اداریہ: معاشی بحران اور اس کا حل

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

پاکستان آج کل معاشی بحران سے گزررہا ہے۔ یہ بحران انفرادی، اجتماعی اور ریاستی ہر سطح پر ہے۔ ریاستی سطح پر پاکستان اربوں ڈالر کے قرضوں پر بھاری سود ادا کررہا ہے۔ آمدن سے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے تعلیم، صحت، روزگار کے منصوبے ختم ہو چکے ہیں اور اب تو ترقیاتی بجٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام آدمی مہنگائی اور گرانی کی چکی میں پس رہا ہے۔ ماہ مارچ کے وسط کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افراطِ زر کی شرح 46 فیصد سے تجاوز کر چکی۔ اتنی بڑی گرانی کی لہر کے ساتھ جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں وطنِ عزیز میں خودکشیاں اور جرائم کی شرح دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے معاشی بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ قرضے کے عوض ایسی غیر انسانی شرائط کا نفاذ چاہتے ہیں جن سے انسان کی معاشی و معاشرتی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گی۔ پٹرول، بجلی، گیس بنیادی ضروریات زندگی ہیں اور آئے روز ان کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے عام آدمی کے ساتھ ساتھ صنعتی و تجارتی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ الغرض یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزررہا ہے۔

اسلام دینِ فطرت ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلام نے راہنمائی مہیا نہ کی ہو۔ اسلام نے جہاں سیاسی، سماجی زندگی کے لئے راہ نما اصول دئیے ہیں وہاں معاشی حوالے سے بھی انسانیت کو ابدی اصول عطا کئے ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے امتِ مسلمہ کو ایک ایسا معاشی و معاشرتی ڈھانچہ عطا فرمایا ہے جس میں افراد اپنے آپ کو اپنے وسائل کا امانت دار سمجھتے ہیں۔ اسلام انفرادیت نہیں، اجتماعیت کا دین اور ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام کا مخاطب فرد نہیں بلکہ افراد ہیں۔ اسلام فرد کی خوشحالی کو فتنہ اور جماعت کی خوشحالی کو رحمت سے تعبیر کرتا ہے۔ مصطفوی تعلیمات بتاتی ہیں کہ زیادہ آمدن حاصل کرنے کا مطلب زیادہ خرچ کرنے کی زیادہ ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ اسلام ارتکازِ دولت اور ارتکازِ وسائل کی نفی کرتا ہے بلکہ اس عمل پر تعزیری تعلیمات کا حامل ہے۔

ریاستِ مدینہ کرۂ ارض کی وہ واحد ریاست تھی جس میں صاحب حیثیت افراد کو پیغمبرِ اسلام ﷺ نے بے سرو سامان مسلمانوں کی کفالت اور انہیں اپنے وسائل میں حصہ دار بنا کر پاؤں پر کھڑا کرنے کا عظیم الشان معاشی اصول دیا۔ اسلامی تعلیمات میں اسی معاشی فلاسفی کو مواخات کہا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: ایک کا کھانا دو لوگوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔ دو آدمیوں کا کھانا چار کیلئے کافی ہوتی ہے اور چار آدمیوں کو کھانا آٹھ آدمیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ایک اور موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس بھی اپنے استعمال کے علاوہ کوئی سواری کا جانور ہے، وہ اسے اس کو دے دے جس کے پاس کوئی نہ ہو اور جس کے پاس زیادہ زادِ راہ ہو، وہ اسے اس کو دے دے جس کے پاس کچھ نہ ہو۔‘‘

آج انفرادی سطح پر ہم جس معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ صاحبِ حیثیت افراد کی ارتکازِ دولت کی حد سے متجاوز حرص ہے۔ اسلامی معاشیات میں ارتکازِ دولت قابلِ گرفت عمل ہے۔ اسی طرح عالمِ اسلام کو اللہ رب العزت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے۔ عالم ِاسلام کے اندر ایسے افراد بھی ہیں جو اربوں ڈالر کے اثاثوں اور دولت کے مالک ہیں اور ان کی دولت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے مگر دوسری طرف عالمِ اسلام کے بعض ملک ایسے بھی ہیں جن کے عوام اشیائے ضروریہ کے لئے ترس رہے ہیں اور اس کے لئے غیر اسلامی ممالک سے ہتک آمیز طریقے سے امداد اور قرضے لینے کے لئے اپنی خودمختار کو گروی رکھ رہے ہیں۔

اس حوالے سے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ایک تجویز دی ہے جس پر عمل درآمد کرنے سے اُمہ اپنی معاشی بیساکھیاں توڑ سکتی ہے اور اغیار کے آگے ہاتھ پھیلانے کی خفت سے بچ سکتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے تجویز دی ہے کہ ’’مسلم کامن وقف‘‘(MCW)کے نام سے ایک مستقل مالیاتی ادارہ قائم کیا جائے جو بوقت ضرورت فنانشل کرائسس اکانومی کو سہارا دے اورمعاشی بحران میں مبتلا ضرورت مند اسلامی ملکوں کی مدد کر سکے۔ آئی ایم ایف کے مہنگے سودی قرضے اور کڑی شرائط کی وجہ سے غریب اسلامی ملک بتدریج اپنی خودمختاری کھورہے ہیں۔ ’’مسلم کامن وقف‘‘کے لئے دنیا بھر میں موجود ارب پتی مسلمانوں کو اس فنڈ کے قائم کرنے پر قائل کیا جا سکتا ہے اور سہولت کے ساتھ ’’سیڈ منی‘‘ مہیا ہو سکتی ہے۔ اس مستقل فنڈ میں اُمہ کے مخیر حضرات اپنے اثاثے بھی عطیات کر سکتے ہیں اور اپنے منافع کا کچھ حصہ بھی وقف کر سکتے ہیں۔ اوآئی سی کے پلیٹ فارم پر یہ فنڈ قائم ہو سکتا ہے۔ اس فنڈ کو مختلف انویسٹمنٹس کے ذریعے محفوظ بنانے اور اس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ نے اس معاشی ماڈل کے تحت 7 سو سال تک معاشی خودمختاری اور استحکام حاصل کئے رکھا۔ خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی اس معاشی ماڈل کو بروئے کار لا کر انسانیت کی بے مثال خدمت کی گئی۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ اسلامی ملکوں میں مصر کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ دونوںملکوں کے داخلی حالات اور سلامتی کے امور ہم سب کے سامنے ہیں۔ فی زمانہ معاشی خودانحصاری کے بغیر داخلی و خارجی خودمختاری ناممکن ہے۔ اس فنڈ کے تحت افراد کی بجائے ملکوں کے درمیان مواخات کے اسلامی تصور کو اجاگر کیا جائے۔ یہ فنڈ فقط ڈونیشن دینے تک محدود نہ ہو بلکہ اس کے ذریعے انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیم، صحت کے منصوبہ جات بھی مکمل کروائے جا سکتے ہیں۔ ’’مسلم کامن وقف‘‘ کے ذریعے مسلم ممالک کے درمیان معاشی تعاون اور معاشی خودمختاری سے باہمی رشتوں کو مضبوط اور موثر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ ’’مسلم کامن وقف‘‘ کے ساتھ معاشی ماہرین بھی کام کریں جو مختلف مسلم ممالک کی اکانومی کو بہتر کرنے اور معاشی بحرانوں سے نمٹنے کے لئے ان کی تکنیکی سطح پر مدد بھی کریں۔

’’مسلم کامن وقف‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا مزید کہنا تھا کہ اللہ رب العزت نے عالم اسلام کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے۔ اس کے باوجود غریب اسلامی ملکوں کا اغیار کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور ہتک آمیز شرائط کو قبول کرنا اذیت ناک ہو چکا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں مسائل اور پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ اسلامی ملکوں میں ایسے تاجر اور سرمایہ کار موجود ہیں جن کی انفرادی دولت اربوں ڈالر میں ہے۔ ایسے افراد کے ساتھ مل کر ’’مسلم کامن وقف‘‘ کے تصور کو عملی شکل دی جا سکتی ہے۔ اس معاشی ماڈل کو اسلامی ملک اپنے طور پر بھی اپنے اپنے ممالک کے اندر شروع کر سکتے ہیں اور بوقتِ ضرورت ہنگامی صورت حال کے دوران اغیار کی طرف دیکھے بغیر بحرانوں سے نمٹ سکتے ہیں۔ ’’مسلم کامن وقف‘‘ قدرتی آفات سے نمٹنے میں بھی مدد مہیا کر سکتاہے۔ اب عالمِ اسلام کو دوسروں کے ہاتھوںکی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے وسائل اور اپنی حکمتِ عملی پر انحصار کرنا چاہیے۔