اسلام دینِ فطرت ہے جس نے اپنے سارے احکام میں بندوں کی سہولت اور آسانی کا پورا لحاظ رکھا ہے اور کسی معاملے میں انہیں بے جا مشقت اور تنگی میں مبتلا نہیں کیا۔ چنانچہ روزے کی فرضیت کے ساتھ ساتھ شریعت نے انسانوں کی معذوری اور مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے روزے کے مسائل میں کئی مقامات پر مختلف صورتوں میں رخصت سے نوازا ہے۔ زیرِ مضمون کے پہلے حصے (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن ماہِ مارچ 2023ء) میں اس حوالے سے روزہ چھوڑنے کی رخصتیں؛ (سفر، بیماری، حمل و رضاعت، حیض و نفاس، ضعف و بڑھاپا، خوفِ ہلاکت، بے ہوشی، جہاد)، روزہ توڑنے کی رخصتیں؛ (رضاعت، بھوک و پیاس کی شدت، بیماری، سفر، جبر و اکراہ، جہاد) اور ممنوعات کے ارتکاب کے باوجود روزے میں عدمِ نقص کی صورتیں؛ (بھول کر کچھ کھانا یا پینا، قے، حجامہ، احتلام، حلق میں مکھی کا چلے جانا، ماں کا بچے کے لیے کھانا چبانا، کھانے کے بعد منہ میں موجود تری وغیرہ کو نگلنا وغیرہ) ذکر کی گئی ہیں۔اس مضمون کے دوسرے حصے میں احکامِ صوم میں ملنے والی رخصتوں کے چند مزید مظاہر نذرِ قارئین ہیں:
چوتھا مظہر: روزہ چھوٹنے یا ٹوٹنے کی صورت میں عدمِ قضا و کفارہ کا حکم
بعض اوقات روزے دار کے لیے رخصت کی ایسی صورت بھی سامنے آتی ہے کہ اگر روزہ ٹوٹ جائے یا چھوٹ جائے تو نہ تو اس پر قضا لازم آتی ہے اور نہ ہی کفارہ۔ روزہ دار سے ان دونوں امور کی تکلیف رفع ہوجاتی ہے، یہ احکامِ صوم میں ملنےوالی رخصتوں کے مظاہر کی چوتھی قسم ہے۔ اس کی صورتیں درج ذیل ہیں:
1۔ مریض اور مسافر کا اسی حالت میں انتقال
اگر مریض صحت یاب ہونے اور مسافر واپس لوٹنے سے پہلے فوت ہوجائیں تو ان دونوں افراد پر نہ تو قضا ہے اور نہ کفارہ۔
واذا مات المریض او المسافر وهما علی حالهما لم یلزمهما القضا لانهما لم یدرکا عدة من ایام اخر ولو صح المریض واقام المسافر ثم ماتا لزمهما القضا بقدر الصحة والاقامة لوجود الادراک بهذا المقدار.
(مرغینانی، الہدایہ، ج:1، ص:126)
’’اور جب مریض یا مسافر اسی حال میں مرگئے تو ان پر قضا واجب نہ ہوگی۔ (وجہ یہ کہ) کیوں یہ دونوں ایام اُخر (قضا کرنے کے بقدر) دوسرے دن نہ پاسکے۔ اور بیمار اگر تندرست ہوگیا اور مسافر مقیم ہوگیا اور پھر وہ دونوں اسی حالت میں مرے تو ان پر قضا لازم ہے کیونکہ انھوں نے اپنے قضا روزوں کی مقدار ایام اُخر کو پالیا ہے۔‘‘
لہذا اگر اس صورت میں مریض اور مسافر کو قضا، کفارے یا وصیت کا مکلف ٹھہرایا جائے تو یہ ان کے لیے حرج ہے جو کہ شریعتِ اسلامی میں جائز نہیں۔
2۔ رمضان میں روزہ دار کی بے ہوشی
جس شخص پر پورا رمضان کا مہینہ بے ہوشی طاری رہی تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ پورے مہینے کی قضا کرے لیکن:
ومن اغمی علیه فی رمضان لم یقض الیوم الذی حدث فیه الاغماء لوجود الصوم فیه وھو الامساک المقرون بالنیة.
(ایضاً)
’’اور جس شخص پر رمضان میں بے ہوشی طاری ہوگئی تو اس کے لیے اس دن کی قضا لازم نہیں جس میں بے ہوشی طاری ہوئی کیوں اس دن میں روزہ پایا گیا اور وہ نیت سے متصل امساک ہے۔‘‘
یعنی جب اس پر بے ہوشی طاری ہوئی تو وہ روزے کی حالت میں تھا اور بے ہوش ہونا اس کی قدرت میں نہیں تھا اور نہ ہی اس عمل میں اس کی نیت شامل تھی، لہذا نیت وہی شمار ہوگی جو پہلے تھی اور وہ روزے کی تھی، اس کے حکم کو باقی رکھتے ہوئے روزے کا حکم دیا جائے گا۔ تو جب روزہ مان لیا تو قضا کس چیز کی؟ لہذا ایسے شخص پر اس دن کی قضاء نہیں ہوگی۔ یہ شریعت کا لطف و احسان ہے۔
3۔ رمضان میں روزہ دار کا مجنون ہونا
جنون کا حکم بے ہوشی سے قدرے مختلف ہے۔ اگر مجنون کو رمضان کے کسی حصے میں افاقہ ہوگیا تو وہ گزشتہ ایام کی قضا کرے اور جو شخص پورے رمضان میں مجنون رہا تو وہ اس کی قضا نہ کرے۔ گویا اس پر روزے فرض ہی نہیں ہوئے اور:
ولنا ان المسقط هوالحرج والاغماء لایستوعب الشهر عادة فلا حرج.
(ایضاً)
’’ ہمارے ہاں اس کا حکمِ سبب حرج ہے۔ اور بے ہوشی عادتاً مہینہ بھر کو شامل نہیں ہوتی اس میں درجہ کا حرج نہیں (لہذا اس کا یہ حکم نہیں)۔‘‘
یعنی بے ہوشی اور جنون دونوں کی صورت میں قضا و کفارہ مرفوع ہے لیکن دونوں کی شرائط مختلف ہیں۔ بے ہوشی کی حالت میں اگر مکمل ماہِ رمضان گزر گیا تو اس پر سارے مہینے کی قضا لازم ہے کیوں عادتاً اتنا عرصہ بے ہوشی طاری نہیں رہتی۔ لہذا یہاں حرج باعتبار عادت اس درجہ کا نہیں کہ حکمِ رفع لگایا جائے لیکن اس کے مقابل چونکہ جنون پورا مہینہ واقع ہوسکتا ہے، اس لیے یہاں اسے رخصت کا سبب شمار کیا جائے گا۔ اور جس پر پورا مہینہ جنون طاری رہا اس پر اصلاً روزہ فرض ہی نہ ہوا لہذا اس پر قضا، کفارہ یا فدیہ کا حکم خالی از حرج نہیں۔
پانچواں مظہر: روزہ چھوڑنے کے عوض صرف فدیہ کا حکم
شریعت کا اصول ہے کہ جو شخص رمضان کا روزہ چھوڑتا ہے اس پر قضا لازم ہے اور جو شخص رمضان کا روزہ توڑتا ہے اس پر کفارہ لازم ہے۔روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ روزہ توڑنے والا ایک غلام آزاد کرے اور اگر اس کی قدرت نہیں رکھتا تو بالترتیب مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے احکامِ صوم کا بہ غور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے ساتھ اس سے اگلے درجے کی رخصت بھی متعارف کروائی ہے اور وہ یہ کہ بندہ ایک روزے کے عوض ایک شخص کو کھانا کھلادے یہی اس کے لیے کافی ہوگا۔ احناف کے ہاں فدیہ گندم کا نصف صاع یعنی اس کی قیمت ہے اورجمہور کے ہاں جتنے روزے چھوڑے جائیں، ہر ایک کے بدلے میں اس شہر میں جو عام غلہ استعمال ہوتا ہے ایک مُد فدیہ ہے۔
(زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج:3، ص: 104)
وہ شیخ فانی اور نحیف و ناتواں بزرگ جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو، اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے جیسا کہ کفارات میں دیا جاتاہے اور اس مسئلہ کی اصل قرآن مجید کی درج ذیل آیت ہے:
وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ.
(البقرہ،2: 184)
’’ اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے۔‘‘
فقہاء کے ہاں اس کی متفقہ وجہ یہ ہے کہ جو کسی طرح بھی روزہ رکھنے پر قادر نہیں بوڑھا مرد یا عورت اور اگر کوشش کرکے رکھنا چاہتا ہے تو اسے شدید مشقت اٹھانا پڑے گی تو ایسے شخص کے لیے اجازت ہے کہ وہ روزہ چھوڑ دے اور وہ روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔
(زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج:3، ص: 104)
اور اگر شیخ فانی روزہ رکھنے پر قاد رہوگیا تو اس پر روزہ کی قضا لازم ہوجائے گی اور فدیہ کا حکم ساقط ہوجائے گا، کیونکہ روزے کے ذریعے قضا کرنا اصل ہے اور فدیہ دینا اس کا بدل ہے اور اصل کے ہوتے ہوئے بدل معتبر نہیں۔
چھٹا مظہر: روزہ ٹوٹنے کی صورت میں صرف قضا کا حکم
ویسے تو شریعتِ مطہرہ کا اصول ہے کہ اگر روزہ چھوٹ جائے تو اس کی قضا اور اگر ٹوٹ جائے تو اس کے کفارے کا حکم ہے لیکن شریعت نے اس کے علاوہ بھی بندوں پر عظیم لطف و کرم کے تحت مزید مقامات پر جہاں قیاس کے تقاضا کے تحت کفارہ لازم آتا ہے، صرف قضا پر اکتفاء کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں جن میں شبہ، اکراہ اور مفطر صوم شے کی عدمِ غذائیت وغیرہ شامل ہے۔
1۔ اشتباہ
1۔ اگر کسی شبہ کے باعث روزہ ٹوٹ جائے تو اس کا کفارہ نہیں ہوگا بلکہ صرف قضا ہوگی، اس کی چندمثالیں درج ذیل ہیں:
جب آسمان میں کوئی علت نہ ہو تو ایک آدمی کی چاند دیکھنے کی) شہادت قبول نہیں ہوگی یہاں تک کہ اسے ایک کثیر جماعت دیکھے جن کی خبر سے یقینی علم حاصل ہوجائے۔ اس لیے کہ اس جیسی حالت میں تنِ تنہا چاند دیکھنا غلطی کا وہم پید اکرتا ہے۔ لہذا توقف کرنا ضروری ہے اور اگر کسی ایک شخص نے چاند دیکھا تو وہ روزہ رکھے اگر وہ روزہ نہیں رکھتا تو اس پر صرف قضا ہے، کفارہ نہیں۔ صاحب ہدایہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے:
ولنا ان القاضی رد شهادته بدلیل شرعی و هو تهمة الغلط فاورث شبهة و هذه الکفارة تندری بالشبهات.
(مرغینانی، الہدایہ، ج:1، ص: 121)
’’ہماری دلیل یہ ہے کہ قاضی نے دلیل شرعی کی بنیاد پر اس کی شہادت کو رد کردیا ہے اور وہ دلیل شرعی غلطی کی تہمت ہے۔ لہذا اس نے شبہ پیدا کردیا اور کفارہ شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتا ہے۔‘‘
دلیل شرعی سے مراد مطلع کے صاف ہونے کی وجہ سے ایک کثیر جماعت کی شہادت ہے جو کہ معدوم ہے:
لو شک فی غروب الشمس لایحل له الفطر لان الاصل هو النهار و لو اکل فعلیه القضا.
(ایضاً، ج:1، ص:130)
’’اور صائم کو غروب آفتاب میں شک ہوا تو اس کے لیے روزہ افطار کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اصل دن ہے اور اگر اس نے کھالیا تو اس پر قضا ہے۔‘‘
چونکہ روزہ دار نے شک کی بنا پر ایسا کیا لہذا اس کو کفارے کا مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا بلکہ صرف قضا کا حکم دیا جائے گا۔
2۔ اگر کسی نے روزے کی حالت میں بصورتِ نسیان کچھ کھالیا اور اسے یہ گمان ہوا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے حالانکہ ٹوٹا نہیں تھا تو بعد میں اس نے اسی خیال سے کھالیا تو ایسے شخص پر بھی صرف قضا ہے، کفارہ نہیں کیونکہ اس کے لیے امر اشتباہ اختیار کرگیا تھا۔
(ایضاً، ص:130)
2۔ خطاء و اکراہ
اگر کسی نے غلطی سے روزہ توڑ دیا یا اس سے اکراہاً روزہ تڑوایا گیا تو ایسے لوگوں پر قضا کا حکم ہے،کفارہ نہیں۔
(مرغینانی، الہدایہ، ج:1، ص:122)
اکراہ میں حرج ہے اور حرج مرفوع ہے۔ یہاں ایک اور بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ نسیان اور خطاء میں فرق ہے نسیان لاعلمی اور بھول کے تحت ہے جبکہ خطاء علم کو شامل ہے، اس لیے دونوں کے حکم میں فرق ہے۔ مثلاً ایک روزہ دار وضو کررہا تھا اور اسے یہ بات معلوم تھی کہ وہ روزے سے ہے لیکن غلطی سے اس کے حلق میں پانی چلا گیا تو اس پر قضا ہے جبکہ نسیان میں وہ اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ میں روزہ دار ہوں، لہذا یہاں رخصت اعلیٰ درجے کی ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
3۔ مُفطر شے کا غذائیت سے خالی ہونا
شریعت کا اصول ہے کہ اگر روزہ دار کوئی ایسی چیز کھالے جو غذائیت سے خالی ہو، مثلاً مٹی، کنکر، پتھر، لکڑی اور کپڑا وغیرہ تو اس سے صرف قضا لازم آئے گی، کفارہ نہیں۔
لوجود صورة الفطر و لا کفارة علیه لعدم المعنی.
(ایضاً، ج:1، ص: 124)
’’کیونکہ صورتاً فطر پایا گیا اور اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، اس لیے کہ معنًافطر موجود نہیں ہے۔‘‘
4۔ حیض اور نفاس کے باعث
اگر کسی عورت کو حیض اور نفاس کے باعث روزہ توڑنا پڑے تو:
افطرت وقضت بخلاف الصلاة لانها تحرج فی قضائها.
(ایضاً، ج:1، ص:123)
’’اور جب دوران روزہ عورت حیض یا نفاس میں مبتلا ہوجائے تو وہ روزہ افطارکرلے اور بعد میں قضا کرے، برخلاف نماز کے کیونکہ نماز کی قضا میں حرج ہے۔‘‘
ساتواں مظہر: کفارہ بذاتِ خود ایک رخصت ہے
اگر غور کیا جائے تو کفارہ بندوں کے لیے ایک بہت بڑی رخصت کا مظہر ہے۔ روزہ عبادات میں امتیازی مقام کا حامل ہے اور صرف یہی وہ عبادت ہے جس کے بارے میں حق تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر بھی میں ہی دوں گا۔‘‘ اتنی بڑی شان کی حامل عبادت کا جان بوجھ کر افطار بہت بڑے عذاب کا موجب ہوسکتا تھا لیکن اس ذات کی رحمت بے مثل ہے کہ جس نے بندوں کے ساتھ عدل کا نہیں بلکہ فضل کا معاملہ کرتے ہوئے کفارے کی صورت میں معافی کی راہ نکالی۔ اور کفارے میں بھی حسبِ طاقت تین صورتیں عطا فرمائیں: پہلی صورت میں غلام آزاد کرو، اب ہر کوئی اتنا دولت مند تو نہیں اس لئے فرمایا کہ دوسری صورت ہے کہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھو اور جو یہ بھی نہیں کرسکتا وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلادے۔ اتنا بڑا احسان کیا کہ انسان اتنی بڑی نافرمانی کی پاداش میں اللہ کے حضور بروزِ قیامت گناہ گار نہ ٹھہریں بلکہ دنیا میں ہی بصورتِ کفارہ اس کابدل ادا کرچلیں۔
آٹھواں مظہر: کفارہ کے حکم کی عدمِ تعمیل پر وصیت کی رخصت
انسان نسیان اور خطاکا پتلا ہے اور غفلت اس کی فطرت میں شامل ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے کمال درجہ احسان کرتے ہوئے روزے کے احکام میں یہ رخصت عطا فرمائی کہ جب کوئی شخص غفلت کے باعث روزوں کی قضا یا کفارہ کا اہتمام نہ کرسکا تو اس کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنے مال کے ایک تہائی حصے میں سے وصیت کرے کہ اس کے ذریعے روزوں کا کفارہ ادا کیا جائے۔
خلاصۂ کلام
یہ احکامِ صوم میں ملنے والی رخصتوں کے مظاہر کی آٹھ صورتیں تھیں اور ہر صورت کے تحت مزید کئی صورتیں تھیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات میں جبر نہیں بلکہ انسانی مجبوریوں کے پیش نظر بہت نرمی ہے۔ ایسی نرمی دیگر عبادتوں میں بھی موجود ہے۔ جبکہ دیگر سامی و غیر سامی ادیان میں ایسی نرمی اور لچک دیکھنے کو نہیں ملتی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی مخلوق سے انتہا درجہ محبت فرماتاہے، اس نے اسلامی شریعت میں بندوں کی روحانی غذا کے بندوبست کے لیے عبادات کو فرض کیا۔ ان عبادتوں میں سے ہر عبادت کی الگ تاثیر ہے، روزہ انہیں عبادات میں سے ایک عبادت ہے جس کا ہدف تقویٰ کا حصول ہے جو ریاکاری سے ازخود پاک ہے، جس کا اجرو ثواب اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر رکھا ہوا ہے۔ اللہ رب العزت نے بندوں کی روحانی غذا کے لیے جہاں روزے اور دیگر اوامر ونواہی کا بندوبست کیا ہے وہاں شریعت کی تشکیل میں بندوں کی طاقت و قدرت اور اس میں تفاوت کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ حکم شرعی کی بجا آوری میں ہر بندے کی طاقت اور صلاحیت مختلف ہے۔ لہذا اللہ رب العزت نے کمال درجہ احسان فرماتے خطابِ شرعی میں تخفیف اور اس کی بجا آوری میں بہت سی رخصتیں عطا فرمائیں تاکہ وہ عمل ہر شخص کے لیے ممکنہ حد تک آسانی کے سانچے میں ڈھل جائے۔
روزہ سے متعلق اسلامی تعلیمات فطرت سے کماحقہ مطابقت رکھتی ہیں جو بندوں کی ہر ہر ضرورت اور مجبوری کو ملحوظ رکھتی ہیں اور کسی پر جبر بھی نہیں کرتیں، نہ ہی کسی کو روزہ کے نور سے محروم کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ممکنہ حد تک مختلف صورتوں اور نوعیتوں میں رخصتیں دی ہیں تاکہ کوئی فرد اس عمل کے نور سے محروم نہ ہو۔
اللہ رب العزت تو ہر ممکنہ حد اور صورت میں بندوں کے لیے عمل کی راہ ہموار کرتا ہے اور اس کے باوجود اگر انسان غفلت کا شکار رہے اور عمل سے منہ موڑے تو یہ اس کی بدقسمتی، جہالت اور ہٹ دھرمی کے سوا اور کچھ نہیں۔