ترتیب : نازیہ عبدالستار
دس روزہ اعتکاف میں کارکنان و ذمہ دران کی جملہ کاوشوں اور انتھک محنت پر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مورخہ 27 اکتوبر 2007ء کو مرکزی سیکرٹریٹ کے کانفرنس ہال میں صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کی زیر صدارت ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ پروگرام کا آغاز بوقت 8:00 بجے رات تلاوت کلام پاک اور بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیہ نعت سے ہوا۔ نقابت کے فرائض محترم عبدالرسول سندھو (نائب ناظم تنظیمات) نے سر انجام دیئے۔ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی (ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن)، محترم شیخ زائد فیاض (نائب ناظم اعلیٰ) اور محترم ساجد محمود بھٹی (ناظم یوتھ) نے شہر اعتکاف کو کامیاب بنانے میں دن رات محنت کرنے اور کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے پر مرکز اور فیلڈ کے جملہ سربراہان اور انکی ٹیم کو خصوصی مبارکباد پیش کی اور مشن مصطفوی کی اس عظیم خدمت پر انکے لئے خصوصی دعا فرمائی۔
سٹیج پر محترم پروفیسر محمد نواز ظفر، محترم علامہ سید فرحت حسین شاہ اور صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری بھی موجود تھے۔ محترم ناظم اعلیٰ نے اعتکاف کی کامیابی پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سال سترہ سالہ تاریخ کا سب سے بڑا اعتکاف تھا جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے ذریعے وہ منزل دور نہیں کہ جب مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہوگا محترم شیخ زاہد فیاض نے فرمایا اب اعتکاف حقیقتاً شہر اعتکاف بنتا جا رہا ہے۔ اور اب اس شہر کا ڈنکا ہر طرف بجے گا (ان شاء اللہ)، محترم ساجد محمود بھٹی نے فرمایا کہ جن نئے پروجیکٹس کا آغاز ہوا ہے ان کے ذریعے تحریک منہاج القرآن کی پذیرائی ہو رہی ہے۔ اس کے بعد دس روزہ اعتکاف کی ڈاکومنٹری، کیمرہ کی آنکھ میں 8 منٹ میں دکھائی گئی۔ جسے نظامت ابلاغیات نے نہایت خوبصورت انداز میں تیار کیا ہے اس کے بعد صدر مجلس محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے پر خصوصی خطاب فرمایا انہوں نے اعتکاف میں بھرپور محنت کرنے پر تمام سربراہان اور انکی ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا اور سب کے حوصلوں اور ولولوں میں اضافے و ترقی کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں دو نکات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اخلاق کیا ہے؟ اور اخلاق حسنہ کیا ہے؟ ان دونوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت اسکا تعلق خَلَقَ اور خُلُقْ کے درمیان ہے۔ خُلُقْ، انسان کا چلنا پھرنا، بات چیت کرنا، دوسروں کے ساتھ معاملات کرنا وغیرہ ہیں۔ زندگی کے یہ اعمال ’’اعمال خُلُقْ‘‘ کہلاتے ہیں۔ جبکہ خَلَقٌ کا تعلق تخلیق الٰہی سے ہے۔ خَلَق انسان کے ظاہری جسم کو بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی انسان کا ظاہر خَلَقَ اور باطن خُلُق ہے اور جس مقام پر ظاہر و باطن دونوں مل جائیں اور ایک ہو جائیں تو اخلاق حسنہ بن جاتا ہے (گویا ظاہر و باطن کی تطبیق کو اخلاق حسنہ کہتے ہیں)۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس کو اپنے اندر اتارنے کی ضرورت ہے اپنے اپنے اخلاق پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اخلاق کیا ہیں؟ ہم نے اپنے ظاہر کو تو خوبصورت کر لیا ہے اپنے قائد کی ظاہر شکل کو تو اپنا لیا ہے۔ انکی طرح چلنا پھرنا، پہننا اور بولنا تو سیکھ لیا ہے مگر خُلُقْ پر زور نہیں دیا جو ہمارے باطن میں پوشیدہ ہے اگر ہم اپنے باطن کو اپنے قائد جیسا نہیں بنائیں گے تو ہم دراصل ریاکاری کر رہے ہونگے۔ ایک سچے مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ظاہر و باطن میں ایک جیسا لگے وہ لوگوں کے سامنے بھی ویسا ہی نظر آئے جیسا اسکاباطن ہو۔ ہمیںبھی سچے مومن کی طرح اپنے خُلُقْ کو خُلُقْ حسنہ اور خَلَقَ کو خَلَقَ حسنہ کرنا ہے، ظاہر اور باطن دونوں کو سنوارنا ہے اور دونوں میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی اتباع کرنی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
اَللّٰهُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَاحْسِنْ خُلْقِیْ.
(بيهقی، شعب الايمان، 6 : 324، رقم : 8542)
’’اے اللہ جس طرح میرا ظاہر خوبصورت بنایا ہے اس طرح میرا باطن بھی حسین بنا دے۔‘‘
یہ امت کی تربیت کے لئے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مرتبہ عالیہ پر فائز ہو کر یہ دعا کرسکتے ہیں تو ہم کیوں بھول میں ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ تو کسی کا ظاہر و باطن حسین نہیں ہے لہذا ہمیں مرتے دم تک کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارے اخلاق کامل ہو جائیں اور ہمارا اخلاق حسین سے حسین تر ہوتا جائے اگر ظاہر، باطن سے مختلف نظر آتا ہے اسکو تبدیل کریں اور خیال رکھیں کہ کہیں یہ ڈھونگ ریا نہ بن جائے کیونکہ اللہ کو یہ بات بہت ناپسند ہے کہ جو ظاہراً ایسا بن کر دکھائے جو باطناً ویسا نہ ہو۔
اس لئے اپنے ظاہر و باطن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کامل طریقے سے رائج کرلیں، آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع کریں ظاہر و باطن میں مطابعت رکھیں جو اندر ہو وہی باہر نظر آئے۔ اگر دل میں کمی ہو تو اظہار بھی اتنا ہی کریں، اولیاء اللہ ریا سے بچتے تھے اگر انہیں کہیں سے یہ پتہ چل جاتا کہ انکے بارے میں کسی کے دل میں یہ خیال بھی گزرا ہے کہ وہ ظاہر میں ایسے ہیں تو جنگلوں میں نکل جاتے تھے اور بارگاہ الہٰیہ میں توبہ و استغفار میں کئی کئی دن اور راتیں گزار دیتے تھے۔ حضرت ابو علی ذقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اَلْاِنْسَانُ مَسْتُوْرٌ بِخَلْقِه وَمَشْهُوْدٌ بِخُلْقِه
’’جب انسان خاموش رہتا ہے تو اس کا باطن پردے میں رہتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو اس کا خُلق اس کی ذات کو ظاہر کردیتا ہے۔‘‘
گویا اگر خُلُقْ اچھا ہوگا تو ایک نہ ایک دن اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اس کا پردہ اٹھ جائے گا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں موجود ہے۔ ہمیں ان کی اتباع ظاہر و باطن میں کرنے میں محنت کرتے رہنا چاہیے جس طرح ہم اپنے اوڑھنے پہننے میں محنت کرتے ہیں اس طرح اخلاق کو سنوارنے پر محنت کرنی چاہیے۔
دوسرا نکتہ، جس کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے قائد کو دل سے مانتے ہیں تو ہمیں ان کی بصیرت پر بھی اعتماد ہونا چاہیے۔ جب قائد کارکنان کو مختلف عہدوں پر فائز کرتا ہے اور ان کی ذمہ داریاں سونپتے ہیں تو وہ جس کو جس عہدے پر چاہے بٹھا دیں جس کے اندر جو صلاحیت دیکھے اس کے مطابق ان کو ذمہ داری سونپ دے تو یہ ان کی بصیرت ہے۔ بعض دفعہ ہم اعتراض کرتے ہیں۔ کہ فلاں تو اس قابل نہ تھا اس کو یہ عہدہ مل گیا۔ تو اس صورت میں ہمارا اعتماد اپنے قائد کی بصیرت پر کامل نہیں جب اعتماد کرلیا جاتا ہے۔ تو پھر اس پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
قائد اس وقت مجدد بھی ہیں اور غوث بھی لہٰذا ان کی طرف سے کیا گیا ہر فیصلہ ان کی بصیرت کا نور ہے اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ قائد نے جن پر اعتماد کیا ہے جن کو جو ذمہ داری سونپی ہے۔ ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے قائد کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں اور اپنی اپنی جگہ پر خوب محنت کریں جس طرح اعتکاف میں سب ذمہ داروں نے قائد پر اعتماد کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سرانجام دیا۔
کیا ہم میں سے کوئی یہ چاہے گا کہ ہماری وجہ سے ہمارے قائد پر کوئی بات کرے؟ نہیں اس لیے ہم پر یہ لازم ہے کہ اس اعتماد کو قائم رکھیں اور اس قابل بن جائیں کہ یہ اعتماد بڑھتا چلا جائے قربان جائیں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بصیرت کے جب انہوں نے مختلف وفود کو اسلام کی دعوت کے لئے خطوط دے کر بھیجا۔ 7 ہجری کا واقعہ ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے قیصر روم کی جانب حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو خط دے کے بھیجا تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوچا کہ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ تو راستوں کی پہچان میں پختہ نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مغیرہ بن شیبہ رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا وہ اس وقت ایمان نہیں لائے تھے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بصیرت کا یہ عالم کہ ایک کافر جو ایمان بھی نہ لایا تھا اس کو یہ ذمہ داری سونپ دی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جانتے تھے کہ اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ سے پہلے قیصر روم کے پاس پہنچ جائے اور ایسا ہی ہوا۔ حضرت مغیرہ بن شیبہ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ سے پہلے قیصر روم کے دربار میں جا پہنچے اور قیصر روم کے ہر سوال کا جواب اسلام نہ لانے کے باوجود اس طرح دیتے رہے کہ قیصر روم اس کافر کو بھی نبی ماننے پر تیار ہوگیا۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے دل کی حالت قیصر روم کے دربار میں ہی بدل گئی اور وجد کی کیفیت میں واپس لوٹے۔ تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے قدمین شریفین میں گڑ پڑے اور ایمان لے آئے۔
یہاں یہ غور طلب بات ہے کہ اس کافر نے بھی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ آج ہم اگر اپنے قائد کے لئے جینا مرنا چاہتے، تو پھر ہمیں اپنی زندگیاں اسلام کے لئے وقف کرنا ہونگی، اپنے قائد کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اپنے قائد کی بصیرت پر کامل ایمان رکھنا ہوگا اگر ہم اپنے قائد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں گے تو ہمارا کیا حال ہوگا؟ آئیے آج ہم عہد کریں کہ اپنے قائد کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اور حضرت مغیرہ بن شیبہ رضی اللہ عنہ کی طرح اپنی اپنی ذمہ داریوں کو اپنے قائد کی اتباع اور اطاعت میں بخوبی سر انجام دیں گے۔
محترم حسین محی الدین قادری کے پُر مغز خطاب کے بعد محترم پروفیسر محمد نواز ظفر کے دعائیہ کلمات سے تقریب اختتام پذیر ہوئی اور تمام شرکاء ڈنر کے لیے تشریف لے گئے۔