سوال: کیا ایصالِ ثواب کیلئے پانی کا فلٹریشن کولر لگا کر مرحوم کے نام کی تختی لگانا جائز ہے؟

جواب: پانی پلانا صدقہ ہے، اور اس صدقہ کا ثواب اپنے مرحومین کو ایصال کرنا جائز اور ان کے لیے باعثِ راحت ہے۔ اس لیے کنویں، نل، ٹینکی یا واٹر کولر کی شکل میں مسافروں، ناداروں اور غرباء کے لئے پانی کا انتظام کرنا یا صاف پانی کی فراہمی کیلئے فلٹریشن کولر لگانا سب امورِ خیر ہیں، جن کا ثواب اپنے زندہ اور فوت شدہ اعزاء و اقرباء کو ایصال کیا جاسکتا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:

يَا رَسُوْلَ اللهِ! إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقْيُ الْمَاءِ. فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ أَوْ آلِ سَعْدٍ بِالْمَدِيْنَةِ.

(أخرجه النسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر اختلاف علیٰ سفيان، 6: 254-255، الرقم: 3662-3666)

یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمای: ہاں! انہوں نے عرض کی: تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمای: پانی پلانا۔ (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا۔) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آلِ سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا۔

پانی پلانا بظاہر ایک معمولی عمل ہے مگر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عمل بہت زیادہ اجر و ثواب کا حامل ہے اور مغفرت و بخشش کا ذریعہ ہے۔ حضرت سعید ابن مسیبؓ، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمای:

مَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ يُوجَدُ الْمَاءُ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَةً وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ لَا يُوجَدُ الْمَاءُ فَكَأَنَّمَا أَحْيَاهَا.

(ابن ماجہ، السنن، كِتَابُ الرُّهُونِ، بَابُ الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ، رقم الحدیث: 2474)

جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ پانی کا گھونٹ پلایا جہاں پانی کی کثرت تھی تو اُس نے ایک غلام آزاد (کرنے جتنا ثواب حاصل) کیا، اور جس نے مسلمان کو ایسی جگہ پانی کا گھونٹ پلایا جہاں پانی کی قلت تھی تو اس نے اسے زندہ (کرنے جتنا ثواب حاصل) کیا۔

اس سے واضح ہوا کہ پانی پلانا ان اعمال میں سے ہے جنہیں اسلام نے انسان کے لئے سعادت و نجات اور بخشش و معافی کا ذریعہ بتایا ہے۔ پانی پلانا ایک طرف انسانی خدمت ہے تو دوسری طرف اجر و ثواب اور خوشنودئ الٰہی حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس لیے اگر سائل اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کیلئے واٹر فلٹریشن کولر کا اہتمام کرتا ہے تو یقیناً یہ مرحومین کیلئے راحت کا باعث بنے گا اور انہیں فائدہ دے گا۔ جہاں تک واٹر کولر پر تختی لگانے کا سوال ہے تو تختی کسی دکھاوے، نمود و نمائش، سیاسی و سماجی فائدے یا ریاکاری کی نیت سے نہ لگائی جائے، بلکہ اس نیت سے لگائی جائے کہ یہاں سے پانی پینے والے لوگ اپنی تشنگی بجھا کر اور پیاس کو مٹا کر اس خدمت کرنے والے کیلئے دعائیں، اور مرحومین کیلئے بخشش و مغفرت کی التجائیں کرتے ہوئے جائیں۔ اس نیت کیساتھ تختی لگانے میں بھی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر تختی لگانے کا مقصد دکھاوا ہے تو اسے نہ لگانا ہی بہتر ہے کیونکہ ریاکاری اعمال کے اجر کو ضائع کر دیتی ہے۔

سوال: کیا بچوں‌ کی پیدائش میں وقفہ جائز ہے؟

جواب: خاندانی منصوبہ بندی (Family Planing) یا اولاد کی پیدائش میں وقفہ اگر درج ذیل پانچ اَسباب کے سبب ہو تو جائز ہے:

  • پہلا سبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ کثرتِ تولد کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ ہے۔
  • دوسراسبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ پیدا ہونے والے بچے کی جان جانے کو خطرہ ہے۔
  • تیسرا سبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ کثرتِ تولد کی وجہ سے عورت کی صحت کو ایسا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کہ اُس کی صحت گرجائے گی، بیمار رہنے لگے گی اور شفا یابی مشکل ہوجائے گی۔
  • چوتھا سبب: میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ پیدا ہونے والا بچہ صحت مند اور توانا نہیں ہوگا اور مستقل بیمار رہے گا۔
  • پانچواں سبب: بندہ یقین کی حد تک محسوس کرے کہ میرے وسائل اِس قدر نہیں کہ زیادہ اولاد کی صورت میں بچوں کی کفالت حلال ذرائع سے کر سکوں، چنانچہ حر ام ذرائع اِختیار کرنا پڑیں گے۔

اِن پانچ صورتوں میں خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے، تاکہ ماں اور بچے کی زندگی اور صحت محفوظ رہے اور والد کا اپنا دین بھی محفوظ رہے اگر اُس کے معاشی حالات ابتر ہوں، (رزق کی بنیاد پر نہیں کہ رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے) لیکن اگر حالات ایسے ہوں کہ وہ یقین کی حد تک محسوس کرے کہ اولاد کی کثرت اور ذمہ داریوں کا بوجھ اِتنا زیادہ ہو جانے کی وجہ سے جائز اور حلال وسائل کافی نہ ہوں گے اور اُسے اپنے بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لئے رشوت، غبن، چوری اور بدیانتی کرنا پڑے گی اور اُس کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حرام رزق گھر میں آنے لگے گا تو ایسی صور ت میں اوّلیت دین و ایمان کو حاصل ہے، اُسے کثرتِ اولاد سے بچنا چاہیئے۔ ائمہ کرام اور بہت سے علماء کے فتاویٰ ہیں کہ اگر یہ خدشہ ہو کہ کثرتِ اولادسے وہ بچوں کو رزقِ حلال نہیں کھلا سکے گا تو اس صورت میں خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے۔

شریعت نے یتیم کے ولی کیلئے لازم کیا ہے کہ مالِ یتیم اُس وقت تک یتیم کے سپرد نہ کیا جائے جب تک ولی یتیم میں عقل و رشد اور سمجھداری و ہوشیاری نہ دیکھ لے، کہ مبادا یتیم بچہ ناسمجھی میں اپنا مال ضائع کر بیٹھے یا حرام کاموں پر خرچ کرے اور کل کو فقر و فاقہ کی نوبت آ جائے اور دوسروں سے مانگتا پھرے۔ اس لیے یتیم جب تک حُسنِ تصرف کے قابل نہ ہو مال اس کے سپرد نہ کیا جائے۔

خاندانی منصوبہ بندی کی باقی صورتیں، مثلاً یہ خیال کہ اولاد کم ہو، زیادہ اولاد اچھی نہیں ہے، عیاشی کے خیال سے، اِنقطاعِ نسل کے خیال سے، یا نسل کشی کے لحاظ سے خاندانی منصوبہ بندی ناجائز ہے۔

سوال: کیا بیوی کو حق مہر میں دیا جانے والا زیور شوہر یا سسرال والے واپس لے سکتے ہیں؟

جواب: اگر زیور بطور حق مہر بیوی کو دیا جائے تو وہ بیوی کی ملکیت ہوتا ہے، اور بیوی کی مرضی کے خلاف یا رضامندی کے بغیر اُس کا شوہر یا سسرال واپس لے سکتے ہیں اور نہ بیچ سکتے ہیں۔ اگر بیوی اپنی مرضی سے شوہر یا سسرال کو دینا چاہے تو حرج نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً ؕ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓـًٔا مَّرِیْٓـًٔا۔

(النِّسَآء، 4: 4)

اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ۔

اس لیے جو حق مہر طے ہو جائے شوہر پر لازم ہوتا ہے کہ وہ طے شدہ حق مہر بیوی کو ادا کرے کیونکہ وہ مال شوہر پر قرض ہوتا ہے، جب تک شوہر ادا نہ کرے اُس پر واجب الادا رہتا ہے۔ اگر شوہر نے حق مہر کی ادائیگی مؤخر کی ہے تو بیوی کے پاس فوری ادائیگی کے مطالبے کا حق ہوتا ہے، جب چاہے شوہر سے طے شدہ حق مہر مانگ سکتی ہے، یا اگر چاہے تو شوہر کو معاف بھی کر سکتی ہے۔ حق مہر بیوی کی ملکیت ہوتا ہے، بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر یا کوئی دوسرا شخص اس سے واپس نہیں لے سکتے۔

سوال: یتیم کا مال کس عمر میں اس کے سپرد کیا جائے؟

جواب: شریعت نے یتیم کے ولی کیلئے لازم کیا ہے کہ مالِ یتیم اُس وقت تک یتیم کے سپرد نہ کیا جائے جب تک ولی یتیم میں عقل و رشد اور سمجھداری و ہوشیاری نہ دیکھ لے، کہ مبادا یتیم بچہ ناسمجھی میں اپنا مال ضائع کر بیٹھے یا حرام کاموں پر خرچ کرے اور کل کو فقر و فاقہ کی نوبت آ جائے اور دوسروں سے مانگتا پھرے۔ اس لیے یتیم جب تک حُسنِ تصرف کے قابل نہ ہو مال اس کے سپرد نہ کیا جائے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًا.

(النِّسَآء، 4 : 6)

اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے۔

پانی پلانا صدقہ ہے، اور اس صدقہ کا ثواب اپنے مرحومین کو ایصال کرنا جائز اور ان کے لیے باعثِ راحت ہے۔ اس لیے کنویں، نل، ٹینکی یا واٹر کولر کی شکل میں مسافروں، ناداروں اور غرباء کے لئے پانی کا انتظام کرنا یا صاف پانی کی فراہمی کیلئے فلٹریشن کولر لگانا سب امورِ خیر ہیں، جن کا ثواب اپنے زندہ اور فوت شدہ اعزاء و اقرباء کو ایصال کیا جاسکتا ہے۔

سائل اپنے بھتیجے کو اعتماد میں لیکر اسے سمجھائیں کہ وہ اپنا پیسہ فضول خرچی میں ضائع نہ کرے بلکہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقبل کی ضروریات کا خیال رکھے۔ اگر وہ بچہ سمجھدار ہے تو اس کا مال اس کے حوالے کر دیا جائے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق لڑکوں کی بلوغت کی عمر 18 سال تسلیم کی جاتی ہے، عموماً 18 سال کے بچے سمجھدار و ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اپنا بھلا برا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اس لیے سائل بچے کے 18 سال کی عمر کے ہونے پر اس کا مال اس کے حوالے کر دیں اور سرپرست کے طور پر خیال رکھیں کہ بچہ حسنِ تصرف سے کام لے اور اپنا مال ضائع نہ کر دے۔ اگر بچہ سمجھدار ہے تو 18 سال سے پہلے بھی مال اس کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔