دعوت کا عمل اپنے آغاز و ارتقاء کے تناظر میں سنت الہٰیہ اور سنت انبیاء علیہم السلام رہا ہے۔ اللہ اور اس کے انبیاء و رسل کی دعوت ہمیشہ، دعوت الی الخیر رہی ہے۔ پھر اسی دعوت انبیاء و رسل کو ان کے حواریوں اور صحابہ کرام نے اپنے اپنے زمانوں میں فروغ دیا۔ بعد ازاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تابعین، اتباع تابعین، ائمہ و اسلاف نے اپنے آپ کو اس دعوت کے سلسلے سے وابستہ رکھا۔ عصر حاضر میں اسی دعوت کو علماء کرام، مشائخ عظام، اہل علم اور ہر صالح مسلمان و مومن اپنائے ہوئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری دعوت عصر حاضر میں کیسے نتیجہ خیز ہوسکتی ہے؟ اس مضمون میں اسی بات کا جائزہ لیاجارہا ہے۔
دعوت جدّت کی حامل ہو
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُونَ.
’’اور ہم اسی طرح (اپنی)آیتوں کو بار بار (انداز بدل کر) بیان کرتے ہیںاور یہ اس لیے کہ وہ(کافر) بول اٹھیں کہ آپ نے (تو کہیں سے) پڑھ لیا ہے تاکہ ہم اس کو جاننے والے لوگوں کے لیے خوب واضح کردیں‘‘۔
(الانعام، 6: 105)
اس آیت کریمہ نے ایک کامیاب داعی کا تصور واضح کیا گیا ہے کہ ایک کامیاب دعوت دینے والا وہ ہے جو ’’نصرف الآیات‘‘ پر عمل کرے یعنی جو اپنی بات سمجھانے کے لئے موقع و محل کی مناسبت سے دلائل بھی بدلے اور سامعین و مخاطبین اور حاضرین و ناظرین کو دیکھتے ہوئے اپنے اسلوبِ خطاب اور اندازِ بیان کو بھی بدلے۔ اس کا ’’نصرف الآیات‘‘ کا طریق خود اس کے بیان پر ایک حجت بن جائے۔ اس کی گواہی اس کے خطاب کے مندرجات بھی دیں اور اس کے مخاطبین بھی اس کی حکمتِ تدریس کا اعتراف کریں۔ اس کا بیان و خطاب جاننے والوں کے علم میں مزید اضافہ کرے اور علم کا نشان ٹھہرے۔ اس کا خطاب حقائق کا انکشاف کرے اور علم و ادراک کے نئے جہاں ظاہر کرے۔ اس داعی کو سننا سامعین کے وقت کا ضیاع نہ ہو بلکہ اس کے دلائل ان کے لئے ذہنی اور قلبی تسکین کا باعث ہوں۔ اس کا انداز بیان ان کے لئے قبولیت کا حامل ہو اور وہ اسلوبِ خطاب اپنے اندر جدّت اور ندرت لئے ہوئے ہو۔
ایسا صرف اسی صورت ہوسکتا ہے کہ کامیاب داعی کی دعوت نفرت سے پاک ہو۔ وہ تکفیریت، بدعت اور شرک کے فتویٰ سے پاک ہو۔ وہ دعوت فرقہ واریت سے پاک اور خروج الی الاسلام کے عمل سے منزہ ہو۔ وہ دعوت نفرت انسان سے الگ اور تنازعات و اختلافات سے دور ہو۔ اس دعوت میں اختلاف تو ہو جس اختلاف کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختلاف امتی رحمۃ کے مصداق امت کے حق میں رحمت قرار دیا مگر اس دعوت میں خلاف نہ ہو۔ اس دعوت سے جہاں دلائل بدلیں وہاں اذہان و قلوب کے رخ بھی بدلیں۔ وہ دعوت جہاں نئے پیراہین سے مزین ہو وہاں انسانی سوچوں کو نئی جہت بھی دے۔ الغرض وہ دعوت، علم و حکمت، بصیرت اور فراست و معرفت کے علمی ابحار کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو۔
عصری دعوت کا المیہ
افسوس! عصر حاضر کی دعوت اس اسلوب سے ہٹ گئی ہے۔ ہماری عصری دعوت الا ماشاء اللہ دعوتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منحرف ہوگئی ہے۔ ہماری عصری دعوت، دعوتِ صحابہ، دعوتِ اہل بیت اور تابعین، تبع تابعین اور اتباع ائمہ و اسلاف کے طریق، منہج اور اسلوب سے جدا ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم نے اپنے ہی جسدِ واحدہ کو خود ہی تقسیم کرنا اور پارہ پارہ کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ ملتِ واحدہ جس کو رب نے قرآن میں یہ نام اور پہچان دی کہ
هُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ .
’’اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی ‘‘۔
(الحج: 78)
جسدِ واحدہ کے طور پر ایک دوسرے سے اپنا رشتہ و تعلق توڑنے کے بعد ہم ذیلی سطح پر تقسیم در تقسیم کے عمل میں پھنستے چلے گئے۔ آج ہم نے اپنے قومی وجود کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے اور انتہائے ظلم یہ ہے کہ ہمیں اپنے اس لٹنے پر افسوس بھی نہیں ہے۔ آج ہماری مذہبی اور سیاسی وحدت ایک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہے۔
دعوت کے بجائے مجادلہ۔۔۔
ہمارے ہاں آج بہت سے مسائل دعوت کے بجائے محض مجادلہ کی بناء پر ہیں۔ ہم نے قرآنی دعوت کے بجائے نفسانی دعوت کے اسلوب کو اپنا لیا ہے۔ ہر شخص اپنے نقطہ نظر کو 100% درست سمجھتا ہے اور دوسرے کو 100% غلط سمجھتا ہے۔ اس طریق مجادلہ میں صرف نفرت، فرقہ واریت، تعصب، عناد، عداوت، مخالفت، دشمنی، عدم برداشت، عدم رواداری، عدم تحمل، تکفیر سازی، قتل و غارت گری، دہشت گردی، معاشرے کی بربادی و خرابی اور انسانوں کی ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ یہ اندازِ دعوت متعصب پسندوں اور مذہبی انتہا پسندوں میں بالخصوص اور معاشرے کے ہر طبقہ میں بالعموم پایا جاتا ہے۔
قرآنی دعوت کے امین۔ اولیاء اللہ
عصر حاضر میں اگر ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دعوت کے حقیقی اسلوب کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر دیکھنا اور اس کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ اسلوب ہمیں اولیاء اللہ کے ہاں میسر آتا ہے۔ اگر اس مملکت خداداد پاکستان میں اولیاء اللہ کے طرزِ دعوت کو اپنایا جاتا ہے تو آج یہ دھرتی امن و محبت کی دھرتی ہوتی۔۔۔ یہ خطہ اخوت کا خطہ ہوتا۔۔۔ یہ ارضِ وطن چاہتوں کی زمین ہوتی۔۔۔ یہ معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہوتا۔۔۔ یہاں کے لوگ ساری دنیا کے لئے ایک مثال ہوتے۔۔۔ اور اس دھرتی سے دنیا کو امن، سلامتی، محبت، انسانی اخوت و بھائی چارہ، انسانی تکریم کا درس پوری دنیا میں فروغ پاتا۔
قرآنی دعوت وجودِ اولیاء میں اسوۂ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل پیروی کی وجہ سے حقیقت کا روپ دھارتی ہے۔ بلاشبہ اولیاء اللہ کی دعوت تاریخ اسلام میں ثمر آور اس لئے ہوتی ہے کہ وہ دعوت اسوۂ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھلی ہوتی ہے۔ اس دعوت میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس دعوت کا خمیر دعوت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھوٹتا ہے۔ اس دعوت کی روح، دعوتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت ہے۔ اس دعوت کی کامیابی کا راز دعوت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مکمل طور پر ڈھل جانا ہے۔ الغرض اولیاء اللہ کی دعوت میں جتنی بھی خوبیاں ہیں وہ دعوتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مستنبط ہیں۔
اولیاء اللہ نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں ڈھل کر اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کا عملی نمونہ بن کر اپنی دعوت دی ہے۔ اولیاء اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی دعوت سے مستفیض و مستنیر ہوتے ہوئے دعوت دی ہے۔ ان کی دعوت پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلبیت علیہم السلام کی متابعت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔
آیئے! اب ہم یہ دیکھتے ہیں اولیاء اللہ کی دعوت نے کس کس انداز میں خود کو دعوت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، دعوت ِصحابہ اور دعوتِ اہلبیت کے تابع کیا ہے۔
-
دعوت بوجھ نہ بنے!
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو وعظ کیا کرتے۔ ایک شخص نے ان سے کہا اے ابو عبدالرحمن میری خواہش ہے کہ آپ روزانہ وعظ کیا کریں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
قال اما انه يمنعنی من ذالک انی اکره ان املکم وانی اتخولکم بالموعظة کما کان النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم يتخولنا بھا مخافة السامة علينا.
’’میں ایسا اس وجہ سے نہیں کرتا کہ کہیں تم پر بوجھ نہ بن جاؤں۔ میں بھی اسی طرح ناغہ کرکے تمہیں وعظ کرتا ہوں جس طرح رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کووقفہ کرکے وعظ کیا کرتے تھے تاکہ ہم بیزار نہ ہوجائیں‘‘۔
(صحيح البخاری، باب من جعل لاهل العلم اياما معلومة ، 1: 39، الرقم: 70)
اولیاء اللہ کی مجالس اور محافل کا تذکرہ جب ہم ان کی کتب میں پڑھتے ہیں تو وہ اسی بات کا خصوصی التزام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے ہم جلیسوں اور ہم نشینوں کو اپنی صحبت و قربت کے ذریعے معرفت الہٰیہ اور معرفت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیانوں کے سبب متجسس بنائے رکھتے۔۔۔ وہ لمحۂ حال سے لمحۂ مستقبل میں دخول کے لئے بے تاب رہتے۔۔۔ وہ ان میں شوق و رغبت کو پیدا کرتے۔۔۔ ان کے قلب و ذہن کو نہ صرف بوجھ سے بچاتے بلکہ ان کے ذہنوں اور دلوں کے بوجھ کو ہلکا کرتے۔۔۔ نہ سننے والے بھی ان کے بیان کو سننے کے لئے آمادہ ہوجاتے اور نہ بیٹھنے والے بھی ان کی نشستوں اور مجلسوں میں بیٹھ جاتے۔۔۔ ان کی مجالس حقائق کشا اور ان کے نصائح زندگی کا اثاثہ ہوتے۔۔۔ وہ رفتہ رفتہ اپنی مجلسوں میں آنے والوں کو مختلف منازل کی طرف متوجہ کرتے اور متفرق مدارج کی طرف، اصول تدریج کے تحت آگے بڑھاتے۔
-
اصول تدریج
اولیاء کرام نے ہمیشہ اسلام کے اصولِ تدریج کو ذہن میں رکھتے ہوئے دعوت دی اور انسانی فطرت کو کسی بھی مرحلہ پر کبھی بھی فراموش نہ کیا۔ دعوت کے تدریجی اصول کا ثبوت آیاتِ احکام کے نزول سے بھی ہمیں ملتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
قرآن میں جو چیز سب سے پہلے نازل کی گئی وہ مفصل سورتیں ہیں جن میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے۔ جب لوگ اچھی طرح اسلام میں داخل ہوگئے تب حلال اور حرام کے احکام نازل ہوئے۔
ولو نزل اول شئی لا تشربوا الخمر لقالوا لا ندع الخمر ابدا ولو نزل لا تزنوا لقالوا لاندع الزنا ابدا.
’’اگر بالکل شروع ہی میں حکم آجاتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم ہرگز نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ حکم دیا جاتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے ہم ہرگز زنا نہ چھوڑیں گے‘‘۔
(صحيح بخاری، باب تاليف القرآن، الرقم: 4707)
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو سکھائے گئے دعوت کے تدریجی اصول کو اولیاء کرام ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دعوت اسلام کے لئے یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا:
انک ستأتی قوما من اهل کتاب فاذا جئتهم فادعهم الی ان يشهدوا ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم فان هم اطاعوا لک بذلک فاخبرهم ان الله قد فرض عليهم خمس صلوات فی کل يوم و ليلة فان هم اطاعوا لک بذلک فاخبرهم ان الله قد فرض عليهم صدقة توخذ من اغنيائهم فترد علی فقرائهم فانهم اطاعوا بذالک فاياک وکرائم اموالهم واتق دعوة المظلوم فانه ليس بينه وبين الله حجاب.
’’تم عنقریب اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس پہنچو گے جب تو ان کے پاس پہنچو تو سب سے پہلے انہیں یہ دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ اس میں تیری اطاعت کرلیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ نے ان پر دن رات کی پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور جب وہ یہ بات بھی مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ و زکوٰۃ فرض کیا ہے اور یہ صدقہ و زکوٰۃ ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے غریبوں کو دیا جائے گا اور جب وہ اس بات کو بھی تسلیم کرلیں تو دیکھو صدقے میں چن چن کر ان کا عمدہ مال نہ لے لینا اور ہاں مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ و حجاب نہیں ہوتا‘‘۔
(صحيح بخاری، باب اخذ الصدقة من الاغنياء... الرقم: 1425)
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت معاذ بن جبل کو دعوت دین کا طریق سکھا رہے ہیں کہ دعوت دین کا منہج و اسلوب اور اسے بپا کرنے کا عملی طریق کیا ہو؟ یہ بات ذہن نشین رہے دعوت اپنی ضرورت خود پیدا کرتی ہے۔ داعی کا کام اس ضرورت کو سمجھ کر دعوت دینا ہے۔ جہاں دعوت مخاطب کی ضرورت سے مطابقت پیدا کرلیتی ہے وہاں دعوت مؤثر ہوجاتی ہے۔ دعوت اپنے عصری اسلوب میں تدریج کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ کو تدریجاً اپنی دعوت کو آگے بڑھانے کا حکم دیا۔
-
بنیادی ضروریات کی تکمیل کا اہتمام
توحید و رسالت اور فرض نمازوں کے احکامات کے متعلق تلقین کرنے کے فوراً بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی ضروریاتِ زندگی کی طرف متوجہ ہونے کی تلقین کی کہ توحید و رسالت کی قبولیت کے بعدان کو دعوتِ زکوٰۃ و صدقہ دو۔ اس لئے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنی زندگی کی ضرورتوں سے محروم نہ رہے۔ ہر شخص کی زندگی کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ہو۔ معاشرے کے صاحب ثروت اور صاحب حیثیت لوگوں سے مال لے کر ان ہی کے ساتھ بسنے والے ضرورت مندوں تک پہنچادو تاکہ وہ بنیادی ضرورتوں سے محروم نہ ہوں۔ اس لئے کہ فقرو محتاجی کی بناء پر ہی کفرو نافرمانی، بغاوت و سرکشی، معصیت و گناہ، ظلم و ناانصافی اور اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے انحراف کی صورت سامنے آتی ہے۔ لہذا اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت، ریاست کے قانون و ضابطے کی پیروی اور ہر معاملہ میں دیانتداری انسان کے اندر تب جنم لیتی ہے جب ان کی ساری بنیادی ضروریات کی تکمیل کردی جائے۔ اولیاء کرام لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے بھی سرگرداں رہتے اور اپنے اس عمل کے ذریعے بھی فروغِ دین کا باعث بنتے۔
بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی طرف متوجہ کرنے کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو تلقین کی کہ اس حوالے اس بات کا بھی خاص خیال و لحاظ رکھنا کہ ان کی اطاعت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا اور نہ ہی ان کی انسانی نفسیات کو نظر انداز کرنا۔ زکوٰۃ و صدقہ لیتے وقت ان کے اعلیٰ مال کو بطور زکوٰہ نہ لینا بلکہ ان کے پورے مال کو آپس میں ملاتے ہوئے بغیر کسی تخصیص کے Mix مال میں سے زکوٰۃ و صدقہ لینا۔
-
ظلم سے اجتناب
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اخذ زکوٰۃ اور تقسیم زکوٰۃ میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ہدایات فرمائیں کہ دین اسلام کے فروغ کے لئے اس بات کو بہر صورت لازم بنانا کہ تمہارا کوئی بھی عمل ظلم پر مبنی نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ جو شخص مستحق نہ ہو تم اس کو مستحق بنادو اور جو شخص حقدار نہ ہو تم اس کو حقدار بنادو۔ اس سے جہاں وہ ظالم بنے گا وہاں تم بھی ظالم بن جاؤ گے اور جس حقدار کو تم نے محروم کیا ہے وہ مظلوم ہوگا۔ اس مظلوم کے حوالے سے ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہنا۔ یہ مظلوم تو تم سے ظلم کا بدلہ نہ لے سکے گا مگر اس مظلوم کی آہ رب کے عرش کو ہلادے گی۔ کیونکہ
اتق دعوة المظلوم فانه ليس بينه وبين الله حجاب.
مظلوم کی پکار سے ڈرو اس لئے کہ اس کی فریاد کے رب تک پہنچنے میں کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ تمہارے ظلم کا حساب رب لے گا اور رب کی پکڑ، عتاب، عذاب اور گرفت تم پر تمہارے گناہ و ظلم کی بنا پر آئے گی۔ اس لئے تقسیم زکوٰۃ کا عمل ہو یا کوئی اور معاملہ اپنے عمل ظلم سے پاک رکھنا اور کسی کو اپنے عمل کے باعث مظلوم نہ بنانا۔
اولیاء کرام نے بھی اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلہ پر ظلم کو اپنا شعار نہ بنایا اور یہی چیز ان کی دعوت کی کامیابی کا راز تھی۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنی زندگی میں کسی بھی عمل میں ظالم نہ بنیں۔ ظلم کسی کا حق مارنا ہے، کسی کا استحقاق چھیننا ہے، کسی کو اس کی جائز ضرورت سے محروم کرنا ہے۔ اس لئے ظلم کی ہر صورت کو اپنے وجود سے نکالنا ہوگا۔ ظلم کی ہر شکل کو اپنے معاشرے سے مٹاتے ہوئے زندگی کو عدل وانصاف پر استوار کرنا ہی اسلام کا حکم ہے۔ فرمایا:
اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی.
’’عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے‘‘۔
(المائدة: 8)
دعوت کے ان تدریجی اصولوں کو اولیاء اللہ نے ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا۔ انہوں نے لوگوں کے مزاجوں کو سمجھا۔۔۔ ان کی نفسیات کو اچھی طرح جانا۔۔۔ ان کی ضروریات کو دیکھا۔۔۔ ان کے جذبات کا خیال کیا۔۔۔ ان کے احساسات کو معلوم کیا اور ان کے احوال و ظروف کا مشاہدہ کیا۔ پھر رفتہ رفتہ ان کو اپنے رنگ میں رنگتے گئے اور ان پر اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ چڑھاتے گئے انہیں معرفت الہیٰہ اور قربت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جام پلاتے گئے۔۔۔ اپنے پاس آنے والے ہر وجود کو محبت دیتے گئے۔۔۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں انڈیلتے چلے گئے۔
اولیاء اللہ نے گنہگاروں سے نفرت نہ کی بلکہ گناہ سے نفرت کی۔۔۔ زانی سے نفرت نہ کی بلکہ زنا کو حرام جانا۔۔۔ شرابی سے نفرت نہ کی بلکہ شراب کو ممنوع جانا۔۔۔ چور سے نفرت نہ کی بلکہ چوری کو خلاف شریعت جانا۔۔۔ گناہوں کے ان دلدادوں کو اپنی مجلس سے دور نہ کیا بلکہ ان کو اپنے قریب کرکے رب کے قریب کردیا اور پھر رفتہ رفتہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا متبع کردیا۔
دعوت اسلام کا خمیر انسانیت سے محبت ہے
برصغیر پاک و ہند کی زمین کا چپہ چپہ اس بات پر گواہ ہے کہ اس مٹی میں محبت کی تاثیر اولیاء کی دعوت کی وجہ سے ہے۔ اس دھرتی پر ایمان کی بہار، اولیاء اللہ کی دعوت کی وجہ سے آئی ہے۔ جب اولیاء اللہ کا وجود محبت اس دھرتی پر بسنے والوں کو نصیب ہوا تو طبیعتوں میں موافقت ہوئی، مزاجوں میں مطابقت پیدا ہوئی اور شخصیتوں میں انسیت پیدا ہوئی۔ اولیاء اللہ کے سراپا محبت سے ملنا گویا جسم میں موجود خمیر محبت اور روح محبت سے ملنا ٹھہرا۔ محبت پرور روح، محبت آشنا وجود سے مل گئی اور یہی ملنا ہی قبولیت اسلام ٹھہرا۔
آج ہمیں اپنی دعوت کو اولیاء اللہ کی دعوت سے آشنا کرنا ہے۔ آج ہمیں اپنی دعوت میں نرمی و رفق کو اختیار کرنا ہے۔ اپنی دعوت سے نفرت، منافرت، فرقہ واریت، تکفیر بازی اور مشرکانہ فتوؤں کو ختم کرنا ہے۔ دوسروں کو گمراہ اور صرف اور صرف خود کو ہی ہدایت یافتہ کہنے سے اعراض کرنا ہے۔ اپنی دعوت میں دوسروں کو بدعتی اور خود کو ہی سنی اور مکمل اسلامی کہلانے سے صرف نظر کرنا ہے۔ آج ہمیں اپنی دعوت کو جبر سے پاک کرنا ہے۔ آج ہمیں دعوت میں اکراہ کی ہر صورت کا خاتمہ کرنا ہے۔ آج ہمیں اپنی دعوت کو یسر کے قالب میں ڈھالنا ہے اور اسے عُسر کی گھاٹیوں سے بچانا ہے۔ آج ہمیں الخلق کلہم عیال اللہ۔ ’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘‘ کے تحت اپنی دعوت کو، ہر فرد تک لے جانا ہے۔ اسلام ساری دنیا میں دعوتِ محبت کے ذریعے پھیلا ہے۔ اگر آج ہماری دعوت قرآنی اور نبوی دعوت کے اسلوب میں ڈھل جائے اور دعوتِ صحابہ و اہلبیت، دعوتِ تابعین و تبع تابعین اور دعوت ائمہ و اسلاف کے موافق اور دعوت اولیاء کے مطابق ہوجائے تو یہ دعوت آج بھی موثر اور نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ آج بھی یہ دعوت اذہان و قلوب کو بدل سکتی ہے اور انسان سازی اور شخصیت سازی کا پھل دے سکتی ہے۔