اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اُس سے نہ ہٹے‘‘کے ہیں۔
( ابن منظور، لسان العرب،9: 255 )
جبکہ اصطلاحِ شرع میں اس سے مراد ہے انسان کا علائقِ دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے
عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر اللہ
کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کر سکے۔
اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘
(ابن ماجہ، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف،2: 376 ، رقم: 21781 )
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ اللهِ جَعَلَ اللهِ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ.
(طبرانی، المعجم الاوسط،7: 221 ، رقم:7326 )
’’جو شخص اللہ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘
1۔ اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت
ناموَر فقیہ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدمِ جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین میں اختلاف ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
فمن فهم من الإعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة بالمساجد، قال: لا يجوز للمعتکف إلا الصلة والقرائة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخروية کلها أجاز له غير ذلک.
( ابن رشد ،بدایۃ المجتهد،1: 312 )
’’جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قراء تِ قرآن کو مشروع قرار دیا؛ اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا، اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔‘‘
معتکف کے لئے نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اَذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کرام نے اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی انفرادی عبادات کی طرح مشروع اور بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ ان اجتماعی عبادات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، اِفتاء و اِرشاد اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان اُمور میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔
اعتکاف کے دوران درس و تدریس، علماء کا دینی امور میں مناظرہ و مباحثہ اور درسِ قرآن و حدیث وغیرہ کو فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں معتکف کے لیے شرعاً جائز قرار دیا گیا ہے۔ حوالہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں:
( ابن همام، فتح القدير،2: 396 )،( شافعي، الام،2: 105 )، (نووی، المجموع،6: 528 )، ( ماوردى، الإقناع،1: 229 )، (الفتاویٰ الھندیۃ،1: 212 )
دورانِ اعتکاف سرانجام دیئے جانے والے جائز اُمور
ذیل میں ہم اِس اَمر پر روشنی ڈالیں گے کہ وہ کون سے اِجتماعی اُمور ہیں جو اعتکاف میں سرانجام دیے جاسکتے ہیں:
- اگر معتکف قاضی ہو یا فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور دورانِ اعتکاف اس کے سامنے کوئی ایسا معاملہ آجائے جس کی شہادت بھی موجود ہو تو اس پر لازم ہے کہ دورانِ اعتکاف ہی اس معاملے میں فیصلہ کر دے۔
(شافعی، الام،2: 1 0 5 )
- اِعتکاف میں حسبِ ضرورت خرید و فروخت اور لین دین بھی درست ہے، لیکن اِس میں شرط یہ ہے کہ معاملہ ایجاب و قبول کی حد تک ہو اور سامانِ تجارت مسجد سے باہر ہو۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اَشیاء کی نقل و حرکت کا ممنوع ہونا مسجد کے تقدس کی وجہ سے ہے نہ کہ اعتکاف کی وجہ سے۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
ولا بأس أن يشتري ويبيع ويخيط ويجالس العلماء ويتحدث بما أحب ما لم يکن إثم.
(شافعی، الام،2: 105 )
’’معتکف کے لئے خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سلائی کرلینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
لہٰذا جب معتکف کاروبار کرسکتا ہے، حسبِ ضرورت کپڑے سی سکتا ہے تو اس کے لیے حصولِ علم تو بدرجہ اَولیٰ بہتر ہوگا۔ اور حصول علم وہ کارِ خیر ہے جس میں شرکت کو حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی ترجیح دی ہے۔
- اعتکاف کے ایک سال بعد آنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس میں انسان ان تمام امور سے بے نیاز ہو جائے جن کا تعلق دوسرے افراد سے ہو یا جن میں اشتغال فی الخلق کا شائبہ ہو؛ بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے بھی ہمیں جو نقوش ملتے ہیں ان میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ آپ ﷺ دورانِ اعتکاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملتے، انہیں حسبِ ضرورت وعظ و نصیحت فرماتے اور گھر والوں سے ملاقات کرتے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
وَکَانَ يُخْرِجُ رَأْسَه إِلَيَّ وَ هوَ مُعْتَکِفٌ، أَغْسِلُه وَ أَنَا حَائِضٌ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الحيض، باب مباشرة الحائض،1: 115 ، الرقم:295 )
’’حضور نبی اکرم ﷺ حالتِ اعتکاف میں اپنا سر میری طرف نکال دیتے تو میں حالتِ حیض میں بھی آپ ﷺ کا سراقدس دھو دیتی۔‘‘
علامہ خطابی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإن الاشتغال بالعلم وکتابته اهم من تسريح الشعر.
(زين الدين عراقی، طرح التثريب فی شرح التقريب،4: 175 )
’’بلا شبہ علم میں مصروفیت اور اس کی کتابت بالوں کے سنوارنے سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
لہٰذا دورانِ اِعتکاف تعلیم و تعلم اور درس و تدریس جیسے اُمور بجا لانا بہتر ہے تاکہ اِسلام کے اُس آفاقی حکم پر بھی عمل ہو جو آقا ﷺ کو پہلی وحی میں دیا گیا تھا اور جس کی بے پناہ تاکید قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں وارِد ہوئی ہے۔
- شادی بیاہ ایسے اُمور ہیں جو معاشرے اور معاشرت کی بنیاد اور اجتماعیت کی اساس ہیں۔ معتکف اگرچہ ان تمام امور سے خلاصی پا کر مسجد میں گوشہ نشین ہوتا ہے لیکن ائمہ کرام نے دورانِ اعتکاف معتکف کے مسجد میں نکاح کرنے، محفل نکاح میں شامل ہونے، کسی کو اس کی دعوت دینے، نکاح وغیرہ پر مبارک باد دینے، تعزیت کرنے اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی جیسے امور کو بھی مباح قرار دیا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
ولا بأس للمعتکف أن يبيع ويشتري ويتزوج ويراجع ويلبس ويتطيب ويدهن ويأکل ويشرب بعد غروب الشمس إلی طلوع الفجر ويتحدث ما بدا له بعد أن لايکون مأثما وينام في المسجد.
( کاسانی، بدائع الصنائع،2: 117 )
’’معتکف کے لیے غروبِ آفتاب سے طلوعِ فجر تک خرید و فروخت ، نکاح، (اَسباق کی) مراجعت کرنے، لباس وغیرہ بدلنے، خوشبو اور تیل لگانے، کھانے پینے اور ایسی گفتگو کرنے کہ جس میں کوئی گناہ کی بات شامل نہ ہو، میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
- اعتکاف کے دوران میں دیگر امور کی طرح ضروری حالت میں مریض کی عیادت کرنا بھی آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَمُرُّ بِالْمَرِيْضِ وَهوَ مُعْتَکِفٌ، فَيَمُرُّ کَمَا هوَ وَ لَايُعَرِّجُ يَسْأَلُ عَنْه.
( ابو داود، السنن، کتاب الصوم، باب المعتکف يعود المريض،2: 333 ، رقم: 2472 )
’’حضور ﷺ کسی مریض کے پاس سے اعتکاف کی حالت میں گزرتے تو بغیر ٹھہرے گزرتے گزرتے اس کا حال دریافت فرما لیتے۔‘‘
عصرِ حاضر اور مقاصدِ اِعتکاف
اس میں شک نہیں کے اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیں ہو سکتا۔ اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دوران اعتکاف تعلیم وتعلم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَقِيْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
( ابو داود، السنن، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم،1: 81 ، رقم: 222 )
’’ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
دور حاضر میں ہمیں اِسلام وراثت میں ملا ہے، ہم نے اس کے لئے کوئی کاوِش اور محنت نہیں کی، والدین مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان کہلائے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کو کلمہ تک یاد نہیں، اور اگر کلمہ آتا ہے تو اس کے معنی کا علم نہیں، اور اگر بالفرض معنی معلوم ہے تو اس کے تقاضوں کا علم نہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کو افضل العبادات قرار دیا گیا ہے اور تلاوت قرآن اعتکاف کے بنیادی معمولات میں سے ہے، لیکن ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد صحتِ لفظی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ان حالات میں انفرادی عبادات پر حد سے زیادہ زور دینا اور گنے چنے چند وظائف کرنے میں دس دن گزار دینا اعتکاف کا منشاء ہے اور نہ اس سے اعتکاف کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔
ہماری اجتماعی صورتِ اَحوال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والی اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔
دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اُمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔
اِعتکاف میں طویل خاموشی اختیار کرنا؟
خاموشی حکمت کا پیش خیمہ اور زبان کی حفاظت کا سب سے قوی اور آزمودہ ہتھیار ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں مگر خاموشی کو اس طرح افضل جاننا کہ واجب کلام بھی ترک کر دیا جائے، حرام کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے خاموشی سے بہتر ہونے پر آقا علیہ السلام کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جس میں ایک عورت نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ میں جمعہ کا روزہ رکھوں اور اس دن کسی بھی کلام نہ کروں؟ آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا:
لاتصم يوم الجمعة إلا في أيام هو أحدها أو في شهر، وأما أن لا تکلم أحداً فلعمري! لأن تکلم بمعروف و تنهي عن منکر خير من أن تسکت.
(احمد بن حنبل، المسند،5: 224 ، رقم:22004 )
’’صرف جمعہ کا روزہ نہ رکھو بلکہ اس طرح ایام کا انتخاب کرو کہ جمعہ کا دن ان میں آجائے یا پھر یہ کہ مہینے کے روزے ہوں تو جمعہ بھی ان میں آجائے۔ جہاں تک کلام نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے میری عمر کی قسم! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
2۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اِہتمام منعقدہ اعتکاف
تحریک منہاج القرآن اُمت مسلمہ کی ایک ایسی تجدیدی و احیائی تحریک ہے کہ جس نے آنے والے مسائل کا قبل اَز وقت اِدراک کرکے اُمت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اِس کی بانی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُمت کو روایتی اُصولوں سے ہٹ پر ایک نئی سوچ و فکر اور بیدار مغز دیا ہے۔تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے درِ قلب پر دستک دی ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے چہارگانہ فرائض نبوت ؛ تلاوتِ قرآن، تزکیہ نفوس، تعلیم کتاب و حکمت کی پیروی کرتے ہوئے ہر محاذ پر جد و جہد کی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل بھی دھو دیا ہے۔ اِسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اب تک 29 اجتماعی اعتکاف منعقد ہوچکے ہیں اور الحمدللہ تعالیٰ امسال 30 واں سالانہ اجتماعی اعتکاف منعقد ہورہا ہے۔ اس اجتماعی اعتکاف میں ہزاروں فرزندانِ اِسلام معتکف ہوتے ہیں۔ اِس اعتکاف میں مرد و زَن ہر دو ذوق و شوق سے شریک ہوکر اپنی باطنی طہارت اور علمی حلاوت کا سامان کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے منہاج کالج برائے خواتین میں اجتماعی اعتکاف کا الگ انتظام کیا جاتا ہے۔
اِس شہرِ اِعتکاف میں حلقہ ہائے ذکر و درود بھی منعقد ہوتے ہیں؛ درسِ فقہ کی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور دروسِ قرآن و حدیث بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی کہ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
اجتماعی اعتکاف کے فضائل و ثمرات
انفرادی کے بجائے اجتماعی اعتکاف کے ذریعے ہم درج ذیل فضائل اور ثمرات کو سمیٹ سکتے ہیں ہیں:
- اجتماعی اعتکاف میں باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت نماز پنجگانہ، تہجد، چاشت، اوّابین، اوراد و وظائف، حمد و نعت خوانی، دروس ہائے قرآن و حدیث، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، تربیتی لیکچرز، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، خوفِ خدا، فکرِ آخرت، اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کی شمع دلوں میں فروزاں کرنا، جدید ترین علمی و روحانی پیچیدگیوں کا قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں تسلی بخش حل بتایا جاتا ہے۔ انفرادی اعتکاف میں اِن تمام فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
- علماء، اولیاء، صوفیاء اور ائمہ دین کی سنگت و زیارت، ان سے مسلسل فیوض و برکات کا حصول، قرآن و سنت اور فقہ (قانون) کی بیش بہا معلومات اجتماعی اعتکاف کی منفرد خصوصیات میں سے ہیں۔
- اجتماعی اعتکاف میں اوراد و اذکار، درود و سلام، گریہ و زاری، توبہ و استغفار اور عبادت کی زبانی ہی نہیں بلکہ عملی مشق کروائی جاتی ہے۔
- اجتماعی اعتکاف میں چند دن کے فیوض و برکات کی رحمت و برکت، تعلیم و تربیت اور ذوق و شوق کے وہ نقوش قلب و ذہن پر منقش ہو جاتے ہیں جن سے قلب و ذہن کے آئینے ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے۔ تنہا اعتکاف میں یہ سب کچھ کہاں میسر ہوتا ہے۔