان کو دشمن سے خالی دیکھ کر اور دوسرے مسلمانوں کو مال غنیمت اکٹھا کرتے دیکھ کر وہ گھاٹی پر کھڑے نہ رہ سکے۔ انہوں نے میدان کا رخ کیا۔ اس پر سیدنا عبداللہ بن جبیر نے انہیں ٹوکا اور فرمایا:’’رسول اللہ ﷺ نے جنگ جاری رہنے تک یہاں ٹھہرنے کا حکم فرمایا تھا۔ جواب آیا اب جب جنگ ختم ہو چکی ہے تو ہم یہاں رہ کر کیا کریں گے؟مالِ غنیمت لوٹا جا رہا ہے ، ہم کیوں پیچھے رہیں۔ اس پر عبد اللہ بن جبیر نے فرمایا : ’’ہمیں ہر حال میں اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے’’۔ لیکن تیر اندازوں نے جبل رماۃ کو چھوڑ دیا اور میدان جنگ کی طرف چلے گئے۔ تاہم عبداللہ بن جبیر اور ان کے نو ساتھی وہاں ڈٹے رہے۔ خالد بن ولید تین بار اس طرف سے حملہ کرنے کی ناکام کوشش کر چکے تھے۔ ان کا دستہ بھی شکست کھا کر بھاگ رہا تھا۔ لیکن ان کی نظریں اس وقت بھی اس گھاٹی پر تھیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان وہاں سے ہٹ گئے ہیں تو انہوں نے فوراً اپنے دستے کے ساتھ تیز ی سے چکر کاٹا اور اسلامی لشکر کی پشت پر جا پہنچے۔ اب وہ گھاٹی والا راستہ ان کے لیے صاف تھا۔ عبد اللہ بن جبیر اور ان کے نو ساتھی کب تک اس پورے دستے کو روکتے۔ ان کے تیر ختم ہوگئے اور نوبت شہادت تک پہنچی۔ انہیں شہید کرنے کے بعد خالد بن ولید اپنے دستے کو لے کر میدان جنگ کی طرف بڑھے اور مال غنیمت لوٹنے والے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔
یہ حملہ ایک تو بہت ہی زبردست تھا۔ دوسرا مسلمان تو اس وقت لڑائی کی پویشن میں تھے ہی نہیں۔ بس انہوں نے مسلمانوں کو اپنی تلوار وں پر لیا۔ مسلمان بکھر کر رہ گئے ، خود اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ صرف چند صحابہ رہ گئے۔ یہ دیکھ کر خالد بن ولید کے ساتھیوں نے نعرہ بلند کیا۔ بھاگتے کافروں نے پانسہ پلٹتے دیکھا تو وہ بھی میدان جنگ کی طرف مڑے۔ ایک عورت نے گرا ہوا جھنڈا اٹھا لیا۔ کافر اس کے گرد جمع ہوگئے اور نئے سرے سے جم کر لڑنے لگے۔ مسلمان آگے اور پیچھے دونوں طرف سے اب کافروں کے گھیرے میں آچکے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس وقت بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ ایک نہایت ہی منجھے ہوئے جرنیل کلی طرح آپﷺ نے چند لمحات میں میدان جنگ کا جائزہ لےلیا۔ آپﷺ کے ساتھ اس وقت صرف نو صحابہ تھے۔ آپ ﷺ کے سامنے مسلمان دشمن کے گھیرے میں تھے۔ انہیں کافر شہید کر رہے تھے۔ باقی مسلمان ادھر ادھر منتشر ہو کر رہ گئے تھے۔ آپﷺ کے سامنے اب دو راستے تھے ایک یہ کہ اپنی جان بچاتے اور بھاگ کر کسی محفوظ مقام پر پہنچ جاتے۔ اپنے لشکر کو اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے کہ وہ اب پوری طرح دشمن کے نرغے میں تھا یا پھر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ کو بلاتے اور انہیں یکجا کرتے۔ اس طرح مسلمان کافروں کا گھیرا توڑ سکتے تھے۔ پھر مسلمان محفوظ راستے کی طرف یعنی احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بنا سکتے تھے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے دوسرا راستہ اختیار کیا جو بلاشبہ مشکل اور کٹھن تھا۔ تاہم یہ ایک بہادر ، شجاع اور پختہ کار سپہ سالار کا فیصلہ تھا۔ آپﷺ مے خالد بن ولید کے دستے کو دیکھا تو فوراً بلند آواز میں صحابہ کو پکارا: ’’اللہ کے بندو ادھر آؤ‘‘۔
اس وقت تک بہت سے کافر رسول اللہ ﷺ کا رخ کر چکے تھے۔ مسلمان بکھر چکے تھے ، عجیب ابتری کا عالم تھا۔ دوسری طرف کسی نے آواز لگائی کہ رسول اللہ ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ اس غلط خبر نے مسلمانوں میں مزید بے چینی پھیلا دی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد مسلمانوں پر واضح ہو گیا کہ رسول اللہﷺ سلامت ہیں تو وہ جوش سے بھر گئے۔
قرآن پاک میں اللہ رب العزت نےغزوہ احد میں مسلمانوں کی ہزیمت وشکست کے اسباب اور علل اسرار اور حکم کی طرف اشارہ فرمایاہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اﷲ کے پیغمبر کا حکم نہ ماننے، ہمت ہار دینے اور آپس میں جھگڑنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اور تاکہ پکے اور کچے کا اور جھوٹے اور سچے کا امتیاز ہو جائے اور مخلص اور منافق، صادق اور کاذب کا اخلاص اور نفاق، صدق اور کذب ایسا واضح اور روشن ہوجائے کہ کسی قسم کا اشتباہ باقی نہ رہے۔ اورتاکہ اپنے خاص محبین اور مخلصین اور شائقین لقاء خدا وندی کو شہادت فی سبیل اﷲ کی نعمت کبریٰ اور نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمائیں جس کے وہ پہلے سے مشتاق تھے اور بدر میں فدیہ اسی امید پر لیا تھا کہ آئندہ سال ہم میں سے ستر آدمی خدا کی راہ میں شہادت حاصل کریں گے۔ اس نعمت اور دولت سے حق تعالیٰ اپنے دوستوں ہی کو نواز تا ہے ظالموں اور فاسقوں کو یہ نعمت نہیں دی جاتی
رسول اللہ ﷺ نے اپنےصحابہ کو آواز دی ’’میں اس طرف ہوں‘‘ مسلمانوں سے پہلے آپ ﷺ کی آواز کافروں نے سن لی۔ لہٰذا جنگ کا مرکز آپ ﷺ کے اردگرد ہوگیا۔ کافروں کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح(نعوذباللہ) آپ ﷺ کو قتل کر دیں۔ وہ بڑھ بڑھ کر آپ ﷺ پر حملے کرنے لگے۔ اس وقت آپ ﷺ کے ارد گرد صرف نو صحابہ تھے۔ جنہوں نے جانثاری کی انتہا کر دی۔ اس سب معاملے کے بعد جب رسول اللہ ﷺ اپنی قیادم گاہ پہنچے تو کافروں نے آخری حملہ کیا۔ ابو سفیان کی خواہش تھی کہ پہاڑ تک رسائی حاصل کرلے مگر ناکام لوٹنا پڑا۔
مسلمانوں نےجب یہ دیکھاکہ کفار مکےکا رخ کر رہےہیں تو قریش کی روانگی کے بعد میدان جنگ میں واپس اور شہداء کی لاشوں کو جمع کرنے لگے۔ احد کی لڑائی میں 70 صحابہ شہید ہوئے۔ کافروں کے 37 افراد مارے گئے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تمام شہداء کی نماز جنازہ پڑھائی۔ رسول اللہ ﷺ اسی روز شام تک مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ اگرچہ مسلمان زخموں سے چور تھے لیکن دوسری طرف یہ خطرہ بھی تھا کہ کفار کہیں واپس پلٹ کر حملہ نہ کر دیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے تمام رات جاگ کر گزاری۔ اگلے روز 8 شوال 3 ھ کو آپﷺ نے اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے لیکن صرف وہ لوگ ہی جائیں گے جو احد میں ہمارے ساتھ تھے۔ مسلمانوں نے فوراً لبیک کہا اور مدینہ منورہ سے 8 میل دور ’’حمراءالاسد‘‘کجے مقام پر خیمہ زن ہوگئے۔ ادھر کافروں نے 36میل دور جاکر روحاء کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ وہ دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کی شان و شوکت اب بھی باقی ہے۔
بنو خزاعہ کا ایک آدمی وہاں آ پہنچا یہ اس وقت مسلمان ہوچکے تھے لیکن کافروں کو ان کے اسلام قبول کرنے کا علم نہیں تھا۔ ان لوگوں نے ان سے حالات پوچھے تو انہوں نے بتایا :’’میری رائے تو یہ ہے کہ مدینے کا رخ نہ کرو ! محمد اپنے ساتھیوں کے ساتھ تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں اور ان کے ساتھی نہایت جوش اور غصے کی حالت میں ہیں‘‘۔ یہ سن کر قریش کی طاقت اور دشمنی کے غبارے کی ہوا نکل گئی اور انہیں نے مدینہ کا رخ نہ کرنے ہی میں عافیت سمجھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تین دن وہاں قیام فرمایا، پھر 11شوال کو واپس مدینہ منورہ لوٹ آئے۔
قرآن پاک میں اللہ رب العزت نےغزوہ احد میں مسلمانوں کی ہزیمت وشکست کے اسباب اور علل اسرار اور حکم کی طرف اشارہ فرمایاہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اﷲ کے پیغمبر کا حکم نہ ماننے، ہمت ہار دینے اور آپس میں جھگڑنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اور تاکہ پکے اور کچے کا اور جھوٹے اور سچے کا امتیاز ہو جائے اور مخلص اور منافق، صادق اور کاذب کا اخلاص اور نفاق، صدق اور کذب ایسا واضح اور روشن ہوجائے کہ کسی قسم کا اشتباہ باقی نہ رہے۔ اورتاکہ اپنے خاص محبین اور مخلصین اور شائقین لقاء خدا وندی کو شہادت فی سبیل اﷲ کی نعمت کبریٰ اور نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمائیں جس کے وہ پہلے سے مشتاق تھے اور بدر میں فدیہ اسی امید پر لیا تھا کہ آئندہ سال ہم میں سے ستر آدمی خدا کی راہ میں شہادت حاصل کریں گے۔ اس نعمت اور دولت سے حق تعالیٰ اپنے دوستوں ہی کو نواز تا ہے ظالموں اور فاسقوں کو یہ نعمت نہیں دی جاتی۔
اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔ لیکن مسلمانوں کو اپنے سالار کا حکم نہ ماننے کی پاداش میں انہیں شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ بات تاریخ کے آئینے میں عکس بن کر جھلملا رہی ہےانہوں نے چودہ سوسال قبل حکم نہ ماننے پر نقصان اٹھایا۔ کہیں آج ہم بھی حکم نہ ماننے پر نقصان تو نہیں اٹھا رہے۔
اس واقعہ سے ایک اور اہم سبق یہ بھی سامنے آیا کہ اطاعتِ امیرکس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ جب بات امیر کی اطاعت کی آتی ہے تو یہ بھی واضح ہونا ضروری ہے کہ کون سا امیر واجب الاطاعت ہے؟وہ امیر جواسلام کے قانونِ اساسی کا محافظ، نظمِ حکومت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ذمے دار، حفاظتِ مذہب اور امتِ اسلامیہ کی طاقت و قوت کا امین اور امورِ عامل کا نگہبان ہو۔