رمضان المبارک: اہمیت اور تقاضے

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

اللہ رب العزت نے اپنے احکام کے ذریعے جن اعمال کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے، ان فرض اعمال میں سے ایک روزہ بھی ہے۔ روزے کو اپنے بندے پر فرض کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.

(البقرہ،2: 183، 184)

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘

روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں۔ صوم کا معنی الامساک ہے یعنی رک جانا۔ شریعتِ اسلامی میں اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی تعلقات سے عبادت کی نیت کے ساتھ رک جانا، روزہ کہلاتا ہے۔

ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فقط ان تین چیزوں ’’اکل و شرب اور جماع‘‘ کو چھوڑنا ہی روزہ ہے یا ان کے علاوہ کچھ اور چیزوں کو بھی روزے دار کو چھوڑنا ہوگا۔ یقیناً فرض کی حد تک ان چیزوں کو چھوڑنا ہوگا۔لیکن بقیہ محرمات و مکروہات کو ترک کرنے پر ہی روزے جیسی عبادت کی وجہ سے انسان کو اللہ کی رحمت کی آغوش میسر آتی ہے اور اسی صورت میں انسان اپنے اس عمل کا کامل اجر پانے والا بن جاتا ہے۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

الصیام جنة واذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث و لایصخب فان سابه احد او قاتله فیقل: انی امراء صائم.

(بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، ج:2، ص: 673، الرقم: 1805)

’’روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے اور جس دن تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو وہ نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑا کرے اور اگر اس روزے دار کو کوئی گالی دے یا اس کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا کرے تو وہ روزہ دار کہہ دے کہ میں روزے کی حالت میں ہوں۔‘‘

یہ حدیث مبارک ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ گناہوں سے بچنے کا ذریعہ روزہ ہے۔ روزہ انسان کو گناہوں سے اسی طرح بچاتا ہے جس طرح ڈھال انسانی جسم کو تیروں اور تلواروں سے محفوظ کرتی ہے۔ جب انسان روزے کی حالت میں ہوتا ہے تو انسان کی یہی حالت گناہوں سے حفاظت کا سبب بن جاتی ہے اور یوں انسان روزے کی وجہ سے اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرلیتا ہے۔ مزید برآں واضح فرمادیا کہ اگر کوئی روزہ دار کے ساتھ بدکلامی کرے اور اس سے الجھنے کی کوشش کرے تو وہ اسے یہ باور کروائے کہ چونکہ میں روزے سے ہوں اور روزہ مجھے اس طرح کے امور میں الجھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لہذا میں تمہارے ساتھ کسی بھی قسم کا جھگڑا نہیں کروں گا اور تمھاری ہر بات کو نظر انداز کردوں گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

والصیام جنة، وحصن حصین من النار.

’’روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لیے محفوظ قلعہ ہے۔‘‘

(احمد بن حنبل، المسند، ج:2، ص: 402، الرقم:9214)

رسول اللہﷺ نے روزے کو جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح قلعہ اپنے اندر موجود پناہ گزینوں کو حفاظت کا احساس دیتا ہے، اسی طرح روزے کا عمل انسان کو جہنم کی آگ سے محفوظ کرتا ہے۔ روزے کی وجہ سے انسان اپنے وجود میں قلعہ کی طرح کا احساسِ حفاظت محسوس کرتا ہے اور یوں وہ گناہوں میں لت پت ہونے سے بچ جاتا ہے،خطاؤں سے ہٹ جاتا ہے، نافرمانیوں کو چھوڑ دیتا ہے، بغاوت و سرکشی کو خیر آباد کہہ دیتا ہے اور معصیت و جرم سے اعراض کرتا ہے۔

روزے دار کے لیے حالتِ صوم یعنی الامساک (رکنا) قائم کرنا ضروری ہے۔ جب وہ اس حالت اور کیفیت میں آتا ہے تو پھر وہ فرض کی حد تک حرام سے بھی رکتا ہے اور ممنوعات سے بھی اعراض کرتا ہے۔ پھر وہ اپنی حالتِ صوم کو اپنے جسم کے ہر عضو پر بھی جاری کرتا ہے اور ان سے کوئی حرام اور ممنوع فعل سرانجام نہیں دیتا۔

روزے کے تقاضے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

من لم یدع قول الزور والعمل به فلیس لله حاجة فی ان یدع طعامه وشرابه.

’’ جو شخص بحالتِ روزہ جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، ج:2، ص: 673، الرقم: 1804)

یہ حدیث مبارک اس تصور کو واضح کرتی ہے کہ صوم سے مراد اکل وشرب اور نفسانی خواہشات سے ہی نہیں بچنا بلکہ تمام منکرات کو چھوڑنا بھی ہے۔ تمام اخلاقِ رذیلہ، بری عادات اور برے اعمال و افعال سے بھی چھٹکارا پانا ہے۔ جب تک روزہ دار ان امور سے خلاصی نہ پالے، تب تک بات نہیں بنتی اور روزے کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ برے اقوال و افعال کی وجہ سے نہ صرف روزے کی روح کمزور ہوجاتی ہے بلکہ مرجاتی ہے۔ اس لیے روزے کی حالت میں نہ صرف ہر برائی سے بچنا ہے بلکہ خود کو اللہ کی مطلق فرمانبرداری کی طرف گامزن کرنا بھی ہے۔

جو لوگ روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر روزے کے تقاضے پورے نہیں کرتے اور روزے کے آداب نہیں بجا لاتے، روزہ دکھاوے اور محض لوگوں سے شرمندگی سے بچنے کے لیے رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

کم من صائم لیس له من صیامه الا الظماء وکم من صائم لیس له من قیامه الا السهر.

(دارمی، السنن، ج:2، ص: 390، الرقم: 2720)

’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو اپنے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا۔‘‘

یہ حدیث مبارک واضح کررہی ہے کہ بعض روزے دار خود کو روزے کی مکمل کیفیت میں نہیں لے کر جاتے بلکہ اکل و شرب اور جماع کے علاوہ ہر معصیت اور گناہ کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ خود کو روزے دار کہلواتے ہیں مگر جی بھر کر منکرات اور ممنوعات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کردار کی یہ خرابی انہیں روزے کے اجر عظیم سے محروم کرتی ہے۔حالانکہ روزہ تو خواہشات، آرزوؤں، تمناؤں، پسندیدہ چیزوں، مرغوبات اور شہوات کو ترک کرنا ہے اور فقط اللہ کی ذات کو اختیار کرنا ہے۔ یعنی اللہ کی رضا، قربت اور معرفت کے لیے و افوض امری الی الله اور یا ایتها النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة کی منزل کو اختیار کرنا ہے۔ اسی پر روزہ الصوم لی وانا اجزی بہ کا اعزاز پاتا ہے اور اجر عظیم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جب انسان روزے کے تمام تر تقاضے ادا کردیتا ہے اور روزے کو اس کی روح کے مطابق قائم کرتا ہے تو پھر اسے اللہ رب العزت کی رضا حاصل ہوجاتی ہے۔

اللہ کی نافرمانی سے کلی اجتناب

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا:

یارسول الله مرنی بعمل قال علیک بالصوم فانه لاعدل له قلت یارسول الله مرنی بعمل قال علیک بالصوم فانه لاعدل له.

’’ یارسول اللہﷺ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں (جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں)، آپﷺ نے فرمایا: روزہ رکھو، اس کے برابر کوئی عمل نہیں۔ میں نے پھر عرض کیا: یارسول اللہﷺ! مجھے کوئی اور عمل بھی بتائیں، آپﷺ نے دوبارہ فرمایا: روزہ رکھو، اس کے برابر کوئی عمل نہیں۔‘‘

اگر ہم صوم کے لفظ کا لغوی معنی ’’الامساک، رک جانا‘‘ یہاںمراد لیں اور اسے اس سوال سے متعلق کرکے جواب کو سمجھیں تو معلوم ہوگا کہ آپﷺ سائل کو یہ جواب دے رہے ہیں کہ تم ہر ایسے عمل سے رک جاؤ، جس میں ربِ کائنات کے احکامات کی خلاف ورزی کا شائبہ تک بھی ہے۔ فان علیک بالصوم تمہارے اوپر رک جانا لازم ہے۔ ہر وہ چیز چھوڑ دو جو تمھیں رب سے دور لے جائے۔۔۔ جو تمھیں رب کا نافرمان بنائے۔۔۔ جو تمھیں رب کی رحمت سے دور کرے۔۔۔ جو تمھیں رب کی بارگاہ میں مجرم اور گناہ گار بنائے۔۔۔ جو تم سے حرام کا ارتکاب کرائے۔۔۔ جو تمھیں رب کے حکم کی خلاف ورزی پر ابھارے ۔۔۔جو تمھیں رب کی بندگی سے دور کردے۔۔۔ جو تمھیں رب کی معرفت سے محروم کردے۔۔۔ جو تمھیں رب کی رضا سے ناآشنا کردے۔ یہی عمل سب سے بہتر عمل ہے، یہی عمل عملِ خیر ہے، یہی عمل عملِ نجات ہے، یہی عمل رب کی قربت، معرفت اور اس کی رضا کا سبب ہے۔

لاعدل لہ کے الفاظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہی سب سے جامع عمل ہے، یہی عمل کل اعمال کی روح ہے اور اس کے برابر کوئی عمل نہیں۔

تزکیۂ نفس کا حصول

روزہ انسان کی شخصیت کی تعمیر بایں طور کرتا ہے کہ اس سے انسان کو تزکیۂ نفس کی منزل عطا ہوتی ہے، دل کو پاکیزگی ملتی ہے، خیالات کو طہارت ملتی ہے، خواہشات کو نفاست ملتی ہے، میلانات کو نیکی کی رغبت ملتی ہے، ذہنی رجحانات کو رجوع الی اللہ کی خیرات ملتی ہے، انسانی وجود سے برائی کا خاتمہ ہوتا ہے، انسان بدی سے نفرت کرنے لگتا ہے اور رب کی طرف کامل یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

فعلیه بالصوم فانه له وجاء.

(بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباءة فلیصم، ج:5، ص:1950، الرقم: 4779)

’’روزہ رکھو اس لیے کہ روزہ انسان کی برائی سے قطع تعلقی کراتا ہے۔‘‘

یعنی نفس برائی کی چاہت کرتا ہے، برائی میں لت پت ہونا پسند کرتا ہے اور برائی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتا ہے، اس لیے کہ نفس کا کام ہی یہی ہے، قرآن اس کا ذکر یوں کرتا ہے:

اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌم بِالسُّوْٓئِ.

(یوسف،12: 53)

’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔‘‘

آیت کریمہ میں نفس کی اس حالت کو واضح کیا گیا ہے کہ نفس برائی پر اکساتا ہے۔ انسان کی شخصیت میں موجود اس حقیقت کی اصلاح کے لیے اب ایک ایسے عمل کی ضرورت تھی جو انسان کے اندر موجود اس برائی پر اکسانے والی نفس امارہ کی قوت کا انسداد کرسکے۔ اس کا حل رسول اللہﷺ نے اپنے اس ارشاد مبارکہ کے ذریعے امت کو عطا کردیا کہ روزہ؛ نفس سے تمہاری قطع تعلقی کرواتا ہے۔یہ روزہ تمہارے نفس کو ہر قسم کی سرکشی و بغاوت، نافرمانی و معصیت اور خطا و ذنوبیت سے بچانے کا باعث بنے گا۔ گویا صوم اپنے معنی کی حقیقت کے اعتبار سے ہر طرح کے خلافِ شرع امر سے رک جانے، نفس سے مکمل قطع تعلقی کرنے اور نیکی کو مکمل اختیار کرنے کا نام ہے۔

مغفرت؛ ایمان و احتساب سے مشروط ہے

روزے کے اس جامع مفہوم کے پیشِ نظر روزے دار کے لیے آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مغفرت کی خوشخبری امت کو دی ہے۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان الله تبارک وتعالیٰ فرض صیام رمضان علیکم وسننت لکم قیامه فمن صامه وقامه ایمانا واحتسابا خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه.

(النسائی، السنن، کتاب الصیام، ج:4، ص:158، الرقم: 2308)

’’ بلاشبہ تم پر رمضان میں دن کا روزہ اللہ نے فرض کیا ہے اور رمضان میں تراویح کی صورت میں رات کا قیام میں نے اپنی سنت بنائی ہے۔ پس جس شخص نے دن کو روزہ رکھا اور رات کو تراویح کی صورت میں قیام کیا اور یوں یہ سارا ماہِ صیام حالتِ ایمان اور حالتِ احتساب کے ساتھ گزارا تو ایسا شخص گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا جس طرح وہ پیدا ہوتے وقت گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔‘‘

یہ حدیث مبارک ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ جب ایک روزے دار خود کو ایمان اور یقین کی پوری قوت کےساتھ آراستہ کرلیتا ہے اور اپنے نفس کو احتساب کے عمل سے بھی گزارتا ہے، اپنے عمل کو تنقید کے ترازو میں بھی لاتا ہے اور خود کو احتساب سے بالا نہیں سمجھتا اور نہ صرف اپنے ضمیر کے ذریعے ہر خطا پر اپنے نفس کی ملامت کرتا ہے بلکہ مذمت بھی کرتا ہے۔یعنی اس کا ایمان بھی ہر لمحہ بڑھتا جاتا ہے اور احتساب بھی مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں باری تعالیٰ گناہ معاف فرمادیتا ہے۔

روزے دار کے لیے ایمان اور احتساب دو لازمی امر ہیں۔ روزے کی بتمام و کمال ادائیگی کے لیے یہ دو چیزیں انتہائی ضروری ہیں۔ ان دو حالتوں کی موجودگی روزے دار کو ہر طرح کے گناہ سے محفوظ کردیتی ہے۔ ایمان کی تازگی روزے دار کو برائی سے روکتی ہے اور احتساب کی قوت انسان کو برائی سے دور کھینچتی ہے اورنیکی کی طرف لاتی ہے۔ گویا یہ دو حالتیں انسان کی پاکیزگی اور طہارت کا سبب ہیں۔ جب یہ دو حالتیں انسان میں راسخ ہوجاتی ہیں تو اس کا نتیجہ اللہ کے فضل سے انسان کے حق میں مغفرت و بخشش کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

رسول اللہﷺ نے روزے دار کو ایک اور خوشخبری یوں عطا فرمائی کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

الصیام و القرآن یشفعان للعبد یوم القیامة. یقول الصیام: ای رب منعته الطعام والشهوات بالنهار فشفعنی فیه ویقول القرآن: منعته النوم باللیل فشفعنی فیه فیشفعان.

(احمد بن حنبل، المسند، ج:2، ص:174، الرقم: 6626)

’’ روزہ اور قرآن قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے مولا! دن بھر اس بندے کو کھانے پینے اور تمام تر خواہشات سے میں نے روکے رکھا، پس تم میری اس کے حق میں شفاعت کو قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ مولا رات کو تراویح کی صورت میں اسے سونے سے میں نے روکے رکھا، پس تو اس بندے کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ پس اللہ تعالیٰ روزے اور قرآن کی شفاعت کو اس بندے کے حق میں قبول فرمائیں گے۔‘‘

پس رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ اللہ کی بارگاہ سے بندوں پر رحمت، برکت اور مغفرت کا باعث ہے۔ یہ مہینہ رب کی عطاؤں اور نوازشوں کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ رب کی رضا کو پانے کا مہینہ ہے اور رب کی عبادت کی لذت پانے کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ اس ماہ مبارک میں کمال عبادت و ریاضت کا اظہار فرماتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہj بیان کرتی ہیں:

کان رسول الله اذا دخل شهر رمضان شد مئزره ثم لم یات فراشه حتی ینسلخ.

(احمد بن حنبل، المسند، ج:6، ص: 66، الرقم: 24422)

’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہﷺ اپنی کمرِ ہمت باندھ لیتے اور پھر سونے اور بستر کی طرف نہ آتے یہاں تک کہ رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ ختم ہوجاتا۔‘‘

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ایک اور روایت میں ہے کہ :

کان رسول الله اذا دخل رمضان تغیر لونه وکثرت صلاته و ابتهل فی الدعاء واشفق منه.

(بیہقی، شعب الایمان، ج:3، ص:310، الرقم: 3625)

’’ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو رسول اللہﷺ کی کیفیات بدل جاتیں، آپ کی عبادت میں کثرت ہوجاتی اور گریہ و زاری کے ساتھ رب کی طرف دعاؤں میں مشغول ہوجاتے اور رب کی یاد کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہوجاتے۔‘‘

رسول اللہﷺ کا یہ عمل امت کو بھی اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ اس عملِ رسول کو اپنی زندگیوں میں اختیار کریں۔ رمضان المبارک کو اللہ کی بارگاہ سے اپنے لیے ایک نعمت جانیں اور اس نعمت کی قدر دانی کی صورت یہی ہے کہ جس نے یہ نعمت عطا کی ہے، اس منعمِ حقیقی اور معبودِ حقیقی کو خوب یاد کیا جائے اور کثرت کےساتھ اس کا ذکر کیا جائے۔۔۔ اس کی بارگاہ میں رات کی خلوتوں میں طویل قیام و رکوع اور سجود کیے جائیں۔۔۔ اسے یکسوئی کےساتھ تنہائی میں منایا جائے۔۔۔ اس کی معرفت کے جام پیے جائیں۔۔۔ اس کی رضا کے مقامِ رفعت کو حاصل کیا جائے۔۔۔خلوت و جلوت میں وہ رب کبھی انسان کے ’’نسیان‘‘ میں نہ آئے بلکہ ہمیشہ یاد ہی یاد رہے۔۔۔ اور انسان کبھی اپنے رب سے جدا نہ ہو۔ بندے کا یہی وہ مقام ہے جسے قرآن نفسِ راضیہ و مرضیہ سے تعبیر کرتا ہے۔

رمضان المبارک کا پیغام

محترم قارئین! رمضان المبارک وہ مہینہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :

ینظر الله تعالیٰ الی تنافسکم فیه ویباهی بکم ملائکته فاروا الله من انفسکم خیرا، فان الشقی من حرم فیه رحمة الله.

(الہیثمی، مجمع الزوائد، ج:3، ص:142)

’’ اس مہینے اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر نظر کرتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے۔لہذا تم اپنے قلب و باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی حاضر کرو کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا۔‘‘

ہمیں اللہ کی رحمت کے حصول کے لیے خود کو ظاہراً اور باطناً پاک کرنا ہے اور اس کی اطاعت کی طرف گامزن ہونا ہے۔ اپنے سارے اعضائے جسم، سوچ، عمل، خیالات، نیت، ارادوں، رویوں، عادتوں اور طریقوں کو پاک کرنا ہے۔ ہم پاک ہوجائیں گے تو وہ ذاتِ الہٰیہ بھی ہمیں مل جائے گی اور اس کی رحمت اور اس کی ساری نعمتیں بھی ہمیں مل جائیں گی۔

رمضان المبارک کا پیغام یہ ہے کہ جس طرح ہم رمضان المبارک میں اللہ کی رضا کی خاطر ساری مخلوق کے لیے سراپا خیر اور بھلائی بنے رہے ، سحری و افطاری کی صورت میں بھوکوں کو کھلاتے اور پیاسوں کو پلاتے رہے، ضرورت مندوں کی مدد کرتے رہے ، اسی طرح سال کے بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی اس عملِ خیر خواہی کو اختیار کریں، ان کے دکھوں کو خوشیوں میں بدلتے رہیں، ان کے غموں میں ان کا سہارا بنیں، ان کی زندگی کی مصیبتوں میں ان کے مددگار بنیں اور ان کے چہروں پر ہمیشہ خوشی و مسرت کے چراغ جلاتے رہیں۔

اسلام کی کل تعلیمات کا درس تمام انسانوں کے مابین خیر کا قیام اور بھلائی کا اہتمام ہے اور ہمدردی کا حامل ہونا ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے اپنی امت کے ہر فرد میں عظیم کردار کو تشکیل دینے کایہ ضابطہ دیا ہے:

لاتکونوا امة تقولون ان احسن الناس احسنا وان ظلموا ظلمنا ولکن وطنوا انفسکم ان احسن الناس ان تحسنوا وان اسائوا افلا تظلموا.

(ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی الاحسان والعفو، ج:4، ص:364، رقم الحدیث:2007)

’’ تم اپنی زندگی میں ایک ہی رائے پر نہ چلو اور یوں نہ کہو اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو تم بھی بھلائی کرو گے اور اگر وہ برائی کریں گے تو تم ظلم نہ کرو گے۔‘‘

ان تعلیماتِ اسلام کی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ دین تو سراسر امن اور سلامتی کا دین ہے۔ دین اسلام انسانوں سے پیار و محبت اور باہمی عزت و احترام اور دوسروں سے خیر خواہی و بھلائی اور دوسروں سے ہمدردی اور غمخواری کو ترجیح دیتا ہے اورظلم و زیادتی کے ہر نشان کو مٹاتا ہے۔