یہ کتاب ’’فساد قلب اور اس کا علاج‘‘ دور حاضر کی مادیت پرستی کے تناظر میں لکھی گئی ہے تاکہ قحط الرجال کے اس دور میں انسانی قلب کی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج میں مدد مل سکے۔
انسانی قلبی احوال خراب ہوچکے ہیں اور روحیں بیمار ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے انسان روز بروز پستیوں کی طرف گرتا چلا جارہا ہے۔ شیطان انسان کو خارجی طور پر بہکاتا ہے اور اس کا نفس امارہ اسے داخلی طور پر بہکانے میں لگا ہوا ہے۔ اسی انسانی پستی کے خاتمے کے لیے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس کتاب کو تحریر کیا ہے۔ ’’فساد قلب اور اس کا علاج‘‘۔
یہ کتاب ابتدائیہ کے بعد پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں ’’فساد قلب اور اس کی مختلف صورتیں اور ان کے علاج کے قرآنی طریقے‘‘ کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ فساد قلب کی بنیادی وجہ انسان کا اس کے رب سے دور ہوجانا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے دوری ہی انسان کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کی اصل وجہ ہے۔ اس بات کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ
’’ہمارا تعلق بندگی اللہ سے اور تعلق غلامی حضورﷺ سے صورتاً معلوم مگر معنا اور حقیقتاً معدوم ہوچکا ہے۔‘‘ یہاں پر فساد قلب کی دو صورتوں کو بیان کیا گیا ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ سے انسان تعلقِ بندگی کا کٹ جانا یا ختم ہوجانا۔
2۔ حضورﷺ سے تعلق غلامی کا عملاً اور واقعتاً ختم ہوجانا۔
پھر اس فساد کے حل کے لیے قرآنی طریق کار کو بیان کیا گیا ہے اور سورہ فاتحہ کی روشنی میں یوں بیان ہوا ہے کہ
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔‘‘
پھر صراط مستقیم کی حقیقت بھی قرآن کے الفاظ میں ذکر کی گئی کہ
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ.
’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔‘‘
ان آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے یہ فساد قلب کی بنیادوں کو ختم کرنے کے لیے طریقہ علاج اور دوا کی نشاندہی کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ہر قسم کی روحانی و جسمانی بیماری اور اس کا علاج قرآن کریم میں موجود ہے۔ لیکن قرآنی آیات کو سمجھنے کے لیے جن طرق و اسالیب کی ضرورت ہوتی ہے ان سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کے بعد ان طرق و اسالیب کو مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے جو قرآن فہمی میں مددگار و معاون ہوتے ہیں۔ وہ طرق و اسالیب درج ذیل ہیں:
1۔ سند قرآن کریم سے لی جائے۔
2۔ تصدیق سنتِ نبویﷺ سے کی جائے۔
3۔ تائید اولیاء اور بزرگانِ دین کے اقوال سے لی جائے۔
لیکن موجودہ دور میں ان طرق و اسالیب کو استعمال کرنے کے بجائے اپنی عقل و فراست پر انحصار کیا جانا اور کبھی صرف قرآن سے مدد لی جاتی ہے اور احادیث مبارکہ اور اقوال بزرگان دین کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور کبھی صرف احادیث کو ہی لیا جاتا ہے جبکہ یہ تینوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اس کتاب میں انسانی مسائل کے حل کے لیے ان تینوں ذرائع کو استعمال کرنے اور ان کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ قرآنی منہاج کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔
انسانی شخصیت میں قلب کی اہمیت:
انسانی جسم میں قلب کو حاکم تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ قلب پورے جسم پر اپنی مرضی مسلط کرتا ہےا ور اگر قلب میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو جیتے جاگتے اعضاء کے افعال کو تحقیق سے روک دیتا ہے۔ اسی بات کی تصدیق قرآنی آیت کے حوالے سے کی گئی ہے کہ
’’اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔‘‘
(البقرہ)
اسی طرح سورة الحج میں ارشاد ہوتا ہے کہ
’’بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔‘‘
ان قرآنی حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو آنکھیں بینا نظر آنے کے باوجود حق کو دیکھنے، اس کا شعور پانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوجائیں وہ ظاہری طور پر اندھی ہوجاتی ہیں کیونکہ سینوں میں دھڑکنے والے دل اندھے ہوچکے ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے آنکھیں شعور حاصل کرتی ہیں۔ اس حقیقت کو حدیث مبارکہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
’’خبردار! بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوجائے تو تمام جسم درست ہوجاتا ہے اور جب اس میں فساد واقع ہوجائے تو سارا جسم فساد زدہ ہوجاتاہے اور خبردار ہوکہ وہ دل ہے۔‘‘
قلب کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اس کے فساد کو درست کرنے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ اگر انسان فساد، قلب کا شکار ہوجائے تو نفس کی تمام تر برائیاں اس کے شعور و عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور انسان کی شخصیت تباہ ہوجاتی ہے اور وہ اپنے اشرف و اعلیٰ مقام سے اسفل السافلین جیسے ذلت کے گڑھے میں گر جاتا ہے اور اس کے جراثیم باقی معاشرے تک منتقل ہوکر پوری زمین پر فساد پیدا کردیتے ہیں۔
باب دوم: فسادِ قلب کی پہلی صورت:
اللہ تعالیٰ سے تعلق بندگی کا انقطاع اور اس کے اسباب
اس باب میں دل کی بیماریوں کی پہلی علامت کی نشاندہی اور وضاحت کی گئی ہے اور فساد قلب کی پہلی علامت یہ ہے کہ انسان کا تعلق بندگی اس کے رب سے ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ عبادتوں سے یکسر غافل اور لاتعلق ہوجاتا ہے کیونکہ وہ ان عبادتوں کو اہمیت ہی نہیں دیتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ و تعلق استوار نہیں ہوپاتا۔ اس بیماری کی دو وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے:
1۔ نفسانیت
2۔ مادیت
یہ دونوں وجوہات انسان اور خدا کے تعلق کے درمیان رکاوٹ بنتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی غلامی کے لیے خواہشات نفس کو اللہ کے حکم کے تابع لانا ہوتا ہے۔ جب خواہشات نفس بے لگام ہوجائیں تو انسان اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور نفس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے جبکہ غلامی صرف اللہ کی ہونی چاہیے۔ دنیوی امور کی مشغولیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی حدود کا احترام فرض کردیا گیا ہے کیونکہ محبتِ خدا اور احکام و حدودِ الہٰی کے تحت دنیا کے کام بھی اطاعت الہٰی اور عبادت کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔
اسی لیے نفس کی تمام تر چاہتیں جن میں مال و دولت اولاد، عزت، شہرت شامل ہیں انھیں انسان کی آزمائش بنایا گیا ہے کہ انسان ان سب کو پاکر خدا کے قریب رہتا ہے یا اسے بھول جاتا ہے۔
اسی ضمن میں نکاح کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کی گئی اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر نکاح کے بعد صرف اسی کے سکون میں پڑ جاؤ گے تو یہ سکون ماند پڑ جائے گا اور اس کی ذات ختم ہونے لگے گی کیونکہ ایک طرف زوجیت کی محبت ہوگی اور دوسری طرف عبدیت کی محبت۔ یہاں پر انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ کس محبت کو غالب کرتا ہے اور خدا کی بندگی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کی محبت کی کیفیت اور نشہ دنیا کی ہر محبت پر غالب ہو۔
یہاں پر حضور نبی اکرمﷺ کی شان عبدیت کو بطور مثال اورنمونہ کے دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے استغراق کے عالم میں تھے اور اس کیفیت میں آپﷺ نے اپنی چہیتی اور محبوب بیوی حضرت عائشہؓ کو پہچاننے سے بھی انکار کردیا۔ حضرت عائشہؓ نے جب بعد میں اس کا گلہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ
’’میری اور میرے مولا کے درمیان جو تعلق ہے اس میں کوئی گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ جس میں نہ کوئی مقرب فرشتہ دم مار سکتا ہے اور نہ کسی نبی یا مرسل کا گزر ہوسکتا ہے۔‘‘
حضور نبی اکرمﷺ کی شان عبدیت کے اس مظاہر سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ نعمت محبت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو عطا فرمائی ہے اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ان کے امتیوں کو بھی ان کے حسب حال عطا کیا گیا ہے اور اس محبت کے اظہار اور تعلق میں کمزوری کی سب سے بڑی وجہ انسان کا قلب ہے جو نفسانیت اور مادیت کی رغبت کی وجہ سے محبت الہٰی کا حق ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ انسان کے تعلق بندگی کی کمزوری تین مراحل کے تحت عمل میں آتی ہے:
1۔ پہلے مرحلے میں اللہ اور بندے کے تعلق کی کیفیت سطحی سی ہوتی ہے جس کی وجہ سے شرک پیدا ہوتا ہے۔
2۔ دوسرے مرحلے میں تعلق تو رہتا ہے مگر وہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اس مرحلے پر انسان کی خواہشیں اس کی طلب بن جاتی ہیں۔ اللہ کی طلب کم اور دنیا کی طلب بڑھ جاتی ہے۔
3۔ تیسرے مرحلے میں دنیا کی شدید طلب، حرص میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس مرحلے میں تعلق بندگی مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ صرف دنیا کا حصول ہی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ انسان کے تعلق بندگی کی کمزوری کو قول حضرت علیؓ سے بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کی جاسکتی ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے فرمایا:
’’دنیا مردار ہے اور اس کی طلب میں کھنچنے والے کتے ہیں۔‘‘
گویا دنیا کی محبت بندے کے تعلق الہٰی میں کمزوری کا سبب ہے اور اس تعلق کی مضبوطی ہی انسان کو مقام تسخیر پر فائز کرتی ہے۔ اگر انسان کا تعلق بندگی ختم ہوجائے تو وہ طالبِ دنیا بن کر ذلیل و رسوا ہوجاتا ہے بقول شاعر
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی پہچان ہے کہ گم اس میں ہیں آفاق
باب سوم: فساد قلب کی پہلی صورت کا علاج:
1۔ صحبت صلحاء
2۔ ذکرِ الہٰی
علاج کا مقصد مریض کے جسم سے ہر بیماری کے اثرات و مضمرات اور جراثیم کا مکمل خاتمہ کردینا ہوتا ہے تاکہ مریض صحت مند ہوکر متحرک و کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے۔ فساد قلب کے علاج کا مقصد بھی شخصیت کی تمام روحانی کمزوریوں، نفسانی خواہشوں کی آسائشوں اورحیوانی قوتوں کو ختم کرنا ہے تاکہ انسان میں پاکیزگی پیدا ہو جو اسے روحانی قوت و طاقت عطا کرے جس کی وجہ سے اس کا تعلق بندگی استوار ہو اور وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مطیع و فرمانبردار ہوجائے۔ اس کی شقاوت سعادت میں بدل جائے، ذلت شرف میں تبدیل ہوجائے، باطن کے اندھیرے دور ہوجائیں اور قلب و روح اللہ کے تعلق کے نور سے منور ہوجائیں۔ ایسی کیفیت کی وجہ سے انسان کو مقام تسخیر حاصل ہوتا ہے اور تقدیر کا قلم اس کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے اور انسان توفیق الہٰی سے سرشار ہوجاتاہے پھر اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ
ہاتھ ہے اللہ کا، بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا کار ساز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی صدا دلنواز
علاج کے مقصد اور اس کے اثرات و ثمرات کے بیان کے بعد اس کے طریقے کی وضاحت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے تصفیہ قلب کا پہلا، آخری اور حتمی و یقینی طریقہ قرآن کریم سے حاصل کرنا چاہیے کیونکہ قرآن کریم ہی نسخہ شفا ہے۔
1۔ قرآن مجید کے مطابق فساد قلب کے علاج کا مستند طریقہ
صحبت صالحین میں رہنا ہے، صحبت صالحین سے ہی مومنانہ اور قلندرانہ زندگی کے اصول و ضوابط اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ انہی اصول و ضوابط کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنا ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کا اولین تقاضا ہے اور ان اصول و ضوابط کو سیکھنے کے لیے نیک اور متقی لوگوں کی صحبت میں رہنا از حد ضروری ہے۔
موجودہ دور میں مادیت پرستی کے غلبے اور صحبت نے ایک ایسے طبقے کو فروغ دیا ہے جو صحبتِ صالحین کے منکر ہیں جبکہ صحبت کی اثر پذیری اور اہمیت و افادیت ہمیں صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے پتہ چلتی ہے جنھیں صحبتِ مصطفیﷺ نے آسمان کے چمکتے ہوئے ستارے بنادیا۔ اللہ تعالیٰ کے عشق کا راستہ صحبت سے کھلتا ہے اسی صحبت کی وجہ سے انسان کے قلب پر نورانی کیفیات وار دہوتی ہیں اور اس کے اندر نیکی کرنے کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ نفسانیت اور مادیت کا شعور اور ان سے بچنے کے طریقے سیکھے جاتے ہیں اور جو انسان اللہ کے نیک اور متقی لوگوں کی صحبت اور دوستی کو چھوڑ دیتا ہے وہ اللہ کی بندگی کا راز نہیں پاسکتا اور دونوں جہانوں کی لذتوں اور حلاوتوں سے محروم رہتا ہے۔
صحابیت کی بنیاد۔ صحبت نبویﷺ ہے:
صحبتِ مصطفیﷺ کی وجہ سے ہی صحابیت وجود میں آئی اور آج بھی اگر کوئی حضور نبی اکرمﷺ کی زیارت کا شرف پالے تو وہ درجہ صحابیت پر فائز ہوجاتا ہے اور ایسے شخص کو ایمان و اسلام کا کامل وجدان اور شعور حاصل ہوجاتا ہے۔ حضورﷺ کی معیت، رفاقت اور محبت کا فیض جن لوگوں کو حاصل ہوا ان کی شانیں قرآن مجید کا حصہ اور زینت ہیں۔ اس حقیقت کو سورہ الفتح کی روشنی میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ
’’محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں سخت اور زور آور ہیں لیکن آپس میں رحم دل۔ تو بھی دیکھتا ہے کہ وہ کبھی رکوع اور کبھی سجود میں، غرض ہر طرح اللہ سے اس کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طلبگار ہیں۔‘‘
(الفتح)
اس آیت قرآنی کو صحبت کی اہمیت و افادیت کی وضاحت کے طور پر پیش کیا گیا ہے تاکہ فساد قلب کا علاج ممکن ہوسکے۔ اسی طرح اولیاء اللہ کے حالات و واقعات سے بھی صحبت کی اہمیت واضح کی گئی ہے اور امام ابوالقاسم القشیری کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ وہ قرون اولیٰ کے اولیاء اور صلحاء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’جب ان میں سے کوئی اپنے آئینہ قلب پر زنگ محسوس کرتا، عبادت کے سرور و کیف میں کمی یا فقدان محسوس کرتا ہے یا تعلق باللہ میں کمی کے باعث کوئی روحانی پریشانی یا الجھن یا حجاب محسوس کرتا تو اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر کسی اللہ والے کی مجلس میں جا بیٹھتا۔‘‘
گویا بتایا یہ جارہا ہے کہ فساد قلب کا علاج اللہ کا ذکر کرنے والوں کی صحبت سے نصیب ہوتا ہے اور صحبت وہ دولت ہے جو حضورﷺ کے بعد نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی ہے اور اولیاء اللہ کی صحبتوں کو نبوت کے سلسلوں سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی دین کی حقیقت تک پہنچنے کا واحد راستہ ہوتی ہیں۔
2۔ ذکر الہٰی:
فسادِ قلب کے علاج کا دوسرا اور اہم طریقہ ذکر الہٰی میں مشغول ہونا ہے یہاں پر اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انسان اور خدا کا تعلق ظاہراً اور صورتاً تو موجود ہے لیکن معنا اور حقیقتاً معدوم ہوچکا ہے۔ اس تعلق کو جوڑنے کے لیے پہلا طریقہ صحبت صالحین کو اختیار کرنا اور دوسرا طریقہ ذکر الہٰی کی کثرت ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ زندگی کے سارے کیف و سرور، لذتیں، حلاوتیں اور مسرتیں ذکر الہٰی میں پنہاں ہیں۔
ذکر الہٰی کی قبولیت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ بات حتمی اور یقینی ہے کہ کوئی شخص خواہ اپنے دل میں کتنا ہی زنگ اور سیاہی، ذہنی پراگندگی، روح کی تاریکی، غفلت اور ہوس جیسی آلائشیں لے کر محفل ذکر میں شریک ہو اور تسلسل کے ساتھ اہل ذکر کی صحبت کو اختیار کرے اور کثر ت سے ذکر الہٰی میں مشغول ہو ممکن نہیں کہ اس کے دل کی دنیا نہ بدل جائے اور اس کے دن اور رات متغیر نہ ہوجائیں۔ ذکر الہٰی کی فضیلت کو مولانا رومیؒ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ
’’جب بندہ ایک بار اللہ کا نام لے لیتا ہے تو دوسری بار اس وقت تک اللہ کا نام نہیں لیتا جب تک پہلا قبول نہ ہوجائے بندے کا بار بار ذکر کرتے رہنا توفیق الہٰی کی دلیل ہے بندے کی زبان پر مولا کے ذکر کے جاری ہونے کا مطلب ہے کہ بندے کا ذکر اللہ کو پسند آگیا ہے۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید کے مختلف حوالوں سے ذکر الہٰی کی قبولیت اور اس کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً سورہ الانعام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ
’’بندہ جب ایک دفعہ اللہ کا نام لے تو اللہ اسے دس بار یاد کرتا ہے توجب بندہ سو بار اللہ کا ذکر کرے گا تو جواباً ہزار بار بندے کا ذکر کیا جائے گا۔ ایسے خوش بخت انسان کے درجات کا عالم کیا ہوگا۔‘‘
اسی سے ذکر الہٰی کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ انسان کے دل کی تمام بے چینیاں اسی ذکر کے ذریعے ختم کی جاتی ہیں اور اس کے سارے گناہ مٹادیئے جاتے ہیں۔ جب بندے اللہ کی حیاء کی وجہ سے برائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں انھیں دو جنتوں کا وعدہ دیا گیا ہے۔ کیونکہ جب بندے کو مولا سے حیا آتی ہے تو جھوٹ، گناہ سب کچھ چھوٹ جاتا ہے جوں جوں زبان ذکر الہٰی سے پاک ہوتی جاتی ہے انسان کا تن اور من پاک ہوتا چلا جاتا ہے اور قلب کی صفائی تمام اعضاء کی صفائی کا باعث بن جاتی ہے۔
باب چہارم: فساد قلب کی دوسری صورت:
حضورﷺ سے تعلق غلامی کا انقطاع اور اس کے اسباب
فساد قلب کی دوسری بڑی اور اہم وجہ حضور نبی اکرمﷺ سے امت کا تعلق غلامی کا کٹ جانا ہے اور اس تعلق کے ختم ہوجانے کی دو وجوہات ذکر کی گئی ہیں:
1۔ دنیا داری کے پردے میں بپا ہونے والا فتنہ
2۔ دین داری کے پردے میں بپا ہونے والا فتنہ
تعلق غلامی کیا ہوتا ہے؟
دراصل غلام وہ ہوتا ہے جو کسی کے ہاتھ بک گیا ہو یا اس نے خود کو اس طرح کسی کے سپرد کردیا ہو کہ خود سپردگی کے بعد وہ اپنی ذات، حال، معاملات، سونے جاگنے، اٹھنے، بیٹھتے اور چلنے پھرنے میں اپنی مرضی کو کام میں نہ لاسکے اور غلامی کی حقیقت بھی یہی ہے کہ غلام کی ہر شے اس کے مالک کی ہوجائے۔ اس کے رشتے، ناطے، سوچنا، ہنسنا، رونا، جینا، مرنا، آرام و جدوجہد اور عزت و آبرو سب کچھ اس کے مالک کا ہوجائے۔
حضور نبی اکرمﷺ سے ہمارا تعلق غلامی اسی وقت صحیح طرح قائم ہوسکتا ہے جب آپﷺ کی ذات سے ہماری نسبت اور رشتے کو وہ استواری اور کیفیت نصیب ہوکہ جو دیکھے اسے غلامی کا یقین ہوجائے۔
عقل پرستی کا فتنہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ سائنسی، علمی اور فکری ترقی میں انسانی عقل کا اہم کردار رہا ہے جدید علوم و فنون کے اعتبار انسانی شعورنے بہت ترقی کی ہے اور موجودہ دور کی ترقی انسانی عقل کی مرہون منت ہے۔
دوسرا فتنہ خود ساختہ تصور رسالت پر اصرار کا ہے:
یہ ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو مذہب اور دینداری کے نام پر انسان کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے اور بڑے دانشمند اور زیرک لوگوں کو بھی عرصہ دراز تک اس فتنہ کے زہریلے اثرات اور ہلاکت کا احساس تک نہیں ہوتا کیونکہ ارکان دین کے عنوانات کے پس منظر میں ہی یہ فتنہ پروان چڑھتا ہے۔
اس فتنے کی حقیقت یوں بیان کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں حضورﷺ کی متعدد حیثیتوں کو بیان کیا گیا ہے جن میں سے ایک حیثیت آپﷺ کی شان عبدیت ہے۔ اس فتنہ میں آپﷺ کی دیگر حیثیتوں کو چھوڑ کر صرف مثلیت اور بشریت پر سارا زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عام ذہنوں میں حضورﷺ کا ہمارے جیسے ہونے کا گمراہ کن تصور پیدا ہوتا چلا گیا ہے اور اس طرح ذات رسالت مآبﷺ کی عظمتیں دلوں میں ختم ہوگئیں اور آخر کار امتیوں کا آپﷺ کی ذات گرامی سے محبت اور غلامی کا رشتہ ختم ہوگیا۔
آپﷺ کی افضلیت اور محبوبیت کا انکار کرنے والوں کے لیے مختلف قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے آپﷺ کی شان عبدیت، شان رسالت، شان نورانیت، شان محبوبیت اور عظمت و فضیلت کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ انکار کرنے والوں نے درج ذیل پہلوؤں سے ٹھوکر کھائی اور حقیقت شانِ مصطفیﷺ کا ادراک نہ کرسکے۔
1۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے تعلق محبت کو نہ سمجھ سکے۔
2۔ قرآنی تعلیمات کے صرف ایک پہلو پر زور دیا اور بحیثیت مجموعی قرآن مجید کو نہ سمجھا اور اسی جزئیت پرستی نے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔
3۔ ایسے لوگوں کا تصور مقام مصطفیﷺ ناقص رہا اور ذات مصطفیﷺ کے ناقص تصور کی وجہ سے دین کی مکمل تصویر بھی انہیں نظر نہ آسکی۔
4۔ اپنے ناقص تصور اور اس کے اصرار کی وجہ سے زبان و قلم کی طغیانی کے باعث مختلف درجات میں توہین رسالت کے مرتکب ہوئے۔
5۔ توہین رسالت کے ارتکاب نے امت کے اندر ایسا فتنہ پیدا کردیا جو بدترین فرقہ واریت اور فرقہ پرستی کی وجہ بن گیا۔
ان وجوہات کا ذکر کرنے کے بعد قرآن مجید کی مختلف آیات کی روشنی میں مقام عبدیت اور مقام عظمت و محبوبیت میں تطبیق پیدا کی گئی ہے۔
جزئیت پرستی کا فتنہ اور اس کا تدارک:
جزئیت پرستی کے فتنہ کے تدارک کے لیے حضورﷺ سے قلبی تعلق محبت استوار کرنے کی ضرورت ہے اور اس تعلق کو قائم کرنے کے لیے لوگوں کو حضورﷺ کے معجزات مثلاً شق قمر، شق صدر، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا وغیرہ کو پڑھنے اور سننے اور ان پر غور کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ حضورﷺ کی محبت قلب اور باطن میں رچ بس جائے اور زبانوں پر ہر وقت ذکر مصطفیﷺ سنت خدا کی صورت میں جاری ہوجائے۔
ایمان کی حلاوت اور چاشنی عشق رسولﷺ سے مشروط کی گئی ہے اور اس کے حصول کا آسان طریقہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اگر انسان حضورﷺ کی محبت سے اپنے ایمان کو تقویت دینا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پورے گھنٹے میں صرف ایک منٹ حضورﷺ کی شان بشریت کو سمجھے اور بیان کرے اور باقی 59 منٹ حضورﷺ کی باقی شانوں اور فضیلتوں کو بیان کرے تاکہ جو لوگ بشریت اور مثلیت کے دائرہ میں قید ہوکر محبت مصطفیﷺ سے دور ہوچکے ہیں ان کو بھی حضورﷺ کے عام انسانوں سے بلند و بالا ہونے کا احساس ہوجائے ان کے دل بھی حلاوت ایمان سے لبریز ہوجائیں اور انھیں وہ کمال محبت ملے جو ایمان کی منزل اور جاں ہے کیونکہ محبت کے بغیر عمل سے پیدا ہونے والا تقویٰ بے ذائقہ پھل کی طرح ہے۔
باب پنجم: فساد قلب کی دوسری صورت کا علاج:
1۔ طریق زہد
2۔ طریق عشق
فساد قلب کی دوسری صورت حضورﷺ سے تعلق غلامی کا ختم ہوجاتا ہے۔ اس صورت کا علاج سوائے طریق عشق کے اور کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ یہاں پر دو طریقے بیان کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔ طریق زہد عبادت گزاروں اور زاہدوں کا راستہ ہے۔ یہ اہل تقویٰ اور اہل مجاہدہ کا راستہ ہے یہ راستہ بڑا مقدس اور بلند ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا طویل اور کٹھن ہے جبکہ طریق عشق زیادہ موثر، نتیجہ خیز اور جلدی سے منزل پر پہنچانے والا ہے۔
طریق زہد اور طریق عشق کا فرق:
قرآن مجید میں طریق زہد اور طریق عشق کو راہ انابت اور راہ اجابت کہا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو منتخب کرلیتا ہے اور اپنی بارگاہ تک رسائی عطا فرمادیتا ہے اور کچھ لوگ جو خود اللہ تعالیٰ کی طرف جانا چاہتے ہی انھیں راستہ دکھادیا جاتا ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کچھ کو خود چنا جاتا ہے اور منزل تک پہنچایا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو راستہ دکھایا جاتا ہے کہ جو ہماری طرف آنا چاہتا ہے وہ اس راستے کو اختیار کرتے ہوئے آجائے۔
صحابہ کرامؓ طریق زہد پر بھی قائم تھے لیکن انھوں نے کمال طریق عشق سے ہی حاصل کیا۔ جب تعلق محبت ٹوٹ جائے تو عشق کے بغیر صرف رکوع اور سجود سے نہیں جڑ سکتا محبوب کے سوا ہر چیز کو دل سے نکالنا پڑتا ہے۔ طریق عشق کو سمجھنے اور اس کا شعور حاصل کرنے کے لیے صحابہ کرامؓ کا طرز عمل جاننے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت بلالؓ کا حضورﷺ سے تعلق اور طریق عشق بیان کیا گیا اور یہ پیغام دیا گیا کہ
عشق اوّل عشق آخر عشق کل
عشق شاخ، عشق نخل و عشق گل
صحابہ کرامؓ کی حضورﷺ سے نسبت عشق کی بنیاد پر قائم تھی ان کے بعد اولیاء کرام اور فقہا بھی اسی طریق پر قائم ہوئے اور تصفیہ قلب کی منازل طے کرتے رہے۔
حاصل کلام:
اگر ہم چاہتے ہیں کہ حضورﷺ سے ہمارا تعلق غلامی بحال ہوجائے تو طریق زہد کے ساتھ ساتھ طریقِ عشق پر چلنا ناگزیر ہے۔ طریق عشق کو بحال کرنا اور تعلق غلامی استوار کرنا ہی قرآن کا منہاج ہے اور اس کی عملی صورت درود و سلام کی کثرت اور حضورﷺ کے معجزات و کمالات کا تذکرہ عام کرنا ہے تاکہ روحانی کیفیات پیدا ہوں اور مردہ دلوں کو زندگی ملے اور دل کی تمام تر بیماریاں دور ہوجائیں۔