سوسائٹی میں اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ اور مثبت تعمیر و تشکیل میں ذرائع ابلاغ کا روز اول سے مرکزی کردار رہا ہے۔ آپ ﷺ کا اسوۂ مبارک ایمان کی عمارت کی خشتِ اول ہے۔ آپ ﷺ نے مصطفوی معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں امانت، دیانت، صداقت کے اخلاقی اصولوں کو سرفہرست رکھا۔ الزام اور دشنام کو اسلامی معاشرہ کی نمو کے ضمن میں زہرِ قاتل قرار دیا۔ آپ ﷺ نے حالتِ امن اور حالتِ جنگ میں بھی ایسی بات نہیں فرمائی جس کا حقیقت سے تعلق نہ ہو۔ اصحابِ رسول ﷺ کی تربیت میں یہ بات بطورِ خاص شامل کر دی گئی تھی کہ جان و مال کی پرواہ کئے بغیر حق گوئی سے کام لیا جائے۔ آج سوسائٹی کے اندر جس قدر فسادات اورتضادات ہیں اُس کی بنیادی وجہ الزام تراشی اور دشنام طرازی ہے۔ مصطفوی تعلیمات کے ذریعے مومنین کو تہمت، عدم ِبرداشت اور انتہا پسندانہ رجحانات سے دور رہنے کی تلقین کی گئی مگر افسوس آج وہ تمام جاہلانہ رویے ہمارے رسوم و رواج اور مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ نتیجتاً سوسائٹی میں اعتدال و رواداری اور اتحاد و یکجہتی کے جذبات ناپید ہیں۔
عہدِ رسالت مآب ﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار میں عمالِ سلطنت، واعظین اور مبلغین کو یہ اجازت نہ تھی کہ وہ غلبۂ حق کے لئے بھی ناحق بات کہیں۔ سچائی اور راست گوئی اُمت کا طرۂ امتیاز تھی۔ اوائل دور میں منبر و محراب ذرائع ابلاغ تھے جہاں سے علم و امن اور محبت و اخوت کے ترانے فضاؤں میں بلند ہوتے تھے۔ افسوس کہ آج یہ اقدار بتدریج زوال پذیر ہیں اور سوسائٹی عدم ِ برداشت اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ اس سارے عمل میں ذرائع ابلاغ کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے۔ جب تک منبر و محراب سے اخوت و محبت کی صدائیں بلند نہیں ہوں گی۔ سوسائٹی کا انتشار اور تفریق بڑھتی رہے گی۔ ذرائع ابلاغ میں جہاں الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، صوتی میڈیا اور سوشل میڈیا شامل ہے، وہاں علمائے کرام کی طرف سے منعقد ہونے والی محافل اور مجالس بھی شامل ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے یہ تمام ٹولز جب تک ایک پیج پر نہیں آئیں گے، انارکی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
قرآن مجید جب قیامت تک کے لئے ہر شعبہ کے لئے ذریعہ ہدایت و راہ نمائی ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ 21 ویں صدی کے ذرائع ابلاغ کے استعمال کی اخلاقیات کے بارے میں کتاب اللہ راہ نمائی مہیا کرتی ہوئی نظر نہ آئے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ایسی 12 ہدایات دی گئی ہیں جو الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے لئے ازبر کرنا لازم ہیں۔ اگر یہ تعلیمات لکھنے اور بولنے والوں کی اخلاقیات کا حصہ بن جائیں تو سوسائٹی امن و راحت کا مرکز بن جائے:
1۔ اسلام نے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کی ہے۔ اگر ہم لکھتے اور بولتے ہوئے سچ کا دامن نہ چھوڑیں تو کبھی بھی نفرت اور تعصب کے الفاظ ہماری تحریر اور الفاظ کاحصہ نہ بنیں۔
2۔ سورۃ الحجرات میں تحقیق پر زور دیا گیا ہے کہ مومنین کے پاس جب بھی کوئی خبر آئے تو وہ اُسے آنکھیں بند کر کے آگے پھیلانے کی بجائے اُس کی صداقت کو پرکھ لیں اور تحقیق کئے بغیر مواد آگے شیئر نہ کریں۔ اگر قرآن کی اس تعلیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو فیک نیوز کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اُس کی تفصیل معلوم کرنے کی نصیحت فرمائی ہے یعنی کوئی بھی کام عجلت میں نہ کریں۔ یہ عجلت ہماری زندگیوں سے نکل جائے تو سوسائٹی سے شر اور فساد ختم ہو جائیں۔
3۔ نیت کو اسلامی تعلیمات میں بڑی مرکزیت حاصل ہے۔ ہمارے علماء، مبلغین، واعظین اور صحافی حضرات کو لکھتے اور بولتے ہوئے نیت کو درست رکھنا چاہیے، اس لئے کہ ردعمل؛ عمل کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے۔
4۔ اسلام نے فساد فی الارض کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ یہ سوسائٹی کے امن اور اتحاد و یکجہتی کی فضا کو برباد کرتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران کو ایسی معلومات وائرل کرنے سے گریز کرنا چاہیے جس سے سوسائٹی کا امن برباد ہو اور باہمی اتفاق و اتحاد کی فضا مکدر ہو۔
5۔ اسلام نے شدید الفاظ میں غیبت کی مذمت اور حوصلہ شکنی کی ہے۔ ہم تجزیے اور تبصرے کے نام پر جب کسی فرد، تحریک، جماعت یا گروہ پر ناکافی معلومات کی بنیاد پر تہمت لگاتے ہیں اور بلاجواز تبصرے کرتے ہیں تو وہ غیبت میں آتے ہیں۔ غیبت باہمی اتحاد و اتفاق اور اُمت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہمیں اپنی معلومات کو غیبت سے پاک رکھنا چاہیے۔
6۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے بہتان ایک بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ ہمارے واعظین اور صحافی حضرات اگر اپنے افعال ومعاملات اور معمول کی گپ شپ کو بہتان سے پاک کر لیں تو اس کے انفرادی اور اجتماعی زندگی پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بہتان سے بچنے والے شرمندگی اور محاسبے سے بھی بچے رہتے ہیں۔
7۔ قرآن مجید نے فہم و بصیرت سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ لہذا سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کے لئے تنقیدی سوچ کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔
8۔ اسلام نے محاسبۂ نفس پر بہت زور دیا ہے، ہر شخص کو آخرت میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، اس جواب دہی میں وہ سارے اُمور شامل ہیں جو ہم ارادتاً یا غیر ارادی طور پر انجام دیتے ہیں۔ اس جواب دہی میں وہ تمام باتیں بھی شامل ہیں جو ہم دوسروں کے بارے میں تبصرے کے نام پر کرتے رہتے ہیں۔ اگر محاسبۂ نفس میں کامیابی حاصل کر لیں تو سوسائٹی حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن جائے ۔
9۔ اللہ کی ناراضی کے خوف سے ہمہ وقت ڈرتے رہنا تقویٰ ہے۔ جب تقویٰ کسی انسان کے اخلاق اور کردار کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر ناسمجھی میں بھی اُس کی زبان، اس کے ہاتھ اور پاؤں برائی سے بچے رہتے ہیں ۔
10۔ امربالمعروف و نہی عن المنکرمصطفوی تعلیمات کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ اگر کوئی شخص اس امر کی نیت باندھ لے کہ اُس نے نیکی کا حکم دینا ہے اور برائی سے روکنا ہے تو مذکورہ بالا تمام نفسی عوارض سے وہ محفوظ و مامون ہو جائے گا۔
11۔ ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے، اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی اللہ سے معافی مانگی جائے اور عاجزی اورانکساری اختیار کی جائے۔ جس سوسائٹی کے اندر محاسبہ نفس کا رواج ہوگا وہاں کبھی بے چینی اور بدامنی نہیں ہوگی۔
12۔ انسان کو معاشرے میں نفرت، تعصب اور خوف پھیلانے سے بھی رکنا ہو گا۔ اسی صورت سوسائٹی جنت نظیر بن سکتی ہے۔
معاشرے میں ہر سطح پر رائج فتنہ و فساد بالخصوص موجودہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلنے والے منفی پہلوؤں کے قلع قمع، ان کی اصلاح اور اسلامی تعلیمات و اقدارکے فروغ کے لئے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور جملہ قیادت مصروفِ عمل ہے۔ تحریک کی جملہ سرگرمیو ں اور تعلیمی و تربیتی مساعی کا مرکز نوجوان ہیں۔ منہاج القرآن واحد تحریک ہے جو تضادات کو ابھارنے کی بجائے امن و محبت کے دیپ روشن کررہی ہے اور بکھری ہوئی اُمت کو کتاب و سنت کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے کردار و اخلاق کی تعمیراور مصطفوی معاشرہ کی تشکیل کے لئے قرآن و سنت سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کردار و اخلاق کی تعمیر اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شہرۂ آفاق کتاب’’ حُسنِ اعمال ‘‘ کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔