اس سلسلہ تحریرمیں ملکی سطح پر گذشتہ ماہ پیش آنے والے حالات و واقعات پر ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا اور اس تناظر میں ان واقعات کے حقائق جانیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ذمہ دار کون ہے؟ خرابی کا تدارک اور حالات کی بہتری کیونکر ممکن ہے؟
شہداء سانحہ ماڈل ٹاون انصاف کے منتظر
17 جون 2014ء۔۔۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں حکومت نے پنجاب پولیس کے ذریعے پاکستان عوامی تحریک و تحریک منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ اور سربراہ پاکستان عوامی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی رہائش گاہ کا محاصرہ کیا اور بیرئیر ہٹانے کے نام پر درجنوں تھانوں کے سینکڑوں پولیس اہل کاروں نے دھاوا بولتے ہوئے اندھا دھندفائرنگ کر کے 14 افراد شہید اور 85 شدید زخمی کردیئے تھے۔
اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں حکومت نے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار براہ راست پنجاب حکومت کو ٹھہرایا مگر حکومت نے اس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی غیر جانبدار تفتیش کیلئے ہماری طرف سے غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس پر حکومت نے شہداء کے لواحقین اور ہمیں اعتماد میں لئے بغیر اپنی مرضی کے افسروں پر مبنی JIT تشکیل دے دی۔ گویا جائز تفتیش کے اس مطالبہ پر بھی ہمارے ساتھ دہشتگردی کی گئی اور شہداء کے لواحقین کو غیر جانبدار تفتیش کے قانونی، اخلاقی اور انسانی حق سے بھی محروم رکھا گیا۔
پنجاب کے حکمرانوں کے ذاتی نوکروں پر مشتمل اس جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں شریف برادران اور ملوث وزراء کو نہ صرف کلین چٹ دی بلکہ الٹا پاکستان عوامی تحریک کے لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ انہوں نے اپنے لوگ خود ہی قتل کیے ہیں۔
یہ جملہ اقدامات حکومتی بوکھلاہٹ اور اپنے جرم کو چھپانے کی ناکام کوششیں ہیں۔ آج بھی ایک طرف ہمارے کارکنان عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور دوسری طرف حکمرانوں کی ہٹ دھرمیاں اور انصاف کے خون کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ عدالتوں سے ہمیں فیئر ٹرائل بھی نہیں مل رہا جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ آئین کاآرٹیکل 10-A کہتا ہے کہ ’’ہر شخص کو مقدمہ کی شفاف کارروائی کا حق حاصل ہو گا‘‘۔ افسوس عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کو فیئر ٹرائل کا یہ حق نہیں مل رہا۔ عدالتوں میں ہمارے کارکنان کے ساتھ کیا بیت رہا ہے اور عدالتیں کس طرح کی سماعت کررہی ہیں؟ اس حوالے سے پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں نے محترم خرم نواز گنڈاپور (سیکرٹری جنرل PAT) کی قیادت میں وکلاء کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے درج ذیل 15 قانونی و آئینی تحفظات بیان کئے اور وکلاء و انسانی حقوق کی قومی و بین الاقوامی تنظیموں سے ان کے ازالہ کے لئے مدد کی اپیل کی۔
- ہماری ہر قانونی درخواست کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر موقع پر ہی مسترد کر دیا جاتا ہے۔
- ہماری 90فیصد درخواستوں پر نوٹس تک جاری نہیں کیے گئے۔
- عوامی تحریک کے وکلاء کی غیر موجودگی میں شہادتیں قلم بند کروائی جارہی ہیں۔
- قانونی طور پر ناقابل قبول دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے اور اس عمل سے عوامی تحریک کے وکلاء کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔
- عدالتی ریکارڈ کا حصہ دستاویزات کی نقول عوامی تحریک کے وکلاء کو فراہم کیے بغیر جرح کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
- درجنوں گواہوں اور گواہانِ استغاثہ کی روزانہ کی بنیاد پر شہادتیں قلمبند کی جاتی ہیں اور عوامی تحریک کے وکلاء کو جرح کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
- عوامی تحریک کے وکلاء کو بتائے بغیر اگلے دن کی پیشی پر درجنوں گواہان بلا لیے جاتے ہیں اور پھر موقع پر جرح پرمجبور کیا جاتا ہے،جو قانون شہادت اور مروجہ عدالتی روایات کے برخلاف ہے۔
- عوامی تحریک کے وکلاء کی عدم موجودگی میں سرکاری وکیل کے ذریعے آناً فاناً کارروائی مکمل کر لی جاتی ہے۔
- پاکستان کی تاریخ کا یہ انوکھا کیس ہے جس میں مقتولین اور مضروبین کو ملزمان بنا دیا گیا اور ان کے ساتھ عدالت کے اندر ٹرائل کے مرحلہ پر مجرموں والا سلوک کیا جارہا ہے۔ پولیس تشدد اور بربریت کا شکار انصاف کے حقدار عوامی تحریک کے 42 کارکنان کو گھنٹوں عدالت میں کھڑا رکھا جاتا ہے اور کمرہ عدالت میں پولیس کے ذریعے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔ یہ سب جج صاحب کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ ہماری بارہا نشاندہی کے باوجود پولیس کی Harassment میں کوئی کمی نہیں آئی۔یہ رویہ فیئر ٹرائل کے آئینی حق سے متصادم ہے ۔
- آئین کے آرٹیکل 13 اور ضابطہ فوجداری کے سیکشن 239 کے تحت ایک ہی وقوعہ اور ملزمان کا دو بار ٹرائل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی دو بار سزا ہو سکتی ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں اس قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
- دہشت گردی کی عدالت کے یک طرفہ ٹرائل اور دوہری فرد جرم اور دوہرے ٹرائل کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا مگر یہاں بھی نوٹس تک جاری نہیں کیے گئے اور ہماری درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں ہماری قانونی درخواستوں کو قابل سماعت ہی قرار نہیں دیا جاتا اور وجہ بتائے بغیر قانونی تقاضوں کو بلڈوز کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔
- پولیس تشدد اور گولیوں کا نشانہ بننے والے عوامی تحریک کے 42 متاثرین جنہیں پولیس نے ملزم ٹھہرا دیا ان میں طالب علم ،مزدور ،عمر رسیدہ غریب شہری شامل ہیں، ان کا تعلیمی اور معاشی مستقبل تباہ کر دیا گیا ہے اور اب انہیں انصاف دینے کی بجائے انہی مظلوموں کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
- دہشتگردی کی عدالت IIکے جج جن قانونی دلائل پر لاجواب ہو جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ آپ ’’اوپر‘‘چلے جائیں، ’’اوپر‘‘ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں گھر چلے جائیں۔ میڈیا اور قوم بتائے کہ ہم انصاف کیلئے کہاں جائیں؟
- جوادارے انصاف اور تحفظ کیلئے قائم کیے گئے تھے وہ ادارے طاقت ور قاتل اور سفاک حکمرانوں سے خوفزدہ ہو کر ظلم کررہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں جج پریزائیڈنگ افسر بننے کی بجائے پراسیکیوٹر بن چکے ہیں اور کمرہ عدالت میں پراسیکیوٹر، جج والا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہم معذرت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ جج اور پراسیکیوشن ملی بھگت کے ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کا خون کررہے ہیں۔ دہشت گردی کی عدالت کو باہر سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ جج صاحب اس کیس کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے بہت جلدی میں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپریل سے پہلے پہلے فیصلہ سنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اسی لیے وہ دوران سماعت مسلسل موبائل فون پر ہدایات لیتے رہتے ہیں۔ لہذا آئین کے آرٹیکل 10-A کی روشنی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا فیئر ٹرائل نہیں ہورہا۔
سربراہ پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا تھا کہ موجودہ قاتل حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں انصاف نہیں ملے گا، آج ان کا یہ کہا ہوا حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہا ہے ۔ ہمارے علم میں ہے کہ فیصلے پہلے کیے گئے اور ٹرائل کا تکلف بعد میں ہورہا ہے مگر حکمران اور ان کے حاشیہ بردار کان کھول کر سن لیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور نہ ہی اب کسی کو انصاف کا خون کرنے دیں گے۔ ہم آج ایک بار پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کے حکم پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی، اب فیئر ٹرائل اور انصاف کے لیے بھی کردار ادا کریں ۔
تحفظ حقوقِ نسواں بل
’’گذشتہ ماہ پنجاب اسمبلی سے تحفظ حقوقِ نسواں کے نام سے ایک بل منظور ہوا ہے، جس میں عورتوں پر تشدد کرنے والے مرد کو 2 دن کے لیے گھر سے بے دخل کرنا، عدالتی حکم پر ٹریکنگ کڑا لگانا، گھریلو تشدد، سائبر کرائم، معاشی، جذباتی اور نفسیاتی استحصال اور بدکلامی جیسے جرائم شامل ہیں‘‘۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے دین میں عورتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے قوانین موجود نہیں کہ اس طرح کے قوانین بنانے کی ضرورت پیش آرہی ہے؟ اس بل میں زیادہ تر گھریلو تشدد روکنے پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق اور مکمل عائلی زندگی کو واضح اور احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کی تعلیمات میں عورتوں کے حقوق کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ عورتوں کے حقوق بارے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ اس بارے تفصیلی جاننے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مایہ ناز تصنیف ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘ کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ اس کتاب میں عورتوں کے انفرادی، عائلی، ازدواجی، سیاسی، قانونی، معاشی، معاشرتی، الغرض تمام حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔
ایک صحابی نے سوال کیا یا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے ؟آپ نے فرمایا جو تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ، جو پہنو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو ،اسے برے الفاظ نہ بولو اور اسے خود سے الگ نہ کرو ،مگر گھر کے اندر ہی۔
عورت کو مرد کا لباس اور مرد کو عورت کا لباس قرار دینے والا اسلام کسی بھی طور بیویوں پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میاں بیوی کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے، اسے قانونی سزاؤں کے ذریعہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ میاں بیوی کی ناچاقی کی صورت میں خاندان و معاشرے کے معزز ین مداخلت کر کے معاملات ختم کراتے ہیں۔ اب آج کے ترقی یافتہ دور میں معززین کا کردار اگر پولیس اور حکومت کے منتخب نمائندے ادا کریں گے تو اس سے خیر کی توقع کم اور فساد کی زیادہ ہوگی۔
اگر سخت سزاؤں کے ذریعہ یہ رشتہ قائم رکھا جاسکتا تو خالق کائنات اور محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور ایسے قوانین واضح فرماتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عورت ناچاقی کی صورت میں اپنے خاوند کو تھانے میں بند کرائے اور پھر اس کے ساتھ خوش و خرم ازدواجی زندگی گزانے کی متمنی بھی ہو۔ اسلام نے سزاؤں کے جو مراحل بیان کیے ہیں ان میں آخری مرحلہ علیحدگی کا ہے۔ ان حالات میں معاشرے میں سدھار کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف مرد و زن کو تعلیم و آگاہی دی جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کو سمجھ کر احترام کرنا سیکھیں۔ اس لئے کہ اخروی جزا و سزاء کی آگاہی جس قدر جرائم دور کرتی ہے، دنیاوی سزا اتنا ہی جرائم میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
دوسری طرف غربت اور بے روزگاری کی صورت میں موجود ان اسباب کا بھی قلع قمع کریں جو اکثر گھریلو ناچاقیوں اور تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت نے اس بل کے حوالے سے عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو ہی اگر حقیقی معنوں میں فروغ دیا جائے تو معاشرے میں خواتین ایک محفوظ اور عزت والا مقام حاصل کرسکتی ہیں۔ دراصل عورتوں کی عزت و عصمت کی حفاظت اور انہیں ظلم و ستم سے بچانا حکومت کا مقصود نہیں بلکہ وہ اس کی آڑ میں اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر ظاہر کرکے عالمی قوتوں سے اپنے مالی مفادات سمیٹنا چاہتے ہیں۔ جو حکومت پولیس کے ذریعہ ماڈل ٹاون میں میڈیا کی موجودگی میں عورتوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیتی ہے وہ حکومت کس منہ سے عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ جو حکومت بلدیاتی اداروں میں خواتین کی نمائندگی کم کررہی ہو وہ خواتین کو ان کے حقوق دینے میں کہاں سنجیدہ ہوسکتی ہے۔۔۔؟
ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور معاشرے کی ہر عورت کے حقوق ہیں، جنہیں ہمارے مذہب نے تفصیلاً بیان فرمادیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام کے ان بنیادی اصولوں سے قوم کو آگاہی دلائیں، انہیں نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بنائیں تاکہ معاشرے میں رہتے ہوئے قوم کا ہر فرد دیگر عورتوں کا بھی احترام کرے اور رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے بیوی کے حقوق مقام اور عزت و احترام کو بھی سمجھ سکے۔
میاں بیوی کا ایسا نازک رشتہ ہے جو پیار، محبت ،بھلائی اور ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہی قائم رکھا جا سکتا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ سوائے عزت والے اور برگزیدہ شخص کے بیوی کی عزت کوئی نہیں کرتا اور سوائے ذلیل و کمینے شخص کے اس کی اہانت کوئی نہیں کرتا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان واضح پیغام ہے کہ کیا عورت کی عزت و تحفظ اسلامی قوانین میں مضمر ہے یا آج کے دین سے نابلد حکومت کے بنائے قوانین میں؟
اس تناظر میں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ آزادی وہ نہیں جو انسانی جبلت اور اس کا نفس چاہتا ہے بلکہ آزادی وہ ہے جو رب کے بنائے اصول و ضوابط کے مطابق ہے۔ اسلام ہر صورت بھلائی کا درس دیتا ہے کہ میاں بیوی میں ناچاقی کی صورت میں مرحلہ وار اصلاحی پہلوؤں کے باوجود اکٹھا رہنا ممکن نہ ہو تو بھلائی کے ساتھ علیحدگی ہے۔
مذکورہ بل میں سقم موجود ہے جو اصلاح کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب ثابت ہوگا۔ کیونکہ تحفظ ِنسواں کے بل اس سے قبل سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے بھی پاس ہو چکے ہیں مگر وہاں جرائم کم نہیں ہوئے؟ اس کی دو وجوہات ہیں:
- عملدرآمد کروانے والوں کی کوتاہی
- دین سے دوری
حکومتیں قوانین بنواتی ہیں مگر عملدرآمد سے گریزاں ہیں۔دین اسلام عین انسانی فطرت کے مطابق ہے لہٰذا دینی اقدار و قوانین کو اجاگر کر کے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے قریب لا کر انہیں عزت اور معاشرے کو امن و سکوں دیا جائے۔ نہ کہ ایسے بل پاس کروا کر عورت کو مرد سے آزاد کروایا جائے اور اسے بے راہروی کی روش پر ڈال کراس کا تقدس پامال کرایا جائے ۔ یاد رکھیں کہ ہر ایک چیز کی ایک حد ہے اور اللہ رب العزت نے حدود سے تجاوز کرنے والوں کو ظالم قرار دیا ہے۔