اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا. اِنَّ اللهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
(النحل،16: 18)
’’ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کر سکو گے، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی میں لاتعداد نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اگر دل میں حقیقی معنیٰ میں ان نعمتوں کا احساس اور قدر ہو اور دل میں ناشکری کے جذبات نہ ہوں تو انسان بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کتنا کرم اور انعام فرمایا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہم ان نعمتوں کو کم شمار کریں لیکن جب ہم اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ گزار لیتے ہیں اور پھر گزرے ہوئے زمانوں میں اپنے اوپر ہونے والے اللہ رب العزت کے انعام و اکرام اور احسان کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے رب نے ہمیں کس قدر لامحدود نعمتوں سے نوازا رکھا ہے۔
اللہ رب العزت کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت رزق ہے۔ اگر رزق کے لغوی معنی کا جائزہ لیا جائے تو اس سے مراد عطا ہے۔ گویا اللہ رب العزت کی عطا خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو، رزق کہلاتی ہے۔ یہ عطا دنیوی بھی ہوسکتی اور اخروی اور روحانی بھی ہوسکتی ہے۔ اس معنی کی رو سے معیشت، مال و دولت کی فراوانی، آسائش، اولاد، علمِ نافع، اخلاقِ حسنہ اور عملِ صالح؛ رزق کی مختلف صورتیں ہیں۔
صوفیاء کرام کا نظریہ بھی یہی ہے کہ اللہ رب العزت ان پر انوار و تجلیات کی جو بارش کرتا ہے اور علم و عرفان کی صورت میں نعمت عطا کرتا ہے، وہ بھی رزق ہے۔ اسے وہ عالمِ بالا، عالمِ روحانی اور عالمِ نورانی کا رزق کہتے ہیں۔ اب یہ اپنی اپنی پسند ہے کہ کون کس رزق کی طلب میں مارا مارا پھرتا ہے۔ کوئی دنیا کے رزق کی طلب میں اپنی جان کو ہلکان کرتاہے اور کوئی اخروی رزق کی خاطر ساری زندگی ریاضت و مجاہدہ میں گزارتا ہے۔
اللہ رب العزت نے رزق عطا کرنے کے حوالے سے اپنی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ.
(الذاریات،51: 58)
’’ بے شک اللہ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔ (اسے کسی کی مدد و تعاون کی حاجت نہیں)۔‘‘
گویا ہر طرح کی نعمت اور رزق چاہے وہ ظاہری ہو یا باطنی، دنیوی ہو یا روحانی، اسے عطا کرنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے والی ذات اللہ رب العزت ہی کی ہے۔
قارئین گرامی قدر! ہم روزمرہ زندگی میں دنیوی رزق اور اسباب میں تنگدستی اور فراخی کے مختلف مظاہر دیکھتے رہتے ہیں کہ کسی پر تنگدستی کے حالات کا غلبہ ہے اور کسی کو خوشحالی اور فراخی نصیب ہے۔ اسی طرح کسی کی تنگدستی کو فراخی میں اور کسی کی حالتِ فراخی کو تنگدستی میں ڈھلتے ہوئے بھی ہم دیکھتے ہیں۔ انسان ان مراحل میں پریشان ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً اس کے دل میں ناشکری کے جذبات جنم لینے لگتے ہیں، اس کے دل میں بے صبری کی کیفیات اجاگر ہونے لگتی ہیں اور وہ بے چین ہوجاتا ہے۔
رزق کے حوالے سے ناشکری، پریشانی اور بے صبری اس کے اندر دوسروں سے حسد اور دشمنی کے جذبات پیدا کردیتی ہے۔ وہ کبھی کسی کو بدعا دیتا ہے اور کبھی کسی کی خوشی سے حسد کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اس ناخوشی، بے صبری اور ناشکری کے جذبات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جبکہ اللہ رب العزت ارشا د فرماتا ہے کہ یہ سب کچھ تقسیم کرنے والا تو میں ہوں۔ یعنی تقسیم میں نے کی ہے اور تم دشمنی دوسرے انسان سے کرتے ہو۔ اس تقسیم کا معیار تو میں نے مقرر کیا ہے تو پھر کسی دوسرے سے حسد کیوں کرتے ہو؟ دوسرے کے لیے اپنا دل تنگ کرنے کے بجائے اپنے دل کو کشادہ رکھو، دوسروں کو بھی میں نے عطا کیا ہے تو تمہیں بھی عطا کروں گا مگر اپنے اندر وہ عادات اور اخلاق پیدا کرو جن عادات کے صلے میں دوسروں کو میں نے عطا کیا ہے۔
یہ وہ اہم نکتہ ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ کسی کی ترقی یا کسی پر انعام و اکرام کی بارش ظاہراً تو دیکھتے ہیں مگر اس انعام کے پیچھے اس کی کون سی عادات، اخلاق اور دلی کیفیات کارفرما ہیں، اس کی کون سی ادائیں اللہ رب العزت کو پسند آئی ہیں کہ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے انعام و اکرام سے نوازا ہے، ہم اس کے پیچھے کارفرما ان امور کو نہیں دیکھتے۔ ہمارا رویہ تو یہ ہے کہ نہ صرف تنگدستی کے سبب پریشان ہوجاتے ہیں بلکہ اوروں پر ہونے والی عطاؤں پر بھی مغموم ہوجاتے ہیں۔
دنیوی و اخروی نعمتوں کے حصول کے اصول و ضوابط
اللہ رب العزت کی بارگاہ سے رزق اور دنیوی و اخروی نعمتوں کے حصول کے کچھ اصول و ضوابط ہیں۔ آیئے! ان امور کا تذکرہ کرتے ہیں کہ اگر انھیں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں دنیوی محنت کے ساتھ اپنا لیا جائے تو اللہ رب العزت اس دنیا میں ہمیں آسانی مرحمت فرمائے گا اور مشکلات سے خلاصی اور نجات عطا فرمائے گا۔ ان میں سے کئی امور ایسے ہیں کہ جن کی طرف ہم توجہ نہیں دیتے بلکہ ان کو اتنا چھوٹا سمجھتے ہیں کہ ان کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث میں ایسے امور اور اعمال کا تذکرہ آیا ہے کہ انسان پر دنیوی محنت کے ساتھ ساتھ روحانی محنت بھی لازم ہے۔ اگر جسمانی اعمال کے ساتھ ساتھ روحانی احوال بھی سنوار لیں گے تو اللہ رب العزت ہمیں دنیا میں فراخی اور آسانی عطا فرمائے گا:
(1) شکرانہ نعمت
اللہ رب العزت کی بارگاہ سے دنیوی و اخروی نعمتوں کے حصول کا پہلا اصول ’’شکرانۂ نعمت‘‘ ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ.
(ابراہیم،14: 7)
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا ۔‘‘
یعنی اگر تم نے نعمتوں کا شکر ادا کیا اور انہیں صحیح مصرف پرخرچ کیا تو تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا۔ اللہ رب العزت نے ایک قانون عطا کیا کہ دوسروں پر نعمتوں کی بہار دیکھ کر زیادہ پریشان نہ ہوا کریں اور ان کو دیکھ کر دل تنگ نہ کیا کریں بلکہ ان نعمتوں کے پیچھے چھپے اس راز پر غور کریں اور میری رضا اور خوشنودی کو طلب کریں تاکہ میں تم پر بھی انعام واکرام کی بارش کروں۔
(2) قلبی اطمینان
حصولِ رزق کے لیے انسان کا قناعت کرنا اور قلبی اطمینان رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ جب بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بچے کے حوالے سے ایک فرشتے کو چار باتوں؛اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدتِ زندگی اور اس کے نیک اور بد اعمال لکھنے کا حکم دیتا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ان چار امور میں اس کا رزق بھی شامل ہے۔ اللہ رب العزت نے کیا کچھ، کتنا، کب اور کیسے دینا ہے؟ یہ سب کچھ جب وہ ذات لکھ دیتی ہے تو پھر دنیا میں جھگڑے کی کوئی وجہ نہیں رہتی کہ فلاں شخص نے میرا نقصان کیا، یا فلاں شخص نے میرے لیے سازش کی، یا فلاں شخص نے میرے مال کو نقصان پہنچایا ہے۔ جو کچھ بچنا ہے، وہ بھی نصیب سے بچتا ہے اورجو کچھ ضائع ہونا ہے، وہ بھی نصیب سے ضائع ہوتا ہے۔لہذا اس پر اللہ رب العزت کے حضور اپنے دل میں اطمینان رکھا کریں لیکن تدبیر لازم ہے کیونکہ وہ حکمِ شرعی ہے لیکن تدبیر کے نتیجے میں پھر جو کچھ بھی رونما ہوجائے، اس پر اپنے دل کو راضی کرنا ہے، جب ہم اپنے دل میں اطمینان پیدا کرلیں گے تو اللہ رب العزت راضی ہوجائے گا۔
رزق کی تقسیم یقیناً اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دیتا ہے۔ اگر کسی کو اللہ رب العزت زیادہ دے دے اور اس کے دل میں خیال آئے کہ شاید مجھ پر اللہ کا کرم زیادہ ہے تو اس حوالے سے یہ ذہن میں رہے کہ اللہ رب العزت کبھی کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کبھی کسی کو نہ دے کر آزماتا ہے۔ انسان خیال کرتا ہے کہ مجھے کم کیوں دیا ہے؟ کم اس لیے دیا کہ عین ممکن تھا کہ ہم مال و دولت کی فراوانی میں یوں گم ہوجاتے کہ کسی مرحلہ پر اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے، ہم اس مال و دولت کی فراوانی کو سنبھال ہی نہ پاتے اور لوگوں کے ساتھ زیادتی و ظلم کا ارتکاب کر بیٹھتے اور نہ جانے کیا کیا کر بیٹھتے اور بالآخر اللہ رب العزت کے عذاب کا شکار ہوجاتے۔ ہم نہیں جانتے کہ اللہ رب العزت کا امر کیا تھا، پس اس نے اس بڑی تکلیف اور آزمائش سے بچانے کے لیے چھوٹی تکلیف دے کر اپنے بندوں کو محفوظ فرمالیا۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ.
(المومنون،23: 55)
’’ کیا وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو (دنیا میں) مال و اولاد کے ذریعہ ان کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘
یعنی وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اللہ پاک نے یہ معاملہ کیوں فرمایا ہے؟ حالانکہ یہ معیشت کی تقسیم کم یا زیادہ، رزق میں تنگی یا خوشحالی،یہ تمام امرِ الہٰی سے ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ اللہ نے ایسا کیوں کیا ہے لیکن ہمیں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ اللہ رب العزت کی عطا پر راضی ہونا سیکھیں۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوجاتا ہے تو وہ ذات بندے کو ان تکالیف اور ان پریشانیوں سے نجات عطا فرماتی ہے۔
(3) دعا
رزق میں اضافہ اور فراوانی کا تیسرا اصول اور ذریعہ ’’دعا‘‘ ہے۔قرآن مجید کی آیات اور احادیث مبارکہ میں صراحتاً موجود ہے کہ انسان کو ملنے والی ساری عطائیں، خوشحالی، تنگدستی، آزمائش، فراوانی، عسر، یسر سب کچھ اللہ رب العزت نے لکھا ہوا ہے۔ جب سب کچھ اسی کا عطا کردہ ہے تو پھر ہر پریشانی کا علاج دنیا میں جھگڑنے میں ہے اور نہ کسی کے لیے دل کو تنگ کرنے میں ہے۔ نہ کسی کی غیبت کرنے میں ہے اور نہ کسی کے بارے میں بری بات کہنے میں ہے۔ بلکہ ہر مسئلے کا حل اسی کے حضور سجدہ ریز ہوکر دعا کرنے اور اسی مالکِ حقیقی سے مانگنے میں ہے کہ مولا مجھے بھی عطا فرما، میری تکلیفوں کو بھی دور فرما اور میری آزمائش کو بھی حل فرما۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ مبارکہ ہر مسلمان کے لیے اسوۂ کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر شخص اس سے استفادہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں یہ دعا کثرت سے فرمایا کرتے تھے:
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
’’ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘
(البقرة،2: 201)
یعنی آقا ﷺ نے اپنے اسوۂ مبارکہ سے اپنی امت کو یہ تعلیم فرمائی کہ اللہ سے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیاں مانگتے رہا کرو۔ یہ ایک جامع دعا ہے کہ دنیا میں رہتے ہو دنیا کی بھلائی بھی کی دعا مانگو اور یہاں سے آخرت میں جانا ہے تو آخرت کی بھلائی بھی مانگو اور عین ممکن ہے اعمال کے نتیجے میں عذاب کے حقدار ٹھہریں تو اس عذاب سے معافی بھی مانگتے رہا کرو۔ یہ دعا تینوں پہلوؤں کو مکمل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آقا علیہ السلام یہ دعا کثرت سے مانگا کرتے تھے۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کس طریقے سے اللہ کے حضور ہمیں اپنی پریشانیوں کے ازالے کی دعا مانگنی چاہیے۔
زندگی میں کبھی اللہ رب العزت سے مانگنا نہ بھولیں۔ ہمیشہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دستِ دعا دراز رکھیں۔ دل کی خالصیت کے ساتھ اس سے مانگتے رہیں۔ پھر اس کے عطا کرنے میں چاہے جتنی بھی دیر کیوں نہ ہوجائے، اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ جو مانگنا ہے، مانگتے رہیں، ہر طرح کا رزق مانگتے رہیں اور مانگنے میں کبھی کسی قسم کی کمی نہ چھوڑیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم دعا میں سچے تب ہوں گے کہ اس رزق یا نعمت کے حصول کے لیے عمل بھی ساتھ کرتے چلے جائیں۔ محنت بھی جاری رکھیں اور دعا بھی مانگتے رہیں۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ہم پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں، مالی پریشانی، روزگار کی پریشانی، جاب کی پریشانی اور پھر ان پریشانیوں کے نتیجے میں عبادت کی طرف رغبت کم ہوجاتی ہے، مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور دھیان اس طرف نہیں جاتا۔ اس طرح ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور عبادت سے غافل ہوجاتے ہیں اور ان دنوں میں ہم دعا کرنا ہی بھول جاتے ہیں جبکہ اس وقت سب سے زیادہ دھیان اور رجوع اللہ کی بارگاہ کی طرف ہونا چاہیے۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب تم کہو گے کہ اللهم ارزقنی کہ اے اللہ مجھے رزق عطا فرما، تو اللہ کہے گا: قد فعلت، میں نے رزق دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پس اللہ کے حضور مانگتے رہا کرو۔ اللہ پاک یقیناً اپنے خزانۂ خاص سے عطا فرمادے گا۔
(4) توبہ و استغفار
قرآن مجید، احادیث مبارکہ، بزرگان دین اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ دنیا کی ہر پریشانی، ہر آزمائش، ہر تکلیف، ہر مالی تنگی کا علاج ’’توبہ و استغفار‘‘ میں ہے۔مفسرین اس کی دلیل کے طور پر درج ذیل آیت مبارکہ پیش کرتے ہیں:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّهٗ کَانَ غَفَّارًا . یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا. وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰـرًا.
(نوح،71: 10۔ 12)
’’ پھر میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر بڑی زوردار بارش بھیجے گا۔ اور تمہاری مدد اَموال اور اولاد کے ذریعے فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات اُگائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔‘‘
بہت سارے اعمال اور پریشانیاں ایسی ہوتی ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ ’’اتنے سال ہوگئے مگر اولاد نہیں ملی، اتنے سال ہوگئے ہیں مگر میری مالی مشکلات حل نہیں ہوئیں۔‘‘ ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ایک لمحہ ہم اپنے اعمال کی طرف بھی نگاہ کرلیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی ایسا عمل ہے کہ جس پر مجھے توبہ کی حاجت ہے۔ کچھ تو میری زندگی میں ایسا ہے کہ جس پر ابھی میں نے اللہ رب العزت کے حضور توبہ و استغفار نہیں کیا اور اس کے حضور مناجات نہیں کیں جس کی وجہ سے یہ بندش نہیں ہٹتی۔ اس آیت میں اسی امر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی کہ اگر تم توبہ کرلو تو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہیں فراوانی، آسائشیں اور آسانیاں عطا فرمائے گا اور مشکلات دور فرمادے گا۔
سیدنا امام حسن بصریرضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں چار اشخاص آئے ، ان میں سے ایک نے اپنی مشکل بیان کی کہ ہمارے ہاں بہت قحط سالی ہے۔ دوسرے نے کہا کہ ہمارے ہاں تنگدستی ہے۔ تیسرے نے کہا کہ اولاد نہیں ہے۔ چوتھے نے کہا کہ میرا باغ خشک ہوگیا ہے، پھل نہیں دیتا۔ آپ نے چاروں سے فرمایا کہ جاؤ اور اللہ کے حضور توبہ کرو اور اس سے معافی مانگو۔ آپ کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا حضرت یہ چار الگ مسائل تھے، آپ نے چاروں کو ایک ہی وظیفہ بتادیا کہ جاکر اللہ سے معافی مانگو، اس کا کیا مطلب ہے؟آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ قرآن کا حکم سنایا ہے۔ پھر آپ نے مذکورہ آیات (نوح: 10۔ 12) کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ ان لوگوں کے تمام مسائل کا حل ان آیات کے اندر توبہ کی صورت میں مذکور ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ ھود کی آیت 52 میں بھی سیدنا ھود علیہ السلام کی اپنی قوم کو انہی الفاظ میں تلقین مذکور ہے۔اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں کہ استغفار اور توبہ کا ثمر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وسعتِ رزق اور خوشحالی سے نوازے گااور تمہیں اس طرح کے عذاب سے نیست و نابود نہ فرمائے گا جیسا کہ تم سے پہلی قوموں کو نیست و نابود کیا جاتا تھا۔
اس آیت کے حوالے سے دیگر مفسرین بیان فرماتے ہیں کہ اس آیت میں استغفار اور رزق کا تعلق ایسا ہے کہ جیسے کوئی شرط رکھی جائے اور اس شرط کے بعد اجر کا ملنا لازم ہو۔ گویا اللہ تعالیٰ نے توبہ بطورِ شرط رکھی ہے اور اس کے ساتھ رزق کی کشادگی اور خوشحالی بطورِ اجر رکھا ہے۔ یعنی توبہ کرنے پر اللہ رب العزت ضرور خوشحالی عطا فرمائے گا۔
یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ توبہ سچے دل سے کی گئی ہو اور ایسی توبہ کی گئی ہو کہ پھر گناہوں کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کرلے اور دوبارہ ان کمزور اعمال اور خطاؤں کی طرف نہ لوٹنے کا ارادہ کرے تو وہ توبہ؛ حقیقی توبہ ہے۔ اگر بندے نے حقیقی توبہ کی ہے جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں تو پھر اللہ رب العزت نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ اب وہ اسے ضرور خوشحال فرمائے گا، اس کی تنگدستی ضرور دور فرمائے گا اور اس کی تکلیف اور پریشانی کا ازالہ فرمائے گا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من لزم الاستغفار جعل الله له من کل ضیق مخرجاً ومن کل هم فرجا و رزقه من حیث لایحتسب.
(سنن ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فی الاستغفار، 2: 85، رقم: 1518)
’’جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا عطا فرماتا ہے اور ہر تنگی سے نجات عطا فرماتا ہے اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتاہے جس کا اسے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ ‘‘
(5) بڑھاپے کے وسیلے سے رزق طلب کرنا
رزق میں برکت و وسعت کے حوالے سے یہ پہلو بڑا غور طلب ہے اور اکثر ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت سے بڑھاپے کا وسیلہ دے کر رزق طلب کریں۔ یعنی ہمارے گھر میں جو بوڑھے اور ضعیف ہیں ان کی خدمت کریں اور ان کی خدمت کو اللہ کے حضور وسیلہ کے طور پر پیش کریں۔ بوڑھے والدین، عزیز و اقارب اور رشتہ دار ان کی خدمت کرکے وسیلہ پیش کرنے سے اللہ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی عطا فرمادے گا۔
افسوس! ہمارا عمل اس کے برعکس ہے۔ بعض اوقات ہمیں گھر میں موجود بوڑھے والدین کے اخراجات، ان کی ادویات اور ان کا کھانا پینا بھی بوجھ لگتا ہے اور ہم یہ نہیں سوچتے کہ جو ہمارے گھر میں بوڑھے ہیں،اللہ تعالیٰ ان کے صدقے اور ان کی دعا سے کئی تکالیف دور کردیتا ہے۔لہذا کھلے دل سے اچھی نیت کے ساتھ اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کریں۔
ایک ساتھی نے واقعہ بیان کیا کہ میرے گھر میں بوڑھے والدین نہیں تھے تو میں دورکے عزیز و اقارب میں سے ایک بے سہارا بوڑھے آدمی کو اپنے گھر لے آیا اور اس کی زندگی کے آخری آٹھ سے دس سال اس کی خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے صدقے سے مجھے مال کی فراوانی عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کو بوڑھے والدین کی خدمت اتنی عزیز ہے کہ اس نے رزق کی کشادگی اس کے ساتھ جوڑ دی ہے تاکہ اگر کسی کے دل میں وہ چاہت نہ بھی ہو تو وہ رزق کی کشادگی کی خاطر ہی ان سے عزت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔
ہم اس طرح کے امور کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ہم دنیا کو کوستے رہتے ہیں، بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے کام نہیں ملتا، روزگار نہیں ملتا، ملک کا نظام ٹھیک نہیں اور نہ جانے کس کس چیز کو کوستے ہیں لیکن اگر وہ چیزیں جو ہمارے اپنے اختیار میں ہیں، ان پر غور کرلیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں مرحمت فرمادے گا۔ وہ مالک ہے، یہ نظام ہمارے لیے ہے، وہ چاہے تو اسی نظام میں سے ہمیں فراوانی عطا فرمادے اور تنگدستی دور کردے۔ اگر ہم ان اعمال کو اپنالیں تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔
(6) تقویٰ و پرہیزگاری
انسان تقویٰ اختیار کرلے تو یہ بھی رزق میں کشادگی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا. وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ.
’’ اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
(الطلاق،65: 2، 3)
امام نووی تقویٰ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان ان تمام امور سے بچا رہے جن امور سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے اور ان امور کو اپنالے جو امور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں مقبول قرار پائے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ.
(الاعراف،7: 96)
’’ اور اگر (ان) بستیوں کے باشندے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے۔‘‘
متقین لوگوں کو اللہ تعالیٰ مالی تنگی بھی نہیں دیتا بلکہ فراوانی اور خوشحالی عطا فرماتا ہے۔ بشرطیکہ اگر کوئی صحیح معنوں میں کامل تقویٰ اختیار کرے۔ ہاں اگر اسے اللہ پر کامل بھروسہ نہ ہو، دین داری کے ساتھ ساتھ دنیا داری میں بھی نگاہیں جمی رہیں، دل میں دنیا کی رغبت رہے اور ہر وقت پریشان رہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید تنگدستی میں ڈال دیتا ہے۔ مگر جب انسان کامل تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ان ذرائع سے عطا کرتا ہے جہاں سے اسے توقع بھی نہیں ہوتی۔ عبادت میں رسوخ، خشوع و خضوع اور تقویٰ سے انسان کے رزق میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
(7) توکل
جو لوگ توکل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو بھی مالی مشکلات سے نجات عطا فرمادیتا ہے۔ امام غزالی کے نزدیک توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد سارے جہان سے اٹھ جائے اور صرف اللہ پر قائم ہوجائے۔ ایسا توکل جب انسان اختیار کرلیتا ہے تو اللہ رب العزت اس کی مالی مشکلات کو اس توکل کے نتیجے میں دور فرمادیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔ رہتے انہی گھونسلوں میں ہیں، گھونسلے بڑھانے پر توجہ نہیں ہوتی مگر اللہ سارے دن میں جو کچھ انہیں دیتا ہے، ان کے لیے کفایت کرجاتا ہے، ان کی ضرورت کو پورا کردیتا ہے۔ بس ان پر یہ عطا توکل کے سبب ہے ۔ہمیشہ اللہ کی ذات پر انسان کی نگاہ رہنی چاہیے پھر دنیا میں بھی خیر ہے اور آخرت میں بھی نجات یقنی ہے۔
(8) صلہ رحمی اور حسنِ سلوک
رحم پیٹ کو کہتے ہیں یعنی ایک پیٹ سے نکلے ہوئے لوگ۔ صلہ رحمی سے مراد بہن بھائی اور خونی رشتہ داروں سے رحمت و شفقت سے پیش آنا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔
غم اور تکلیف آجائے تو انسان کا رویہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے حتی کہ اپنے بہن بھائیوں کو کہتا ہے کہ میں خود تکلیف میں ہوں، اب تمہاری تکالیف کیسے دور کروں؟ آپ ﷺ نے اس کے برعکس فرمایا کہ جب مالی تنگی آجائے تو اپنے محتاج اور غریب بہن بھائیوں کی مدد کے لیے دل اور دستر خوان کھول دیا کرو۔ اللہ تعالیٰ اس کے صدقے تمہاری تکلیفیں دور کردے گا اور تمہارے رزق میں کشادگی عطا فرمائے گا۔
کسی تاجر یا صاحبِ ثروت کو مشکلات درپیش ہوں تو اسے ایک لمحہ بیٹھ کر ذرا سوچ لینا چاہیے کہ میرے غریب رشتہ دار یا عزیز و اقارب میں سے کون ایسا تھا کہ میں نے اچھے دنوں میں اس کی تکالیف دور نہیں کیں؟ بس اس سوچ سے ہی اس کو نتیجہ سمجھ آجائے گا۔ تنگدستی کے زمانے میں اس لیے فراخی کرنے کا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کے صدقے سے ہمیں فراوانی عطا فرمادے گا۔
اس طرح کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا بھی ہماری مالی مشکلات دور کرنے کا سبب ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ابغوا الی ضعفائکم فانما ترزقون وتنصرون بضعفائکم.
(صحیح ابن حبان، ج11، ص 85، رقم: 4767)
’’بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے اور ان کی مدد کی جاتی ہے۔ ‘‘
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں میں تلاش کیا کرو۔ جن کی وجہ سے تمھیں رزق ملتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘
ہم میں سے ہر شخص کے اردگرد کسی نہ کسی حیثیت میں ہم سے کمزور شخص موجود ہے۔ پس ان کےساتھ بھلائی کا عمل، حسنِ سلوک، نرمی، شفقت اور پیار سے برتاؤ اور کلام کرنا، ان کی خیر خواہی کرنا، ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں، اس عمل کے صدقے اللہ تعالیٰ ہماری مالی مشکلات حل فرمادے گا۔
(9) دوسروں پر خرچ کرنا
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور خیرات کرنے سے غم اور تکلیف دور ہوجاتی ہے۔ انسان کہتا ہے کہ میرے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو میں تمہیں کیا دوں؟ سن لو جو کچھ بھی ہے، اسے اللہ کی راہ میں تقسیم کردو۔ اللہ اس کے صدقے میں برکت عطا فرمادے گا اور فراخی و خوشحالی نازل فرمائے گا۔آقا ﷺ نے فرمایا:
اعط الناس اعطیتهم.
(کنزالعمال، 4: 241)
اے آدم کی اولاد تو دوسروں پر خرچ کر، اللہ تجھ پر خرچ فرمائے گا۔
لہذا ہر حال میں خرچ کیا کریں، خواہ کتنی ہی پریشانی اور تکلیف کیوں نہ ہو۔ اللہ کا دین سیکھنے والے طلبہ و طالبات پر خرچ کریں، اس کے صدقے میں بھی اللہ تعالیٰ ہماری مالی مشکلات دور فرمادے گا۔
(10) متفرق ذرائع
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے رزق میں برکت کے اور بھی کئی ذرائع ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً:
1۔ اہل و عیال پر خرچ کرنا یعنی بیوی بچوں پر خرچ کرنے کے صدقے سے بھی اللہ تعالیٰ مالی مشکلات دور کرے گا اور رزق میں کشادگی دے گا۔
2۔ تقدیر پر راضی رہنا اور راضی برضا رہنا بھی فراخی و کشادگی کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
3۔ علی الصبح اللہ کے احکامات کی روشنی میں رزقِ حلال کی تلاش میں نکلنا بھی خوشحالی کا سبب ہے۔
4۔ رذائل اخلاق یعنی جھوٹ، فراڈ، کرپشن، بدعہدی، سستی، کاہلی اور بے ایمانی سے اجتناب
5۔ نماز قائم کرنا۔
6۔اخلاقِ حسنہ اختیار کرنا
7۔ استقامت کا پیکر ہونا
8۔ نظم و ضبط کا خوگر بننا
9۔ بخل اور فضول خرچی سے اجتناب
10۔ ظلم اور حق تلفی کرنے سے باز رہنا
خوشحالی و فراخی اور برکت کا حقیقی مفہوم
اللہ رب العزت کی بارگاہ سے فراخی اور خوشحالی عطا فرمائے جانے سے کیا مراد ہے؟ اس بات کا جائزہ کیسے لیا جائے گا کہ اب کسی کے پاس خوشحالی آگئی ہے۔۔۔؟صوفیاء و اولیاء بیان کرتے ہیں کہ خوشحالی اور فراخی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اس کے پاس مال کی کثرت ہوجائے گی بلکہ اللہ کی طرف سے فراخی یہ ہے کہ جو مال بھی اس کے پاس ہے، اس کی ضرورتوں کے لیے کفایت کرجاتا ہے۔ یعنی اسے پھر کسی چیز کی کمی نہیں رہتی اور جو اس کی ضروریاتِ زندگی ہیں، اللہ اسے پوری فرمادیتا ہے۔ انسان کا حرص اور اس کی ضرورتیں تو کبھی ختم نہیں ہوتیں، انسان انھیں بڑھاتا چلا جاتا ہے لیکن جو جائز ضرورتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ان امور کے نتیجے میں وہ پوری فرمادیتا ہے۔
قرآن مجید میں لفظ برکت اور برکات کئی مقامات پر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ برکت سے نوازتا ہے۔ برکت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کہ برکت سے مراد وہ مال ہے کہ جو پاکیزہ ہو، کفایت بھی کرجائے اور آخرت میں اس پر گرفت بھی نہ ہو۔ دنیا میں جب مال کی کثرت ہوتی ہے تو وہ مال ساتھ گرفت بھی لاتاہے، آخرت میں اس کا احتساب بھی ہوتا ہےلیکن اللہ تعالیٰ جب مال و دولت اپنے متقین بندوں کو عطا کرتا ہے تو وہ مال ایسا ہوتا ہے اور اس راستے سے دیتا ہے کہ پھر اس پر گرفت بھی نہیں کرتا۔ یعنی ایسے مال کا اسے مالک ہی نہیں بناتا کہ جس پر بعد میں گرفت لازمی ہوجائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی زندگی آسان فرمادیتا ہے۔
جب انسان مال سمیٹتا چلا جاتا ہے اور اپنی ملکیت میں چیزیں جتنی داخل کرتا چلا جاتا ہے تو وہ اتنا زیادہ جوابدہ بھی ہے کہ اس نے اس ایک ایک چیز کا استعمال کیسے کیا ہے؟ دوسری طرف اللہ اپنے خاص بندوں کو دنیا میں عزت کی زندگی بھی دیتا ہے اور ان کو ایسا مال بھی نہیں دیتا کہ جس پر جوابدہی بھی ہو۔ یعنی اسے دونوں صورتوں میں سنبھال لیتا ہے۔ کیونکہ یہ مال اس نے خود دیا ہوتا ہے تو اس کا اپنی طرف سے دیا ہوا مال نقصان دہ کیسے ہوسکتا ہے؟ بلکہ اس کا دیا ہوا مال بابرکت ہوتاہے اور وہ برکت اس دنیا میں بھی رہتی ہے اور آخرت میں بھی اسے فائدہ دیتی ہے۔