قیام پاکستان کے فوری بعد چند جاگیردار اور سرمایہ دار شخصیات نے اس نوزائدہ نظریاتی اسلامی مملکت پر قبضہ کیا جو تاحال مختلف روپ بدل بدل کر حکومتی ایوانوں میں قابض ہیں۔ اسی طبقہ کو حکومتی اشرافیہ کہا جاتا ہے جوملکی وسائل پر بری طرح قابض ہے۔ ان کی اپنی دولت اور اولادیں بیرون ملک ہیں۔ وطن عزیز کے ساتھ ان کا تعلق محض سیاست اور اقتدار کی حد تک قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھ دہائیوں سے عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ان میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ دو فیصد کرپٹ اشرافیہ اپنے اقتدار کے لئے دہشت گردوں گروپوں کو تو گوارہ کرلیتی ہے مگر عام آدمی کو ضروریات زندگی بہم پہنچانا انہیں قبول نہیں۔ موجودہ حکومت جن وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوسکا۔ جو بڑے بڑے پروجیکٹ شروع ہیں وہ کاروباری اور تجارتی بنیادوں پر آگے بڑھ رہے ہیں، ان سے عوامی مسائل میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ آسکتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک اور معاشرے کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر پاکستان تمام تر وسائل کے باوجود ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچھے جارہا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے حالیہ بیان _ ’’ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں خوف خدا کا فقدان ہے اور سچ و جھوٹ، حلال وحرام کا فرق ختم ہوچکا ہے۔ عدالتی احکامات پر عمل کرنے کے بجائے بچنے کا سہارا لیا جاتا ہے‘‘_ نے حکمرانوں کی گڈ گورننس کے چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ جس نظام میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس تمام تر آئینی و قانونی جواز کے باوجود کرپٹ انتظامیہ اور نا اہل مقننہ کو آئین و قانون کے دائرے میں نہ لا سکے اس نظام پر نظر ثانی ہی ملک اور قوم کے مفادمیں ہے۔ اس لئے اس موجودہ فرسودہ سیاسی نظام سے جان چھڑا کر متبادل نظام اپنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے حقیقی مواقع میسر آئیں اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔
19کروڑ عوام کے دل کی آواز یہی ہے اور یہی باتیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک عرصہ سے کر رہے ہیں کہ30 سال سے جاری مک مکا کے جمہوری نظام نے حلال اور حرام کی تمیز ختم کر دی ہے۔ عوام کی حالت زار ہر آئے دن دگر گوں ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ایسے نظام کو برقرار رکھنے میں مدد دینے والے بھی برابر کے شریک ہیں۔ ملکی اداروں نے ظلم اور نا انصافی پر مبنی اس نظام کو مزید تقویت دی تو پھر دہشتگرد قوتوں کو غلبہ حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ عام آدمی حکومتی اداروں، محکموں اور گلی محلہ کی سطح پر حکومتی سر پرستی میں کام کرنے والے منشیات فروشوں، بد معاشوں اور غنڈوں کے ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اورتحفظ اورانصاف کا منتظر ہے۔
موجودہ حکمران بے انصافی اور ظلم و ستم کو رواج دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس کی تازہ ترین مثال سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے۔ 14 بے گناہوں کے خون کو ’’یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا‘‘ کے مصداق اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی غرض سے سرکاری وسائل اور اختیارات کا اندھا دھند استعمال کررہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کیلئے جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں قائم کئے گئے جوڈیشل کمیشن اور اس کمیشن کی رپورٹ کو کالعدم قرار دیا جارہا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں ملوث اور میڈیا کے کیمروں کے ذریعے پوری دنیا کو نظر آنے والے ڈی آئی جی آپریشن اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار رانا عبدالجبار اور ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) عثمان منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے فائرنگ ہونے کے جھوٹے حلفیہ بیان داخل کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر منہاج القرآن کے کسی فرد نے فائرنگ کی ہوتی تو ضرور کوئی پرائیویٹ چینل دکھاتا اور کوئی پولیس والا ضرور زخمی یا ہلاک ہوتا۔
ناانصافی اور عدل کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ اقتدار پر قابض ٹولہ نے کرپشن کی دنیا میں بھی نت نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مک مکا کے سیاسی نظام کو بہت پہلے بے نقاب کر دیا تھا اب عوام اس کی عملی صورت دیکھ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کی ’’دیدہ دلیری‘‘ یہاں سے بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ اپنے خلاف نیب کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ کر اس کے پر کاٹنے اور ناخن تراشنے کی باتیں سر عام کررہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس نظام کی خرابیوں اور ان حکمرانوں کی اسی سرشت ہی کی وجہ سے کہا تھا کہ جب تک یہ حکمران اور یہ نظام موجودہ رہے گا بڑے مگر مچھوں کا احتساب نہیں ہو گا۔ قومی اداروں کو بربادکرنے کیلئے نااہل اور نالائق وزیروں کو اختیارات دے دئیے گئے ہیں۔ موجودہ فرسودہ نظام نے غریبوں اور نوجوانوں کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں دیا۔ کمیشن خور حکمران لوٹتے اور کھاتے رہیں گے انہیں روکا نہ گیا تو پورا ملک بک جائے گا۔ قاتل حکمرانوں نے عوام کے آئینی حقوق غصب کررکھے ہیں اور سارے وسائل اور اختیارات پر قابض ہیں۔ حکمرانوں نے نجکاری اور نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ملک کے وسائل لوٹ کر ساری دنیا میں اپنے بزنس ایمپائر بنارکھے ہیں۔ شریف برادران ملک میں موجود قدرتی وسائل کو عوام کی خوشحالی کے بجائے بیرون ممالک کو فروخت کر کے اربوں روپے کمیشن لینے کیلئے سودی بازی کرچکے ہیں۔ بڑے ڈاکو آزاد گھوم رہے ہیں جبکہ چند چوروں کو دکھاوے کیلئے دھراجارہا ہے۔ موجودہ حکمران بے گناہوں کے قاتل، ٹیکس چور اور قرضہ ہڑپ کرنے والے ہیں۔ پارلیمنٹ میں غالب اکثریت قوم کے وسائل کھانے والوں کی ہے۔ عوام کے حقوق سے کھیلنے کا اختیار لینے والے سیاست کو پیشہ سمجھتے ہیں۔
ان حالات میں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اہم شخصیات اور ریاستی ادارے خاموشی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ آنکھیں بند کرنے والی شخصیات اور اداروں کو قوم کو جواب دینا پڑے گا۔ عوام کو ہر روز ایک نئی کہانی سنائی جاتی ہے اور پھر اس کہانی کو کوئی موڑ دئیے بغیر نیا محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ کبھی قوم کو ڈاکٹر عاصم کے بلینز کی کرپشن کی کہانی سنائی جاتی ہے۔ کبھی وزیروں مشیروں کے گھروں سے اربوں روپے برآمد ہونے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ کبھی اورنج لائن اور میٹرو بسوں کا سکینڈل سامنے آتا ہے۔ کبھی سینکڑوں شہریوں کو مارنے والے ٹارگٹ کلرز کے اعترافی بیانات قوم کو سنائے جاتے ہیں اور کبھی غیر ملکی ایجنسیوں سے پیسے لینے او ر ملک میں خون خرابا کی کہانیاں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ کبھی سانحہ بلدیہ رونما ہوتا ہے اور کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن، کبھی قیمتی پلاٹوں پر قبضے کی کہانیاں گردش کرتی ہیں اور کبھی گردشی قرضوں کی ادائیگی اور یورو بانڈ کی فروخت کے ذریعے قومی خزانہ کو کروڑوں ڈالر کے نقصان پہنچانے کی باتیں عوام تک پہنچتی ہیں۔ مگر افسوس کہ آج تک ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ان مظالم کے ماسٹر مائنڈ کٹہرے میں کھڑے نظر نہیں آتے، کیونکہ یہاں ادارے کمزور اور ظالم طاقتور ہیں۔ آج تک جن پر الزام لگا انکا احتساب نہیں ہوا، یہی وہ بے حسی پر مبنی رویہ ہے جس کی وجہ سے عوام کا موجودہ فرسودہ سیاسی نظام اور کرپٹ حکمرانوں سے اعتما د اٹھ چکاہے۔