القرآن: قُربِ الہٰی کا ذریعہ تزکیۂ نفس و تصفیۂ باطن

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد ظفیر ہاشمی

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ.

(الاعلیٰ، 87: 14)

’’بےشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔‘‘

روحانی ترقی کا راستہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب و باطن سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے دل اور روح کے آئینے کو زنگ کی آلودگی نے دھندلا دیا ہے۔ یہ زنگ ہی طالب کو حق کی راہ پر چلنے میں حائل ہے جب تک آئینۂ قلب و روح صاف اور شفاف نہیں ہوگا، درست راستہ نظر نہیں آسکے گا۔ قلب کی آلودگی اور زنگ کے ختم ہونے پر ہی نور نظر آسکے گا۔ جب تک بندہ نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر علیحدہ نہ ہو جائے، اللہ سے ملاقات کے راستے کا مسافر بننا بھی ناممکن ہے۔

وہ دل جو زنگ سے دور ہے اور میل و آلائش سے بچا ہوا ہے، وہی قلب انوارِ الہٰیہ کی شعاعوں سے بھرا ہوا ہے اور اِسی دل پر انوارِ الہٰیہ کا نزول ہو تا ہے۔ گویا دل پر انوارِ الہٰیہ اور اُس کی تجلیات کے نزول کے لیے لازم ہے کہ دل کے آئینے کو زنگ، میل کچیل اور آلائشوں سے صاف کیا جائے۔

قلب پر شہواتِ نفسانیہ کی آلودگی اور زنگ کے سبب دل میں شہوت، حرص، تکبر، بغض، عناد، عداوت، بخیلی اور گھٹیا پن آتا ہے۔ ان بُری خصلتوں اور رذائلِ اخلاق کو میل کچیل، زنگ اور آلائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نفس کے یہ زنگ دل کے آئینے کو اس طرح آلودہ کر دیتے ہیں، جیسے زنگ یا سیاہی کے آنے سے شیشے میں کچھ نظر نہیں آتا۔ جب اُس شیشے کو صاف کرتے ہیں، تب چہرہ نظرآ تا ہے۔ جس طرح صاف شیشے کے بغیر ہم اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتے، اِس طرح دل کا آئینہ اگر صاف نہ ہوتو اللہ رب العزت کے حُسن وجمال کا جلوہ اُس میں دکھائی نہیں دیتا۔

نیکی اور بدی پر عمل کے اعتبار سے لوگوں کی اقسام

نیکی اور بدی پر عمل کے اعتبار سے لوگوں کی تین اقسام ہیں:

1۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نےبدی اور شر سے محفوط کر لیا ہے اور منبعِ خیر بنا دیا ہے۔ نیکی، تقویٰ، محبت، مؤدت، اخلاص، نصیحت، خیر خواہی، رحمت، شفقت، عبادت اور پرہیز گاری ان کے باطن سے جنم لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو شر، بدی، گناہ، معصیت اور نفسانی رذائل سے محفوظ رکھتا ہےاور انہیں خیر پر قائم کرتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کی حفاظت میں ہوتے ہیں۔ اگر انبیاء ہوں تو وہ کلیتاً معصوم ہیں اور اگر اولیاء ہوں تو وہ معصوم نہیں ہوتے بلکہ محفوظ ہو تے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔

2۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو سراپا شر ہیں، اُن سے بدی اور برائی کے علاوہ کچھ صادر ہی نہیں ہوتا۔ ان میں ڈھونڈنے سے بھی خیر کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔اس طرح کے لوگ بھی بہت کم ہیں۔

3۔ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جن میں خیر اور شر کا اختلاط ہے۔ اس اختلاط کی صورت یہ ہے کہ ان لوگوں میں نفس امارہ کے غلبہ کی وجہ سے رذائل، حرص، لالچ، تکبر، نخوت، رعونت، مال پرستی، جاہ طلبی، شہوتیں، جھوٹ، چغلی اور غیبت بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر اللہ کی طرف رجوع بھی ہے، نماز بھی پڑھتا ہے، کبھی کبھی خشیتِ الہیٰ کے باعث دل میں رقت بھی آتی ہے، آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں، اللہ کی رہ میں صدقہ و خیرات بھی کرتا ہے، غریبوں کی مدد بھی کرتا ہے اور بھلائی کے امور بھی سرانجام دیتا ہے۔ ان لوگوں کے اندر یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوگئی ہیں۔ ہماری اکثریت ایسے حال کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے یعنی 99 فیصد لوگوں کا یہی حال ہے۔

ان لوگوں میں سے کسی بندے میں خیر کا پہلو غالب ہے اور شر کم ہے اور کسی میں شر کا پہلو غالب ہے اور خیر کم ہے۔ کسی میں نیکی کا حصہ زیادہ ہے اور بدی کم ہے اور کسی میں بدی کا حصہ زیادہ ہے اور نیکی کم ہے۔ نیکی اور بدی اس طرح خلط ملط ہو کر اس بندے میں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے بندہ کبھی اِدھر جاتا ہے اور کبھی اُدھر جاتا ہے اور نتیجتاً کسی منزل پر نہیں پہنچتا۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم دن بھر مال کماتے رہیں اور جیب میں ڈالتےرہیں، جبکہ جیب کٹی ہوئی تھی، جو پیسے ڈالے، وہ نیچے گرتے رہے۔ اسی طرح ہم اعمالِ صالحہ بھی کرتے ہیں، حج و عمر ہ بھی کر آتے ہیں، روضہ رسولﷺ کی حاضری بھی دے آتے ہیں، میلاد شریف اور گیارہویں شریف کی محافل بھی کرتے ہیں، غرباء کو سحر اور افطار بھی کرواتے ہیں، غریبوں کا علاج بھی کرواتے ہیں، محتاجوں کی مدد بھی کرتے ہیں، عبادت کے لیے بھی آتے ہیں، سال کے بعد اعتکاف کے لیے بھی آتے ہیں، مسجد نبوی اور کعبۃ اللہ میں بھی اعتکاف کے لیے جاتے ہیں، خوب طواف بھی کرتے ہیں اور صالحین کی مجلس میں بھی جاتے ہیں، الغرض یہ ساری رغبتیں بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نفس کے رذائل بھی ہیں، جو بندے کو خوار کرتے ہیں اور اُس کی کسی کمائی کو باقی رہنے نہیں دیتے۔ اس طرح ہمارے آئینہ قلب پر زنگ چڑھتا رہتا ہے۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں ہے کہ آئینہ ہی نہیں ہے، دل کا آئینہ تو ہے مگر اُس پر زنگ اور گرد چڑھ گئی ہے، جس کے سبب اُس میں اس کا جلوہ نظر نہیں آتا۔ یہ سب زنگ ماسوی اللہ کی طرف رغبت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

انسان کی زندگی میں امتحان کا لمحہ

بندہ جب کارو بار یا روزگار سے دولت کماتا ہے تو اس کے لئے امتحان کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے کہ وہ تَن کی آسائش میں کتنا مگن اور مصروف ہے اور مَن کی آسائش میں کتنا مگن اور مصروف ہے۔ تن کی آسائش میں گھر، گاڑی، مال دو لت کے آنے کے سبب خوشی ہوگی اور اگر نقصان ہو تو دکھ ہوگا کہ نقصان ہوا ہے۔ جہاں تک من کی آسائش اور خوبیوں کا تعلق ہے تو یہ بھی انسان کی ساخت میں پنہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.

(التين، 95: 4)

’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘

انسان وہ پیکر بشریت ہے کہ اسے احسن تقویم بنایا اور اس میں اللہ نے اپنی خوبیاں رکھیں۔ انسان کے اندر عالمِ لاہوت، عالمِ جبروت، عالمِ ملکوت بھی رکھا اور اِس کے اندر نیکی کی طلب اور تڑپ بھی رکھی۔ یہ وہی خوبیاں ہیں جو کبھی رقت اور آنسو لاتی ہیں، کبھی شوق سے مسجد کی طرف لاتی ہیں اور کبھی سجدہ کراتی ہیں، کبھی سخاوت، صدقہ وخیرات کراتی ہیں اور کبھی نیکی کے اعمال کراتی ہیں۔ یہ تمام امور باطن میں احسنِ تقویم کی باقیات صالحات ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ نفس کے رذائل بھی انسان کی ساخت میں موجود ہیں۔ ارشاد فرمایا:

ثُمَّ رَدَدْنٰـهُ اَسْفَلَ سٰـفِلِیْنَ.

(التين، 95: 5)

’’پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا۔‘‘

یعنی اُس کو ایسے گھٹیا ماحول میں لوٹا دیا۔ جس میں حرص، ہوس قتل وغارت گری، خون خرابہ، لوٹ مار، حسد، بغض، عداوت، لالچ، الغرض سو طرح کی خرابیاں ہیں۔ اس دنیا میں جگہ جگہ خیر اور شر کا اختلاط ہے، ایسے میں بندے نے ان کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنی ہے۔ جب تک بندہ تعلیم و تربیت نہ لےاور اُس کے باطنی شعور کی آنکھ نہ کھلے، اُس وقت تک اس حد ِفاصل کی سمجھ نہیں آتی۔ حدِ فاصل کا سمجھ میں نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ دل پر زنگ ہے۔ جب زنگ کو اُتاریں گے تو کوئی جلوہ دکھائی دے گا، کسی تجلی کی لذت نصیب ہوگی اور قربِ الہٰی کی کوئی طلب اور تڑپ جنم لے گی۔ اس طرح از خود شوق اس طرف بڑھے گا اور ہم اس امر کی ضرورت محسوس کرنے لگیں گے کہ تَن کی ضرورت کے لیے ہر جائز امور کروں مگر انہیں مَن کے اندر داخل نہ ہونے دوں۔ نفسانی خواہشات کے حصول کا شوق میرے ذہن اور میرے قلب کی راحت کو نہ بگاڑے اور مولیٰ کی طلب اور قربت کی آرزو میں حائل نہ ہو۔

اس حال میں بندے کو چاہیے کہ وہ دل کو صاف کرلے۔ اس کا تن اِس ماحول کی ضروریات میں اگرچہ رہے مگر من عرش کی سیر کرے۔ تن اور مَن میں ایک فاصلہ بہت ضروری ہے، یعنی جسم اپنی ضرورتوں کی وجہ سے مصروفِ دنیا رہے، فرائض ادا کرے مگر ضرورت، ضرورت تک رہے، وہ شہوت اور حرص نہ بنے۔ تن اپنے اِن فرائض کو ادا کرتا رہے اور مَن احوالِ محبت میں غرق اور اللہ کی طرف راغب رہے۔ اِس طرح جب دل سے زنگ اور آلائش صاف ہو جائے گی، تب انوارِ الہٰیہ کی تجلیات کے نور سے دل کا آئینہ روشن ہوجائےگا۔

جب بندے کے دل کے رخ سے زنگ صاف ہوجائے اور نور حاصل ہوجائے تو اب رزقِ حلال کھانے سے بھی نور ملے گا۔۔۔ زندگی میں صدق اور متابعت آجائے تو نیند کے وقت بھی نور ملے گا۔۔۔ اس کا آرام کرنا بھی عبادت بن جائے گا۔۔۔ کھانا پینا، چلنا پھرنا، لوگوں سے تعلقات اور ان کے حقوق ادا کرنا، یہ سب عبادت بن جائے گا یعنی راہ ورسمِ دنیا جو شریعت اور سنت کے مطابق ہیں، جب انھیں ادا کریں گے تو دیکھنے میں بندے کا عمل دنیا کا عمل ہو گا مگر اُس کے اندر بھی نور آجائے گا اور وہ بھی عبادت میں بدل جائے گا۔ جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو بندہ بشری خصائل سے پاک ہوجاتا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:

فہم اگر دارید جان را رہ دھید
بعد از آں از شوق پا در رہ نھید

’’اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو روح کو راستہ دو اور پھر اس کے بعد شوق کے ساتھ اس راستہ پر چلو‘‘۔

یعنی اے بندے! اگر توسمجھ رکھتا ہے تو روح کو راستہ دے مگر افسوس کہ تو نفسانی چیزوں میں گرفتار ہے، اِس گرفتاری کی وجہ سےروح بھی پا بہ زنجیر ہے۔ روح عالمِ ملکوت کا پرندہ ہے مگر تیری اِن خواہشات میں قید ہو کر اس کی پرواز ختم ہو گئی ہے۔ اپنی روح کو ترقی اور پرواز کا راستہ دے، پھر شوق سے روحانی ترقی کی راہ پہ روانہ ہو۔ اب یہ تجھے محبوبِ حقیقی کی بارگاہ تک پہنچائے گی۔

طہارت القلوب کے مراحل

قلب کو طہارت سے آراستہ کرنے اور اسے زنگ سے پاک کرنے کے لیے درج ذیل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے:

1۔پہلا مرحلہ۔ تزکیہ: قلب کا زنگار سے صاف اور پاک ہونا

2۔ دوسرا مرحلہ۔ تصفیہ: قلب کا غیر کے غبار سے پاک ہونا

3۔ تیسرا مرحلہ۔ تخلیہ: دل کا اللہ کی خلوت گاہ بن جانا

4۔ چوتھا مرحلہ۔ تجلیہ: اللہ رب العزت کی بارگاہ سے قلب پر عالمِ غیب سے تجلیات کا وارد ہونا

5۔ پانچواں مرحلہ۔ تحلیہ: بندے کو اللہ کے اخلاق کا زیور پہنایا جانا

ذیل میں ان مراحل کی تفصیل بیان کی جاتی ہے:

1۔ تزکیۂ نفس

روحانی سفرتزکیۂ نفس سے شروع ہوتا ہے۔ انسان کے نفس میں حیوانی، شیطانی اور روحانی خصلتیں موجود ہیں۔ شیطانی اور حیوانی خصلتیں اس وقت تک غالب رہتی ہیں، جب تک ریاضت اور تزکیہ نہ کیا جائے۔ قلب کے زنگ کو صاف کرنےکے لیے اگر محنت نہ کی جائے تو شیطانی، نفسانی اور حیوانی خصلتیں غالب رہتی ہیں۔

جانوروں کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انھیں بھوک لگتی ہے، غصہ آتا ہے، ایک جانور دوسرے جانور کے ساتھ ٹکراتا ہے، انہیں عموماًبھوک کی حرص اور شہوت ہوتی ہے۔ جس جانور کو بھی دیکھیں، ان میں یہ امور مشترک ہیں۔ جانوروں کی اس فطرت کو سامنے رکھ کر انسانی اور بشری زندگی پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن شہوتوں اور خصلتوں کی اصل ہمارے اندر بھی موجودہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہمیں اللہ نے عقل وشعور سے نوازا ہے جبکہ جانوروں کے پاس شعور نہیں۔ جانور گلی کوچے میں بے ہودگی کرے گا جبکہ انسان کو پتہ ہے، اس لیے وہ چھپ کر یہ امور سرانجام دے گا۔ انسان عقل و شعور سے کام لیتا ہے جبکہ یہ عقل و شعور حیوان کے پاس نہیں مگر اُن ساری خصلتوں کی اصل جو حیوانات میں ہے، انسانوں میں بھی ہے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ انسان میں شعور کی وجہ سے چالاکی اور عیاری مزید بڑھ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں گمراہ کرنے والی شیطانی خصلتیں اور عقل و شعورکی بُرائیاں بھی ہیں، ان کی وجہ سے بھی خرابیوں کی صلاحیت بڑھتی چلی جاتی ہے اور روحانی و نورانی خصلتیں انسان کے نفس تلے دبی رہتی ہیں۔ اِسی وجہ سے قتل وغارت گری، نفرت، فتنہ فساد، برادریوں میں جھگڑے، قطع رحمی، خون خرابہ اور آپس میں ہزار معاملات ہوتے ہیں، گویا یہی رذائل اور ذمائم مختلف شکلوں میں بروئے کار آتے ہیں۔ اصل میں ہمیں تزکیہ، ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے ان ذمائم سے اپنے نفس کو پاک کرناہے۔

تصوف و سلوک میں ایک ایک خلق کو بدلنے کی ریاضت ہے لیکن اگر طریقِ عشق نصیب ہوجائے تو بہت سی بڑی چیزیں اکٹھی ختم ہو جاتی ہیں اور خیر جلد نصیب ہوتی ہے۔ نفس کی طہارت کو تزکیہ کہتے ہیں اور دل کے آئینے سے زنگ کے اُتارنے کی ابتداء اسی تزکیہ سے ہوتی ہے۔

محض اعمالِ صالحہ سے حجابات نہیں اُٹھتے

یہ امر پیش نظر رہے کہ محض رسمی عبادات سے حجابات دور نہیں ہوتے۔ حجابات تو دور کی بات ہے، ان عبادات سے ایک بھی حجابِ غفلت دور نہیں ہوتا۔ حجابات کو رفع کرنے کے لیے دین کی دعوت و تبلیغ ہو یا کوئی اور نیک عمل اور عبادات، ان میں محنت کے ساتھ ساتھ ریاضت بھی درکار ہے۔ بلا شبہ اِن سارے امور کا ثواب اور اجر ملے گا، کوئی چیز اللہ کے ہاں ضائع نہیں جاتی، لیکن اگر ہم چاہیں کہ خالی ثواب نہ ملے بلکہ حجابات بھی اُٹھیں، زنگ دور ہوں، نور و تجلیات اور کیفیات نصیب ہوں اور کیفیت؛ حال میں بدلےاور حال؛ مقام میں بدلے، روح کو آزادی ملے، قربتِ الہیہ اور روحانی ترقی نصیب ہوجائے تو اس کے لئے مجاہدہ بھی درکار ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم حلقۂ ایمان اور اسلام میں داخل ہوگئے یا کسی دینی و روحانی جماعت اور تحریک سے وابستہ ہوگئے تواب اس کے سبب از خود سارا کچھ مل جائے گا۔ یہ بات اُصولاً غلط ہے۔ مسلمان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ساری خیرات خود بخود مل جائے گی، ایسا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں دنیا میں ایک بھی کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کو قتل کرتا اور لڑائی جھگڑا کرتا نظر نہ آتا۔۔۔ آج مظلوم بھی کلمہ پڑھ رہا ہے اور چور، ڈاکو بھی کلمہ اور نماز پڑھتا نظر آتا ہے۔۔۔ جس کا گھر لٹ گیا وہ بھی حضورﷺ کا امتی ہے اور ظالم بھی امتی ہے۔ آقا ﷺ سے بڑی نسبت کائنات میں کسی کی نہیں لیکن اگر ہم یہ سمجھیں کہ یہ نسبت ہمارا حال از خود بدل دے گی تو یہ غلط سوچ ہے۔ ہمارے ہاں یہ کلچر عام ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ ’’میں فلاں پیر صاحب کا مرید ہو گیا، بس یہی کافی ہے، فلاں کو شیخ مان کر اُس سے راہنمائی کا فیصلہ کر لیا اور اس کی بیعت کر لی، اُس کی صحبت اور سنگت اختیار کرلی، تحریک کی رفاقت اختیار کرلی، بس اس کے سبب نجات یقینی ہے۔‘‘ یاد رکھیں کہ اِس طرح ارادہ کر لینے یا رفاقت لینے سے خالی نسبت کی برکت تو ملتی ہے، مگر آئینۂ قلب کا زنگ نہیں اترتا۔ اس کے لیے تزکیہ نفس درکار ہوتا ہے۔ باطن میں تجلیات کا ورود فقط ارادت سے نہیں بلکہ ریاضت کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب ارادت، صحبت اور ریاضت، تینوں چیزوں کو جوڑا جاتا ہے، تب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جس طرح دنیاوی تعلیم کے مراحل اور نصاب پڑھے بغیر اگلی جماعت میں ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ طالب علم چاہے کہ وہ بزنس ایڈمنسٹریشن، فنانس، کمپیوٹر سائنسز، بیالوجی، کیمسٹری، فزکس میں اعلیٰ تعلیم کا حامل ہو جائے اور اس کے لیے تسبیح اور وظیفہ کرنا شروع کر دے تو کیا اسے ڈگری مل جائے گی؟ نہیں، بلکہ اس کے لیے اسے اس ڈگری کے سارے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ الغرض ہر فن اور ہنر سیکھنے کے لیے عملاً اُس کے اندر محنت اور ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح ریاضت و مجاہدہ کے بغیر بندہ عاشق اور عارف نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے دل کا زنگ اُتارناپڑےگا اور اپنے نفس کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ نفس گھوڑے کی مانند ہے، گھوڑا بےلگام ہوجا ئے تو وہ سوار کو نیچے گرا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر نفس بے لگام ہوجائے تو ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اُس کو لگام ڈال کر رکھنا ہوگا تاکہ اُس کی سواری کر سکیں۔ پس ہمیں اپنے نفس کو قابو کرنا ہے اور روح کو آزاد کرنا ہے اور یہ آزادی قلب کے زنگ کو اُتار کر اور بُری خصلتوں سے نجات پاکر ہی ممکن ہے۔

2۔ تصفیۂ قلب

طہارت القلوب کا دوسرا مرحلہ تصفیۂ قلب ہے۔ بُری خصلتیں، شہوتیں، کبر، تکبر، رعونت، حرص، لالچ اور عداوت کو دور کرنا تصفیۂ قلب ہے۔ ہم عبادتیں کرتے ہیں مگر کسی کے ساتھ اگر نفرت پیدا ہوجائے تو پوری عمر اُس نفرت کو دل میں لیے پھرتے ہیں۔ جس دل میں نفرت رہے گی، اُس میں محبت کیسے آئے گی۔۔۔؟ جس دل میں بخل ہوگا، اُس میں سخاوت کیسے آئے گی۔۔۔؟ جس دل میں ظلمت ہوگی، وہاں نور کیسے آئے گا۔۔۔؟ جس دل میں تکبر ہو گا، وہاں انکساری اور تواضع کیسے آئے گی۔۔۔؟ پس چغلی کرنا، شکایت کرنا، جھوٹ بولنا، دل آزاری کرنا، یہ چھوٹی چھوٹی ایسی خرابیاں ہیں جنہیں ہم گناہ تصور ہی نہیں کرتے۔ جس طرح بیماریوں کے جراثیم ایک بیمار سے صحت مند کو لگ سکتے ہیں، اسی طرح روحانی بیماریوں کے جراثیم بھی بری صحبت و مجلس کے باعث منتقل ہو سکتے ہیں۔

قلب پر ماحول اور صحبت کے اثرات

جس ماحول میں ہم رہتے ہیں اِس ماحول میں روحانی اور نفسانی جراثیم بھی ہیں۔ پس جس طرح کے روحانی بیماری والے کی صحبت میں بیٹھیں گے، اس بیماری کے اثرات ہم تک بھی پہنچیں گے۔ جس طرح کے بندے سے دوستی رکھیں گے، محسوس و غیر محسوس انداز میں اس کی دوستی کا رنگ ہم پر ضرورچڑھے گا۔ اگر ایک گندا سیب اچھے سیبوں سے بھری ٹوکری میں رکھ دیں، تو وہ خراب اور گلا سڑا ہوا سیب باقی سیبوں کو بھی خراب کردے گا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ تمام صحیح اور فریش سیب مل کر اُس ایک خراب سیب کو صحیح کردیں، بلکہ ایک خراب سیب صحیح سیبوں کو بھی خراب کردیتا ہے۔

یہ بری صحبت کے اثرات کی مثال ہے کہ بُری صحبت سب کو خراب کر دیتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ برائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔جس طرح ایک گھر میں دس بندے رہتے ہیں، اگر ان میں سے ایک کو نزلہ اور کھانسی ہو گئی، باقی بالکل ٹھیک تھے، تو نو ٹھیک افراد مل کر اپنی صحت کے اثر سے اُس ایک بیمار کو ٹھیک نہیں کر دیتے بلکہ گھر میں وہ ایک بندہ جسے نزلہ اور کھانسی ہوئی، وہ اپنے سب بہن بھائیوں اور گھر کے بقیہ افراد کو کو بھی نزلہ اور کھانسی لگا دیتاہے۔ بعض امراض متعدی ہوتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے آگے منتقل ہوتے ہیں جبکہ صحت متعدی نہیں ہوتی اور اپنا اثر آگے منتقل نہیں کرتی۔ اسی لیے اولیاء و صلحاء فرماتے ہیں کہ اگر اپنے آپ کو بچانا ہےتو بُری صحبت سے بچو۔ جسمانی یا روحانی مریض کی صحبت میں بیٹھو گے تو مریض ہو جاؤ گے۔ مریض سے مرض کے لگنے کے لیے کوئی محنت نہیں چاہیے۔ صحت مند کی صحت؛ جسمانی یا روحانی مریض کو شفایاب نہیں کرتی بلکہ اس مرض کو ختم کرنے کے لیے دوائی لینی پڑتی ہے اور جسمانی یا روحانی مکمل علاج کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے اندر نیکی، تقویٰ اورپرہیز گاری میں اِتنی کشش اور توانائی نہیں کہ دوسرے کے بُرے حال کو بدل سکے۔ ہم تو مشکل سے اپنا گزارا کر رہے ہیں۔ کبھی نماز پڑھ لی تو کبھی چھوٹ گئی۔۔۔ کبھی نیکی کر لی تو کبھی گناہ کر لیا۔۔۔، کبھی آنکھ بہک گئی تو کبھی بھلائی کر لی۔۔۔ نیک مجلس میں آئے تو رونے لگ گئے اور بُرے ماحول میں گئے تو پھسل گئے۔ ہم تو ہر وقت پھسلن کا شکار رہتے ہیں اور بہک جانے کا ڈر رہتا ہے۔ ہم مشکل سے اپنا گزارا کر رہے ہیں تو جن کا اپنا گزارا مشکل سے ہے، انھیں اگر بُری دوستی مل گئی تو وہ صحبت انھیں خراب کر دے گی اور ان کے اخلاق پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ برے شخص کے اندر کی خرابیاں، گناہ اور بری خواہشات ہمارا تقوی خراب کر دیں گی۔ ہم جس دوست کی مجلس میں گئے، اگر وہاں چوبیس گھنٹے شہوت و بدکاری، حرص و ہوس اور منافقت و ریاکاری کی باتیں ہمارے کان میں پڑیں گی تو ایک ہی بات کو سنتے سنتے وہ بات بالآخر کانوں اور آنکھوں سے ہوتے ہوئے ہمارے دل تک جائے گی۔ بالآخر اس بری صحبت کے باعث ہمارے اخلاق، گفتگو، لباس اور چال چلن میں آہستہ آہستہ اُس کا رنگ چڑھے گا۔

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہوا میں ہر وقت گرد وغبار موجود ہوتا ہے لیکن وہ نظر نہیں آتا۔ اگر ہوا کی گرد آنکھوں کو نظر نہیں آتی تو ہمیں کردار اور اخلاق کی گرد کیسے نظر آئے گی۔۔۔؟ یہ آہستہ آہستہ اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہمیں اپنے گھر میں ہوا میں موجود گرد نظر نہیں آتی لیکن اگر ایک دن گھر کی صفائی نہ کریں تو بیڈ، ٹیبل اور ہر چیز پر گرد موجود ہوتی ہے۔ وہ گرد جو ہم نے ان چیزوں پر پڑتے ہوئے کبھی دیکھی ہی نہیں، اس کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب ان اشیاء پر گرد کی اچھی خاصی تہہ جمع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح معاشرے میں موجود بد اخلاقی کی گرد بھی ہمارے آئینہ قلب پر پڑ تی رہتی ہے اور ہمارے سیرت وکردار کو داغدار کرتی رہتی ہے مگر ہمیں پتہ نہیں چلتا اور جب معلوم ہوتا ہے تو ہم کافی حد تک اس کے اثرات قبول کرچکے ہوتے ہیں۔

اگر ہم پورا سال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ، دین و آخرت، تقوی و نیکی اور پرہیز گاری کی بات سنتے ہیں تو اس اچھی صحبت کا اثر ہمارے احوال کو سنوار دے گا اور اگر ہم ایسی صحبت میں بیٹھتے ہیں جہاں ہر روز دنیوی نفع و نقصان کی بات سنتے ہیں، ہر وقت فلموں کی باتیں سنتے ہیں یا پھر ان سے یوٹیوب، سیل فون یا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی لغویات اور گناہوں کی باتیں سنتے ہیں اور کبھی کوئی نیکی کی بات نہیں سنتے تو ہمیں بد اخلاقی کی یہ گرد نظرنہیں آئے گی مگر وہ ہمارے قلب وباطن پر گرتی جائے گی۔ اب اگر اس گرد کو کوئی جھاڑنے والا ہو گا تو پتہ چلے گا کہ یہ گرد تھی، وگرنہ وہ نظر نہیں آتی۔

ہم نئے کپڑے پہنتے ہیں مگر احتیاط کے باوجود دو دنوں کے بعد میلے ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کپڑے میلے کیسے ہو گئے؟ کیا ہمیں ان پر گرد پڑتی ہوئی نظر آئی کہ جس نے انھیں میلا کر دیا؟ جس طرح ہمارے جسم کا لباس میلا ہوتا ہے، اِس طرح من، روح اور دل کا لباس بھی میلا ہوتا ہے۔ اسے بھی گناہوں، دنیا کے حرص وہوس، تکبر رعونت، بد اخلاقیوں، بُرے خیالات، بُری خواہشات و بُری شہوات، بُری آرزو، بُری تمناؤں، بُری سوچوں، الغرض ہزاروں اقسام کے یہ گردو غبار ہمارے من کو پراگندہ کرتے ہیں، ان سے ہمارا دماغ بھی پراگندہ ہوتا ہے، یکسوئی نہیں رہتی اور آئینہ قلب پر زنگ چڑھ جاتا ہے۔

آئینہ قلب کا زنگ صاف کرنے کے لیے اس قلب کو ہر اس غیر کے اثرات سے پاک کرنا ہوگا، جو ہمیں اللہ سے دور لے جانے والا ہے۔اگر صحبت، رفاقت، سنگت، دوستی ہم نشینی، ہم مجلسی کی پہچان کرنی ہو تو اِس کی ایک سادہ پہچان یہ ہے کہ جس کو دوست بنائیں، جس کی مجلس میں بیٹھیں، جس سے تعلق اور سنگت پیدا کریں، جس کی رفاقت لیں تو اسے اس حوالے سے دیکھیں کہ اس کی صحبت و سنگت مجھے اللہ کے قریب لے گئی ہے یا دور لے گئی۔۔۔؟یہ ایک سادہ سا پیمانہ ہے۔ اس دوست کے ساتھ ایک وقت گزاریں، پھر ہم اپنا آپ خود چیک کرلیں کہ ہمارے اندر دنیا کی محبت بڑھی ہے یا آخرت کی محبت بڑھی ہے۔۔۔؟ عبادت کی رغبت پیدا ہوئی ہے یا عبادت سے غفلت آئی ہے۔۔۔؟ دنیا کا حرص و لالچ آیا ہے یا دنیا سے بے نیازی آئی ہے۔۔۔؟ اخلاق اچھے ہوئے ہیں یا بگڑے ہیں۔۔۔؟

سنگت و صحبت کے اثرات ایکelectrometer کی مانند ہے۔ electrometerکو دودھ میں ڈالیں تو وہ بتا دیتا ہے کہ خالص دودھ ہے یا اِس میں پانی ملا ہوا ہے؟ اسی طرح تھرما میٹر کو منہ میں ڈالیں تو پتہ چلا جاتا ہے کہ بخار ہےیا نہیں؟ گاڑیوں اور کمروں میں لگے ہوئے آلات سے بھی گاڑی اور کمرے کے درجہ حرارت کا اندازہ ہوتا ہے۔اسی طرح ہماری روحانی حالت کو ماپنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنے من میں جھانک کر ملاحظہ کریں کہ فلاں کی صحبت اور مجلس مجھے کدھر لے جا رہی ہے۔۔۔؟ کس کے قریب کر رہی ہے اور کس سے دور کر رہی ہے۔۔۔؟ کس کی رغبت بڑھا رہی ہے اور کس کی رغبت گھٹا رہی ہے۔۔۔؟ اگر دل کہے کہ یہ صحبت مولیٰ کے قریب کر رہی ہے تو اُس کی سنگت، صحبت، دوستی، رفاقت کو اختیار کرلیں اور اگر ایمانداری سے محسوس کریں کہ اس صحبت اور تعلق کے سبب ہماری نیکی، عبادت اور رغبت میں کمی آرہی ہے اور دنیا کی طرف دل زیادہ راغب ہو گیا ہے تو سمجھیں کہ یہ سنگت اور دوستی زہر ہے۔

3۔ تخلیہ

طہارت القلوب کا تیسرا مرحلہ ’’تخلیہ‘‘ ہے۔ پہلے نفس کو زنگ سے صاف کریں، یہ تزکیۂ نفس ہے اور پھر دل کوماسوی کے تعلق اور خیالات میں ڈوب جانے سے بھی پاک کریں یہ تصفیۂ قلب ہے۔تزکیہ اور تصفیہ کے بعد تیسرا درجہ تخلیہ آتا ہے۔ جب نفس زنگار سے پاک ہو جائے اور دل غیر کے غبار سے پاک ہو جائے تو اب وہ دل اللہ کا خلوت کدہ بن جائے گا۔ جب قلب میں اللہ کا خیال رہنے لگے، اُس کی محبت دل میں بسنے لگے، اُس کے قرب کی اُمنگ اور تڑپ محسوس ہونے لگے اور ہر غیر کے خیال سے دل کا کمرہ خالی ہو جائے تواِس عمل کو تخلیہ کہتے ہیں یعنی دل خالی ہو گیا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

جب ہر غیر کی تمنا دل سے رخصت ہوتی ہے تب دل خلوت کدہ ٔ محبوب بنتا ہے۔جب غیر بیٹھے ہوں تو محبوب آ کر نہیں ملتا۔ جھانکنا تو دور کی بات ہے، محبوب دوسروں کی موجودگی میں بات بھی نہیں کرتا۔عرفا نے تخلیہ کی تعریف یوں کی ہے :

اختیار الخلوة القلبية والاعراض عن کل ما یشغل عن الحق.

قلب کوخلوت کدہ بنا دینا اور ہر اُس چیز سے منہ پھیر لینا جو اللہ سے ہٹا دیتی ہے، اور اللہ سے شغل کو ختم کرکے کسی اور طرف مشغول کردیتی ہے۔

4۔تجلیہ

طہارت القلوب کا چوتھا مرحلہ ’’تجلیہ‘‘ ہے۔اس سے مراد محبوب کا تکنا ہے کہ وہ اپنی معرفت کی تجلی القاء کرتا ہے۔ عالمِ غیب سے دل پر انوار کی تجلیات وارد ہوتی ہیں اور بندہ نور کو نازل ہوتے یوں محسوس کرتا ہے، جیسے اس کے دل پر انوارِ الہٰیہ کی بارش ہو رہی ہے۔ اسے اپنے دل کی آنکھ سے انوار کی بارش کی رم جھم نظر آتی ہے۔

5۔ تحلیہ

طہارت القلوب کا پانچواں مرحلہ ’’تحلیہ‘‘ ہے۔ جب قلب مومن پر تجلیات اُترنے لگیں تو تب اس کے بعد اگلا مرحلہ ’’تحلیہ‘‘ آتا ہے۔ تحلیہ کا مطلب اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ جس طرح دلہن کو سونے چاندی کے زیور پہنائے جاتے ہیں تو وہ دلہن بنتی ہے تو گویا اِس بندے کو بھی دلہن بنا دیا جاتا ہے اور اللہ اسے اپنے اخلاق کا زیور پہنا دیتا ہے۔ اس مرحلہ میں بندے پر اللہ کے اخلاق کا رنگ چڑھ جاتا ہے، اسے عبدیت کاملہ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کواپنے اخلاق سے متصف کر دیتا ہے۔ جیسے وہ معاف کرنے والا ہے، یہ بندہ بھی معاف کرنے والا ہو جاتا ہے۔۔۔ جیسے وہ عطا کرتا ہے، یہ بندہ بھی عطا کرنے والا ہو جاتا ہے۔۔۔ جیسے وہ درگزر کرنے والا ہے، یہ بندہ بھی درگزر کرنے والا ہوجاتا ہے۔۔۔ جیسے وہ سخی، جواد اور کریم ہے، اس بندے کی طبیعت بھی جواد اور کریم بن جاتی ہے۔۔۔ جیسے وہ لیتا نہیں بلکہ دیتا ہے، یہ بندہ بھی لیتا نہیں بلکہ دیتا رہتا ہے۔۔۔ تحلیہ کے درجہ میں بندہ غصہ نہیں کرتا بلکہ ضبط کرتا ہے۔۔۔ اُس کے ہاں معافی اور سخاوت کے دریا بہتے ہیں۔۔۔ وہ ہر شخص کا خیر خواہ ہوتا ہے اور کسی کا بُرا نہیں چاہتا۔۔۔ وہ کسی سے نفرت نہیں کرتا بلکہ ہر ایک سے محبت کرتا ہے۔