شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 65 ویں سالگرہ کی مناسبت سے پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام 24 فروری 2016ء کو ’قومی امن کانفرنس‘ منعقد ہوئی جس کی صدارت محترم ڈاکٹر حسین محی الدین نے کی، جبکہ سابق گورنر پنجاب محترم غلام مصطفی کھر، تحریک انصاف کے راہنما محترم چودھری محمد سرور، مجلس وحدت المسلمین کے سیکرٹری جنرل محترم علامہ محمد امین شہیدی، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محترم اسد بھٹو، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے راہنما محترم میاں عمران مسعود، سینئر کالم نویس محترم قیوم نظامی، پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل محترم خرم نوازگنڈاپور، چیف آرگنائزر محترم میجر (ر) محمد سعید، محترم احمد نواز انجم، محترم خواجہ عامر فرید کوریجہ، محترم ساجد بھٹی، محترم بشارت جسپال، محترم فیاض وڑائچ، محترم ڈاکٹر ہرمن، محترم شہزاد نقوی اور دیگر قائدین نے کانفرنس میں خصوصی شرکت کی۔ کانفرنس کے آغاز پر سربراہ پاکستان عوامی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 65 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور انکی درازیٔ عمر کیلئے دعا کی گئی۔ محترم میجر (ر) محمد سعید (چیف آرگنائزر پاکستان عوامی تحریک) نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے تمام مہمان گرامی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہوئے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ بعد ازاں کانفرنس میں درج ذیل مقررین نے اظہار خیال کیا:
- محترم قیوم نظامی (سینئر صحافی و کالم نگار): میں ڈاکٹر صاحب کی سالگرہ پر آپ تمام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و سلامتی عطا فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب وہ ہستی ہیں جن کا پاکستان میں وہ احترام نہیں کیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا کوئی وقار نہیں۔ جس کے پاس علم ہے اس کے پاس اتھارٹی نہیں اور جس کے پاس اتھارٹی ہے اس کے پاس علم نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی پڑھی لکھی شخصیات کا احترام نہیں کیا گیا۔ ایسی ہی ایک شخصیت مفسر قرآن، مبصر اسلام اور عظیم محقق ڈاکٹر طاہرالقادری بھی ہیں۔ پاکستان کے قومی لیڈر ان کو اپنے ذاتی مفادات پر کاری ضرب لگنے کے خدشے کی وجہ سے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف شیخ الاسلام کے اقدامات لائقِ تحسین ہیں۔ دہشت گردی کے سد باب کے لئے ہمیں عسکری ہتھیار کے ساتھ ساتھ نظریاتی ہتھیار کو بھی استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو سپورٹ دینا ہوگی کہ وہ یہاں امن کا چراغ جلائیں۔
- محترم اسداللہ بھٹو (مرکزی رہنما جماعت اسلامی): میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ڈاکٹر صاحب کو سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ میں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے، ان کی شخصیت اللہ کی عطا ہے۔ آج کی تقریب میں ان کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و سلامتی عطا فرمائے۔ یہاں پر جو 14 لوگ شہید ہوئے ان کو آج تک انصاف نہ مل سکا۔ میں عدلیہ سے درخواست گزار ہوں کہ وہ ان کو انصاف دیں۔
- چوہدری محمد سرور (سینئر رہنما تحریک انصاف): PAT کے تمام قائدین کو اپنی اور اپنی قیادت کی طرف سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی سالگرہ پر مبارکباد دیتا ہوں اور ان کی صحت و سلامتی اور لمبی عمر کی دعا کرتا ہوں تاکہ وہ امت کے لئے جو کام کررہے ہیں وہ مکمل کرسکیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ کا ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ آج بتادینا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا میرے ساتھ رشتہ عزت و احترام کا ہے۔ 9/11 اور 7/7 کے بعد پورے یورپ میں مسلم کمیونٹی کے لوگ، ان کے کاروبار اور مساجد بھی محفوظ نہ تھیں۔ ان حالات میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے لندن میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا۔ جس پر مسلمانوں کو تحفظ حاصل ہوا اور اسلام کا صحیح تشخص بحال ہوا۔ گلاسکو میں منہاج القرآن کے ادارے کی میں خود سرپرستی کرتا رہا ہوں جس میں بچوں کو اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کا یہ ادارہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی خدمت کررہا ہے۔
دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف شیخ الاسلام کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ہمارے ملک میں عسکری دہشت گرد ہمارے امن کو تباہ کررہے ہیں تو دوسری طرف معاشی دہشت گرد عوام کا خون پی رہے ہیں۔ ہم سب کو مل کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا اور سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کو انصاف فراہم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
- محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری: تمام دنیا میں پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ متاثر ہے اور ہماری افواج اس دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، میں ان کی کامیابی پر مبارکباد اور ان کی زندگیوں کے لئے دعا گو ہوں۔ آپریشن کے دوران عظیم قربانیوں پر ہم افواج پاکستان کو سلام پیش کرتے ہیں۔ جب ضرب امن شروع ہوا تو پوری سیاسی قیادت ابہام و تفریق کا شکار تھی مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علی الاعلان افواج پاکستان کا ساتھ دیا۔ یہ جنگ فقط ایک محاذ پر نہیں لڑی جاسکتی اس کو کامیاب کرنا ہے تو ہر محاذ پر لڑنا ہوگا۔ ان دہشت گردوں کو نہ صرف عسکری بلکہ نظریاتی طور پر بھی تیار کیا گیا ہے۔ لہذا یہ جنگ نظریات کی جنگ بھی ہے۔ اس جنگ کو اگر جیتنا ہے تو ان نظریات کے ساتھ جنگ ضروری ہے۔ اس لئے کہ افکار ہی لبرل، انتہا پسند اور دہشت گرد بناتے ہیں۔ غلط افکار کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جاسکتا جب تک درست افکار پیش نہ کئے جائیں۔ اس لئے شیخ الاسلام نے اپنی بصیرت اور PAT نے اپنے کردار سے ضرب امن و علم کا آغاز کیا ہے۔ ضرب عضب کے ذریعے افواج عسکری دہشت گردوں کو جبکہ عام لوگوں میں جو اس دہشت گردی کا بیج بویا جارہا ہے اس کے خاتمے کے لئے ہم ضرب علم و امن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اگر ضرب عضب کے ذریعے افواج پاکستان کامیاب بھی ہوجاتی ہے تو پھر بھی یہ لوگ دوبارہ تیار ہوجائیں گے، اس لئے کہ جب تک اس کے جراثیم ختم نہیں ہوجاتے اس وقت تک ان سے خلاصی نہیں پائی جاسکتی۔ دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں ناانصافی، غربت و افلاس، بے روزگاری، جہالت اور انتہاء پسندانہ مذہبی تعلیم ہے۔ لہذا ان تمام اسباب کی طرف متوجہ ہوئے بغیر دہشت گردی پر قابو پانا ناممکن ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں سیاسی قیادت کا کردار افواج پاکستان کے کردار کے بالکل برعکس ہے۔ اس رویہ سے یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ پاکستان کا کرپٹ نظام، غربت اور بے روزگاری دراصل دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔
پاکستان میں امیرو غریب کی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ساتھ تعلیم کا نظام بھی طبقاتی ہے۔ امیر و غریب کے لئے الگ الگ نظام ہائے تعلیم موجود ہیں۔ مدارس بھی ہمارے نظام تعلیم میں سے ہیں جو بچوں کو رہائش، کھانا اور تعلیم مفت دیتے ہیں۔ ایک غریب اپنے بچوں کو اس لئے مدرسہ نہیں بھیجتا کہ دین کی تعلیم ملے گی بلکہ وہ غربت کی وجہ سے یہاں بھیجتے ہیں۔ اب اگر ان مدرسوں سے کوئی دہشت گرد بن کر نکلتا ہے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ اس لئے کہ حکومت نے معاشرے سے غربت و جہالت ختم کرنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔ یہ مدرسے ایسے نہ تھے جیسے آج ہیں۔ اس لئے کہ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ یہی مدرسے تھے جن سے بڑے بڑے امام، فقہاء، سائنسدان اور ریاضی دان پیدا ہوئے۔ امام جعفر صادق سے پڑھ کر ایک طرف فقہ کے امام ابوحنیفہ اور ایک طرف سائنس کے امام جابر بن حیان پیدا ہوئے۔
برصغیر میں حکومت برطانیہ نے مسلمانوں کے اعلیٰ نظام تعلیم اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کئے اور مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے ملازمتوں کے دروازے بند کردیئے۔ اس دور میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔اگر وہ یہ ادارے نہ بناتے تو اس ملک کے قیام کے لئے قیادت تیار نہ ہوتی۔ پھر علامہ اقبال کا دور آیا تو اس دور میں بھی ملاّ و پیر ہر ایک اپنی بات کررہا تھا، انہوں نے علوم دینیہ و عصریہ کو جمع کرنے کی بات کی مگر لوگوں کو ان کی بات سمجھ نہ آئی۔
پھر تیسرا دور آیا جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس وقت پاکستان میں تیزی کے ساتھ مدارس قائم کئے گئے۔ ان مدارس میں دین کو بیچا جانے لگا۔ کیونکہ لوگ بے روزگاری، غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو وہاں بھیجتے۔ اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری نے آواز اٹھائی کہ مدرسہ نہیں چاہئے بلکہ ایسے ادارے بنائے جائیں جس میں دینیہ و عصریہ علوم کو اکٹھا پڑھایا جائے۔ جس طرح اس وقت کے لوگوں نے سرسید و اقبال کو ماننے سے انکار کردیا تھا، اسی طرح آج ڈاکٹر طاہرالقادری کی اس بات کو بھی ماننے سے انکار کردیا گیا۔
وزارت داخلہ کے مطابق آج غیر ملکی فنڈ لینے والے مدارس صرف پنجاب میں 147، بلوچستان میں 30، KPK میں 12 اور سندھ میں ایک مدرسہ براہ راست بیرونی امداد سے چل رہے ہیں۔ دہشت گردی کو پالنے کے لئے 147 مدارس پنجاب میں بنائے گئے، اس کے لئے آپریشن بھی پنجاب میں ہونا چاہئے مگر افسوس کہ اس طرح نہیں ہورہا کیونکہ ان 147 مدارس کی نگرانی براہ راست حکومت کرتی ہے وہ ان دہشت گردوں کو پولیس میں بھرتی کرکے عوام پر دہشت گردی مسلط کرتی ہے۔ 1995ء میں ڈاکٹر صاحب نے آواز بلند کی تھی کہ مدرسوں کی بیرونی فنڈنگ بند کردو، یہ قوم سے افکار چھین لے گی۔ اس وقت ان کی بات نہ مانی گئی اور آج اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
آج بے روزگاری کی وجہ سے مدرسوں میں جانے اور وہاں سے پڑھ کر فارغ التحصیل ہونے والوں کے لئے جاب کے دروازے بند ہیں، اس سے ان کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی مجبوری ختم کرنا حکومت کا کام ہے۔ جب حکومت اس جانب متوجہ نہیں ہوتی تو وہ اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے انتہا پسندانہ اقدام اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کا دہشت گردی کے خلاف فتویٰ اور 24کتب نصاب کو قومی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ مدارس کی بیرونی فنڈنگ کو روکا جائے۔ اعلیٰ سطح پر ایسا انسٹی ٹیوشن بنایا جائے جس میں مدارس میں پڑھانے والوں کو امن کی ٹریننگ دے کر سرٹیفیکیٹ دیا جائے اور اس سرٹیفیکیٹ کے حامل علماء کو امامت و خطابت کی اجازت دی جائے۔ مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اور علماء کے لئے قرضہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ خود روزگار کے قابل ہوسکیں۔
- محترم علامہ امین شہیدی (سینئر راہنما مجلس وحدت المسلمین): جب مظلوم، مظلوم بننے کیلئے تیار ہو تو ظالم کو پنپنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ظالمانہ نظام، عدل فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ اس نظام کی جڑیں ظلم اور کرپشن سے پھوٹتی ہیں۔ بے گناہوں کے گلے کاٹنا ہی دہشتگردی نہیں بلکہ کروڑوں عوام کو تعلیم، روزگار، انصاف سے محروم رکھنا بھی دہشتگردی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بننے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جاری کیوں نہیں ہو رہی؟ بیگناہوں کا یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس ظالم نظام کو بدلنے کی جدوجہد ناگزیر ہو گئی۔ آج علمی و فکری دہشت گردی ، عسکری دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو نظام بدلنے کے لئے جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس ملک کے مخلص جب تک اس ظالم نظام کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے اس وقت تک ملک میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ آج ملک کا بھلا چاہنے والوں کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مل کر اس ظالم نظام کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
- میاں عمران مسعود ( مرکزی راہنما مسلم لیگ ق): میں محترم ڈاکٹر حسین محی الدین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جو vision انہوںنے پیش کیا ہے ہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ کوئی عالمی امن کی بات کرے۔ اللہ کی رحمت سے اس ملک کے اندر اس کے لئے واحد فرد ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں جو حقیقی معنوں میں امن کے فروغ کے لئے کردار ادا کررہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی علمی و فکری خدمات کی بناء پر آج ایک روشن خیال اور محب وطن نوجوانوں کی کھیپ علم و عمل اور سیرت و کردار سے آراستہ ہوکر میدان عمل میں اتر رہی ہے۔
- غلام مصطفی کھر (سابق گورنر پنجاب) : میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی شخصیت سے متاثر ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کوئی شخص ایسا ہے جو ملک و قوم کی حقیقی معنی میں خدمت کررہا ہے۔ آپ کی شخصیت کا خاصہ ملک کی تعمیر و فلاح کے لئے ہمہ وقت ہر پہلو سے مصروف عمل رہنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کمال شخصیت ہیں، میں نے زندگی میں بڑے بڑے مقرر و لیڈر دیکھے ہیں لیکن جب وہ تقریر کرتے ہیں تو لوگ اٹھ کر چلے جاتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کو لوگ دس دس گھنٹے بیٹھ کر سنتے رہتے ہیں۔ تقریر کرنا کوئی بہت بڑا آرٹ نہیں، بہت سے لوگ کرسکتے ہیں مگر اصلی اور جعلی لیڈر کی پہچان یہ ہے کہ جعلی لیڈر کی تقریر ختم ہوتے ہی لوگ بھول جاتے ہیں جبکہ اصلی لیڈر کی تقریر دل پر تحریر ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں وہ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
میں قوم کے ان بزرگ اور بہنوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی کال پر لبیک کہا اور میدان عمل میں نکلے۔ ان شاء اللہ ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی اور دنیا و آخرت میں آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ میں امید کھوبیٹھا تھا کہ کوئی ملک کی تقدیر بدل سکے مگر اللہ نے ڈاکٹر صاحب جیسی قیادت عطا کی جس میں لیڈر شپ کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت سے بہتر اور ان کے کارکنان سے بہتر کوئی نہیں ہے۔
- خرم نواز گنڈا پور (جنرل سیکرٹریPAT): میں جملہ معزز مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پاکستان عوامی تحریک ان مجاہدوں کا مجموعہ ہے جنہوں نے حکومتی دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کی وہ تاریخ رقم کی جو پاکستان کی تاریخ میں کوئی رقم نہ کرسکا۔ ہمارے کارکنان اپنے قائد کے زیر قیادت ریاستی جبر کے مقابلے میں خم ٹھونک کے کھڑے ہوئے اور آج بھی کھڑے ہیں۔ ہمارا راستہ انقلاب ہے اور انقلاب آکر رہے گا۔ ہمارے شہیدوں کا خون رنگ لائے گا اور ہم ان حکمرانوں سے ان شاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرکے دم لیں گے۔