بحمد اللہ تعالی گزشتہ دروس سلوک وتصوف میں ہم عالمین آفاق وانفس کے ساتھ سب سے اعلیٰ اور احسن سلوک کرنے والی ذات بے ہمتا و بے مثال خالقِ ہر دوسرا کے امر’’ کن‘‘ اور عمل ’’فَیَکُون‘‘ بارے میں یہ نکتہ بیان کر چکے ہیں کہ جب ذات باری تعالی نے اپنے اظہار کا ارادہ فرمایا تو اپنی معرفت کے لئے سب سے پہلے اصلِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو خلق فرمایا۔ تمام توانائیوں، قوتوں اور طاقتوں کے خالق حقیقت الحقائق نے کہ فہم انسان جس کی قوتوں کے ادراک سے قاصر ہے، مخلوقِ کائنات کے مصدر اور مرجع کی ابداع نور محمدی کی شکل میں فرمائی۔ اللہ تعالی جل شانہ کے خالق نور کے بعد مخلوق نور میں یہ سب سے اعلیٰ ترین ایک ایسا انتہائی طاقت اور توانائی والا منفرد اور بے مثال نور تھا کہ جس سے اللہ سبحانہ وتعالی نے تمام عالمین، آفاق اورانفس کوتخلیق فرمایا، لہذا کائنات میں اولاً مخلوق بھی جو اس کے نور سے بنی وہ بے پناہ قوت، طاقت اور توانائی سے معمور تھی، کائنات کے کھربوں کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں میں ایک بہت ہی چھوٹے ستارے شمس کے مرکز میں ایک کروڑ پچاس لاکھ درجہ سنٹی گریڈ کی آگ ساڑھے چار ارب سال سے دہک رہی ہے، جبکہ اس کی سطح کی آگ کا درجہ حرارت پانچ ہزار پانچ سو سنٹی گریڈ ہے، ربِّ محمد جل شانہ نے کائنات کے مرکز زمین سے اس کا فاصلہ پندرہ کروڑ کلومیٹر رکھا، تاکہ انسان کے لئے بننے والا مسکن، کرئہ ارضی اس کی بے پناہ حرارت سے محفوظ رہے، عظیم کائنات فلکی میں سورج ایک چھوٹا سا ستارہ ہے جو دنیا کے نظام شمسی کا مرکز ہے، کائنات کی تمام مخلوق نور محمدی سے تخلیق کی گئی اور، بفحوائے قرآنی اس میں ہر لمحے مزید وسعتیں ہو رہی ہیں اور نئے نئے جہان معرض وجود میں آ رہے ہیں۔
(سورہ الذاریات، 51 : 47۔ 48)
نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالی جل شانہ کی پیدا کردہ عالمین آفاق اور انفس کی تعداد کتنی ہے، سوائے اللہ تعالی جل شانہ اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ امر مخلوقات میں سے کسی کو معلوم نہیں، کیونکہ معاملہ اس وقت کا ہے جب ملائکہ و جنات کا وجود تھا اور نہ انسان کا، ایک نور محمدی تھا، جس کو حقیقت الحقائق نے اپنی معرفت کے لئے خلق فرمایا اور اس شاہکار تخلیق اول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت کے لئے آفاق وانفس کی بساط سجانے کا اہتمام کیاگیا، کائنات کے ظاہر وباطن میں جو کچھ موجود ہے، وہ آفاق ہے اور نفس انسانی بشمول اپنے ظاہر وباطن کے انفس ہے، اللہ تعالیٰ نے سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر 53 میں مومنین کو انفس وآفاق کہ جو اللہ سبحانہ وتعالی کی نشانیوں کے محل ومنظرہیں، کی سیراجمالی وتفصیلی کی خوشخبری دی ہے، ان کاملاحظہ ومطالعہ بطریق کشف وشہود بشرط ایمانی سیر سلوک الٰہی اور معرفت الٰہی کا وسیلہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی ہی مومن کو اس کی توفیق ارزانی فرماتاہے، جس کسی نے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کی اور جو بوجہ غفلت معرفت الٰہی کے اس مرتبہ پر پہنچنے سے قاصر رہا، وہ ناکام اور مثل حیوان عقل وشعور سے بے بہرہ رہا۔
مخلوق کے ساتھ سب سے احسن اور اعلیٰ سلوک اللہ تعالی جل شانہ کا ہے کہ و ہی ان کا خالق ہے اور ’’جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے اور بے شک اللہ بے نیاز اور قابل ستائش ہے۔‘‘ (الحج، 22 : 64)
آفاق وانفس کو بھی اپنے خالق کی قوت خالقیت اور حاکمیت کا علم ہے، لہذا وہ اللہ تعالی کی رضا کے عین مطابق اس کی اطاعت میں مصروف عمل اور اس کی تسبیح وتہلیل میں مصروف کھرب ہا سالوں سے مصروف عبادت ہیں، اور ان کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی مکمل بندگی میں گزرتا ہے، اللہ تعالی جل شانہ نے اپنی ہر مخلوق کو دیگر مخلوقات کے ساتھ نیک سلوک کے لئے پیدا فرمایا ہے، لہذا اللہ کی ہر مخلوق ایک دوسرے کے ساتھ ’’نیک سلوک‘‘ کرنے کی پابند ہے، کسی کو اپنی حد سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں، آفاق کی ہر شئے اپنی اپنی متعین راہ پر گامزن ہے کہ یہی رضائے الٰہی ہے اور تمام عالمین اس وقت تک اپنا فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے، جب تک ان کو اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے ایسا کرنے کی مہلت ملتی رہے گی۔
تمام عالمین زندہ ہیں، اللہ کے حکم سے جیتے اور اسی کے حکم سے اپنے معین وقت پر فنا ہو جاتے ہیں، تمام عالمین میں سے اللہ تعالی جل شانہ نے کائنات کے مرکز دنیا (Planet Earth) کو اصلِ انسان کے نوری وجود سے پیدا ہونے والی مخلوق بنی نوع انسان کے لئے ایک خاص ماحول کے ساتھ بنایا، اور اسے مثل جنت بنایاہے۔ آج سے تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے زمین (دنیا) کو بنایا گیا، چونکہ اس پر انسان کا بسانا مقصود ربیّ تھا، لہذا نور محمدی کی تقسیم درتقسیم سے جو کائناتیں اور اربوں کھربوں کہکشائیں وجود میں آئیں، ان کو دنیا سے ایسے خاص فاصلہ پر رکھا گیا، کہ ان کے اندر موجود بے پناہ توانائی، قوت، طاقت اور حرارت اور رفتارسے دنیا کوکسی قسم کا گزند نہ پہنچے۔
یہ ذہن نشین رہے کہ کائنات (COSMOS) کے بارے میں ماہرین علوم کونیات وارضیات کے دونظریاتی گروہ ہیں، ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ کائنات ایک مادّہ ہے، جو ابدی اور ازلی ہے، اسے کوئی فنا نہیں، اور اس کی تعمیر ماحول، اتفاقات، اشتعال، کشش اور انشقاق وافتراق کی وجہ سے ہوئی۔ مادہ آگ کے سرخ گولے کی شکل میں ابتدا سے موجود تھا جب اس کادرجہ حرارت ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا، تو وہ پھٹ گیا اور اس کے ٹکڑے ہوگئے، جنہوں نے کلسٹرز، کہکشاؤں، نیبولوں، ستاروں اور سیاروں کی شکل اختیارکی۔ انفس کے بارے میں بھی ان کا خیال ہے کہ وہ بھی اتفاق سے ظہور میں آیا، کچھ مادی عناصر نے باہم مل کر زندگی کو جنم دیا، اور جس وقت ان عناصر کا باہمی ربط ٹوٹ جاتا ہے تو زندگی فنا ہو جاتی ہے۔
دوسرے مکتبہ فکر کا نظریہ یہ ہے کہ مادہ بذاتہ کوئی الگ وجود نہیں ہے، اور نہ ہی یہ اتفاقاً پیدا ہوا ہے، بلکہ اس کو بنایا گیا ہے اور اس کی تخلیق ایک خاص مقصد (Objective) کے تحت ہوئی ہے، کائنات (COSMOS) کو بھی مادہ ہی سے تخلیق کیاگیا ہے اور اس کا خالق اللہ جل شانہ ہے۔ کائنات مختلف اقسام کی مخلوقات کا مجموعہ ہے، آفاق میں موجود ہر کہکشاں، ستارے اور سیارے کا اپنا الگ الگ ماحول اور طرززندگی ہے، کہکشاؤں کے اپنے خاندان ہیں، اور ہر خاندان کادوسرے کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق اور سلوک ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے خاص فاصلہ پررکھا گیا ہے، یہ الوہی اہتمام زندگی کی بقا کیلئے کیاگیاہے۔ سورج کے اردگرد گھومنے واے نوسیاروں کا اپنا ماحول ہے، مثلاً عطارد (Mercury) جو سورج کے سب سے زیادہ نزدیک سیارہ ہے، اس کافاصلہ سورج سے 6 کروڑ کلومیٹر ہے اور اس کا اوسط درجہ حرارت 430 سنٹی گریڈ ہے، یہ بہت گرم سیارہ ہے اور اس پر کوئی ہوا نہیں ہے۔ اس کا قطر 5000 کلومیٹر ہے۔ سورج سے دوسرا قریب سیارہ زہرہ (Venus) ہے یہ زمین سے بھی سب سے زیادہ قریب ہے، اس کی پتھریلی سطح پر گندھک کے تیزاب (Sulfuric Acid) کی بہت موٹی تہہ ہے اور فضا پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہے، لہذا اس کا درجہ حرارت عطارد سے بھی زیادہ 470 درجہ سنٹی گریڈ ہے، اس کا فاصلہ سورج سے گیارہ کروڑ کلومیٹر اور قطر 12000 کلومیٹر ہے۔
زمین (Planet Earth) سورج سے فاصلے میں تیسرے نمبر پر ہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے جس طرح اپنی قدرت کاملہ سے دنیائے انفس میں انسان کو احسن المخلوقات بنایا، اس طرح اس کے رہنے کیلئے زمین کو بھی انسانی، حیوانی اور نباتاتی حیات کے لئے بہت موزوں اور سازگار صورت میں مثل جنت بنایا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اسی کو تو آرامگاہ نبوی کی سعادت اور عظمت ملنے والی تھی، زمین کا فاصلہ سورج سے 15 کروڑ کلومیٹراور قطر 12756 کلومیٹر ہے، دنیا کے مختلف حصوں پر درجہ حرارت کی ایک عجیب وغریب تقسیم ہوئی ہے، جو بذاتہ اللہ سبحانہ وتعالی کی قدرت کاملہ کا شاہکار ہے، زمین کا اوسط درجہ حرارت بہرحال 20 درجہ سنٹی گریڈ ہے، کرہء ارض پر ان شاء اللہ ایک الگ باب میں درس دیاجائے گا کیونکہ ’’سلوک و تصوف‘‘ کی دنیا میں انسان اور دیگر مخلوقات کے ساتھ ساتھ ’’دنیا‘‘ کا بھی بہت بڑا کردار ہے، اور اسی دنیا میں رہتے ہوئے انسان نے اپنے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی، تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، رسولوں، پیغمبروں، اولیاء، کائنات، دنیائے ارضی اور دنیا پر بسنے والی دیگر مخلوقات اور اپنے سلوک وتصوف کا موازنہ کر کے اصلاح احوال، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کرنا ہوتا ہے۔
سورج سے فاصلہ کے لحاظ سے مریخ (Mars) جو سرخ سیارے کے نام سے مشہور ہے چوتھے درجے پر ہے، اس کافاصلہ سورج سے 23 کروڑ کلومیٹر اور قطر 7000 کلومیٹر ہے، یہ سرخ چٹانوں کا ایک بہت بڑا صحرا ہے، اس کی فضا میں معمولی سی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔ اس کا اوسط درجہ حرارت منفی 20 درجہ سنٹی گریڈ رہتا ہے۔
سیاروں میں سب سے بڑا مشتری (Jupiter) ہے۔ اس کی سطح ٹھوس نہیں ہے، یہ ہائیڈروجن، ہیلیم اور پانی کے بخارات میں لپٹا ایک بہت سرد سیارہ ہے اس کا اوسط درجہ حرات منفی 150 درجے سینٹی گریڈ ہے۔ اس کا فاصلہ سورج سے 78 کروڑ کلومیٹر اور قطر 140,000 کلومیٹر ہے، زحل (Saturn) بھی گیسوں کا ایک ایسا ہیبت ناک گولہ ہے جس کے اردگرد برفیلی چٹانوں کی اٹھارہ مہیب تہیں ہیں، اس کا فاصلہ سورج سے 1.4 ارب کلومیٹر ہے، اس کاقطر 1,20,000 کلومیٹر اور اوسط درجہ حرارت منفی 180 درجہ سینٹی گریڈ ہے۔
یورینس (Uranus) کافاصلہ سورج سے 2.9 ارب کلومیٹر اور اس کا قطر 52000 کلومیٹر ہے، یہ بھی ہائیڈروجن اور ہیلیم گیسوں کا ایک مہیب گولہ ہے، اس کا اوسط درجہ حرارت منفی 210 درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ نیپٹون (Naptune) بھی گیسوں کا ایک عظیم گولہ ہے، اس کا رنگ گہرا نیلا ہے، اس کا فاصلہ سورج سے 4.5 ارب کلومیٹر ہے اور اس کاقطر 50,000 کلومیٹر ہے، اس کا اوسط درجہ حرارت منفی 220 درجہ سینٹی گریڈ ہوتاہے۔
پلوٹو (Pluto) نظام شمسی کا سب سے چھوٹا سیارہ ہے، یہ مٹی اور چٹانوں سے بناہے، اس کی سطح پر میتھین گیس کی ہلکی سی تہہ موجود ہے، سورج سے اس کا فاصلہ 6 ارب کلومیٹر ہے، لہذا یہ سب سے زیادہ سرد اور تاریک سیارہ ہے، اس کا اوسط درجہ حرارت منفی 230 درجہ سنٹی گریڈ ہے، اس کا قطر 3000 کلومیٹر ہے۔ سورج (Sun) ہماری دودھیا کہکشاں (Milky way Galaxy) میں موجود شمسی نظام کا مرکزی ستارہ ہے، زمین کے ماحول پر اس کا بہت گہرا اثر ہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے اس عظیم آتشی کرہ کو بنی نوع انسان کے لئے مسخر کر کے اس کے ذمے کئی طرح کے فرائض لگائے ہیں، یہ دنیا انسان اور زمین پر بسنے والی دیگر مخلوقات کے ساتھ ان کی زندگی کے حوالے سے ایک خاص ’’سلوک‘‘ کرنے پر مامور ہے، قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اس سیارے کا ذکر آیا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے اپنی نشانیوں میں ایک نشانی قرار دیا ہے، اس کی عمر زمین کی طرح تقریباً 4.6 ارب سال ہے، اس کا قطر 1,39,200 کلومیٹر ہے، جو زمین کے قطر سے 109 گنا بڑا ہے، اس کا حجم زمین سے 13,00,000 گنا اور وزن 3,33,000 گنا زیادہ ہے، اس کا فاصلہ زمین سے 15 کروڑ کلومیٹر ہے، زمین تک اس کی روشنی کا سفر 8 منٹ اور 20 سیکنڈ میں طے ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس آفتاب کو ہم طلوع ہوتے وقت دیکھتے ہیں، وہ درحقیقت 8 منٹ 20 سیکنڈ پہلے طلوع ہو چکا ہوتا ہے، کرشمہ قدرت ملاحظہ ہو، کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی رفتار اپنے محور کے گرد ایک سیکنڈ میں دو لاکھ 99 ہزار سات سو بانوے کلومیٹر رکھی ہے، اس کے مرکز کا درجہ حرارت ایک کروڑ پچاس لاکھ اور سطح کا درجہ حرارت پانچ ہزار پانچ سو سنٹی گریڈ ہے۔
کائنات کا نظام ایک مکمل عقلی اور شعوری منتظمیت کے تحت قائم کیا گیا ہے، اس میں مطلق زمان ومکان کا تصور نہیں ہے، کیونکہ کائنات فقط مخلوق ہے اور خالق کی مرضی ومنشاء کے مطابق سلوک کی منازل طے کر رہی ہے، یہ ادنیٰ منازل سے اعلیٰ منازل کی طرف محو سفر ہے، سلوک میں جو شئے زیادہ سے زیادہ صاف ہوتی چلی جائے وہی متصوف ہونے کادرجہ و مرتبہ حاصل کرتی ہے، تصوف میں بتدریج ترقی سے اعلیٰ ترعقل وشعور حاصل ہوتا ہے، جس سے معرفت کا نور حاصل ہوتا ہے اس نور سے نور محمدی کاتجلی دیکھا جا سکتا ہے، مجاہدہ اور ریاضت سے خاکی وجود لطیف سے لطیف تر ہوتا چلاجاتاہے، اور روح کی نورانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان اللہ تعالی جل شانہ کی تمام مخلوقات میں ایک اعلیٰ مخلوق ہے، اور وہ مادی جسم، قلب، نفس اور روح کا مرکب ہے، جسم، قلب اور نفس کو فنا ہے لیکن روح فانی نہیں ہے، کیونکہ وہ امر ربیّ ہے۔
کائنات اور انسان کی پیدائش کو ایک خاص مقصد کے تحت نہ ہونے کے نظریہ کو ماننے والے مادہ پرست افراد (Materialists) کائنات اور انسان کی تخلیق کوتو مادہ کی ازخو دتعمیر اور اس کا تدریجی ارتقاء قرار دیتے ہیں، لیکن وہ اس کی تصریح کرنے سے قاصر ہیں، ان کا خیال ہے کہ کائنات مادہ کے ایک بہت بڑے گولے کی صور ت میں ابتدا سے موجود تھی، جب اس کی اندرونی حرارت حد سے زیادہ بڑھ گئی تو وہ پھٹ پڑا (Big Bang Theory) اور جب اس کے منتشر آزاد نیوٹران اور دوسرے سخت جوہری سالمے (Atomic Molecules) ٹھنڈے ہوتے گئے تو ان سے کائنات میں موجود کہکشائیں، ستارے اور سیارے بن گئے، اسی طرح زمین بھی اتفاقاً بنی اور اس پر زندگی بھی خود بخود ظہور میں آئی، اور جس وقت کائنات میں موجود حرارت ختم ہو جائے گی، تووہ خود بخود ختم ہو جائے گی۔
جدید ذہن کے انسان کی بدنصیبی ہے کہ علم وفن کے بے پناہ ذرائع، اسباب ووسائل رکھنے کے باوجود، وہ مادہ پرست مفکرین اور فلاسفہ کی غلط توجیہات اور تشریحات کی وجہ سے ابھی تک نور اور مادہ کی خالق ہستی کی معرفت سے قاصر رہا ہے، اس طرح نہ وہ مادہ کی حقیقت کو پوری طرح سمجھ سکا اور نہ ان شکوک وشبہات سے چھٹکارا حاصل کر سکا، جو سائنس کی روزافزوں ترقی، تجربات اور مشاہدات سے تسلسل سے اس کے نظریات کو باطل ثابت کر رہے ہیں، اعلیٰ سائنسی تجربات اور مشاہدات کی وجہ سے جیسے جیسے انسان کے مطالعہ اور فکر میں وسعت پیداہو رہی ہے، اس کے خودساختہ قیاس پر مبنی نظریات اور مفروضے کمزور پڑ تے جا رہے ہیں، اور اس کی سوچ کی جہتیں حقیقت پسندانہ رخ اختیار کرتی جا رہی ہیں، وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیاہے کہ اس وقت جب کائنات کا نہ کوئی ماحول تھا اور نہ ہی کہکشاؤں، نیبولوں، ستاروں اور سیاروں کی یہ شکل صورت اور ہیئت تھی، کوئی جگہ، مکان اور زمان موجود نہیں تھا بس مادے اوردہکتی آگ کا ایک بہت بڑا گولہ تھا، تو آخر وہ بہت بڑا گولہ کس جگہ پڑا تھا، وہ کون سا مقام تھا، اور کون سا زمانہ تھا، لازم تھا کہ اس عظیم آتشی گولے کیلئے کوئی مکان ہوتا اور اگر مکان کا وجود نہ تھا تو پھر اسے کہیں معلق ہونا تھا، جبکہ خلا بھی نہ تھا، اور جتنا عرصہ وہ وہاں موجود رہا، تو کیا وہ عرصہ اس کا زمان، اور جہاں وہ رہا، وہ جگہ اس کا مکان نہ تھا، مادہ کیلئے تو لازماً مکان اور زمان کی ضرورت ہوتی ہے۔
1915ء میں یورپ کے مشہور سائنسدان آئن سٹائن نے نظریہ اضافت پیش کیا جس نے مادّے، توانائی، کشش، زمان اور مکان کے درمیان باہمی تعلق کی وضاحت کی، اور اسے ضروری قرار دیا، اس نے اپنے نظریے سے 1667ء سے علوم کونیات وارضیات کے ماہرین کے ذہنوں میں موجود نیوٹن کے کائنات کے ساکن اور غیر متغیر ہونے کے نظریئے کا رد کیا، لیکن تخلیق کائنات بارے آئن سٹائن کا نظریہ بھی صحیح حقیقت پر مبنی نہیں تھا کیونکہ چودہ صدی پہلے قرآن نے سورہ یاسین کی آیہ نمبر 36 کے ذریعے انسان کو کائنات کی ہمہ وقت حرکت اور اپنے آخری مستقر کی جانب محوسفر ہونے کے بارے میں مطلع فرمایا تھا۔ ’’وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ‘‘ (یٰسین، 38 : 36) قرآن کی متعدد آیات کریمہ میں کائنات کی تخلیق کی اصل حقیقت کے بارے میں بہت صراحت سے بتایاگیاہے۔
1953ء میں ایڈون ھبل نے سائنسی تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کیاکہ کائنات میں تغیروتبدل اور مسلسل وسعت پذیری کا عمل جاری ہے، ایڈون ھبل کی اس تحقیق کے بعد نظریہ فتق (Big Bang Theory) کی بنیاد پڑی، قرآن حکیم نے سورہ الانبیاء کی آیت نمبر 21 میں کائنات کے اس ابتدائی تخلیقی وحدت (Primary single Mass) کے بارے میں بھی مطلع فرمایا تھا کہ کائنات کے بالائی اور زیریں حصے (ارضین وسمٰوات) ابتداء میں ایک وحدت (UnitMass) کی شکل میں موجود تھے، اس عظیم الشان قوت اور توانائی کے نوری وجود کو جب تقسیم کیاگیا تو مادی کائنات کے مختلف حصے پیدا ہوئے اور اس میں مسلسل توسیع ہوتی چلی آر ہی ہے۔
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا.
(الانبياء، 21 : 30)
’’کیا اللہ کا انکار کرنے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ کائنات کے سماوی بالائی اور ارضی زیریں طبقات ایک دوسرے کے ساتھ ایک وحدت کی شکل میں باہم پیوست تھے، پھر ہم نے ان کو جدا جدا کر دیا۔‘‘
’’رتق‘‘ ملاپ یعنی وحدت (Unit) کو اور’’ فتق‘‘ علیحدہ ہونے کو کہتے ہیں۔ 1965 ء میں دو امریکی سائنسدانوں آرنوپینزیاس اور رابرٹ ولسن نے کائنات کی ابتداکے بارے میں خاص معلومات دیتے ہوئے کہا کہ ایک تخلیقی یونٹ (Minute Cosmic Egg) (رتق) جو کہ انتہائی غیر معمولی توانائی (Energy) والا ایک وجود تھا، کے پھٹنے (Explosion) یعنی (فتق) سے کائنات کا عمل تخلیق شروع ہوا اور اس کے نتیجے میں چار قوتوں یعنی کشش، برقیاتی مقناطیسیت، انتہائی طاقتور نیوکلیائی توانائی اور کمزور نیوکلیائی توانائی کے اخراج کا ذکر بھی پوری وضاحت سے کیا جس کے نتیجے یں کائنات کے زیریں اور بالائی حصے وجود میں آ کر ہر لمحہ وسعت پاتے ہیں۔ (جاری ہے )