گزشتہ سے پیوشتہ : قسط دوم
اچانک ان میں سے ایک بوڑھا اٹھا سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہنے لگا دیکھو ہم سب اس جھگڑے کا فیصلہ کسی سے کروالیتے ہیں۔ کسی کو ثالث بنالیتے ہیں لیکن کیسے؟ مجمع میں سے کئی آوازیں ابھریں، ایسا کرتے ہیں کہ ہم انتظار کرتے ہیں، حرم کے اندر جو آدمی سب سے پہلے داخل ہوگا اس کا فیصلہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ سب راضی ہوگئے۔ سب نے دیکھا کہ ایک روشن پیشانی والا نہایت خوبصورت جوان بڑی متانت سے چلتا کعبہ میں داخل ہوا۔ ایک شور اٹھا، لو امین آگئے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے، ہمیں ان کا فیصلہ منظور ہے۔ یہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بابا تھے۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بابا نے اس مسئلہ کا انوکھا حل تجویز کیا۔ انہوں نے ایک چادر منگوائی اور اس میں اس سیاہ پتھر کو رکھ دیا۔ پھر سارے قبائل کے سرداروں کو دعوت دی کہ اس کا ایک ایک کونہ پکڑ لیں چنانچہ سب نے اس چادر کو اٹھالیا اور کعبہ تک لے گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر سے پتھر اٹھایا اور اسے اس کے مقام پر نصب کردیا اور یوں سب قبائل کو ایک بڑی خونریزی سے بچالیا۔ اس واقعہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بابا کی عزت و تکریم میں مزید اضافہ کردیا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا جانتی تھیں کہ ان کے بابا کی اتنی عزت کرنے والے لوگ ان کی جان کے دشمن کیوں ہوگئے ہیں۔ انہیں یاد تھا کہ جب وہ چھوٹی سی تھیں تو ان کے بابا اچانک کہیں چلے جاتے اور پھر کئی کئی روز تک گھر واپس نہ آتے۔ یہ دن ان کے لئے بڑے تکلیف دہ ہوتے۔ وہ بے چینی سے ان کی واپسی کا انتظار کرتیں۔ وہ بار بار ماں سے پوچھتیں میرے بابا کہاں گئے ہیں؟ وہ کب واپس آئیں گے؟ ماں انہیں پیار سے گود میں لے لیتیں اور سمجھاتیں کہ آپ کے بابا سے خالق کائنات نے ایک بہت عظیم کام لینا ہے۔ آپ کے بابا کو تنہائی اور سکون کی ضرورت ہے۔ اس لئے وہ گھر سے دور گئے ہیں۔ وہ جلد ہی واپس آجائیں گے۔ وہ کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتیں۔ اور جب ان کے بابا واپس آتے تو وہ دوڑ کے ان سے لپٹ جاتیں، بابا انہیں اٹھا لیتے، پیار کرتے، جب تک وہ گھر رہتے خوشی سے ان کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے، مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوتی، بابا جلد واپس چلے جاتے۔
پھر ایک دن بابا گھر آئے تو کچھ بدلے بدلے سے تھے، انہوں نے نہ تو ہمیشہ کی طرح فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پیار کیا، نہ ان کی بہنوں سے کوئی بات کی۔ وہ کانپ رہے تھے، بس ان کی ماں سے اتنا کہا، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ ماں نے انہیں کمبل اوڑھا دیا اور فکر مندی سے ان کے پاس بیٹھ گئیں۔ بابا کی حالت اور ماں کی فکر مندی دیکھ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ننھا دل پریشان ہوگیا۔
خیریت تو ہے، آپ کہاں تھے؟ میں نے کئی آدمی آپ کی تلاش میں بھیجے ہوئے تھے۔ ماں نے فکر مندی سے پوچھا۔ تو بابا نے بتایا کہ وہ حسب معمول غار حرا میں مصروف عبادت تھے کہ اچانک انہوں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھئے۔ انہوں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک روشن صورت ان کے سامنے ہے جس کے ماتھے پر روشنی سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمات درج تھے۔ پھر اس نورانی صورت والے نے ان سے کہا پڑھئے : انہوں نے جواب دیا کہ وہ پڑھنا نہیں جانتے۔ یہ جواب سن کر اس اجنبی نے انہیں گلے سے لگا کر دبایا اور کہا ’’(اے حبیب) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے) ہوئے پڑھئے، جس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحم مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا فرمایا۔ پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے لکھنے پڑھنے کا علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔
یہ کلمات خود بخود ان کی زبان پر بھی جاری ہوگئے۔ پھر پانی کا چشمہ جاری ہوا۔ اس پانی سے اس نے وضو کیا پھر انہیں وضو کرایا، پھر دونوں نے مل کر عبادت کی۔ اس کے بعد وہ چلا گیا۔ ماں نے بڑے سکون سے بابا کی بات سنی اور بولیں : ’’آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کا خیال رکھتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں، رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ امانت دار ہیں، دکھیوں کے خبر گیر ہیں۔ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا‘‘۔
ماں کے تسلی آمیز الفاظ سن کر بابا کی کپکپاہٹ ختم ہوگئی اور وہ پرسکون ہوگئے، پھر ماں نے بڑی سی چادر اوڑھی اور بابا کو ساتھ لے کر گھر سے باہر چلی گئیں، ننھی فاطمہ رضی اللہ عنھا سب دیکھ رہی تھیں، ان کے معصوم ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے، ہلکی سی آہٹ پر بھی نظریں دروازے کی طرف اٹھ جاتیں۔ انتظار کی کیفیت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے، کچھ دیر بعد ماں اور بابا لوٹ آئے۔ اب بابا کی گھبراہٹ والی کیفیت ختم ہوگئی تھی۔ تاہم وہ کسی گہری سوچ میں تھے، ماں کے چہرے سے بھی فکر مندی کے آثار غائب ہوگئے تھے اور وہ مطمئن نظر آرہی تھیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا جلدی سے ماں کے پاس گئیں اور پوچھنے لگیں آپ کہاں گئی تھیں، بابا کو کیا ہوا ہے؟ وہ ٹھیک تو ہیں۔ اتنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بہن ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور رقیہ رضی اللہ عنہا بھی ماں کے پاس آگئیں۔ وہ بھی بابا کے لئے فکر مند تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بیٹیوں کی باپ سے اتنی محبت دیکھی تو مسکرا دیں : پھر ننھی فاطمہ کو گود میں لیتے ہوئے بولیں : ہم نے آپ کو بتایا تھا نا کہ آپ کے بابا جان کو ان کے پروردگار نے ایک بہت عظیم اور اہم کام کے لئے چنا ہے۔ بس اب اللہ نے وہ ذمہ داری آپ کے بابا کے سپرد کردی ہے۔ پھر ان کی بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں : میں اور آپ کے بابا آپ کے ماموں ورقہ بن نوفل کے پاس گئے تھے۔ آپ جانتی ہیں کہ وہ الہامی کتابوں کے بڑے عالم ہیں : ہم نے آپ کے بابا کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ان کو سنائے ہیں۔ وہ سانس لینے کو رکیں۔ پھر انہوں نے کیا کہا؟ بچیاں ان کا جواب سننے کو بے چین تھیں۔
انہوں نے کہا ہے : ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم ہے رب ذوالجلال کی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو غار میں آپ کے پاس آئے تھے وہ اللہ کے فرشتہ جبریل علیہ السلام ہیں۔ اے کاش! میں اس زمانے تک زندہ رہتا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی۔ اس وقت میں آپ کی مدد کرتا‘‘۔
کیا لوگ بابا کو مکہ سے نکال دیں گے؟ بچیاں فکر مند ہوگئیں۔
ہاں بیٹا! آپ کے بابا نے بھی ورقہ بھائی سے یہی سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا : ’’ہاں، جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا۔ جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہوجاتی ہے۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھرپور مدد کروں گا‘‘ لیکن بچو آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بابا کے ساتھ ہے۔ وہ انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ پھر ماں نے انہیں گھر میں ہونے والے واقعات پر رازداری کی تلقین کی۔ (جاری ہے)