خاندان کے نظام اور استحکام میں عورت کا کردار

سعدیہ محمود

عورت کی شخصیت اور کردار ایک خاندان کی اخلاقی اقدار کا آئینہ دار ہوتی ہے کیونکہ عورت خاندان کی تشکیل کا بنیادی عنصر ہے۔ قدرت کی طرف سے تفویض شدہ اس ذمہ داری کو اگرچہ عورت صدیوں سے نبھاتی چلی آ رہی ہے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ آج ہمیں اس موضوع کو زیر بحث لانے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ اوراگرچہ عورت اپنی ذمہ داریوں، فرائض اور کردار سے بخوبی آگاہ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج عورت کے اس فطری کردار کو پرکھنے اور اس پر نظر ثانی کرنے کے سے کیا مقصود ہے؟

ارتقا اور تغیر اگرچہ ایک ناگزیر امر ہے مگر اکیسویں صدی ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی اور انقلاب کی صدی ثابت ہوئی ہے جس نے ہر شعبئہ زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ نت نئی ایجادات جو آج انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکی ہیں، آج سے دو دہائیاں قبل ان کا تصور بھی نہ ممکن تھا۔ لہذا اس سارے تناظر میں عورت کے بنیادی کردار کا دائرہ کار بھی یکسر بدل گیا ہے جس کا اطلاق عورت کےحقوق سے لے کر اس کےفرائض اور ذمہ داریوں تک ہر پہلو پر ہوتا ہے۔ ان سارے عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس آرٹیکل کا مقصد موجودہ حالات کے تناظر میں عورت کے خاندانی کردار کو اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ آج کے دور کے تقاضوں اور تبدیلیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض کو بخوبی سرانجام دے سکے اور اپنے حقوق کا تخفظ بھی کرسکے۔

اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کی تخلیق کی ابتدا حضرت آدم علیہ اسلام سے فرمائی اور حضرت آدم علیہ السلام سے ہی حضرت حواؑ کو پیدا کیا۔ گویا مرد اور عورت دونوں ایک ہی جنس سے پیدا کئے گئے۔ یہ ممکن تھا کہ اللہ تعالی ایک ہی وقت میں بہت سارے مرد اور بہت ساری عورتیں پیدا کر دیتا اور ان سے بیک وقت نسل انسانی کا سلسلہ چل نکلتا مگر ایک ہی وجود سے نسل انسانی کو وجود اور حیات بخش کر قدرت نے ایک طرف بنی نوع انسان کو ایک خاندان کا تصور دے دیا اور ان میں ایک نسبی تعلق پیدا کر دیا جس کو جذبہ رحم سے جوڑ دیا۔ جیسا کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَلرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّہُ

’’رشتہ داری رحمٰن سے تعلق رکھنے والی ایک شاخ ہے تو جو شخص اس کو ملائے گا اللہ کریم اس کو ملائے گا۔ ‘‘

(ترمذی،حدیث:1931)

اور دوسری طرف قابل غور امر یہ ہے کہ اس سارے عمل میں اللہ رب العزت نے عورت کو خلقت بنی نوع انسان کا فریضہ عطا کر کے مرکزی کردار کا حامل بنادیا اور اپنی ’’رحمت‘‘ کا خاص حصہ عورت کو ’’رحَم‘‘ کی صورت میں ودیعت کر دیا۔ تخلیق صرف خدا کا وصف ہے مگر دنیا میں اس کا آلہ کار عورت کو بنا دیا۔ گویا اللہ رب العزت نے انسانیت کو جوڑنے کے لیے جو وصفِ خاص عطا کیا وہ جذبہ رحم و ہمدردی ہے اور اس جذبہ کو بدرجہ اُتم عورت میں ودیعت کیا جس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ایک خاندان کو بنانے اور اسے مستحکم رکھنے میں عورت کا کردار کلیدی ہے جو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کی تخلیق کی ابتدا حضرت آدم علیہ اسلام سے فرمائی اور حضرت آدم علیہ السلام سے ہی حضرت حواؑ کو پیدا کیا۔ گویا مرد اور عورت دونوں ایک ہی جنس سے پیدا کئے گئے۔ یہ ممکن تھا کہ اللہ تعالی ایک ہی وقت میں بہت سارے مرد اور بہت ساری عورتیں پیدا کر دیتا اور ان سے بیک وقت نسل انسانی کا سلسلہ چل نکلتا مگر ایک ہی وجود سے نسل انسانی کو وجود اور حیات بخش کر قدرت نے ایک طرف بنی نوع انسان کو ایک خاندان کا تصور دے دیا اور ان میں ایک نسبی تعلق پیدا کر دیا جس کو جذبہ رحم سے جوڑ دیا

اسلامی معاشرے میں خاندان کی ابتدا مرد اور عورت کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے ہوتی ہے جو دراصل خاندان کے قیام کا پہلا تقاضا ہے اسی لئے اسلامی تہذیب اور تعلیمات میں نکاح کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم ﷺ نےسادگی کے ساتھ نکاح کی تاکید فرماتے ہوئے نکاح کے لئے یہ معیار دیا کہ ’’عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ اس کا مال، حسب، نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تمہیں چاہئے کہ تم دیندار عورت کو حاصل کرو‘‘۔

(بخاری، حدیث :5090)

اور ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’تمہارے یہاں کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے اپنے جگر گو شے کی شادی کردو اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے گا۔ ‘‘

(ترمذی، حدیث:1086)۔

ان احکامات سے اسلامی تعلیمات میں خاندان کے قیام اور استحکام کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ ایک خاندان میں وہ سارے نظام موجود ہوتے ہیں جو سوسائٹی میں بڑی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں مثال کے طور پہ معاشی نظام،تعلیمی نظام، سماجی نظام، داخلی و خارجی نظام۔ خاندان میں محدود شکل میں نظر آنے والے یہ سارے نظام سوسائٹی میں انکی شکل وسیع پیمانے پر ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اگر معاشرے کی اس اکائی کا نظام درست ہو گا تو اس کا اثر پورے معاشرے پر ہوگا۔

یہاں تک یہ امر تو واضح ہو گیا کہ خاندانی نظام کی اہمیت قطعی ہے مگر موجودہ حالات کے تناظر میں ایک خاندان کے قیام اور استحکام میں عورت کی ذمہ داری صرف تربیت تک محدود نہیں رہی بلکہ آج کے دور کے تقاضوں کے پیشِ نظر عورت پر معاشی اور معاشرتی ذمہ داری پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ معاشی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی خاندان کی کفالت میں حصہ لے۔ جس کے لئے عورت کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے جس کے لئے اسے گھر سے باہر جا کر معاشرے میں تعلیم بھی حاصل کرنا ہو گی اور تعلیم کے ساتھ ملازمت یا کاروبار کے ذریعے اپنے خاندان اور معاشرے کی ترقی میں بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ گویا عورت کے کردار کا دائرہ کار گھر سے معاشرے تک پھیل گیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی کردار جو اب تک ایک اختیاری ذمہ داری تھی، اب ناگزیر ہوگیا ہے۔

مگر یہاں یہ بات واضح رہے کہ ان امور میں اضافے سے عورت اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہو گئی بلکہ پہلے سے زیادہ پابند اور ذمہ دار ہو گئی ہے۔

تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور بڑھتی ذمہ داریوں نے جہاں عورت کے کردار کو بدل دیا ہے وہی عورت بہت سارے مسائل سے بھی دو چار ہو رہی ہے۔ اگرچہ موجودہ حالات تبدیلی کے متقاضی ہیں مگر معاشرہ ہو یا خاندان عورت کو آج بھی انہی پرانی روایات پر پرکھا جاتا ہے جو اس دور سے پہلے رائج تھیں۔ آج جب عورت تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے تو خاندان اور معاشرہ اس کو وہ آسانی اور سہولت نہیں دیتا جو اس کا حق ہے اور ساتھ ہی اس سے یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ وہ اولاد کی تربیت اور خاندان کی ذمہ داری آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق کرے۔ اس اخلاقی تضاد کی وجہ سے معاشرے میں ایک خلا پیدا ہو رہا ہے جو نہ صرف انفرادی سطح پر مرد وعورت کے تعلق کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اس سے ہمارا خاندانی نظام بھی عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔

ان سارے حالات میں عورت کی طرف سے ایک شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے جو دو شدت پسند طبقہ ہائے فکر کو جنم دے رہا ہے۔ ایک طبقہ عورت مارچ کی شکل میں ایک بالکل آزاد عورت کے تصور کا پرچار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور دوسرا طبقہ عورت کو یکسر چار دیواری تک محدود کرنے کا قائل ہو رہا ہے۔ ان سب مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عورت عدم تخفظ کا شکار ہو رہی ہے اور اس سے ہماری آنے والی نسلیں براہ راست متاثر ہو رہی ہیں۔ لہذا اس کے نتیجے میں ہمارا خاندانی اور معاشرتی نظام شدید بگاڑ سے دو چار ہو سکتا ہے۔ جس کی واضح مثال مغربی معاشرہ ہے جہاں خاندانی نظام زوال پذیر ہو چکا ہے۔ “چائلڈ کراسسز” اور“اولڈ ہومز”، کی بڑھتی ہوئی تعداد اس کا عملی ثبوت ہے۔

ان سب حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ان مسائل کا تدارک کیسے ممکن ہے؟اس سے پہلے یہ بات غور طلب ہے کہ مغربی معاشرے میں اس بگاڑ کی وجوہات کیا تھیں؟ مغربی معاشرے نے عورت کو حقوق کے نام پر تخفظ دینے کی آڑ میں اسے اس کی ذمہ داریوں سے یکسر مستثنی قرار دے دیا۔ اور عورت نے ذمہ داریوں سے آزادی کو حقوق نسواں کا نام دے دیا۔ گویا اس سارے عمل میں خرابی عورت کے کردار کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی۔

اسلامی معاشرے میں خاندان کی ابتدا مرد اور عورت کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے ہوتی ہے جو دراصل خاندان کے قیام کا پہلا تقاضا ہے اسی لئے اسلامی تہذیب اور تعلیمات میں نکاح کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم ﷺ نےسادگی کے ساتھ نکاح کی تاکید فرماتے ہوئے نکاح کے لئے یہ معیار دیا کہ ’’عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ اس کا مال، حسب، نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تمہیں چاہئے کہ تم دیندار عورت کو حاصل کرو‘‘۔

(بخاری، حدیث :5090)

لہذا آج حالات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ عورت کے کردار کو سمجھا جائے، اسے وہ سارے وسائل اور مواقع بھی فراہم کیے جائیں جو اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھیں اور اسے اخلاقی اور عملی تعاون بھی فراہم کیا جائے تا کہ وہ اپنے تمام امور اور ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہو سکے۔ اور دوسری طرف عورت ترقی کی دوڑ میں اپنی اولین فریضہ کو قطعی نظر انداز نہ کرے۔ بلکہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کا خاندان اس کی توجہ کا مرکز و محور رہے۔ مرد عورت کے ساتھ گھریلو امور میں تعاون کرے اور عورت اس کے ساتھ معاشی ذمہ داریوں میں حصہ ڈالنے کی کوشش کرے جس سے خاندان مستحکم ہو گا اور ایک پر اعتماد، خوشحال اور محفوظ ماحول میں بچوں کی پرورش ہو گی جس سے نہ صرف خاندان بلکہ معاشرہ اچھی اقدار کا حامل ہو سکے گا۔