خوگرِ زہد و تقویٰ فرید ملت کا صبر و استقامت اورعطائے مقام مشہود

محمد شفقت اللہ قادری

خوگر زہد و تقویٰ

فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ صراط الذین انعمت علیهم کی معنوی اور مرادی تفسیر تھے وہاں اشد حبا للہ کی عملی اورمنطقی تفسیر بھی تھے۔ جس کی بابت قرآن عظیم فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ.

(البقرہ،2: 165)

’’جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

قارئین گرامی قدر! عبد مستجاب الدعوات! ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ اشد حبا للہ اور حبا رسول کو خشیت ایزدی اور زہد تقویٰ کی اساس سمجھتے تھے اور وہ ہمیشہ تقویٰ، پرہیزگاری اور پارسائی پر ثابت قدم رہے اور معصیت سے ہمیشہ باز رہے۔ یہی عوامل انہیں دیگر خدا کے مقربین میں ممتاز اورمعتبرکرتے ہیں۔ فرید ملتؒ ہمیشہ قرآن مجید کی اسی آیت ربانی کے مصداق رہے کہ

وَاَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا.

(المائدۃ،5: 92)

’’ اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت سے) بچتے رہو۔‘‘

قارئین گرامی قدر! مشاہدہ کریں تو عشق و جنوں فرید ملتؒ ہمیشہ معراج کی بلندیوں پر نظر آتا ہے۔ حقیقی معنوں میں فرید ملتؒ عشق حبیب کبریا اور عشق الہٰی کے خوگر عظیم تھے اور عشق رسالت مآب فرید ملت کی فطرت تاثیر تھا کیونکہ عشق حقیقی ھو یا لباس مجاز میں چھپا ہو، عاشق صادق کو اک خاص طلسماتی قوت میسر آتی ہے۔ گرامی قدر وہ عشق ہی تھا جس نے حضرت ابراہیمؑ کو آتش نمرود میں کودنے پر مجبور کردیا۔ یہ عشق ہی تھا جو یوسف علیہ السلام کو آزمائش کی گھڑی میں اندھے کنوئیں میں لے گیا۔ یہ عشق ہی تھا جس نے اسماعیل علیہ السلام کو آداب فرزندی بجا لاتے ہوئے اپنی معصوم گردن چھری کے نیچے رکھنے پر مجبور کردیا اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے عشق الہٰی کو محبت پدری اور شفقت پسری پر غالب کردیا۔ یہ عشق ہی تھا جو تجلی مولا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر لے گیا اور آپ کو ہمکلامی یزداں کی جرات دے دی، عشق کی ضرب اتنی کاری تھی کہ طور سرمہ ہوگیا۔

یہ عشق الہٰی اور عشق حبیب الہٰی ہی تھا کہ فرید ملت نے 1949ء حج کے موقع پر میں مقام ملتزم پر غلاف کعبہ پکڑ کر عالم مدہوشی میں اشک بار آنکھوں میں امید کی کرنیں سجائے اپنے رب عظیم سے التجا کی کہ مولا کریم مجھے ایسا فرزند عطاکر جو تیرا کامل بندہ اور تیرے حبیب کا سچا غلام بن کر تیرے مصطفی کے دین کا ڈنکا بجائے اور شرق تا غرب چھا جائے۔ اسی مقام پر میری روح سے ایک آواز بلند ہوئی جو آپ کی بصارتوں کی نظر

عالم جنوں میں سوختہ شمع رسالت اور عشق کا آتش فشاں
علم طاہر کے آئینہ مظہریت میں عکس تمام تھے فرید ملتؒ

سامعین گرامی قدر! جب فرید ملتؒ نے فنا فی الرسالت مآب میں اپنی ہستی گم کردی تو عشق کبریا کی نعمت عظمیٰ کو پالیا، تاہم علامہ محمد اقبالؒ کے نزدیک یہ عشق حقیقی کی پہلی منزل مراد ہے۔ عشق کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کے بعد روح کے سارے دریچے کھل جاتے ہیں۔ فاصلے قربتوں میں بدل جاتے ہیں۔

قارئین گرامی قدر! یاد رکھیں کہ آتش عشق کی پہلی چنگاری محبت ہے، محبت ایک ایسی مقناطیسی کشش ہے جو عاشق کو محبوب کی جانب کھینچتی ہے، جب محبت دھیرے دھیرے فروغ پاتی ہے تو طلبِ محبوب کے تصور کے راستہ میں گم ہوجاتی ہے، اس منزل پر شب روز خیال محبوب میں ۔۔۔۔۔ نصیب ۔۔۔۔۔ پھر نہ تن کا ہوش رہتا ہے اور نہ ہی من کا ہوش رہتا ہے، پھر عاشق درِ محبوب پر ہمہ وقت جھکا رہتا ہے اور اس کی ہستی میں اپنی ہستی گم کردیتا ہے۔ پھر اس کی گم گشتہ ہستی اپنی محبت کے اچھوتے کمال کو پہنچتی ہے۔ یہی جذبہ آشفتہ فلسفہ عشق بن کر فرید ملتؒ کی زیست پاک باز میں سرایت کرگیا۔

تصوف کی زبان میں فرید ملت نہ فقط صوفی باصفا تھے بلکہ صاحب کشف عبادالمقربین میں سے تھے۔ جن کی ولایت کے مختلف گوشے سرعام آشکار نہیں ہوتے۔

مانگ لیتے جب چاہتے خدائے منعم سے یقین کے ساتھ
سیرت و گفتار میں سادہ مگر بندگی میں تمام تھے فرید ملتؒ

کامل زہد و تقویٰ کے حامل ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو خالقِ کائنات نے چار خصوصی ہدایات ربانی سے نواز دیا تھا:

1۔ فطری ہدایت

2۔ حسی ہدایت

3۔ عقلی ہدایت

4۔ وجدانی ہدایت

یہی مذکورہ بالا ہدایات روحانی اولیائے کرام کا شعار اور خاصہ ہوا کرتی ہیں اور انہی ہدایات کے سبب فریدِ ملتؒ نے زہد و تقویٰ کی مرتضائی اور معراج کو چھوا۔

قارئین گرامی قدر! یاد رہے کہ زہد و تقویٰ کی کامل روح فقط صبرو استقامت میں ہے اور جب صبر و استقامت کے باعث زہد و تقویٰ اپنی معراج کو پہنچتا ہے تو بندۂ کامل حضورﷺ کے مقامِ محمود کے فیوضات اور برکات کے طفیل مقامِ مشہود کی نعمت سے سرفراز ہوجاتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرتا۔

صبر و استقامت فرید

صبر کے لغوی معنی ہیں روکنا، برداشت کرنا، ثابت قدم رہنا اور اصطلاحِ دین میں اللہ کریم کی رضا اور خوشنودی کے لیے تحمل و استقلال اور استقامت کی راہ پر چلنا صبر کہلاتا ہے۔ صبر کا لفظ قرآن مجید فرقان حمید میں 70 سے زائد مرتبہ آیا ہے۔ اپنے وقت کے جلیل القدر امامِ اعظم اور فقہی جناب امامِ غزالیؒ نے صبر کی بابت فرمایا ہے کہ خداوند قدوس کے نزدیک برے اعمال کا ترک کردینا ایک ایسا عمل ہے جس کا ثمر ایک خاص کیفیت کی صورت میں رونما ہوتا ہے اور اس بے مثل ثمر کا نام ہے۔ صبر جلیل القدر فقہائے امت نے صبر کی درج ذیل اقسام فرمائی ہیں:

1۔ صبر علی الطاعۃ

2۔ صبر عن المعصیۃ

3۔ صبر علی المصیبۃ

فریدِ ملتؒ قرآنی تصورِ صبر کے عملی نمونۂ کامل تھے وہ صبر جو انبیائے کرامf اور خاتم النبین جناب محمد مصطفیﷺ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ فریدِ ملتؒ نے سفر اور حضر میں حصولِ علم حدیث اور علم قرآن میں ہمیشہ بھوک اور پیاس کی صحبتیں برداشت کیں لیکن صبر و استقامت کا دامن قطعی نہ چھوڑا اور صبر علی الطاعۃ کے مظہر ٹھہرائے گئے۔ فرید ملتؒ آہ و فغانِ نیم شبی کے سبب حکم رحمن پر نفسِ امارہ اور شیطان کے سامنے آہنی چٹان بنے رہے۔ صغائر اور کبائر سے ہمیشہ رکے رہے اور خوفِ خدا کے باعث صراطِ مستقیم پر گامزن رہے ہمیشہ تقویٰ اختیار کیا اور صبر عن المعصیۃ کے مقام پر متمکن ہوئے۔

فریدِ ملت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے حصولِ نورِ علم دین کے لیے سن بلوغت سے پہلی ہی ہجرت کو دامن گیر کرلیا علم کی تشنگی پیاس پہلے آپؒ کو سیالکوٹ اور مابعد حیدر آباد دکن اور لکھنو اور دہلی تک لے گئی۔ صفائے قلبی، صبر و استقلال و تقویٰ اور جستجوئے علم نے آپؒ کے لیے کامیابیوں کے دروازے کھول دیئے، ذہین و فطین اور کہنہ مشق طالب علم کو کامل صاحب دانش اساتذہ کرام اور فقہاء اور محدثین عظام نے تلاش علم نافع میں کوشاں مسافر کو منزل عطاکی۔ اسی دوران فرید ملتؒ کو کڑی آزمائش، مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیشہ دورانِ فقری ریاضت، بھوک، پیاس اور مسلسل فاقے فریدِ ملتؒ کے ہم رکاب رہے مگر یادِ الہٰی اور صبر کا دامن نہ چھوڑا اور صبر علی المعصیبۃ کی منزل پر متمکن ہوئے۔ فریدِ ملتؒ جیسے جلیل القدر عبادت گزار متقی صالحِ اور صابر بندگانِ خدا کے لیے قرآن فرماتا ہے:

اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.

(البقرہ،2: 153)

’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

گزشتہ اوراق میں گزارش کرچکا ہوں کہ زہد و تقویٰ، پرہیزگاری اور عبادت گزاری مولا میں یکتا اور مقبولِ انام ہونے کے لیے صبر و استقامت کشتہ کیمیا ہے اور قربِ الہٰی اور قربِ رسالت مآب کا واحد ذریعہ بھی۔ فریدِ ملتؒ نے بھی زہد و تقویٰ میں صبر و استقامت کو بھی اپنا شعار اولین بنایا کیونکہ تقویٰ کی بابت قرآن ارشاد فرمارہا ہے:

وَاللهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ.

(البقرہ،2: 212)

’’وہ متقی جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا، قیامت کے دن سربلند ہوں گے۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔‘‘

موضوع امروز کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید براں عرض ہے:

فریدِ ملتؒ اور عطائے مقامِ مشہود

فریدِ ملتؒ کی بارگاهِ اقدس میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جو عنوان امروز ہے یعنی کہ فریدِ ملتؒ کا صبر و استقامت اور عطائے مقامِ مشہود جب ہدایت قرآنی اور اطاعت ربانی اور متابعت سنت مصطفوی پر عمل پیرا ہوکر اس کا مقرب بندہ صبر و استقامت کے باعث متقی بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں حضور اقدسﷺ کے مقام محمود کی طفیل اپنے فیوضات و برکات کی خیرات سے نواز دیتے ہیں اور انعام میں ’’مقامِ مشہود‘‘ عطا کردیتے ہیں۔ ارشاد قرآنی ہے:

اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ط اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُوْدًا.

(بنی اسرائیل،17: 78)

’’ آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بے شک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)۔‘‘

قارئین گرامی قدر! قرآن عظیم عبادالصالحین صابر، متقین اور اپنے مقرب بندوں کو مالا اعلیٰ کے ملائکہ کی مجلس نصیب ہونے کی نوید سنارہا ہے اور نماز فجر کے قرآن میں نیکو کاروں کے ہمراہ مقرب فرشتوں کی شمولیت یقینی سے آگاہی فرمارہا ہے۔ قارئین گرامی قدر! مطابق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ سے روایت کیا ہے امام احمد بن حنبلؒ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور امام محمد باقرؓ نے اور اس کے بابت تفسیری اور تفصیلی بحث تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، صیحات سیئہ میں کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

اولیائے کرام اور کاملین کی کرامتیں کھوجنے والو فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی زیست پاک باز کے اوراقِ فہمیدہ پلٹ کر دیکھیں تو بے مثل صبر و استقامت، تقویٰ و بردباری، عفو، درگزر، سادگی، رحم دلی، بے پناہ نظر آتی ہے۔ قارئین گرامی قدر تو پھر خدا ذوالجلال کا وعدہ کیوں نہ پورا ہو کہ قرآن کریم فرقان مجید فرمارہا ہے:

اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِحِسَابٍ.

(الزمر،39: 10)

’’ بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا۔‘‘

فریدِ ملتؒ کے آخری ایام سے پردہ اٹھائیں تو مردِ قلندرؒ رات کے اندھیرے میں سسکیوں اور آہ و فغانِ نیمِ شبی کے باعث خداوند قدوس کو استغفار کے ذریعے مناجات کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمہ وقت صبرو شکر و توکل و قناعت تھا شیوہ ان کا
ساجدِ نیم شبی اور سراپائے جود و سخا تھے فرید ملتؒ

اگر حرمِ کعبہ میں دورانِ اعتکاف ماهِ رمضان میں نظر دوڑائیں تو فریدِ ملتؒ خلوتوں میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ رکوع و سجود سے رب ذوالجلال کو مناتے نظر آتے ہیں، جب کرم ہوتا ہے تو خانہ کعبہ شریف کی فضائیں ہیں رات کا نورانی پہر ہے سوئے ہوئے فریدالدینؒ کو آقائے دو جہاںﷺ جگاتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں۔ اٹھ فریدالدینؒ چند منٹوں کے بعد لیلۃ القدر کی کرم نوازیاں لوٹ لے۔ سبحان اللہ۔

ایسے ہی مردانِ حق قربِ الہٰی اور قربِ رسالت کے مستحق قرار دیئے جاتے ہیں۔ قرآن ارشاد فرماتا ہے:

اَلتَّـآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ.

(التوبۃ،9: 112)

’’ (یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوں سے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قرب الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے۔‘‘

قارئین گرامی قدر! آؤ فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو بندگی خدا کے آئینہ میں کامل ذاکرِ الہٰی اور ذاکرِ مصطفیﷺ ہونے کے باعث صاحبانِ مقامِ مشہود کی صفوں میں تلاش کریں کیونکہ آپ کی طبیعت میں خشیتِ ایزدی کے باعث رب تعالیٰ نے مندرجہ ذیل اوصاف ودیعت کردیئے ہوئے تھے۔

1۔ ذکرِ الہٰی اور تلاوتِ قرآن کے وقت ایسی رفعت اور خوف طاری ہوجاتا جیسے بارگاہ ایزدی میں حاضر ہیں اور کپکپی طاری ہوجاتی اور ہچکی سی بندھ جاتی، پوری زندگی قرآن اور سنت کے تابع گزاری۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلاَوَتِهٖ ط اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ.

(البقرہ،2: 121)

’’ (ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے، وہی لوگ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘

2۔ فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ ہمیشہ شب بیدار اور بارگاهِ ایزدی میں سجدہ ریز رہتے تھے عبادت میں خشوع و خضوع آپ کا خاصہ تھا۔ قرآن ارشاد فرماتا ہے۔

وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا.

(الفرقان،25: 64)

’’ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔‘‘

3۔ فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ خالق عظیم کے فضل و کرم الہٰیہ اور عشقِ حبیب کبریا اور لذتِ قرآن سے آشنائی کے باعث مقامِ مشہود پر فائز تھے۔ وہ مقامِ مشہود جس میں متقی اور عبادالمقربین فرشتوں کے ہم رکاب اور ہم مجلس ہوتے ہیں اور فیضیاب خیرات کشف الہٰیہ ہوتے ہیں، نہ صرف صاحبِ کرامت ہوتے رہیں بلکہ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں۔

4۔ فرید ملتؒ صاحب مقام مشہود ہونے کے باعث روئے صادقہ یعنی کہ سچے خوابوں کی بشارت سے بہرہ ور تھے۔ یاد رہے سچے خوب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوا کرتے ہیں۔ صحیح مسلم اور صحیح بخاری شریف کی حدیث شریف ہے۔

قال رسول اللہﷺ الرویا الصالحة خیر من ستة اربعین جز من النبوة.

یہ امر حقیقت ہے کہ مقام مشہود پر متمکن فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ جیسے عبدالصالح جس چیز کی طرف بھی متوجہ ہوجائیں اس کا علم کشفی فیوضات کی بدولت حاصل کرلیتے ہیں۔ حضور! فرید ملت کی مجاہدانہ زندگی میں سیکڑوں ایسے واقعات رونما ہوئے جو آپؒ کی کشفانہ زندگی کے عکاس ہیں۔ قلتِ وقت کے باعث تذکرہ نہ ممکن ہے۔ ایسے بندگانِ صاحب مقام مشہود کے لیے امام بیضاویؒ نے تین درجے بیان کیے ہیں۔

اول درجہ: متقی اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور توحید خاص درجہ اولیٰ اختیار کرتے ہیں کیونکہ وہ کامل ایمان والے ہوتے ہیں۔

دوم درجہ: متقی کا درجہ کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے ہمیشہ بچتے ہیں۔

درجہ سوم اعلیٰ درجہ: وہ ہر اس چیز سے بچنا پسند کرتے ہیں اور لاتعلق رہتے ہیں جو انھیں یاد الہٰی سے غافل کردے۔

قارئین گرامی قدر! فرید ملت امام بیضاویؒ کے بیان کردہ تینوں درجوں کے مظہر تھے۔ ائے قرآنی اصولوں اور متابعت مصطفویﷺ میں سادہ مگر پُر تمکنت زندگی گزارنے والے عبدِ صالح تو نے امت محمدیہ اور تحریک منہاج القرآن پر عطوفت اور بڑا احسان عظیم کیا ہے۔ نابغہ عصر مجددِ رواں صدی مجتہد اعظم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ جیسا عظیم المرتبت سپوت عطا کیا ہے، مرد حق تیری اس کرامت کو سلام۔ دعا گو ہیں کہ آپؒ اپنے فیوضات مشہودیہ سے روحانی طور بارگاهِ ایزدی میں ملتمس ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اس گوہر نایاب کی قدر شناسی ودیعت فرمادیں۔