زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ (حصہ اول)

شفاقت علی شیخ

کسی دانشور کا قول ہے کہ

’’اکثر لوگ زندگی کی کتاب پڑھنا شروع کردیتے ہیں، بغیر اس کے کہ اُنہوں نے زندگی کی زبان سیکھی ہو‘‘۔

یہا ں زندگی کی زبان سے مراد زندگی گزارنے کا فن ،زندگی کے گہرے رازوں سے آشنائی، قوانینِ فطرت ((Laws of Natureکو جاننااور استعمال میں لانا ہے۔

اللہ رب العزت نے اس کائنات کا نظام بنایا ہی ایسا ہے کہ یہاں زندگی کا سفر کبھی ہموار راستوں پر طے نہیں ہوتابلکہ اُس میں کئی نشیب و فراز، ٹیڑھے میڑھے راستے اور دشوار گزار گھاٹیاں آتی ہیں۔ کبھی بلندیوں پر چڑھنا ہوتا ہے اور کبھی ڈھلوانوں کی طرف اُترنا ہوتا ہے۔ الغرض زندگی کے سفر میں کئی قسم کی رکاوٹیں اور دشواریاں ہوتی ہیں جن سے کامیابی سے گزر کر ہی منزل پر پہنچنا نصیب ہوتا ہے۔اب جو شخص زندگی کے قوانین سے واقف ہو گا، وہ ہر موقع پر اپنے آپ کو تھام لے گا اور بہترین طرزِعمل اختیار کرتے ہوئے مشکل مرحلے سے گزر جائے گا۔ لیکن جو شخص زندگی کے ضا بطوں کو جانتا ہی نہیں ہو گا اُس کے لیے مشکل حالات میں اپنے آپ کو تھامنا اور درست طرزِ عمل اختیار کرنا مشکل ہو گا ۔ نتیجتاً غلط روش اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ناکامی سے ہمکنار کرلے گا اور پھر کبھی پست ہمتی کا شکار ہوکر ، کبھی مایوسی و بے یقینی میں مبتلا ہو کر اور کبھی حالات یا اپنے اردگرد کے لوگوں کو الزام دیتے ہوئے اپنی محرومیوں میں مزید اضافہ کرتا چلاجائے گا۔ بنظرِغائر دیکھا جائے تو لوگوں کی بہت بڑی اکثریت جو ناکام زندگی گزار رہی ہے اُس کی بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ زندگی کے قوانین کو جانے بغیرزندگی گزار رہے ہیں۔

زندگی کے یہ قوانین کیا ہیں اور کہاں سے ملتے ہیں ؟ ان کا سب سے بڑا منبع و سر چشمہ تو قرآن مجید ہے جو حکمت و دانائی کے گہرے رازوں کا خزانہ ہے اور جس کا علم یقینی ، قطعی اور حتمی ہے۔ قرآن مجید کے بعد احادیث مبارکہ ہیںجہاں چھوٹے چھوٹے جملوں میں زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو اس طرح سمودیا گیا ہے کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔علاوہ ازیں سائنسی علوم اور با لخصوص سائنس کی ایک اہم شاخ علمِ نفسیات نے بھی اس حوالے سے کافی سوچ بچار کی ہے۔ جس کے نتیجہ میںزندگی کے کئی اہم حقائق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ زندگی کی کامیابی و کامرانی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ زندگی کے ضابطوں کو سمجھا جائے، اُنہیں ذہن نشین کیا جائے اور موقع بہ موقع انہیں استعمال میں لایا جائے۔ زندگی کے قوانین بے شمار ہیں جن کا مکمل احاطہ ناممکن ہے۔ تاہم زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کے حوالے سے ذیل میں دس اہم باتوں کو زیرِبحث لایا جارہا ہے۔ اگر ان کو لوحِ ذہن پر نقش کر لیا جائے اورروز مرہ کی زندگی میں ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو زندگی میںآنے والے مصائب اور مشکلات کے طوفانوں کا مقابلہ بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔جس کے نتیجے میں زندگی کا سفر آسان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خوشگوار بھی ہو سکتا ہے۔

مسائل زندگی کا لازمی حصہ ہیں!

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے۔ ارشاد فرمایا:

سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّهَا.

’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کیے‘‘۔

(يٰس: 36)

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ.

’’اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے ‘‘۔

(الذاريات: 49)

چنانچہ رات اور دن، گرمی و سردی،خزاں وبہار وغیرہ اسی اُصول کی مثالیں ہیں۔ عربی زبان کا ایک مقولہ ہے:

اَلْاَ شْيَآءْ تُعْرَفُ بِاَ ضْدَ ادِهَا.

’’چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں‘‘

رات کے مقابلے میں دن نہ ہوتا تو پھر رات کو رات کس نے کہنا تھا۔ اسی طرح گرمی کا تصور اُسی وقت سمجھ میں آتا ہے جب اُس کے مقابلے میں سردی کا تصور موجود ہو۔ غور سے دیکھا جائے تو زندگی کا سارا حسن ہی ان اضداد میں ہے۔ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی مکمل ہوتی ہے۔ ان جوڑوں کے ملنے سے ہی زندگی کی تصویر مکمل ہوتی ہے۔راحت اور کلفت، دُکھ اور سکھ، خوشی اور غمی، امارت اور غربت سب جوڑا جوڑا ہیں۔

اگلی بات سمجھنے والی یہ ہے کہ جس جگہ صرف سکون اور راحت ہے، اُ س کا نام جنت ہے اور جس جگہ صرف دکھ اور کلفت ہے ،اُس کا نام جہنم ہے اور یہ دونوں مرنے کے بعد ہیں۔ جہاں تک موجودہ دنیا کا تعلق ہے، یہاں یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یہاں نہ کسی کے لیے دکھ سے خالی زندگی ممکن ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جس کی زندگی میںصرف دکھ ہوں اور سکھ کوئی بھی نہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک اور آج سے لے کر قیامت تک کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کی زندگی مسائل سے مکمل طور پر خالی ہو۔چاہے وہ نبی ہو یا اُمتی، بادشاہ ہویا فقیر ، امیر ہو یا غریب، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ۔ فرق صرف اتناہے کہ ہر کسی کے مسائل اُس کے حسبِ حال ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر کسی کی نعمتیں بھی اُس کے حسبِ حال ہوتی ہیں۔یوں سمجھ لیں کہ زندگی ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ ہے۔ جو وزن کے لحاظ سے تو ہر شخص کو ایک جیسا ملا ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس ایک کلو وزن میں کسی کو کوئی ایک چیز زیادہ مل گئی تو کسی دوسرے کو دوسری چیز زیادہ مل گئی۔ کسی میں برفی زیادہ ہے تو گلاب جامن کم اورکسی میں گلاب جامن زیادہ ہیں تو رس گلے کم۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ اہم بات یہ نہیں کہ ہمیں کیا زیادہ ملا اور کیا کم اور کیا بالکل نہیں ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ دینے والے نے عین حکمت کے تحت دیا ہے، اب ہم اُسے استعمال کس طرح کررہے ہیں،اسی پر ہماری کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے۔ نیز دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم ملے ہوئے پر کس حد تک مطمئن ہیں۔ بقول حضرت واصف علی واصف

’’خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر راضی رہے‘‘

خالقِ کائنات نے قرآنِ مجید میںجابجا اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ دنیامیں رہتے ہوئے ہر شخص کو کبھی نہ کبھی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ سب کچھ عین حکمت اور مصلحت کے تحت ہوگا۔ ارشاد فرمایا :

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ.

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے‘‘۔

(البقرة: 155)

ہمیں زندگی کے ہر دور میں کچھ نہ کچھ مسائل کا ضرور سامنا رہا ہے۔ مختلف اوقات میں نوعیت بدلتی رہی مگر زندگی کبھی بھی مسائل سے مکمل طور پر خالی نہ ہو سکی اور نہ ہی آئندہ ہو سکتی ہے۔ یہ زندگی کی ایسی ٹھوس حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔ جس طرح سورج کے ساتھ حرارت کا ہونا لازمی ہے اسی طرح زندگی کے ساتھ مسائل کا ہونا لازمی ہے۔صرف مو ت ہی آکر اُنہیں ختم کر سکتی ہے۔

ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم مسائل سے خالی زندگی(problem free Life) کی آرزو اپنے سینے میں لیے ہوئے ہوتے ہیں ، پھر جب کوئی مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے تو وہ ہمارے لیے غیر متوقع (unexpected)ہوتا ہے اور وہ ہمارے اندرونی سکون کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ ہم یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لیںکہ دنیا میں رہتے ہوئے مسائل سے مکمل طور پر خالی زندگی کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ہے تو اس سے ہمیں یہ فوائد ہوں گے کہ

ہماری زندگی میں آنے والے مسائل غیر متوقع نہیں ہوں گے اور اُنہیں برداشت کرنا آسان ہو جائے گا۔

دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم مسائل سے خالی زندگی کے لیے جو بہت زیادہ جتن کررہے ہیں اور اس حوالے سے ذہنی دبائو (Brain Stress) کی حا لت میں رہتے ہیں، اس میں کمی آجائے گی۔

ہر مسئلہ کی زندگی محدود ہوتی ہے

اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:

کُلُّ شَيْئٍ هَالِکٌ اِلَّا وَجْهَهُ.

’’اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے‘‘۔

(القصص: 88)

ایک اور جگہ پر یوں فرمایا :

کُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ. وَّيَبْقٰی وَجْهُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ.

’’ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے۔ اور آپ کے رب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ انعام و اکرام ہے‘‘۔

(الرحمن،26،27)

بقول علامہ اقبال

ثبات اِک تغیرّ کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

گویا ہر چیز فنا اور تغیر کی زد میں ہے اور ہماری زندگی میں آنے والے تمام مسائل اور مصائب پر بھی یہی قانون لاگو ہوتا ہے۔ ہر مسئلہ کی ایک محدود عمر ہوتی ہے جس کے بعد اُس نے بہر حال ختم ہونا ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

سَيَجْعَلُ اﷲُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا.

’’اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا‘‘۔

(الطلاق: 7)

رات آتی ہے تو ہر طرف تاریکی چھا جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اب ہمیشہ رات ہی رہے گی، لیکن چند گھنٹوں کے بعد اُسی تاریکی کے دامن سے صبح کا سویرا طلوع ہو جاتا ہے ۔ کوئی بھی رات اتنی لمبی نہیں ہو سکتی کہ وہ آنے والی صبح کو آنے سے روک دے۔ بات صرف اتنی ہے کہ رات کے آنے اور جانے کا وقت مقرر ہے۔ نہ وہ وقت سے پہلے آسکتی ہے اور نہ ہی وقت کے بعد رہ سکتی ہے۔اسی طرح ہر مسئلہ کے حل ہونے کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

کُلٌّ شَئْیٍ عِنْدَه‘ بِاَ جَلٍ مُّسَمیٍّ.

’’اللہ کی بارگاہ میں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے‘‘

(مصنف عبدالرزاق، باب الصبر والبکاء، 3: 552، الرقم: 6670)

دوسری طرف انسان کے اندر جو فطری کمزوریا ں رکھی گئی ہیں، ان کے پیش نظر انسان کی پہلی خامی یہ ہے کہ حالات کی ناساز گاری کو دیکھ کرپست ہمت اور مایوس ہو جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ کَانَ يَئُوْسًا.

’’اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے (گویا نہ شاکر ہے نہ صابر)‘‘۔

(الاسراء: 83)

انسان کی دوسری بڑی خامی عجلت پسندی ہے۔ فرمایا:

وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا.

’’اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے‘‘۔

(الاسراء: 11)

ان دو خامیوں کی وجہ سے کسی مسئلہ کا شکار ہونے پر ہم عموماََ دو قسم کی غلطیاں کرتے ہیں:

  1. ایک تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شائد یہ مسئلہ کبھی ختم ہی نہیں ہو گا۔ حالا نکہ اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے ماضی کا تجربہ ہی کافی ہے۔ ماضی میںکتنے ہی مسائل کے متعلق ہم نے سمجھ لیا کہ وہ کبھی ختم نہیں ہوں گے، مگر آج اُن کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ یہی قانونِ فطرت ہے۔
  2. دوسری غلطی ہم یہ کرتے ہیں کہ اپنی عجلت پسندی کے ہاتھو ں مجبور ہو کر چاہتے ہیں کہ مسئلہ فوراََ حل ہونا چاہیے ۔اس کوشش میں بعض اوقات ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جن کے نتیجے میں صورتِحال سنورنے کے بجائے مزید بگڑ جاتی ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہر مسئلہ کی ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کے بعد اُسے ختم ہو ہی جانا ہے تو ہم ذہن کو پرُ سکون رکھتے ہوئے ،زیادہ بہتر انداز میں اُس کا سامنا کر سکتے ہیں اور حکمت و دانش کو استعمال کرتے ہوئے اُلجھی ہوئی گرہوں کو سُلجھا سکتے ہیں۔

مسائل میں مواقع

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے عقلمند بندوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ذکر اور فکر کی برکتوں کے باعث ان پر رموز ہستی آشکار ہوتے ہیں تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلاً.

’’اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔

(آل عمران: 191)

کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا خالق اللہ ہے اور اس نے ہر چیز کو کسی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے۔ بظاہر بری دکھائی دینے والی چیز بھی اپنے اندر افادیت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور رکھتی ہے۔ یہی معاملہ زندگی کے مسائل کا بھی ہے۔ ہر مسئلہ کے اندر مثبت امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا. اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.

’’سو بے شک ہر دشواری کے ساتھ آسانی (آتی) ہے۔ یقینا (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے‘‘۔

(الانشراح: 5، 6)

یہاں ایک ہی بات کو دہرا کر جس حقیقت کو بیان کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی عسر ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ یُسر موجود نہ ہو۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی موقع موجود نہ ہو۔ جسے ہم رکاوٹ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ حقیقتاً ہمارے لئے ترقی کا زینہ ہوتا ہے۔ بصارت اور بصیرت میں یہ فرق ہے کہ بصارت صرف مسئلہ کو دیکھتی ہے مگر بصیرت اس کے اندر چھپے ہوئے موقع کو دیکھ لیتی ہے۔

ہر مسئلے کے اندر کم از کم ایک یا ایک سے زیادہ مواقع موجود ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر مسئلہ اپنے ساتھ کم از کم اتنا یا اس سے بھی بڑے سائز کا موقع لے کر آتا ہے۔ اگر آپ صرف مسئلہ کو دیکھیں گے تو موقع کو ضائع کر بیٹھیں گے اور اگر آپ موقع کو پہچان گئے تو اسے استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ ارشاد فرمایا:

عَسٰی اَنْ تَکْرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّکُمْ ج وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّلَّکُمْ ط وَاﷲُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.

’’ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو، اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بری ہو، اور اﷲ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔

(البقرة: 216)

یہی بات دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان ہوئی:

فَعَسٰـی اَنْ تَکْرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اﷲُ فِيْهِ خَيْرًا کَثِيْرًا.

’’ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے‘‘۔

(النساء: 19)

مندرجہ بالا دونوں آیات میں یہ حقیقت ہمیں باور کرائی جارہی ہے کہ ہماری زندگی میں پیش آنے والی ہر صورت حال خواہ وہ بظاہر کتنی ہی ناخوشگوار دکھائی دے رہی ہو حقیقتاً ہمارے لئے کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو لئے ہوئے ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسے مثبت انداز میں لیتے ہوئے اس خیر والے پہلو کو دریافت کرلیں اور اس پر درست ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو مزید بہتر بنالیں۔ مثلاً ہر انسان دنیا میں راحتوں اور آسائشوں سے بھرپور زندگی کو پسند کرتا ہے مگر ایسی زندگی روح کا قبرستان ہوتی ہے اور جن تنگیوں اور مشکلات کو انسان ناپسند کرتا ہے انہی سے زندگی میں وہ سوزو گداز پیدا ہوتا ہے جس سے زندگی میں حسن اور نکھار آتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر بے شمار غیر معمولی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ صلاحیتیں عام حالات میں سوئی رہتی ہیں۔ مگر جب کوئی مسئلہ (Challenge) سامنے آتا ہے تو یہ اُس وقت بیدار و متحرک ہوجاتی ہیں۔ شاعر مشرق نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ پر اپنا تعارف رحمن، رحیم اور کریم کے طور پر کروایا ہے۔ جو خدا اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے، اس کے لطف و کرم سے یہ بات بعید ہے کہ وہ بغیر کسی حکمت اور مصلحت کے ہمیں مصائب اور مشکلات میں مبتلا کردے، یقینا ان سب کے اندر ہماری بہتری ہی مقصود ہوتی ہے۔

ہر مسئلہ قابل حل ہے

جس طرح ہر مسئلہ کے اندر ایک یا ایک سے زیادہ امکانات موجود ہوتے ہیں اسی طرح ہر مسئلہ کا کم از کم ایک یا ایک سے زیادہ حل بھی موجود ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ انسان اپنی دانش کے ذریعے اسے حل کرنے کی کوشش کرے اور اسے ناقابل حل نہ سمجھ لے کیونکہ اس دنیا میں کوئی بھی مسئلہ لاینحل (ناقابل حل) نہیں سوائے اس مسئلہ کے جسے لاینحل سمجھ لیا جائے۔

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لکل داء دواء.

’’ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے‘‘۔

(صحيح مسلم، باب لکل داءِ دواء، 4: 1769، الرقم: 2204)

جس خدا نے ہر بیماری کی کوئی نہ کوئی دوا بھی پیدا کی ہے اس نے ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل بھی بنایا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ اس دنیا میں مسئلہ (Problem) اور اس کا حل (Solution) دونوں جڑواں ہیں۔ جہاں مسئلہ ہوتا ہے وہیں اس کا حل بھی موجود ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر کسی مسئلہ کا کوئی بھی حل سمجھ میں نہ آرہا ہو تو وہاں انتظار بھی ایک حل ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

افضل العبادة انتظار الفرج.

’’بہترین عبادت کشادگی کا انتظار ہے‘‘۔

(سنن ترمذی، باب فی انتظار الفرج، 5: 565، الرقم: 3571)

آخر صبر پر جو اتنے انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے اور بہت سارے درجات رکھے گئے ہیں وہ کس لئے ہیں؟ چنانچہ جب بھی کسی مسئلہ کا فوری حل سمجھ میں نہ آرہا ہو تو اسے انتظار کے خانے میں ڈال دیں اور پھر دیکھیں کہ وہ مسئلہ کیسے حل ہوتا ہے۔بقول حالی

رات دن ہیں گردش میں زمین و آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

جس طرح چلنا ایک کام ہے اسی طرح رکنا بھی ایک کام ہے۔ عقلمند وہ ہے جو اس حکمت کو جانے کہ بعض حالات میں عمل کرنا یہ ہوتا ہے کہ انسان کوئی عمل ہی نہ کرے بلکہ صرف انتظار کرے۔ اب یہ فیصلہ ہماری عقل و فراست کو کرنا ہے کہ کہاں اور کس وقت قدم اٹھانا ہے اور کب انتظار کرنا ہے۔

مسائل کے حل کی صلاحیت

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنا ایک آفاقی ضابطہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لَا يُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.

’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘۔

(البقرة: 286)

ایک بچہ جو دس کلو تک وزن اٹھا سکتا ہو اس کا باپ کبھی گوارا نہیں کرے گا کہ اسے بیس کلو وزن اٹھانے کے لئے کہے۔ باپ سے کہیں زیادہ محبت ماں کو اولاد کے ساتھ ہوتی ہے اور ماں سے کہیں زیادہ محبت ہمارے ساتھ اس خالق و مالک کو ہے جس نے مائوں کے دلوں میں ہمارے لئے محبت پیدا کی ہے۔ جب یہ بات طے ہے کہ اس کائنات میں اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا اور یہ بھی طے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے ساتھ بہت زیادہ محبت کرنے والی ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری طرف کوئی ایسا مسئلہ آجائے جسے حل کرنا ہماری صلاحیت سے باہر ہو۔ اگر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے میں خود کو ناکام تصور کرتے ہیں تو قصور ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے اپنی صلاحیتوں کو مسائل کے حل کے لئے صحیح استعمال نہیں کیا۔ صلاحیت کا مالک ہونا ایک بات ہے اور اسے استعمال میں لانا دوسری بات ہے۔

اگر آج تک ہم نے اپنے من میں جھانک کر دیکھا ہوتا تو ہمیں پتہ چلتا کہ بنانے والے نے کیسی حیرت انگیز صلاحیتیں، توانائیاں اور استعدادیں ہمارے اندر رکھی ہوئی ہیں جن کے عدم استعمال کی وجہ سے انہیں زنگ لگ رہا ہے اور ہم دنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے میں نے اپنی خلافت و نیابت کا تاج تمہارے سر پر رکھ دیا ہے اور ساری کائنات کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔ لازمی بات ہے کہ یہ تمام اعزازات انسان میں بے اختیاری کے ساتھ تو جمع نہیں کئے گئے بلکہ اس نے انسان کو کائنات کے مسخر کرنے کے لئے اختیارات و صلاحیتیں بھی دی ہیں۔ وہ ہمیں غالب دیکھنا چاہتا ہے افسوس کہ ہم خود ہی مغلوب بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہمیں فاتح دیکھنا چاہتا ہے مگر ہم مفتوح بنے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ اللہ نے ہمارے اندر اپنے نور کا چراغ جلا رکھا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ.

’’اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں ‘‘۔

(الحجر: 29)

جب صورت حال یہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی قدرتوں اور طاقتوں کا کچھ نہ کچھ عکس تو ہمارے اندر بھی دکھائی دینا چاہئے۔ بقول اقبال

تیرے دریا میں روانی کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

اس مقصد کے لئے پہلے ہمیں اپنے من میں جھانک کر اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا تاکہ اپنی طاقتوں اور مقام و مرتبہ سے آشنائی ہو اور ان میں یقین قائم ہو۔ اس حوالے سے حکیم الامت کا کہنا ہے:

خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

ہفت کشور جس سے ہوں تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے مقام و مرتبہ کا بہت ہی ہلکا اندازہ لگا رکھا ہے۔ بالفاظ دیگر ہم نے اپنے آپ کو Under Estimate کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس رنگ برنگی کائنات کی بارات کا دولہا بنایا ہے اور یہ ساری بزم ہمارے ہی لئے سجائی گئی ہے اور اسے ہمارے ہی لئے مسخر کردیا گیا ہے۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی گمانوں سے مغلوب ہوکر ہر کام کو اپنے لئے ناممکن سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ ناممکن کا لفظ فقط احمقوں کی لغت کا حصہ ہوتا ہے۔ بہادر لوگوں کے لئے کوئی کام بھی ناممکن نہیں ہے۔ سالہا سال تک انسانی صلاحیتوں کا مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر نپولین ہل کا کہنا ہے کہ

If you think you can or you cannot you are right.

’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ فلاں کام کرسکتے ہیں یا نہیں کرسکتے تو آپ صحیح ہیں‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ انسان اگر یہ سمجھ لے کہ میں فلاں کام کرسکتا ہوں تو وہ اسے کرسکے گا اور اگر وہ ذہنی طور پر یہ سمجھ لے کہ میں تو یہ کام نہیں کرسکتا تو وہ واقعی اسے نہیں کرسکے گا۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ اس کی سوچ پر ہی منحصر ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انگریزی کے مشہور ادیب برنارڈ شاہ نے کہا تھا:

’’زندگی کا سارا ڈرامہ ذہنی ڈرامہ ہے۔ ہر مشکل ذہنی مشکل ہے‘‘۔

لہذا منفی، پست اور مایوس کن سوچوں کے حصار سے باہر نکلیں۔ اپنے آپ کو پہچانیں اور یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ کائنات کی عظمتیں آپ کے سامنے سرنگوں ہونے کو بے تاب ہیں اور مسائل حل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ (جاری ہے)