خصوصی خطاب:شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
مرتب: محمد یوسف منہاجین معاون:محمد خلیق عامر
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَo
’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں‘‘۔
(البينة، 98: 5)
نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی عمل حسنِ نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچتا۔ اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد ازاں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرنے کے باوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے۔ یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اذا هم عبدی بحسنه فلم يعملها کتبتها له حسنة فان عملها کتبتها له عشر حسناتo
(صحيح مسلم، باب اذا هم العبد بحسنة، 1: 117، الرقم: 128)
یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَاo
’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں‘‘۔
(الانعام، 6: 166)
یہ نیکی کا کم سے کم اجر ہے۔ ایک نیکی پر اجر کہاں تک بڑھتا ہے، حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کل عمل ابن ادم يضاعف الحسنة عشر امثالها الی سبعمائة ضعفo
’’ابن آدم کو ہر نیکی پر 16 گنا اجر سے لے کر 766 گنا سے بھی زائد اجر ملتا ہے‘‘۔
(مصنف ابن ابی شيبه، 2: 273، الرقم: 8894)
گویا ایک ہی عمل پر کسی کو 16 نیکیاں، کسی کو 166 نیکیاں، کسی کو اسی عمل پر 766 نیکیاں اور کسی کو 766 سے بھی زیادہ بے حساب نیکیاں ملتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمل تو ایک تھا، اس کی کمیت میں کوئی فرق نہیں تھا مگر ہر ایک کو جدا جدا اجرو ثواب کیوں ملا؟
یاد رہے کہ نیکیوں اور درجات کے کم و بیش ہونے کی وجہ حسنِ نیت ہے۔ نیت عمل کے پیچھے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا، وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجر و ثواب پائے گا۔ کسی شخص کی نیت ٹمٹماتے ہوئے چراغ جیسی ہے، کسی کی لالٹین جیسی، کسی کی چراغ جیسی، کسی کی بلب جیسی، کسی کی ٹیوب لائٹ جیسی، کسی کی چاند جیسی اور کسی کی نیت سورج جیسی ہے۔ الغرض جتنی روشنی اور نور کسی کی نیت میں ہے، اسی قدر اس کے عمل کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔ نیت کے اندر موجود خالصیت اور للہیت اس نیت کے نور، قوت، برکت، قبولیت اور درجے کو بڑھانے کا سبب ہے۔ جوں جوں نیت کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عمل کا درجہ اور اجر و ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اجرو ثواب میں فرق کا سبب
سورہ الاحقاف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاo
’’اور سب کے لیے ان (نیک و بد) اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کیے (جنت و دوزخ میں الگ الگ) درجات مقرر ہیں‘‘۔
(الاحقاف، 46: 19)
یعنی ہر عمل کرنے والے کے لیے درجات مختلف ہیں۔ عمل کے نتیجے میں جدا جدا درجات کا ہونا نیتوں کی کیفیت کے باعث ہے کہ نیت کیسی ہے؟ جیسی نیت ہوگی عمل کے نتیجہ میں ویسے ہی درجہ کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتوں میں اخلاص کا درجہ نہایت بلند اور کامل ہونے کی وجہ سے ہی آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے فرمایا کہ
آخری زمانے میں جب لوگوں کی نیتیں خراب ہو چکی ہوں گی، ان میں ملاوٹ آ چکی ہوگی تو وہ اُحد پہاڑ کے برابر بھی اگر سونا اللہ کی راہ میں خیرات کریں گے تو ان کو اتنا اجر نہ ملے گا جتنا میرے صحابہ میں سے کسی شخص کو ایک رائی کے دانے کے برابر خیرات پر ملے گا۔
(مجموع الفتاویٰ، 3: 155)
اجرو ثواب میں اس فرق کا سبب اخلاص اور خالصیت ہے۔ اسی لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:
نية المؤمن خير من عمله و عمل المنافق خير من نيته.
’’مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے‘‘۔
(المعجم الکبير، 6: 185، الرقم: 5942)
منافق عمل پر زیادہ زور دیتا ہے کیونکہ عمل نظر آنے والی شے ہے اور اس کے دنیاوی اثرات و نتائج بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ منافق کی پوری توجہ نیت کے بجائے عمل کو بڑھانے پر ہوتی ہے، اس لئے کہ اس کے عمل کی غرض و غایت ریا اور دکھلاوا ہے، دنیا میں مدح سرائی مقصود ہے۔ لہٰذا وہ عمل کی کمیت اور عمل کو مزین بنانے پر توجہ رکھتا ہے۔ وہ نیت کو رد کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیت لوگوں نے نہیں دیکھنی اور اس کے ظاہری فوائد اور اثرات بھی مجھے حاصل نہیں ہونے۔ دوسری طرف آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن کا حال منافق کے برعکس ہے۔ مومن کا عمل اگر قلیل بھی ہو تو وہ پرواہ نہیں کرتا، وہ اپنی نیت کو خالص رکھنے کی طرف متوجہ رہتا ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ عمل لوگوں نے دیکھنا ہے جبکہ نیت پر رب کی نگاہ پڑ رہی ہے۔
دین کو خالص کرنے کا حکم
اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسی جانب متوجہ فرمایا:
وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ.
’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں‘‘۔
(البينة، 98: 5)
یعنی اس کامل اطاعت میں ایسا اخلاص ہو کہ نیت و توجہ الی اللہ رہے، اس نیت اور توجہ میں کوئی جھول اور ملاوٹ نہ ہو۔ اخلاص پر مبنی اس اطاعت و بندگی کو اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کے ساتھ مزید ایک شرط بھی بیان کی۔ ارشاد فرمایا:
حُنَفَآءَ
’’(ہر باطل سے جدا ہوکر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں‘‘۔
(البينة: 5)
حُنَفَآءَ حنیف کی جمع ہے اور حنیف کا معنی ہے:
هو الذی يتحنف عن الاديان أي يميل إلی الحق.
(ابن منظور افريقی، لسان العرب، 9: 57)
یعنی جو سارے مذاہب اور ادیان سے منہ پھیر کر دین حق کی طرف ہو جائے اور اپنے راستے میں اتنی استقامت اور کامل یکسوئی کے ساتھ سیدھا چلے کہ کسی قدم پر بھی وہ دائیں بائیں لغزش نہ کھائے۔
حُنَفآء کی شرط کے ساتھ اللہ رب العزت نے مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کی تعریف کی کہ اخلاص ایسا ہو کہ صرف للہیت پر قائم ہو۔ اس میں توجہ اور التفات فقط الی اللہ ہو۔ ماسویٰ اللہ کا نہ کوئی دھیان رہے، نہ رجحان رہے، نہ گھیان رہے اور نہ میلان رہے۔ بندہ کاملاً وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا کی عملی تفسیر بنتا ہوا ہر ایک سے ٹوٹ کر صرف اُسی کا ہوجائے۔ جس کی راہ میں ایسی استقامت ہو وہی حنیف ہوتا ہے۔
نیتوں میں اس کامل اخلاص اور یکسوئی و استقامت کی طرف متوجہ کرنے کے بعد عمل کا حکم دیا کہ
وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ.
’’اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے‘‘۔
(البينة، 98: 5)
اللہ رب العزت نے دین میں اخلاص کا حکم دیتے ہوئے اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ جیسے عمل کو مؤخر کیا۔ پہلے نیت کی صفائی کی، دل، روح، من، دھیان، رجحان اور خیال کی زمین میں اخلاص و للہیت کا پودا بویا ہے اور ہر باطل اور ما سوی اللہ سے توجہ کو ہٹایا ہے۔ جب یکسوئی نیت خالصتاً نصیب ہو گئی تو اُس کے بعد اعمال صالحہ کی بات کی اور فرمایا کہ َذٰلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ یہ دین قیم ہے یعنی اگر دین مستقیم کی راہ چاہتے ہو تو اس ترتیب سے چلو۔ گویا نیت کی اصلاح مقدم ہے، تب جا کر عمل قبول ہوتا ہے۔
عمل کے کمال یا زوال کی کنجی
لطف کی بات یہ ہے کہ اگر محض نیتِ حسنہ ہو اور عمل کسی مجبوری سے رہ جائے تو اُس نیت کا بھی اجر ہے لیکن اگر محض عمل نیک ہو اور اس کے پیچھے نیت نیک نہ ہو تو نیک عمل بھی کسی اجر کا باعث نہیں بنتا بلکہ رائیگاں جاتا ہے۔ گویا نیت بغیر عمل کے بھی درجہ اور ثواب دیتی ہے جبکہ بغیر نیت کے عمل، کمال تو دور کی بات درجہ اور ثواب بھی نہیں دیتا۔ اگر نیتِ باطلہ آ جائے تو نہ صرف عمل اجر سے محروم ہو جائے گا بلکہ باعثِ عذاب بھی ہوگا۔ عمل کی قبولیت یا مردودیت، عمل کے کمال یا عذاب میں بدل جانے کی کنجی نیت میں ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ الماعون میں ارشاد فرمایا:
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَo الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَهُوْنَo الَّذِيْنَ هُمْ يُرَآئُوْنَo وَ يَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo
’’پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیے۔ جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اﷲ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)o وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)o اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتے‘‘۔
(الماعون، 167: 4-7)
یعنی یہ لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر نماز میں نیت چونکہ دکھلاوا اور ریا کاری ہے لہذا وہ نماز بھی ان کے لئے دوزخ کے اذیت ناک عذاب کا باعث بن جاتی ہے۔ پڑھی تو نماز ہے مگر نیت باطل ہونے اور اس میں ریا ہونے کی وجہ سے نماز نہ اس کے اجر کو ضائع ہونے سے روک سکی اور نہ اس کو دوزخ میں پھینکے جانے کو روک سکی۔ اس نماز نے اسے دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جانا تھا لیکن نیت باطلہ نے پورا حال بدل دیا۔ پس نیت و عمل کے حوالے سے یہ قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ نیت ہر عمل کی قبولیت و مردودیت اور ثواب و عذاب کی کنجی ہے۔
زندگی کا ہر لمحہ عبادت بنایا جاسکتا ہے
ہم اپنی زندگیوں میں بہت سے عمل بلا جھجک کرتے ہیں لیکن وہ رائیگاں جاتے ہیں۔ جو عمل نیت اور ارادے کے بغیر کیا جائے وہ عمل نہیں بلکہ فعل کہلاتا ہے۔ اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا کیونکہ یہ اعمال ہماری عادتیں ہیں۔ افعال اور اعمال میں فرق ہے۔ جو کام بغیر ارادے کے کئے جائیں وہ افعال و عادات ہیں اور جو کام ارادے کے ساتھ کئے جائیں وہ اعمال ہیں۔ فعل پر اجر نہیں چونکہ وہ عادت ہے، عمل کا اجر ہے اس لئے کہ وہ عبادت ہے۔
اگر ہم چاہیں تو زندگی کا ہر لمحہ عبادت بنا لیں لیکن افسوس کہ ہم نے ساری زندگی بے کار کر رکھی ہے۔ ہماری زندگی کے سب لمحے رائیگاں جا رہے ہیں۔ ہم روز کھانا کھاتے ہیں مگر کھانا کھاتے ہوئے کبھی ایسی نیت نہیں کرتے جس سے ہمارا کھانا بھی عبادت میں بدل جائے حالانکہ یہ ممکن ہے۔ اگر ہم یہ نیت کر کے کھائیں کہ اس کھانے سے اللہ کی عبادت و اطاعت اور دین مبین کی خدمت کے لئے میرے جسم کو قوت میسر آئے۔ اتنی نیت کرنے میں ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا مگر جو کچھ رزق حلال میں سے ہم کھائیں گے اس کا ایک ایک لقمہ عبادت بن جائے گا۔ پس اتنی نیت نے ہمارے کھانے کو عبادت بنا دیا۔ ہم روز کھاتے ہیں مگر کبھی اس طرح کی نیت نہیں کی۔صرف بسم اللہ پڑھ لینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور کئی کو تو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح نیت نیند کو بھی عبادت بنا دیتی ہے۔ اہل اللہ کی نیند دوسرے لوگوں کی نفلی عبادت سے افضل ہے کیونکہ وہ جب سوتے ہیں تو اس نیت سے سوتے ہیں کہ جسم کو آرام ملے تاکہ صبح تازہ دم ہوکر پھر اللہ اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوکری کر سکیں، دین کی خدمت بجا لاسکیں، عبادت و اطاعت بجا لا سکیں، فرائض دین جو ان کے سپرد ہیں انہیں قوت کے ساتھ انجام دے سکیں۔ پس اس نیت سے سونے سے لے کر بیدار ہونے تک ان کا ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے۔ ملائکہ ان کے سرہانے اور پائنتی کھڑے ان کی بخشش کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
گویا نیت کی قوت اتنی ہے کہ اُس نے نیند، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کو بھی عبادت بنا دیا۔ ہم اپنی زندگی میں بے شمار عمل کرتے ہیں جس میں نیت ہی نہیں ہوتی۔ پس وہ افعال اور عادات ردی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا نامہ اعمال میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ صرف نیت کا مسئلہ اگر سمجھ لیا جائے تو پوری زندگی بدل جائے اور لمحہ لمحہ عبادت بن جائے۔ لہذا جو کام بھی کرنے لگیں بس یہ دیکھیں کہ یہ کام اللہ کی رضا کا ہے، اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر کی متابعت و مطابقت میں ہے۔ یعنی اس کا تعین کرلیں کہ وہ کام اللہ کے حکم کے خلاف نہ ہو کیونکہ ہر وہ کام جو مباحات زندگی میں سے ہے اگر اللہ کے لئے اس کی نیت کرلی جائے تو وہ عادت نہیں رہے گی بلکہ عبادت ہو جائے گی۔
نیت میں ملاوٹ نہ کریں
عموماً کسی کام کو کرتے ہوئے ہم نیت ہی نہیں کرتے یا نیت تو کرتے ہیں مگر نیت اللہ کے لیے نہیں ہوتی، خالصتاً لوجہ اللہ نہیں ہوتی۔ نتیجتاً وہ عمل اجر و ثواب، اللہ کی قربت اور رضا کے حصول سے محروم رہتا ہے۔ دنیاوی اغراض و مقاصد آ جانے سے وہ عمل باطل ہو جاتا ہے۔ وہ عمل نہ تو اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے اور نہ ہمارے قلب و باطن کو نور فراہم کرتا ہے۔ عمل کر کے باطن میں پھر بھی اندھیرا رہتا ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ اللہ کے حضور کیا عمل لے کر آئے ہو؟
عالم کہے گا کہ تو نے مجھے علم دیا اور میں نے تیرے علمِ دین کو لوگوں میں پھیلایا۔ اللہ فرمائے گا کہ میں نیتوں کا حال بہتر جانتا ہوں۔ تو نے علم کی تبلیغ اس لئے کی تاکہ لوگ تجھے عالم کہیں اور تیری عزت ہو۔ جو تو نے چاہا، اور جس کی نیت تھی وہ تجھے دنیا میں مل گیا۔ آج کے دن تیرے لیے کوئی اجر نہیں۔
غنی کھڑا ہوگا اور کہے گا کہ اے میرے رب! تو نے مجھے مال دیا، میں نے اسے غریبوں پر خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ جواب دیں گے: تو نے اس لیے خرچ کیا کہ لوگ تجھے سخی اور غنی کہیں، تجھے ملتے ہوئے تیرے آگے جھکیں، شہر میں تیری عزت ہو کہ بڑا سخی ہے اور بڑا خرچ کرنے والا ہے۔ جو تو نے چاہا اور جو تیری نیت تھی وہ تجھے دنیا میں مل گیا۔ آج تیرے عمل کا کوئی اجر نہیں۔
شہید کہے گا کہ باری تعالیٰ تو نے مجھے زندگی دی، میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور اپنی زندگی قربان کردی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جہاد میں ضرور گیا مگر تیری نیت یہ تھی کہ اگر مارا گیا تو لوگ شہید کہیں گے، بچوں کا نام ہوگا اور اگر زندہ رہا تو غازی کہلوائوں گا۔ پس تو نے ناموری اور شہرت کے لیے جہاد میں حصہ لیا۔ تو نے جو چاہا وہ تجھے مل گیا، لہذا آج کے دن تیرے لیے کوئی اجر نہیں۔
(صحيح مسلم، کتاب الامارة، 3: 1513، الرقم: 1965)
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ نیت باطل ہو تو بڑے بڑے اعلیٰ درجے کے اعمال بھی رائیگاں جاتے ہیں۔ اگر دکھلاوے اور ریا کی نیت سے ادا کی جانے والی نماز اور جہاد دوزخ کے اذیت ناک عذاب اور سب سے نچلے درجے کا باعث بن سکتے ہیں تو باقی کون سے اعمال ہیں جن کی نیت باطل اور ریا پر مبنی ہونے کے سبب وہ اعمال بندے کو بچا لیں گے۔ ہم نیت نہیں کرتے نتیجتاً ہمارے اعمال فقط عادات اور افعال رہ جاتے ہیں اور اگر نیت ہوتی ہے تو دل کے اندر کھوٹ ہوتا ہے۔ ہم نیت خالصتاً لوجہ اللہ نہیں کرتے بلکہ کوئی نہ کوئی غرضِ دنیا پیش نظر ہوتی ہے۔
نیت کی اقسام
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ نیکی کی نیت بھی کرتے ہیں لیکن ساتھ میں دنیاوی مقاصد کی نیت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ اسی لیے اولیاء اللہ نے نیت کی تین اقسام بیان کی ہیں:
- نیتِ صافیہ
- نیتِ ممتزجہ
- نیت کَدِرَہ
نیت صافیہ/نیت خالصہ
نیت صافیہ/ خالصہ سے مراد وہ نیت ہے جو صرف اللہ کی رضا اور اس کی لقاء کے لیے ہو۔ یعنی عمل صرف اللہ کی رضا، اس سے ملاقات، اس کے حکم کی متابعت اور اس کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ یعنی سوائے اللہ کی رضا کے کچھ مطلوب نہ ہو۔ نیت صافیہ کا مفہوم قرآن مجید میں بیان کردہ ایک واقعہ سے واضح ہوتا ہے:
حسنین کریمین کے بیمار ہونے پر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا نے منت مانی کہ جب وہ شفا یاب ہوں گے تو ہم روزے رکھیں گے۔ جب وہ شفایاب ہو گئے تو انہوں نے شکرانے کے تین روزے رکھے۔ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدئہ کائنات سلام اللہ علیہا کے پاس افطاری کے لئے نہایت کم کھانا تھا جو بمشکل انہیں ہی کفایت کرتا۔ جب افطار کرنے لگے تو ایک شخص دروازے پر آیا اور اس نے آواز دی کہ میں یتیم ہوں، میرے پاس کھانے کا کچھ نہیں، بھوکا ہوں۔ اس گھرانے کے پاس اس وقت کھانے کے لئے جو کچھ تھا، وہ اس کو دے دیا اور خود پانی سے افطار کر لیا۔
دوسرے دن روزہ رکھا، عین افطار کے وقت صدا آئی کہ میں مسکین و محتاج ہوں اور بھوکا ہوں۔ اہل بیت اطہار نے افطاری کے لئے موجود اشیاء اسے دے دیں اور خود پانی سے افطار کر لیا۔ تیسرے دن بھی وقتِ افطار اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑگیا۔ آواز آئی کہ میں ایک قیدی ہوں اور کئی دن سے بھوکا ہوں۔ حسب سابق سارا کچھ اسے دے دیا اور خود پانی سے افطار کر لیا۔ قرآن مجید اہل بیت اطہار کی اس قربانی و ایثار اور ان کی نیت خالصہ کو یوں بیان کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهِ مِسْکِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا.
’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں‘‘۔
(الدهر، 76: 8)
ایک اعتراض کا جواب
یہاں جملہ معترضہ کے طور پر اس واقعہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب بھی دیتا چلوں کہ بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے یا اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت و رغبت کے فقدان یا بغض و عداوت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ واقعہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم، سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا اور حسنین کریمین علیہما السلام سے متعلق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ واقعہ مکہ معظمہ میں پیش آیا۔ مدینہ طیبہ میں یہ آیت اتری ہی نہیں۔ وہ اس آیت کو مکی آیت قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دور مکہ میں حضرت علی و فاطمہ علیہما السلام کی تو شادی ہی نہ ہوئی تھی اور نہ حسنین کریمین کی ولادت ہوئی تھی۔ لہذا یہ واقعہ بھی ان سے متعلق نہیں ہے۔
اس بات کو رد کرنے کے محدثانہ اور مفسرانہ جوابات بہت سے ہیں مگر ان ساری چیزوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک نکتہ اسی آیت کریمہ سے اس سوال کے جواب میں دے رہا ہوں۔ اس جواب کے بعد پھر بقایا کسی راوی کے کہنے کی کوئی حیثیت برقرار نہیں رہتی۔ اس لئے کہ قرآن کی اس آیت پر تو کسی کو اعتراض نہیں۔
اس آیت میں یتیم، مسکین اور قیدی کا ذکر آیا ہے۔ یتیم اور مسکین مکہ میں بھی تھے اور مدینہ میں بھی تھے لیکن قیدیوں کا وجود تو اسلام کی تاریخ میں ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ میں سرے سے تھا ہی نہیں۔ پھر آیت میں قیدی کی بات کہاں سے آگئی۔ مکہ میں تو کوئی جہاد و غزوہ نہیں ہوا۔ جہاد کی اجازت بھی نہیں تھی اور نہ وہاں کوئی قیدی بنایا گیا۔ قیدی تو ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے غزوئہ بدر میں بنے اور 76 کفار گرفتار ہوئے اور قیدی بن کر آئے۔ اگر فقط مِسْکِيْنًا وَّيَتِيْمًاکی بات ہوتی تو اس تعبیر پر سوچنے کی گنجائش تھی۔ لیکن اب تو نصِ قرآنی کے مقابلے میں کسی روایت پر غور کرنے کی بھی گنجائش نہیں رہتی۔ جب کہہ دیا کہ قیدیوں کو کھلا دیتے ہیں تو قیدیوں کا وجود ہی مدینہ میں تھا۔ اس لیے اس کا اطلاق بغیر شک و شبہ کے اہل بیت اطہار مولیٰ علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم، سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور حسنین کریمین کی شفایابی کے شکرانے کے روزوں پر ہے۔ لہذا دوسری کسی روایت کی گنجائش نصِ قرآن کے مقابلے میں نہیں رہتی۔
اللہ رب العزت نے اہل بیت اطہار کے اس واقعہ کا تذکرہ قرآن میں کیا اور پھر ان کی نیت کا ذکر بھی کیا کہ وہ نیتِ صافیہ کے کمال پر تھے، اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ
اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اﷲِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًاo
’’ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں‘‘
(الدهر، 76: 9)
انما کلمہ حصر ہے۔ مراد یہ کہ کھانا دینے اور خود فاقہ کر لینے کا سرے سے ہی کوئی سبب، غرض اور نیت نہیں ہے صرف اس لیے کھلایا کہ مولیٰ راضی ہو جائے۔ جس کی مدد کی اس سے اس کا نہ کوئی بدلہ مانگتے ہیں حتیٰ کہ شکر گزاری بھی نہیں مانگتے کہ یہ کلمہ بھی ہمارے دروازے پر نہ کہو کہ ہم آپ کے بڑے شکر گزار ہیں۔ اس لئے کہ یہ سب رب کے لیے کیا ہے، تمہارے لیے نہیں کیا۔ جب اللہ کی خاطر کئے ہوئے عمل کی نیت اتنی خالص، صاف اور صافیہ ہو جائے کہ اس میں نہ جزا کی گرد رہے، نہ کسی شکریہ کی طلب کی گنجائش رہے، نیت خالصتاً لوجہ اللہ کمال پر جا پہنچے اور جو کچھ ہے وہ فقط مولیٰ کی رضا کے لیے کیا ہو تو اس نیت کو نیت صافیہ و خالصہ کاملہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی نیت کے ساتھ اعمال کرنے والوں کو جنتوں اور اس کے چشموں کا مالک بنا دیتا ہے۔
جو لوگ اپنے تعلق میں اللہ کے ساتھ خالص ہو جاتے ہیں تو پھر وہ وہ لذت پاتے ہیں۔ ان کے ہاں خستہ حالی سے بہتر خوشحالی کوئی نہیں ہوتی۔ ان کو اس حال میں کیف و سرور ملتا ہے۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حج پر گیا، کعبۃ اللہ کے طواف کے دوران میری نظر ایک جوان پر پڑی جس کے چہرے سے معرفت کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، ظاہری حالت بڑی خستہ تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ فقر، افلاس اور حاجتمندی کے حال میں ہے۔ میرے پاس کل ایک سو دینار تھے، میں نے سو دینار جیب سے نکالے، ہاتھ میں رکھے اور تیزی سے طواف کے دوران اس کے قریب ہوا اور اس کے ہاتھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر سو دینار اسے دینا چاہے۔ اس جوان نے میرا ہاتھ جھٹکے سے پیچھے کر دیا۔
میں دوبارہ آگے بڑھا اور اس کے کان میں آہستہ سے کہا کہ اے جوان! میں نے تیری خستہ حالت دیکھی ہے، میرے پاس یہ سو دینار تھے، اس سے ضروریات کو پورا کر لینا، میں صدق و اخلاص سے یہ خدمت کر رہا ہوں۔ اس جوان نے رک کر مجھے جواب دیا: ذوالنون اس رب کی قسم جس کے گھر میں تم اور میں طواف میں مصروف ہیں، اس خستہ حالی کے عوض مجھے اگر کوئی جنت اور جو کچھ جنت میں ہے سارا دے کر کہے کہ یہ حال بیچ دو، تو میں ساری جنت کے عوض بھی یہ حال کبھی بیچنے کو تیار نہیں۔ وہ دارالبقاء ہے اور تو دار فناء کے چند درہم و دینار دے کر میرا حال ختم کرنا چاہتا ہے۔ جو لذت مولیٰ کے دئیے ہوئے اس حال میں ہے، وہ درہم و دینار میں نہیں ہے۔
گویا جب نیت صافیہ اور خالصہ ہو جائے تو زندگیوں سے اذیت اور پریشانی ختم ہوجاتی ہے اور جب اذیت اور دکھ ہی نہیں رہتا تو زبان پر کبھی شکوہ ہی نہیں آتا۔
نیت ممتزجہ
جس نیت میں ملاوٹ آ جائے، خلوص اور دنیوی حرص آپس میں خلط ملط ہوجائیں، اس کو نیت ممتزجہ کہتے ہیں۔ حضرت امام احمد الرفاعی بیان کرتے ہیں کہ
ایک شخص حج کے سفر میں حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ملا، اس نے کہا کہ مجھے آپ سے بڑی محبت ہے۔ میں آپ کا سچا طالب ہوں اور آپ کی محبت میں گرفتار ہوں۔ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ اس کی بات سن کر رُک گئیں۔ آپ نے فرمایا: سچ کہہ رہے ہو؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا: اچھا ایک بات سنو، میری ایک بہن ہے تم نے شاید اس کو نہیں دیکھا، مجھ سے بدرجہا خوبصورت ہے۔ اس کے حسن و جمال کی کوئی حد ہی نہیں، ذرا مڑ کر میری بہن کو دیکھو اور پھر موازنہ کرو۔ آپ کی یہ بات سن کر اس شخص نے آپ کی بہن کو تکنے کے لئے دفعتاً گردن پھیری۔ اس شخص کے اس عمل پر آپ نے ایک طمانچہ اس کے منہ پر مارا اور فرمایا: بدبخت میرے ساتھ عشق کا دعویٰ بھی کرتے ہو اور کسی دوسرے کے حسن کو بھی تکنے کی خواہش رکھتے ہو۔ میرے حوالے سے نیت میں خالصیت، رغبت اور محبت کا تمہارا دعویٰ کلیتاً باطل ہے۔ محبت جس خالصیت کو چاہتی ہے، وہ خالصیت تیرے اندر نہیں، اس میں ملاوٹ ہے۔ ابھی تیری نیت میں گنجائش ہے کہ کوئی اس سے حسیں تر مل جائے تو دھیان ادھر کر لیا جائے۔ آپ نے فرمایا: جھوٹے! تیرا حال میری محبت میں اتنا دگرگوں ہے تو مولیٰ کی محبت میں تیری خالصیت کتنی کم ہوگی؟ میں نے بہت سے لوگ دنیا میں دیکھے کہ جن کی باتیں سنیں تو عارف لگے مگر ان کا تجربہ کیا تو کاذب لگے اور تم کذابین میں سے ہو۔
نیت کَدِرَہ
یہ نیت صافیہ کے بالمقابل دوسری انتہاء پر ہے۔ جو نیت ریاکاری، تکبر اور دنیا پرستی کے لیے ہو، اس کو نیت کدرہ کہتے ہیں۔ یعنی اس میں کامل کدورت اور میل کچیل آ جاتا ہے اور صفائی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ آدمی ظاہری نیک اعمال کرتا ہے مگر اس کا ارادہ و غرض دنیوی حرص و لالچ کے لیے ہوتا ہے۔
حضرت ابو یزید بسطامی کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس اسم اعظم ہے۔ مجھے بھی اس کی تعلیم دیں تاکہ جب اس کو پکاروں تو میرے بھی کام ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا: نادان اُس ذات کے لیے اسم محدود نہیں ہے:
ليس له حد محدود انما هو فراغ قلبک لوحدانية فاذا کنت کذلک فارفع الی ای اسم شئت.
(حلية الاولياء، 16: 39)
یعنی اپنے دل کو اور اپنی جان کو اللہ کے ماسویٰ سے پاک کر لے۔ اللہ سے ایسا تعلق رکھ کہ اس تعلق میں کسی غیر کے سائے کا بھی گزر نہ ہو۔ کسی غیر کا خیال، ماسویٰ اللہ کا دھیان اور غیر کی کوئی گرد بھی بھولے سے ادھر نہ آئے۔ الغرض تیرے اور تیرے مولیٰ کی رضا کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو۔ جب تو اپنا دل اللہ کے ماسویٰ سے اس طرح خالی کر دے گا تو پھر جس نام سے چاہے رب کو پکار، وہی اسم اعظم ہے۔ ہر اسم، اسم اعظم ہے۔ جو نام پکارے گا اسی نام کی کرامت ہوگی۔
کرامت نام میں نہیں بلکہ دل کو رب کی خلوت گاہ بنانے میں ہے۔ دل کو رب کے لیے صاف کرنے میں کرامت ہے کہ بندے نے اپنا دل مولیٰ کے لیے کتنا خلوت کدہ بنایا ہے۔۔۔؟ اللہ کے تعلق کو اپنے قلب و باطن اور چاہت میں کتنی جگہ دی ہے۔۔۔؟ کتنا خالصتاً لوجہ اللہ ہے۔۔۔؟ جوں جوں ماسوی اللہ سے دھیان کا دامن، رغبت کا دامن اور حرص و لالچ کا دامن چھوٹتا جائے گا اور التفات سوئے خدا جوں جوں کامل ہوتا چلا جائے گا ہر اسم اسم اعظم بنتا چلا جائے گا۔ اس لئے کہ نیت جب خالصہ ہوجاتی ہے تو پھر بندے کے احوال بدل جاتے ہیں۔
نیت کو فاسد کرنے والی چیزیں
ہماری نیت کو فاسد کرنے والی دو چیزیں ہیں، جس سے سارے اعمال برباد ہو جاتے ہیں:
- ایک شے ہمارے خارج میں ہے یعنی ابلیس
- ایک شے ہمارے داخل میں ہے یعنی نفس
یہ دونوں یعنی شیطان اور نفس وسوسہ اندازی اور اپنے اثر کے ذریعے ہمارے رجحانات، زندگی کے اعمال کے پیچھے کار فرما خیالات، ہمارے دھیان کے رخ اور ہماری نیتوں کو تبدیل اور گدلا کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ. مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.
’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے‘‘۔
(الناس، 114: 5)
باطل نظریات اور عقائد کو وسوسہ کہتے ہیں۔ اس سے یقین ختم ہو جاتا ہے۔ یقین ختم ہو جائے تو اللہ کے ساتھ خالص تعلق قائم کرنے کی رغبت و شوق ختم ہو جاتا ہے۔ وسوسہ آنے سے یقین نہ رہا بلکہ وہم آگئے نتیجتاً وہ شوق و رغبت ختم ہو گئی جس نے خالصتاً ہماری توجہ کو اللہ سے جوڑنا تھا۔ دوران عمل طرح طرح کے خیالات آنے لگ جاتے ہیں اور یہ خیالات، آرزوئیں و امیدیں بن کر ہماری نیت کو گدلا کر دیتے ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا:
اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا.
’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی (اس کی مخالفت کی شکل میں) اسے دشمن ہی بنائے رکھو‘‘۔
(فاطر، 35: 6)
شیطان کے حملوں کے طریقے
شیطان ہمیں ہلاک کرنے اور ہمارے اعمال کو باطل کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ کبھی وہ ہمارے عقائد خراب کرتا ہے، کبھی افکار و نظریات پر حملہ کرتا ہے، کبھی یقین و توکل کو وسوسہ کے ذریعے ختم کرتا ہے۔ یعنی ہم پر اعتقادی، فکری اور نظریاتی حملے کرتا ہے۔ کبھی اس کا حملہ ہم سے گناہ، معصیت، نافرمانی کا ارتکاب کروانے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ذیل میں ہم شیطان کے ان بڑے حملوں کے متعلق جانتے ہیں جو ہماری کمزوری و نقص کے باعث بڑے کارگر ہوتے ہیں اور ان کی پہچان کے بغیر ہم ان حملوں سے بچ نہیں سکتے۔
عبادت و طاعت سے روک دین
شیطان کا کام ہماری زندگی میں عملی خرابیوں کے لیے صرف یہ نہیں کہ وہ ہم سے گناہ کروائے۔ اس لئے کہ گناہ اور غلطی کے بعد اگر سمجھ آ جائے کہ غلط کر رہا ہوں تو اصلاح کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے، انسان گناہوں کا احساس کرلے تو سنورنے کے امکانات ہیں۔ لہذا ہم سے گناہ کروانا، غلط کام کروانا، شراب پر لگا دینا، بدکاری پر لگا دینا یہ تمام کام شیطان کے چھوٹے حملے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ نظر آتا ہے، سمجھ میں آتا ہے۔ لہذا اس کا اس سے بڑا حملہ بھی ہے؟ وہ بندوں کو ظاہری گناہوں پر لگانے کے بجائے بندے پر انحصار کرتا ہے۔ وہ منتخب کرتا ہے کس پر کون سا حملہ کرنا ہے اور کون سا بندہ اس کے کس حملے کے لیے موزوں ہے۔ اس کے حملے کی حکمت عملی کیس ٹو کیس ہوتی ہے۔
لہذا بعض لوگوں پر شیطان کا حملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے ظاہری گناہ نہیں کرواتا مگر انہیں نیکی کے کاموں اور اللہ کی اطاعت بجا لانے سے روک دیتا ہے۔ شراب، جوا، بدکاری، حرام کاری پر نہیں لگاتا مگر نماز کے لیے اس کا دل اچاٹ کروا دیتا ہے۔ نماز میں غفلت کرا دیتا ہے۔ کبھی ایک نماز چھوٹ گئی، کبھی دو چھوٹ گئیں، کبھی تین، رفتہ رفتہ کئی چھوٹ گئیں۔ پہلے چھوٹنے پر دکھ ہوتا تھا، رفتہ رفتہ دکھ بھی جاتا رہتا ہے اور غم بھی جاتا رہتا ہے۔ الغرض وہ عبادت، اطاعت اور نیکی کا عمل چھڑوا دے گا اور ان کی طرف رغبت اور رحجان بھی کم کرا دے گا۔ نیکیوں کے عمل سے روک دینا دراصل گناہوں کا ارتکاب کروانے سے بھی زیادہ بڑا حملہ ہے۔ اس سے انسان کا نامہ اعمال خالی ہوجاتا ہے۔
بدعقیدگی پیدا کردین
ایک بنیادی نکتہ یاد رکھ لیں کہ شیطان کا مقصود، غرض اور مطمع نظر انسان سے گناہ کروانا نہیں بلکہ اس کا مقصد اسے اپنے ساتھ دوزخ میں لے جانا ہے۔ اس نے اللہ کی بارگاہ میں قسم کھائی تھی کہ میں تیرے بندوں سے جہنم کو بھر دوں گا۔ لہذا وہ کئی طریقوں سے اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ جس طرح وہ گناہ کرواکر اور نیکیوں سے روک کر اپنے مقصد کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح وہ بندوں کو بدعقیدگی کی طرف مائل کرکے بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ بھلے ساری زندگی روزے رکھیں، نمازیں پڑھیں، مدرسے بنائیں، شریعت شریعت کی رٹ لگائیں مگر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور تعظیم و تکریم کو شیطان دل سے ختم کروادیتا ہے، جس سے ظاہری عبادت کا بھی کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔
اب خواہ ساری زندگی نمازیں پڑھیں، اس کی فکر شیطان کو نہیں ہوتی اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ میں نے اس شخص کو بدعقیدہ بنا دیا ہے اور اب یہ بدعقیدگی اس کو جہنم کا ایندھن بنا دے گی۔ نمازیں کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوں گی۔ بندہ سب کچھ کرے لیکن شیطان اگر دل سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت رضی اللہ عنہم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت ہی نکال دے، ان کا بغض اور ان سے نفرت و عداوت دل میں ڈال دے تو ایمان برباد ہو گیا اور بندہ جہنم کا ایندھن ہوگیا۔ صحابہ کرام و اہل بیت پر سب و شتم کرنے، ان سے نفرت کرنے سے سب کچھ برباد ہوجاتا ہے اور بندہ جہنم کا ایندھن بنا دیا جاتا ہے۔
اسی طرح اللہ کے محبوب و مقرب بندوں اولیاء، صالحین سے نفرت و عداوت کا دل میں پیدا ہونا بھی بدعقیدگی کی ایک شکل اور شیطان کا ایک حملہ ہے۔ کیونکہ اللہ نے کہا جو میرے ولی کا دشمن ہے میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ شیطان نے بندوں کی اللہ سے یہی جنگ کروانی تھی، پس اس نے یہ کروا دی۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ شیطان کا انحصار صرف ایک طریقہ پر نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد جہنم بھرنا اور اپنے ساتھ دوزخ میں لے جانا ہے۔ اس کے لئے وہ ہزار حربے جو چاہے استعمال کر لے۔ خواہ دنیوی حربہ استعمال کرے یا دین کے نام پر حربے استعمال کرے۔ اگر آخرت اور دین کے نام پر کوئی دنیا کمائے، لوٹ مار کرے تو اس سے شیطان کا کام ہو گیا اور بندہ جہنم کا ایندھن ہو گیا۔ اسی طرح اگر کوئی لوگوں کو وعظ کرے لیکن خود عمل اس وعظ و نصیحت کے مخالف کرے اور لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ (تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو) کی خلاف ورزی کرے تو اس سے بھی شیطان کا کام ہو گیا اور بندے کے وعظ بھی اکارت گئے۔ الغرض شیطان ایک طرف عبادات اور اطاعات سے بندے کو روک دیتا ہے اور دوسری طرف بدعقیدہ بناکر جہنم کی طرف اس کا سفر یقینی بنادیتا ہے۔
نیت کو خراب کر دے
شیطان کے انسان کو ہلاکت میں ڈالنے کا ایک بڑا حملہ انسان کی نیت کو خراب کردینا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کو عبادات، نماز، حج و زکوٰۃ اور سب نیک کام کرنے دے مگر ان سب اعمال کے پیچھے نیت کو خراب کر دے۔ نیت فاسدہ، باطلہ اور کدرہ ہو جائے۔ یعنی نماز جی بھر کے پڑھیں مگر طبیعت میں ریا، تکبر، حسد، عداوت، بغض و عناد اور اللہ کے بندوں کے ساتھ نفرت موجود ہو۔ اس سے سارے اعمال برباد ہوگئے۔ یہ سب سے بڑا خطرناک حملہ ہے کہ شکل میں تو نیک لگے مگر پتہ نہ چلے کہ یہ آدمی برا ہے۔
ذوالخویصرہ تمیمی نے مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر اعتراض کیا اور آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا:
اِتَّقِ اﷲ
(اللہ سے ڈرو۔)
دوسری روایت میں ہے کہ اُس نے کہا:
اعْدِل
(عدل کرو۔)
اس کی اس بات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسی شخصیات نے تلواریں نکال لیں کہ اس بے باکی و بے ادبی پر اس کی گردن اڑادیں مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ اُس نے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ ردعمل دیکھا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پیٹھ پھیر کر اُس مجلس سے چلا گیا۔ اس کے اس عمل پر آقا علیہ السلام نے فرمایا: اس کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے کہ اے صحابہ! تمہیں اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلے میں چھوٹی نظر آئیں گی۔ تمہیں اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں قلیل نظر آئیں گے۔ تمہیں اپنی تلاوت قرآن ان کی قرات قرآن کے مقابلے میں چھوٹی نظر آئے گی مگر ان کا قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
يمرقون من الدين کمروق السهم من الرمية.
’’دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہوتا ہے‘‘۔
(صحيح بخاری، کتاب الادب، 5: 2281، الرقم: 5811)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اُس کو تقویٰ، عبادات اور تسبیحات کو عام صحابہ سے کئی زیادہ دیکھتے تھے مگر عبادات کی یہ تمام کثرت اُس کی طرف سے بے ادبی مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارتکاب کی وجہ سے رائیگاں گئی۔
سوال پید اہوتا ہے کہ کیا اس نے کوئی برا کلمہ کہا ہے؟ نہیں بلکہ اس نے عدل اور تقویٰ کی بات کی۔ مگر خرابی کیا تھی؟ خرابی یہ تھی کہ اس کے اندر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حیاء اور ادب نہ تھا۔ جس ذات کو عدل اور تقویٰ اختیار کرنے کا کہہ رہا تھا، بدبخت یہ نہ جانتا تھا کہ ان کے قدموں کی دھول سے تو عدل اور تقویٰ کائنات میں پیدا ہوا ہے۔ پس حیا اور تعظیمِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہونے کے سبب وہ جہنم کا ایندھن ہوگیا۔
حضرت جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب مولیٰ علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم خوارج کے خلاف جنگ کررہے تھے تو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھے خوارج کی طرف جنگ سے پہلے پیغام دے کر بھیجا۔ میں ان کی تہجد گزاری، ان کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان، عبادت کی کثرت اور تلاوت قرآن میں مشغول حال دیکھ کر متزلزل ہوگیا کہ ان سے جنگ کرنا کہیں ہماری غلطی نہ ہو کیونکہ یہ تو شریعت کے بڑے پابند ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر مولیٰ علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کی زبان سے میں نے یہ نہ سنا ہوتا کہ آقا علیہ السلام نے ان کی یہی نشانیاں بیان کرکے فرمایا ہے کہ یہ لوگ دین سے خارج ہوںگے۔ اگر یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو ہم ان کے ظاہری حال کو دیکھ کر انہیں ولی سمجھتے۔ مگر بدعقیدگی اور تعظیم و ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہونے کی وجہ سے ان کا دین برباد ہوگیا اور وہ دوزخ کا ایندھن بن گئے۔
(طبرانی، المعجم الاوسط، 4: 227، الرقم: 4651)
گویا شیطان کے ایسے حملے بھی ہوتے ہیں کہ وہ بندوں کے ظاہری اعمال اسی طرح رہنے دیتا ہے مگر ان کی نیتوں، عقائد اور اخلاق سیئہ میں فتنہ داخل کر دیتا ہے۔ انہیں مغرور اور مکرزدہ کر دیتا ہے۔ نتیجتاً ان کی عبادت، عبادت نہیں رہتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ شیطان اور اس کے سارے حملوں کی پہچان پیدا ہو تاکہ ان حملوں سے بچنے کی سعی کی جاسکے۔
شیطان انسان کو مقام و مرتبہ پر فائز ہونے سے کیسے کیسے روکتا ہے؟ آیئے ایک اور واقعہ سے اس کے حملوں کا اندازہ لگاتے ہیں:
ایک عبادت گزار ولی اللہ ایک دیوار کے سائے میں سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان کو جگاکر کہنے لگا کہ اللہ کے بندے دیوار گرنے لگی ہے جلدی سے یہاں سے اٹھ جا۔ وہ دیوار سے تھوڑے ہی دور ہوئے تھے کہ دیوار گر گئی۔ ولی اللہ نے اس شخص کو پکڑ لیا اور کہا مجھے اپنا تعارف کرا کہ تو میرا اتنا ہمدرد اور بہی خواہ کون ہے؟ اس نے کہا میں ابلیس ہوں۔ پوچھا: میرے ساتھ ہمدردی کیوں کی؟ حالانکہ میری تو ساری زندگی تیرے ساتھ جنگ رہی ہے۔ شیطان نے کہا کہ تجھ سے ہمدردی نہیں ہے، اس لیے بچایا کہ اگر دیوار گرنے سے تیری موت واقع ہوجاتی تو اللہ کی بارگاہ میں تو شہید گردانا جاتا اور تیرا درجہ جنت میں شہداء تک جا پہنچتا۔ میں تمہیں درجہ شہادت سے بچانا چاہتا تھا۔ تمہیں راہ حق سے تو ہٹا نہ سکا، اللہ کی عبادت سے روک نہ سکا، مگر اتنا ہی کر لیا کہ شہادت کے درجے سے تمہیں روک لوں۔
یاد رکھیں! نیت ایک میدان ہے جہاں شیطان کے حملے ہوتے رتے ہیں۔ اگر نیت کے محاذ پر انسان جیت گیا اور شیطان شکست کھا گیا تو کئے گئے اعمال اللہ کی قربت کا باعث بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر نیت کے محاذ پر بندہ شکست کھا گیا اور شیطان جیت گیا تو سارے اعمال بیکار اور رائیگاں گئے۔ لہذا پوری زندگی میں خیر اور شر کا مدار نیت پر ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو اعلیٰ درجہ ملا، ان کے ایمان کو دوسروں پر جو ترجیح ملی کہ وہ سب پر فوقیت لے گئے، اس کی وجہ آقا علیہ السلام نے بیان فرمائی کہ
ما فاق ابوبکر رضی الله عنه اصحاب محمد بصوم ولا صلوٰة ولکن بشیء کان فی قلبه.
(جامع العلوم والحکم، زين الدين ابی الفرج، 2: 361)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہکو فضیلت اور اعلیٰ درجات ملنے کی وجہ کثرت صوم و صلوٰۃ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خاص حالت اور کیفیت ہے جو ان کے دل کے اندر جاگزیں ہے اور وہ نیت صافیہ ہے، صدقِ قلب ہے۔ دل کی اس کیفیت اور صدق نے انہیں ایمان اور درجے میں اعلیٰ فضیلت دی۔ اسی بنیادی چیز کے حوالے سے آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إنما الأعمال بالنيات.
’’بے شک اعمال کی قبولیت اور اعمال کے کمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، 1: 36، رقم: 54)
الحمدللہ تعالیٰ تحریک منہاج القرآن کے ہر پروگرام اور سرگرمی میں نیتِ خالصہ کے حصول کے لئے محنت کی تاکید کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ شر کی بنیاد بھی نیت کی خرابی میں ہے اور زندگی میں خیر کی ابتداء بھی نیت کی اصلاح سے ہے۔ جدھر بھی ہم شر دیکھتے ہیں وہاں بنیادی سبب نیت کی خرابی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پاکستان کے حالات نہ سنورنے کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ مقتدر طبقہ کی نیتیں صحیح نہیں ہیں۔ امت کی قیادت تباہ حال ہے۔ جن کے ہاتھ میں زمام کار ہے ان کی نیتیں درست نہیں ہیں۔ ان کے آقا و مولیٰ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ انہوں نے آقا و مولیٰ کسی اور کو بنا رکھا ہے اور ہوائے نفس کے پجاری ہیں۔
اگر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کی اصلاح کے متمنی ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کی بنیاد کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ نیت کو خالص کرنے سے ہی ہم اپنے اعمال کی سمت مثبت رکھتے ہوئے کامیابی کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں۔