اسلام میں روحانی تجربات، باطنی مشاہدات، شعور کی بیداری، فکرو نظر کی پختگی اور کشف و زہد سے متعلق ایک باقاعدہ نظام آغازِ اسلام سے ہی موجود و متحرک ہے۔ فرد کا تردد کا عقائد و ایمانیات کی بلند سطح پر پہنچ کر ریاضتوں اور مجاہدوں کے مراحل سے گزر کر، تلاشِ حق کی جستجو میں عین الیقین کی منزل تک پہنچنا اسلامی تصوف کہلاتا ہے۔ صوفیائے عظام نے اپنی اپنی کیفیت اور ذوق کے مطابق تصوف کی حقیقت سے پردہ کشائی فرمائی ہے۔ عام فہم میں ہر طرف سے ٹوٹ کر اللہ کے قدموں میں جھک جانے والوں کا اصطلاحی نام صوفیہ اور ان کے علمی و عملی نظام کا نام تصوف ہے۔ روحِ انسانی کا تمام تر بشری تقاضوں کے باوجود صادق جذبوں کے ساتھ اصل کی طرف راغب ہونا۔ نفس کو ارادہِ الہٰی کے تابع کردینا، قربِ الہٰی کی جستجو میں سرگرداں رہنا اور مخلوق کا خالق سے ملنے اور اسے پانے کی شدید ترین آرزو کا دوسرا نام تصوف ہے۔ جیسا کہ رب العزت نے خود ہی یہ نوید سنائی ہے کہ یحبھم ویحبونہ اگر تم مجھ سے محبت کرو گے تو میں بھی تم سے محبت کروں گا۔ بندہِ فانی کا یہ یقینِ کامل کہ روح فی الحقیقت اللہ سے جدا نہیں بلکہ باہم متصل ہے۔ وارداتِ قلبی کی بدولت، ذاتِ حق سے ہر وقت حضوری میں رہنا اور ہر قدم، ہر بات اور ہر ساعت میں حق تعالیٰ کو مرکزِ نگاہ میں رکھنا ہی تصوف ہے۔
قرآن کریم میں اس عشق و محبت کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ.
(البقرہ،2: 165)
’’ایمان والے اللہ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔‘‘
مزید فرمایا:
وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا.
(المزمل،73: 8)
’’سب کچھ چھوڑ کر اسی کے ہوجایئے۔‘‘
یعنی اہل ایمان جو عشقِ الہٰی کی حلاو ت و لذت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ ان کے دل اللہ کی محبت میں روشن اور منور ہوجاتے ہیں۔ ان کی رگ رگ میں عشقِ الہٰی سرایت کرجاتا ہے پھر چاہے وہ آتشِ نمرود میں ڈال دیئے جائیں، کوئلوں پر جھلسا دیئے جائیں یا تپتی ریت پر تڑپادیئے جائیں، عالم بے خودی میں ان کے لبوں سے احد احد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
تصوف کے عناصر میں عشقِ الہٰی بنیادی شرط ہے۔ حضرت جنید بغدادی جو جادہ عشقِ الہٰی کے عظیم رہرو تھے ان سے تصوف کی ماہیت کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ بندہ بغیر کسی نسبت و ظاہری تعلق کے ہر وقت اللہ کے ساتھ رہے۔ اللہ کی رضا پر راضی رہے اور اس کی پسند کو اپنی پسند ٹھہرائے۔ اس عشق و مستی کے خود قرآن کریم میں بھی واضح اشارے ملتے ہیں۔
تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ.
(السجدہ،32: 16)
’’(عاشق لوگ تو وہ ہیں) شب کے راحت کدوں میں بھی ان کے پہلو بچھونوں سے جدا رہتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیٰـمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ.
’’وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے الغرض ہر حالت میں اللہ کی یاد میں مگن رہتے ہیں۔‘‘
(آل عمران،3: 191))
تصوف کا مقصود یہی ہے کہ جذبہ عشق و محبت صرف اللہ کے لیے ہو نہ کہ غیراللہ کے لیے۔ تصوف اسے جمال مصطفوی اور کمالِ خداوندی دونوں سے اخذ کرتا ہے خود رسولِ اکرمﷺ کی زندگی محبتِ الہٰی میں سرشاری کی زندگی تھی۔ آپ دعا فرمایا کرتے تھے۔
’’الہٰی تو اپنی محبت کو میری جان سے میرے اہل و عیال سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ میری نظر میں محبوب بنا۔‘‘
(جامع ترمذی)
حضرت رابعہ بصریؓ نے تصوف کے ضمن میں محبتِ الہٰی کو نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتی ہیں:
’’اے میرے اللہ! دنیا میں میرے لیے جو حصہ متعین کیا گیا ہے وہ اپنے معاندین کو دیدے اور جو حصہ عقبی میں میرے لیے مخصوص ہے وہ اپنے دوستوں میں تقسیم فرما دے کیونکہ میرے لیے تو صرف تیرا وجود ہی بہت کافی ہے اور اگر میں جہنم کے ڈر سے عبادت کرتی ہوں تو مجھے جہنم میں جھونک دے اور اگر خواہشِ فردوس کی وجہ سے عبادت کرتی ہوں تو فردوس کو میرے لیے حرام فرمادے اور اگر پرستش صرف تمنائے دیدار کے لیے ہو تو پھر اپنے جمالِ عالم نور سے مشرف فرمادے۔‘‘
صوفیا کرام کے نزدیک عشقِ الہٰی کی اصل یہ تھی کہ خوف جہنم اور طمع جنت سے بے نیاز ہوکر اللہ کو یاد کیا جائے اور اس کی ذات سے والہانہ محبت کسی دوسرے جذبے کے تابع نہ ہو۔
حجۃ الاسلام امام غزالیؒ جو اسلام کے عظیم عالم اور فلسفی ہیں تلاشِ حق میں اہل صوفہ کی روحانی بالیدگی کے معترف ہیں آپ فرماتے ہیں کہ میرا دل غیر مطمئن تھا اور میں تلاشِ حق میں سرگرداں تھا۔ میں علم الکلام کے علما کے پاس گیا۔ ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس حق ہے۔ انھوں نے حق کے لیے جو دلائل دیئے ان کو میں مانتا ہوں مگر ان کے ذریعے میں حق تک نہیں پہنچ سکا۔ میں فلسفیوں کے پاس گیا مگر ان کے فلسفے نے بھی میری کچھ رہنمائی نہ کی۔ آخر میں صوفیا کرام کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ حق کیا ہے انھوں نے فرمایا حق ہماری راہ میں ہے چنانچہ میں نے ان کی راہ کو اپنایا تو حق کو پالیا۔
امام غزالیؒ المنقذمن الضلال میں صوفیا کرام کی عظمت کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ صوفیائے عظام کی تمام حرکات و سکنات، ظاہری و باطنی مشکوٰۃ نبوت کے نور سے مزین ہیں اور روئے زمین پر کوئی نور سوائے نورِ نبوت کے ایسا نہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے۔
حضرت علی بن عثمان الہجویریؒ نے کشف المحبوب تحریر کی جو حجابِ بشریت کے کشف میں نہایت موزوں ہے۔ اس میں اسرارِ الہٰی کو اس طرح منکشف کیا گیا ہے کہ راہ حق میں حائل پردہِ حجاب ایک ایک کرکے اٹھ جاتے ہیں اور طالبِ حق کو نور حق سے مستفید ہونے کا موقع میسر آجاتا ہے۔ آپ نے تصوف کو ان الفاظ میں متعارف کروایا۔
’’تصوف نام ہے قلب کو مخلوقات سے مکمل طور پر فارغ کرلینے، نفسانی خواہشات پر قابو پالینے، روحانی کمالات کے حصول کی کوشش اور اتباع شریعت کے ذریعے وصول الی اللہ کا۔‘‘
(کشف المحجوب)
کہا جاتا ہے کہ تصوف کی ہزار تعریفیں ہیں جو صوفیا کرام نے اپنے اپنے مشاہدے اور ذوق کے مطابق کی ہیں۔ تصوف کے بارے میں شیخ المشائخ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ لفظ تصوف کے چار حروف ہیں۔ پہلا حرف (ت) سے مراد تزکیہ نفس ہے جو نفس کو بری صفات سے پاک کرنے اور اچھی صفات کی آبیاری کا نام ہے جس میں بندہ مکارمِ اخلاق کی اس بلندی پر ہوتا ہے جس میں وہ اخلاقِ اللہ سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا تزکیہ نفس اخلاقِ حسنہ کی معراج کو پالینے کا نام ہے۔ قرآن کریم میں تزکیہ نفس کو بعثت کا ایک اہم مقصد قرار دیا گیا ہے۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔
’’ اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘
(البقرہ،2: 129)
اس آیت میں محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے چار مقاصد بیان فرمائے گئے ہیں۔ تلاوتِ آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تزکیہ نفس۔ تزکیہ نفس تصوف کا ایک بنیادی وصف ہے۔ جو شیطان کے ہر حملے میں ڈھال کا کام دیتا ہے بلکہ تصوف کی منازل کا پہلا پڑاؤ ہے۔ لفظ تصوف کا دوسرا حرف (ص) ہے جس سے مراد صفائے قلب ہے۔
جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا.
(الشمس،91: 9)
’’ بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔‘‘
صوفیائے عظام کی زندگیوں کے احوال و آثار کا مطالعہ کریں تو ان کی تمام تر عبادتوں اور ریاضتوں کی غایت صفائے قلب سے عبارت ہے اور صفائے قلب و باطن ہی تصوف کی روح ہے کیونکہ اگر دل صاف نہ ہو تو اس پر عبادت کے نقش بھی نہیں جم سکتے اور نہ ہی تقویٰ کے حقیقی ثمرات میسر آسکتے ہیں۔ باطن کی طہارت سے مراد دل کو بشری ضرورتوں اور آلائشوں سے پاک کرنا۔ دنیاوی خواہشات، کھانے پینے، زیادہ سونے اور گفتگو کرنے سے پرہیز، غیبت، تکبر، خودپسندی جیسے باطنی و روحانی امراض سے کنارہ کش ہونا ہے۔ صوفی قلب و باطن کی آلودگیوں کو رگڑ رگڑ کر اس طرح صاف کرتا ہے کہ باطن کا شیشہ شیطانی وسوسوں سے پاک، پرنور اور چمکدار ہوجائے۔ ان تمام ریاضتوں کے ساتھ عبادات، تسبیحات اور نوافل کو بکثرت جاری رکھا جاتا ہے۔
لفظ تصوف کا تیسرا حرف (و) ہے جس سے مراد ولایت ہے۔ تزکیہ نفس توبہ اور صفائے قلب و باطن کے بعد یہ عظیم مرتبہ ولایت حاصل ہوتا ہے۔ درجہ ولایت اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ الہٰیہ سے متصف ہے۔ انہی اعلیٰ اوصاف کی بدولت اللہ کا وحی عوام الناس کے لیے رشد و ہدایت کا باعث بنتا ہے اور دین کی خدمت بجا لاتا ہے۔ لفظ تصوف کا آخری حرف (ف) ہے جس سے مراد فنا فی اللہ ہے۔ اللہ کا ولی اللہ کے ذکر کی کثرت سے اپنی تمام نفسانی خواہشات ختم کرکے خود کو اللہ کے ذکر میں گم کردیتا ہے۔ فنا فی اللہ کا یہ مقام ولی کو حیاتِ جاوید عطا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔
تصوف کی ماہیت جاننے کے بعد تصوف کی تاریخ اورنقطہ آغاز کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے ابتدائی نقوش اور خدوخال نبی کریمﷺ اور صحابہ کبارؓ کی حیات و اطوار، پاکیزہ اخلاق اور عمل صالحہ سے مزین ہیں۔ امام قشیریؒ نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:
’’تصوف کی حقیقت رسول کریمﷺ، صحابہ رضوان اللہ، تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں موجود تھی لیکن اس حقیقت کا کوئی مخصوص نام نہ تھا۔ دوسری صدی ہجری سے پہلے اس حقیقت کو تصوف کے نام سے موسوم کیا گیا۔‘‘
حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ نے اسلام کے ابتدائی دور میں تصوف کی موجودگی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’صحابہ اور سلف صالحین کے دور میں تصوف کا نام نہ تھا لیکن اس کی حقیقت ہر شخص میں موجود تھی۔ آج نام موجود ہے لیکن حقیقت مفقود ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اخلاقِ عالیہ کے بلند درجے پر فائز اور مکارم اخلاق کے معلمِ اعلیٰ تھے۔ آپ کا فرمان ہے کہ ’’میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (موطا امام مالک) اسلام میں حسنِ اخلاق کو نصف دین ثمرہ جہاد اور ریاضتِ عابدین قرار دیا جاتا ہے۔ حضورﷺ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر صوفیائے کرام نے مکارم اخلاق کی تحصیل کو لازمی قرار دیا۔ عشق کے رموز بھی مشائخ نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس سے سیکھے کہ حبِ الہٰی میں آپ کی سرشاری ایسی تھی کہ بقول حضرت عائشہ صدیقہؓ آپ رات بھر ایسے عبادت فرماتے کہ آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتی۔ رمضان کا آخری عشرہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر اعتکاف میں بسر فرماتے۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی زندگی میں پاکیزہ صفات حضورﷺ کی حیات طیبہ سے اخذ کیں اور معرفت الہٰی کے تمام اسرار و رموز بھی آپﷺ سے سیکھے۔ جیشِ عسرت کی تیاری میں آپ کا ایثار کہ گھر کا تمام اثاثہ محمد رسول اللہﷺ کے قدموں میں پیش کردینا اور اہل خانہ کے لیے صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت چھوڑ دینا۔ وقت نماز آپ کا یہ ارشاد فرمانا کہ اے بنی آدم نماز کے ذریعے اس آگ کو بجھاؤ جو تم نے سینوں میں جلا رکھی ہے۔ الغرض آپ کے کمال ایثار، توکل، حب رسول، محبتِ الہٰی اور عشقِ اسلام کی بنا پر حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مسلکِ تصوف کا امام قرار دیتے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ، زہد و توکل کے جن اعلیٰ مدارج پر فائز تھے ابونصر سراج نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’’پیوند زدہ کپڑے پہننا، ترک شہوات، مشتبہ خوراک سے بچنا، کرامات کا ان سے ظاہر ہونا، مخلوق کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا، راہ حق پر ہر حال میں مستقیم رہنا، باطل کے مٹانے پر ہر وقت آمادہ رہنا، عبادات کی شدت سے پابندی اور بیگانوں سے یکساں سلوک کرنا۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ کی کرامت تھی کہ وہ صاحب کشف بھی تھے کہ جب انہوں نے مدینہ منورہ کے منبر سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر حضرت ساریہؓ کو دیکھ لیا اور انہیں پہاڑ کی آڑ لینے کا حکم دیا۔ حضرت ساریہؓ نے حضرت عمرؓ کے مشورہ پر عمل کیا اور فتح پائی۔ حضرت ساریہؓ سے جب لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ حضرت عمرؓ آپ کو پہاڑ کی آڑ لینے کا مشورہ دے رہے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے خود حضرت عمرؓ کی آواز سنی تھی۔
حضرت عثمان غنیؓ کا شمار اصحابِ تمکین میں ہوتا ہے۔ آپ وہ دور اندیش تھے جنھوں نے مال کو ذاتی عیش و آرام پر خرچ نہ کیا بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے خرچ کیا۔ جیش عسرت کی تیاری اور مدینہ منورہ میں بیئر عثمان آپ کے فضل کی نشانی ہے۔
حضرت علی مرتضیٰؓ سادگی، فقر، رضائے الہٰی اور معرفتِ الہٰی میں ممتاز تھے۔ آپ کے فضائل و اخلاق سے صوفیاء کرام نے بے حد استفادہ کیا۔ تصوف کے تمام سوتے آپ ہی سے پھوٹتے ہیں۔ مثلاً ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا گیا کہ کون شخص تمام عیوب سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ شخص جو عقل کو اپنا امیر، احتیاط کو اپنا وزیر، عبرت کو اپنی لگام، صبر کو اپنا فائدہ، تقویٰ کو اپنا ناصح، خوفِ خدا کو اپنا ہم نشین، موت کی یاد اور مصائب کو اپنا رفیق بنائے۔ سرخیل اربابِ تصوف حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ اصول معرفت اور آزمائش میں ہمارے مرشد حضرت علی مرتضیٰؓ ہیں۔ چنانچہ آپ ہی سے اکثر سلاسل تصوف بنے اور آپ کو امامِ طریقت کہا گیا۔
عہدِ رسالت اور خلفا راشدین کے دور میں اصحابِ صفہ کو صفیائے کرام کا پہلا گروہ کہا جاتا ہے۔ جو مسجد نبوی کے قریب ایک چبوترہ کے مکین تھے۔ تمام وقت عبادت، ریاضت، تزکیہ نفس میں لگے رہتے۔ ان کے نہ اہل وعیال تھے نہ مال و زر رکھتے تھے۔ اصول تصوف یعنی استغراقِ عبادت، توبہ، زہد، فقر، توکل، رضا پر قائم ابتدائی مبلغینِ اسلام تھے۔ اصحابِ صفہ کی زندگی اور خصائل اصحابِ تصوف کے لیے نمونہ تقلید بن گئے۔ خود رسولﷺ بھی انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ آپﷺ نے انھیں بشارت دی۔
’’اے اصحابِ صفہ! تمھیں بشارت ہو، پس میری امت میں سے جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے جن سے تم متصف ہو اور ان پر رضا مندی سے قائم رہیں گے تو بے شک جنت میں میرے ہم نشین ہوں گے۔‘‘
محمد رسول اللہﷺ کی اس بشارت سے اسلامی نظام تصوف کا آغاز ہوا جس کا تعلق دور تابعین سے ہے یعنی 34ھ سے 150ھ تک اس دور تابعین میں اصحابِ تصوف میں دو بزرگ ہستیاں بہت نمایاں ہیں۔ حضرت اویس قرنیؓ اور حضرت حسن بصریؓ، حضرت اویس قرنیؓ کو حضورﷺ سے غائبانہ عشق تھا۔ حبِ رسولﷺ اور یادِ الہٰی میں آپ صحرا نوردی کرتے رہے ایک روایت کے مطابق 37 ھ میں حضرت علیؓ کی فوج میں شامل ہوئے اورجامِ شہادت نوش کیا۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ اویس قرنیؓ روزِ قیامت قبیلہ ربیعہ و مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری امت کے لوگوں کی شفاعت کریں گے۔ حضرت حسن بصری مشہور تابعین میں سے ہیں آپ کا سال وفات 110ھ ہے۔ تصوف میں آپ کے اشارات بہت لطیف تصور کیے جاتے ہیں اور تصوف کے بہت سے سلاسل آپ سے شروع ہوتے ہیں۔ دورِ تابعین سے متعلق صوفیہ میں بنو امیہ کی ظاہر داری اور دنیا داری کا واضح ردِ عمل نظر آتا ہے۔
دور تبع تابعین تقریباً دو صدیوں پر محیط ہے یعنی 151ھ سے 350ھ۔ یہ دور تصوف کا دور زریں کہلاتا ہے۔ اس دور میں ابوالہاشم کوفی کو دنیائے تصوف کا پہلا صوفی کہا جاتا ہے اور انھوں نے شام میں رملہ میں ذکر الہٰی کے لیے سب سے پہلی خانقاہ تعمیر کرائی۔ اس دور میں حضرت رابعہ بصریؒ، حضرت ذوالنون مصریؒ، حضرت بایزید بسطامیؒ، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت ابوبکر شبلیؒ اس دور کے عظیم مشاہیر اور صوفیائے عظام سے تھے۔ اس طرح بے شمار بزرگانِ دین اور ان کے مریدین اطراف و اکناف ممالک اسلامیہ میں پھیل گئے اور تعلیم طریقت اور اشاعتِ دین میں مصروف ہوگئے۔
دور متاخرین میں عملی تصوف نے علمی تصوف کی شکل اختیار کرلی۔ اس دور کے اکابر صوفیا نے تصوف کی علمی تشریح کی طرف توجہ دی۔ اس دور میں حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ، حضرت امام غزالیؒ، مولانا جلال الدین رومیؒ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ شامل ہیں۔ ان کے علمی کارنامے دنیائے تصوف ہی میں نہیں بلکہ دنیائے اسلام میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
تصوف کے ان ادوار کے مختصر جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد عہد بنو امیہ کے سیاسی انتشار نے مسلمانوں کے اخلاقی اور روحانی رویے میں تبدیلی پیدا کی تو صوفیاء نے معاشرے کی اس بے اعتدالی کے خلاف تبلیغی جہاد کیا جو استقامتِ دین کا باعث بنا۔ مثلاً کوفہ جو ظلم و ستم کا مسکن رہا تھا تصوف کی ابتدائی تحریک اسی سرزمین سے شروع ہوئی۔ سیاسی و معاشرتی خلفشار کے اس دور میں گروہ صوفیاء نے بڑی بڑی ریاضتیں کیں اور مستقل ذکر و عبادت میں لگ گئے۔ یہ لوگ گدڑیاں پہنتے، نفس اور شیطان کے مکرو فریب سے بچنے کے لیے مراقبے اور مجاہدے کرتے، محبتِ الہٰی کسی خوف یا لالچ سے بے نیاز ہوکر کرتے اور لوگوں کو بھی یہی درس دیتے۔
بنو امیہ کے بعد بنو عباس میں اسلام کی بقا کو مذہبی بنیادوں پر پہلے سے بھی زیادہ خطرات درپیش تھے مگر صوفیاء نے وجدانی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اسی صورت حال میں اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اسلام کو ایک ایسے فتنے سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوگئے جو فتنہ تاتار سے بھی زیادہ تباہ کن تھا۔ اس فتنہ نے یونانی علوم و فلسفے کے تراجم کی ترویج سے جنم لیا۔ خلفائے بنوعباس نے خلقِ قرآن کے مسئلہ پر صوفیاء اور مشائخ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی مگر امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے مکتبِ فکر کے دوسرے مشائخ نے استقامتِ دین کی مثال قائم کردی۔ ڈاکٹر خلیق احمد نظامی اس پر بحث کرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ صوفیا نے فلسفہ کی پیدا کردہ ذہنی لامرکزیت کو قلبی کیفیات سے دور کرنے کی کوشش کی۔ عوام الناس کے دلوں کو ایک مرکز پر مرتکز کیا۔ یونانی فلسفہ جو اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہا تھا۔ اس کے رد میں رسائل اور کتب تحریر کیں۔
حضرت معروف کرخیؒ نے استغراق پر زور دیا۔ حضرت سری سقطیؒ نے توحید کا وہ نظریہ پیش کیا جو بعد میں نظریہ وحدت الوجود کہلایا۔ حضرت ذوالنون مصریؒ نے اپنی تصانیف میں مال و مقام پر بحث کی۔ اس طرح فلسفے اور عقلیت کے پیدا کردہ ذہنی رجحان کو دور کرنے کا سامان مہیا کیا۔ فتنہ تاتار نے دنیائے اسلام کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا تو صوفیا کرام نے اس سیاسی انتشار و زوال کے دور میں دکھی دلوں کا مداوا کیا اور ان کے مرکز نگاہ کو رب العزت کی طرف پھیر کر انھیں پھر سے جینے کا حوصلہ دیا۔ اس طرح صوفیا کرام نے امت مسلمہ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر روحانی و جسمانی امراض کی نشاندہی اور شفایابی کا سامان کیا۔
عصر حاضر میں نوجوان نسل ذہنی انتشار کا شکار ہے اور اسلامی عقائد ونظریات سے دامن چھڑانے کی کوشش کررہی ہے۔ متزلزل عقائد کی اس دلدل میں گھرے نوجوانوں کو تصوف کی طرف راغب کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہے کیونکہ حسن اخلاق، تزکیہ نفس، صفائے قلب و باطن تصوف کے وہ عناصر ہیں جو ہمارے شعور اور لاشعور میں پلنے والے ذہنی جسمانی و روحانی امراض کا مداوا کرسکتے ہیں اور قلب و باطن کو جلا بخش سکتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں ہر نئے پیدا ہونے والے مسئلے کا اپنی باطنی آنکھ اور بصیرت سے مشاہدہ کرکے دینی و اخروی کامیابی سمیٹ سکتے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ یہ بزرگانِ دین و مشائخ ابتدا میں ہم سب کی طرح عام انسان تھے مگر عبادات، مجاہدات، تزکیہ قلب اور ترتیبِ نفس سے انھوں نے خود کو مثالی کردار میں ڈھال لیا۔ ہماری نوجوان نسل اگر اولیاء کرام اور صوفیائے عظام کے احوال و آثار کا مطالعہ کرلے تو وہ اپنے قلب و نظر میں روحانیت اور ایمانیات کی وہ شمع ایک بار پھر روشن کرسکتی ہیں جس نے کبھی عالم اسلام کو منور کیا تھا۔