ریاستی و معاشرتی استحکام کے لیے احتساب کی ناگزیریت

ڈاکٹر محمد تاج الدین کالامی

محتسب اور احتساب کا تصور درحقیقت اسلامی تصور ہے۔ جسے عربی میں ’الحسبۃ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاریخِ اسلام کے ہر دور میں محتسب کی افادیت و اہمیت کو کسی نہ کسی صورت میں تسلیم کیا گیا ہے۔ مسلم مفکرین نے اسلامی ریاست کے لیے حسبہ کو ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ عدل و انصاف اور قانون و معیشت کے لیے جہاں ریاست کا قیام ضروری ہے وہاں معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے محتسب کے ادارے کا قیام بھی ضروری ہے۔

قانونی لحاظ سے ’’الحسبہ‘‘ سے مراد وہ ادارہ ہے جو احتساب کے فریضہ کو بہ حسن و خوبی انجام دے۔ ائمہ نے احتساب کے حوالے سے لکھا ہے:

والاحتساب فی الاعمال الصالحه وعند المکروهات هوالبدار الی طلب الاجرو تحصیله بالتسلیم والصبر او باستعمال انواع البر والقیام بها علی الوجه المرسوم فیها طلبا للثواب المرجومنها.

(ابن اثیر، النہایہ، ج:1، ص:382)

’’احتساب نیک اعمال میں اور ناپسندیدہ امور کے وقت اجر کے حصول کی طرف جلدی کرنے کا نام ہے اور اس کا حصول تسلیم و رضا اور صبر سے ممکن ہے یا اس سے مطلوب اجرو ثواب کے حصول کی خاطر نیکی کے مختلف طریقوں پر چلنے اور ان پر مناسب طریقے سے مداومت کرنے سے اس کا حصول ممکن ہے۔‘‘

امام ماوردی اور قاضی ابو یعلی الفراء نے ’الحسبۃ‘ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

والحسبة هی امر بالمعروف اذا ظهر ترکه ونهی عن المنکر اذا ظهر فعله.

’’حسبہ سے مراد اچھائی کا حکم دینا ہے جب اسے سر عام ترک کردیا جائے اور برائی سے روکنا ہے جب لوگ کھلے عام اس کا ارتکاب کرنے لگیں۔‘‘

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ سے کوئی مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں۔ مسلم معاشرے کے ہر فرد کا فرض ہے کہ کلمۂ حق کہے، نیکی اور بھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے یا مملکت میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام ہوتے نظر آئیں، ان کو روکنے میں اپنی ممکن حد تک پوری کوشش صرف کردے۔ ارشاد فرمایا گیا:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.

(التوبۃ،9: 71)

’’ اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔‘‘

بھلائی پر کاربند ہونا اور برائیوں سے اجتناب معاشرے کے قیام و استحکام کی بنیاد ہے۔ خیرالبشر انبیاء کرام علیہم السالم کی بعثت بھی اسی مقصد کے لیے ہوتی رہے۔ جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احتساب کی صورت میں ادا نہ ہورہا ہو تو اس سے دین اور ریاست کی قوت منتشر ہوجاتی ہے۔ لوگ من مانیاں کرتے ہیں، نتیجتاً معاشرے کے کرپٹ اور بدعنوان لوگ لوٹ مار کے ذریعہ ناجائز دولت اکٹھی کرتے ہیں اور غریب و کمزور لوگ مصیبت کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور یوں پورا معاشرہ شر و فساد کا مرقع بن جاتا ہے۔

امام غزالیؒ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ھو قطب الاعظم فی الدین کے الفاظ لکھے ہیں اور تصریح فرمادی ہے کہ امر بالمعروف سے مراد وہ امور ہیں جنہیں شرعِ اسلام نے جائز کہا ہے اور نہی عن المنکر وہ کہ جن کے نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

(غزالی، احیاء علوم الدین، ج:2، ص:302)

احتساب اورعدل  کا باہمی تعلق

احتساب کا عدل سے گہرا تعلق ہے۔ احتساب عدل ہی کی ایک شاخ ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، عدل و انصاف، اخلاق اور احتساب کی تمام کڑیاں باہم مربوط ہیں۔ کسی بھی اسلامی مملکت میں قائم ہونے والے اجتماعی اداروں میں ’’حسبہ‘‘ کی اہمیت و افادیت مسلم رہی ہے۔معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کے سدِّباب کے لیے ’’الحسبہ‘‘ ایک مکمل نظام ہے۔ اس حوالے سے ائمہ اسلام؛ امام غزالی، امام شیرازی، ابن الاخوۃ، ابن خلدون اور ابن قیم کی بیان کردہ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ حسبہ کے مکمل نفاذ سے معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ مسلم ماہرینِ قانون اور فقہاء کرام نے الحسبہ اور احتساب کے شعبہ کے بارے میں جو علمی بحث کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی بدعنوانیاں اور کرپشن کا خاتمہ احتساب کے ذریعہ اس وقت ہونا ممکن ہے جب محتسب کا فیصلہ ذاتی پسند و ناپسندد اور ذاتی و دنیاوی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ لہذا جو شخص دنیوی انعام و اکرام سے بے نیاز ہوکر نہایت بے خوفی اور جرأت و ایثار سے خالصتاً رضائے الہٰی کے لیے فیصلہ کرے تو تب ہی معاشرہ برائیوں سے پاک ہوسکتا ہے۔

بنظرِ غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ادارہ احتساب کے قیام کا مقصد افراد کی اجتماعی سرگرمیوں کی نگہداشت اور عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ جبکہ الحسبہ سے پہلو تہی سے معاشرتی نظم و ضبط اور امنِ عامہ میں خلل واقع ہوتا ہے نتیجتاً معاشرہ میں فسادات، بے راہروی اور کرپشن و بدعنوانی کا راج ہوتا ہے۔

تاریخِ اسلام کا بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کی مرکزی کابینہ، چار وزارتوں؛ وزارتِ عظمیٰ، وزارتِ عدل و انصاف، وزارتِ انسدادِ مظالم اور وزارتِ حسبہ پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔ یعنی حکومت کے مرکزی ارکان میں سے چوتھا اہم رکن وزارتِ حسبہ کا ہوا کرتا تھا۔ اسلامی ادوار میں محکمہ احتساب ایک دینی ومذہبی شعبہ تھا، اس منصب کے لیے مناسب ذمہ دار کا انتخاب خلیفہ المسلمین کی ذمہ داری تھی۔ محتسب کے فرائض میں واجبی تعزیر و تادیب شامل تھی۔ محتسب اس بات کا انتظار نہ کرتا تھا کہ جھگڑے اس کے سامنے بطورِ مقدمہ لائے جائیں بلکہ خود سے قابلِ احتساب امور کی نگرانی کرتا تھا۔ سارے دعوؤں کی سماعت اس کی ذمہ داری نہ تھی تاہم معاشی لین دین اور کاروباری میدان میں غلط کاریوں کا انسداد اسی کے ذمہ تھا۔ ایسے تمام اختیارات محتسب کے دائرہ اختیار میں تھے جن میں شہادت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گویا محتسب کے ہاتھ میں ایسے معاملات دیے جاتے جو کثیرالوقوع اور سہل الفیصلہ ہوتے اور قاضی کو ان سے سبکدوش رکھا جاتا۔

کسی قوم کی بقاء اور ترقی کے لیے ایک طرف عدل و انصاف ضروری ہے تو دوسری طرف روحانی اور اخلاقی اساسات بھی لازمی ہیں۔ تعلیماتِ اسلام کی رو سے معروف میں حسنِ خلق شامل ہے۔ انسانوں کے ساتھ جو نیکیاں اخلاق کا حصہ ہیں ان میں عدل و انصاف، مساوات، ظلم سے اجتناب، جانبداری سے احتراز، افراط و تفریط سے بچنا اور ہر کسی کو اس کا جائز حق دینا اور دلانا وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے بہتر امور ہمیشہ فریضہ احتساب میں داخل رہے۔ زوال پذیر معاشرے کو مزید ذلت سے بچانے کا واحد راستہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قرآنی اصول پر سختی سے عمل کرنا ہے جس کی ایک صورت احتساب ہے۔

ادارہ احتساب کے اختیارات

اسلامی سیاسی فکر کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فقہاء کرام اور قوانینِ شرع کے ماہرین ائمہ نے الحسبہ کی اصطلاح کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت واضح کیا ہے کہ جب معاشرہ میں علی الاعلان اچھائیاں ترک ہوجائیں اور لوگ کھلم کھلا برائیوں کا ارتکاب کرنے لگیں تو ریاست بزورِ قوت اس رویے پر قابو پائے۔ اس کے لیے الحسبہ کی صورت میں محکمہ احتساب کی ضرورت ہوگی تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور لوگوں میں اخلاقی قدریں اجاگر ہوں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نظامِ احتساب اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا باقاعدہ محکمہ قائم فرمایا جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے عہد میں اس نظام کو مضبوط بنایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے نظامِ احتساب کے حوالے سے ایک بار پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کردی۔ اموی، عباسی اور بعد میں عثمانی خلفاء کے ادوار حتی کہ سلاطینِ ہند کے دور میں بھی امر بالمعروف عن المنکر کا نظام کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا۔ محتسب کے دائرہ اختیار میں آنے والے امور میں دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات شامل ہیں۔ محتسب خود باکردار اور شریف النفس اور بے داغ شخصیت کا حامل فرد ہو تاکہ وہ بلا امتیاز ہر کسی کا احتساب کرسکے۔

ذیل میں مختصراً معاشرتی و اخلاقی اورمعاشی و اقتصادی دونوں سطح پر ادارہ احتساب کے دائرہ اختیار کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ احتساب کا محکمہ کن امور میں گرفت کرسکتا ہے اور اس کا دائرہ اختیار کیا ہے؟

(1) معاشرتی و اخلاقی سطح پر انسدادِ کرپشن کا اختیار

1۔ ناجائز تجاوزات، بوسیدہ عمارتوں کا انہدام، راستوں میں دکانوں کی تعمیر کو روکنا، یہ سب محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص: 372)

2۔ بازاروں اور عام گزر گاہوں پر ناجائز عمارات بنانا، اسی طرح ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کے لیے فٹ پاتھ اور بازاروں میں کرسیاں، بنچ رکھ کر رکاوٹ کھڑی کرنا جو لوگوں کے لیے باعثِ آزار ہوں، ان کے خلاف اقدامات اٹھانا محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:372)

3۔ ہوٹلوں اور دکانوں میں کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق تدابیر اختیار کرنا، روزمرہ کے اشیاء میں ملاوٹ کی روک تھام، ماپ تول میں کمی پر قابو پانے کے لیے سزا دینا بھی محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(حموی، معجم الادباء)

4۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور فحاشی، فسق و فجور کی روک تھام اور اس مقصد کے لیے نوجوان نسل میں شادی بیاہ کی ترغیب دینا اور شرعی امور پر پابند کروانا بھی محتسب کے اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:367)

5۔ سرِ عام منشیات کا استعمال اور اس سے متعلق دیگر خرابیوں کا مواخذہ کرنا محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:364)

6۔ گداگری کی روک تھام اور روزگار کے مواقع کی فراہمی کے لیے حکمران سے سفارش بھی محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:361)

7۔ محتسب محض الزام اور سوءِ ظن سے مواخذہ نہیں کرسکتا۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:360)

8۔ رفاہِ عامہ کے امور کی نگرانی بھی محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔ جیسے بند نہر کو کھلوانا، مساجد کی تعمیر، سرحدی مقامات میں مسافروں کی سہولت کے لیے سرائے کی تعمیر وغیرہ۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:357، 358)

9۔ ہمسایوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا اور عدمِ ادائیگی پر مواخذہ کرنا محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص: 369، 370)

10۔ عدالت اگر مقدمات میں بلا عذر تاخیر کرے یا قاضی اپنے فرائض سے کوتاہی برتے تو محتسب قاضی کو مقام و مرتبے کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے اپنے فرائضِ منصبی کو بحسن خوبی انجام دینے کی تاکید کرسکتا ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:371)

(2) معاشی و اقتصادی سطح پر انسدادِ کرپشن کا اختیار

1۔ ملکی معیشت اور تجارت کے تمام معاملات میں خرابیوں کو دورکرنے کا اختیار محتسب کو حاصل ہے۔ مثلاً چیزوں میں ملاوٹ کو روکنا، فراڈ، ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی سے لوگوں کو باز رکھنا محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

2۔ دھوکہ دہی سے نقصان دہ چیزوں کو فروخت کرنا جرم ہے اس پر سزا دینا محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:367، 368)

3۔ مارکیٹوں کی نگرانی اور مہنگائی پر کنٹرول کرنے کی ذمہ داری بھی تاریخ اسلام میں محتسب کی رہی ہے۔

(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج:8، ص:3)

4۔ ذخیرہ اندوزوں اور اشیاء خوردو نوش میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور مجرموں کو سزا دینے کا مکمل اختیار محتسب کو حاصل رہا ہے۔

(صبح الاعشی فی صنعۃ الانشاء، ج:11، ص: 96)

5۔ محتسب جعلی کرنسی کے کاروبار کو روک سکتا ہے۔ اسلامی قانون کے ماہرین نے اسے مداخلت کی اجازت دی ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:367، 368)

6۔ اشیاء خوردنی، دودھ گھی وغیرہ میں ملاوٹ کا انسداد اور مجرموں کو سزا دینا محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:367)

7۔ محتسب کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ناپ تول میں کمی اور پیمائش کم کرنے کی خرابی کا مکمل خاتمہ کرنا شامل ہے۔

(ابن خلدون، مقدمہ، ص:225)

8۔ اوزان و پیمانوں میں جعل سازی اور ہیرا پھیری ازروئے قرآن سخت ترین برائی ہے، ایسے لوگوں کو سخت ترین سزا دینا محتسب کا کام ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:368)

9۔ تمام پروفیشنلز خواہ ڈاکٹرز ہوں یا ٹیچرز، خواہ تجارت و کاروبار سے وابستہ ماہرین ہوں یا چھوٹے طبقہ جیسے لوہار، دھوبی وغیرہ، ان کی کڑی نگرانی کرنا، امانت دار پیشہ ور کی حوصلہ افزائی اور خائن پیشہ ور کی مذمت کرنا، ایسے لوگوں کے کرتوتوں کو پبلک میں بے نقاب کرنا تاکہ لوگ ان کے دھوکہ دہی اور فراڈ سے محفوظ رہیں، ادارہ احتساب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:370)

10۔ محض پیسہ بٹورنے کی خاطر عمدہ کام کی بجائے خراب اور ناقص اشیاء تیار کرنا قابلِ گرفت فعل ہے۔ محتسب کو اختیار ہے کہ اس کے خلاف اقدامات کرے۔ اگر کوئی خاص پیشہ ور کام خراب کرنے کا عادی ہوجائے تو محتسب اس سے مواخذہ کرے۔ شے کے تاوان کی صورت میں اگر اس شے کی قیمت محض اندازے پر موقوف ہے تو یہ کارروائی محتسب کے دائرے اختیار سے باہر ہے، اس کا اختیار صرف قاضی کو ہے۔ لیکن اگر قیمت لگانے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ اس کی مثل شے دینا ہو کہ جس میں اجتہاد سے نزاع نہیں ہوتا تو محتسب کی کارروائی درست ہوگی کہ اس پر تاوان عائد کرے اور جرم کی سزا دے کیونکہ محتسب کا کام حقوق کی نگہداشت کرنا اور تعدی پر سزا دینا ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:370)

11۔ مالک اگر ورکروں سے ان کی استطاعت سے زیادہ کام لے تو محتسب ایسے مالکان کا مواخذہ کرسکتا ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:370)

12۔ مویشیوں اور جانوروں پر ظلم و ستم اور زیادہ بوجھ ڈالنے کی صورت میں ایسے مالکان کا مواخذہ بھی محتسب کے دائرہ اختیار میں ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:372)

13۔ ٹرانسپورٹر اور کشتی بان وغیرہ اگر زیادہ کمائی کی لالچ میں سامان زیادہ لوڈ کرے جس سے حادثات کا خطرہ ہو تو محتسب اس کی ممانعت کا حکم دے سکتا ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:372)

14۔ محتسب کرپشن کے خاتمے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے۔

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:349، ابویعلی الفراء، الاحکام السلطانیہ، ص:284)

15۔ محتسب سخت سے سخت حالات میں اپنے جذبات پر قابو پانے والا ہو۔ یہ منتقم مزاج نہ ہو۔

(ابن قیم، اطرق الحکمیہ، ص:238)

16۔ گواہ عادل نہ ہو تو محتسب مسترد کرسکتا ہے۔ تاریخ اسلام میں محتسب کے اختیار رکھنے والے لوگ قاضیوں اور حکمرانوں تک کی گواہی کو غیر عادل کہہ کر مسترد کرتے رہے ہیں۔ جیسے مسلم سپین کے امیر عبدالرحمن الداخل کے بیٹے سعید الخیر کے کسی مقدمہ میں قاضی ابن بشیر نے امیرالحکم کی گواہی مسترد کردی تھی۔

(مقری، نفح الطیب، ج:2، ص:146۔ 148)

17۔ محتسب اگر اپنے فرائضِ منصبی سے غفلت کرے تو اس کا مواخذہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

(مقدمہ ابن خلدون، ص 225)

الغرض اگر محکمہ احتساب کو چوکنا کردیا جائے تو عدل و انصاف کے قیام اور ظلم و ستم کے انسداد میں اس سے بڑھ کر کوئی ادارہ نہیں۔ احتساب کا بنیادی مقصد بھی معاشرے کو ظلم و تعدی سے پاک کرکے اسے امن کا گہوارہ بنانا ہے۔ اسی لیے اسلامی ریاست میں محتسب کو ظلم روکنے کا اختیار حاصل رہا ہے۔ تاریخ سے واضح ہے کہ مسلم حکمرانوں نے نظامِ احتساب کا معیار بلندرکھا اور عدل و انصاف کی روایات کو زندہ رکھا اور بلا امتیاز بااثر شخصیات کو بھی نہ چھوڑا۔ کسی بھی معاشرے کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سرپرستی میں کڑے احتساب کا مضبوط نظام رائج ہو۔ بعض اوقات امانتدار لوگ بھی کرپشن کی زد میں آجاتے ہیں اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ فقہاء کرام نے اس بات کی وضاحت کردی ہے۔ امام ماوردی نے لکھا ہے:

قد یخون الامین ویغش الناصح.

(ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص:40، 41)

’’کبھی کبھار امانتدار آدمی سے بھی خیانت ہوجاتی ہے اور کبھی خیر خواہ آدمی بھی دھوکہ دیتا ہے۔‘‘

خلاصۂ کلام

اس وقت پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن سے معاشرے میں بے عملی، بداخلاقی اور بدعنوانی پھیلتی ہے جس سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی چھوٹے بڑے حکومتی اہلکار پر الزام لگے اور وہی قصور وار ٹھہرے بلکہ جو بھی کرپشن میں ملوث پایا جائے، محکمہ احتساب کا کام پوری ایمانداری کے ساتھ اسے بے نقاب کرنا ہے۔ بنیادی طور پر احتساب کے ادارے کے قیام کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روح کے مطابق معاشرے کو بدعنوانی اور کرپشن سے پاک کرنے کے لیے حکومت کی معاونت ہے۔ اس کے دائرہ اختیار میں حکومت اور اس کے اداروں کے خلاف افراد کی شکایت، ان پر ظلم و زیادتی کی تفتیش اور چھان بین، انفرادی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام، سرکاری ملازمین کے کام کا معائنہ اور ان کی بدانتظامی، فرائض منصبی میں غفلت و کوتاہی پر مبنی معاملات کی نگرانی اور ان بے قاعدگیوں و بے ضابطگیوں کا مناسب طریقے سے ازالہ شامل ہے۔ بعض لحاظ سے وفاقی محتسب کو اعلیٰ عدالتوں سے بھی زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔

اس وقت من حیث القوم ہم معاشرتی کرپشن اور بدعنوانی کی لپیٹ میں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ہر طرح کی برائی کے انسداد کے آئینی اور قانونی طریقہ کو اپنایا جائے اور اسلامی عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق شفاف طریقے سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے بعض اوامر و نواہی کا تعلق تبلیغ، تذکیر اور وعظ و نصیحت کے ساتھ ہے جس پر عمل کرنا والدین، اساتذہ کرام، علماء و فضلاء اور معاشرے کے دیگر افراد پر واجب ہے جبکہ بعض اوامر و نواہی کا تعلق حکومت کی طاقت اور قوتِ نافذہ کےساتھ ہے۔ جب تک اوامر و نواہی کے ان دونوں ذرائع کو مؤثر طریقے سے استعمال نہ کیا جائے، معاشرے کا مکمل طور پر تزکیہ اور تطہیر ممکن نہیں۔

احتساب کا عمل محض سزا کے لیے ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سے مقصود کرپشن اور بدعنوانی کو معاشرے میں کم سے کم درجہ تک لے جانا بھی ہو۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ احتساب فوری، نتیجہ خیز، سبق آموز اور عبرت انگیز ہو۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب کا عمل آئین پاکستان کی روح کے مطابق بلا امتیاز جاری و ساری رہے اور اس میں چھوٹے بڑے کا امتیاز نہ ہو۔ تب جاکر ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے، ہمارے معاشی مسائل ختم ہوسکتے ہیں اور ہم خوشحال اور پرامن زندگی گزارنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔