عصرِ حاضر میں اخلاقی انحطاط معاشرے کو بہت تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی ہر آئے دن روحانی و اخلاقی اعتبار سے گراوٹ کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس اخلاقی انحطاط کے انسداد کے بہت سے حل ہیں مگر سب سے بنیادی اور اہمیت کا حامل حل ’’ایمان‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔ ذیل میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اخلاقی انحطاط کے تدارک میں ایمان کی اہمیت اور کردار کو واضح کیا جا رہا ہے:
افراد اور معاشروں کی اصلاح بغیر کسی اُصول و ضابطہ کے محض اتفاقات کے تھپیڑوں سے نہیں ہو جایا کرتی بلکہ اس کے لیے واضح لائحہ عمل درکا ر ہو ا کرتا ہے۔ جو لوگ گرنے کے بعد سنبھلنے اور زوال کے بعد عروج کے آرزو مند ہوتے ہیں، وہ اپنے سامنے تربیت کا ایک ٹھو س پروگرام اور عزمِ مصمم رکھتے ہیں، جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر رفعت و سربلندی کا کوئی مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جسے قرانِ مجید میں بڑے دو ٹوک انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.
(الرعد، 13: 11)
’’ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘
لیکن اپنی حالت کو بدلنے والا کام بہت مشکل ہے۔ دریاؤں کے رُخ بدلنے آسان ہیں، زمین کا سینہ شق کرنا، پہاڑوں کے جگر چیرنا اور طوفانوں کا رُخ موڑ دینا آسان ہے لیکن قلوب و نفوس میں تبدیلی اور طبائع کی اصلاح کہیں زیادہ دشوار ہے۔ تاہم یہ کا م ناممکن نہیں ہے۔ اس مشکل کو آسان بنانے والی قوت ایک ہی ہے اور اُس کا نام ہے۔ ۔۔ایمان۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کی تربیت و اصلاح کا ایک وقت معین ہوتا ہے یعنی عہدِ طفولیت۔ اگر یہ وقت گزر جائے تو پھر تکوینِ عادات اور تہذیب اخلاق کی کاوشیں بے سود ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا، بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے، وہ بھی اُس کے اصلاح و بگاڑ کا بہت حد تک ذمہ دار ہوتا ہے اور آدمی بالعموم اُسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ لیکن یہاں جس قوتِ ایمانی کا ذکر کیا جارہا ہے اُس کی معجزنمائی اور کارفرمائی ہر حال میں مسلّمہ ہے۔ خواہ آدمی عمر کے کسی بھی حصہ میں ہو اور اُس کا ماحول اور اردگرد کے حالات اُس کی تبدیلی کی راہ میں کتنی ہی بڑی دیوار بن کر کھڑے ہوں لیکن ایمان کی ایک لہر ہی اُس کے دل و دماغ کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔
اس نکتے کی وضاحت کے لیے تاریخ کے اوراق سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں صرف دربارِ فرعون سے وابستہ جادوگروں کی قلبِ ماہیت کے ایک واقعہ پر اکتفا کیا جارہا ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰe کا مقابلہ کرنے کے لیے جادوگروں کو طلب کیا تو انھوں نے حضرت موسیٰe پر غالب آنے کی صورت میں ایک بڑے انعام کی تمنا رکھی مگر جب وہ حضرت موسیٰe کے مقابلے میں مغلوب ہوگئے اور شکست کھاگئے تو وہ حضرت موسیٰe پر ایمان لے آئے۔ ایمان لانے سے قبل وہ انعام و اکرام کے لالچی تھے مگر جب ایمان نے اُن کے دل و دماغ میں گھر کر لیا ہے تو اب وہ اُسی فرعون کے سامنے سینہ تان کر کہتے ہیں:
قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآئَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا. فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا.
(طٰهٰ، 20: 72)
’’(جادوگروں نے) کہا: ہم تمہیں ہرگز ان واضح دلائل پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے پاس آچکے ہیں، اس (رب) کی قسم جس نے ہمیں پیدا فرمایا ہے۔تو جو حکم کرنے والا ہے کر لے، تُو فقط (اس چند روزہ) دنیوی زندگی ہی سے متعلق فیصلہ کرسکتا ہے۔‘‘
چند لمحوں میں سیرت اور کردارمیں اتنی بڑی تبدیلی کیسےآئی۔۔۔؟ صرف ایمان کی بدولت !
ایمان بحیثیت اساسِ اخلاق
نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ایک مخفی قوت موجود ہوتی ہے جسے نہ خوردبین سے دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی علم الطبیعیات اُ س کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس کا کام فرائض و واجبات کی طرف انسان کی رہنمائی کرنا ہے اور خیر و فلاح کی طرف اُسے مائل رکھنا ہے، جیسے مقناطیس (Magnet) قطب نما (Compass) کی سوئی کو کھینچے رکھتا ہے۔ نیز یہ قوت اُسے شروفساد سے بچاتی ہے جیسے باب بیٹے کو یا اُستاد اپنے شاگرد کو غلط حرکات سے بچاتا ہے۔ یہ باطنی قوت جو تاریکی میں روشنی کا کام دیتی ہے، فضائل پر آمادہ کرتی اور رذائل سے باز رکھتی ہے، معروف کا حکم دیتی اور منکر سے منع کرتی ہے، علم الاخلاق کے ماہرین اسے ضمیر اور وجدان سے تعبیر کرتے ہیں اور اسلام نے اسی کا نام ’’ القلب‘‘ (دل) رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے جب ایک شخص نے نیکی اور گناہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
استفت قلبك واستفت نفسك. البر ما اطمأنت إليه النفس واطمأن إليه القلب والإثم ما حاك في النفس وتردد في الصدر وإن أفتاك الناس وأفتوك ثلاثا.
(مسند أبی يعلى، 3: 161)
’’اپنے دل اور اپنے نفس سے پوچھ۔نیکی وہ ہے جس پر تیر ا دل اور نفس مطمئن ہوں اور گناہ وہ ہے جو تیرے نفس میں کھٹکےاور دل میں شبہ پیدا کرے، اگر چہ تو لوگوں سے فتویٰ لے چکا ہو اور وہ تین مرتبہ تجھے فتویٰ دے چکے ہوں۔‘‘
چنانچہ قلب یا ضمیر اخلاق کا بنیادی ستون ہے۔ اس کے بغیر اخلاق کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے۔ زندہ ضمیر اخلاق کی تعمیر و تشکیل کا باعث بھی ہوتا ہے اور ایک مستعد دربان کی طرح اُس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
کوئی معاشرہ محض قوانین اور آئینی ضوابط کے بل بوتے پر یا پولیس اور فوج کی قوت و طاقت کے ذریعے تنظیم و ترقی اور سعادت و خوش بختی کی منزل سے ہمکنا ر نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون ایک طاقت ہے ا ور اجتماعی زندگی کا نظام چلانے کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن انسانی زندگی پر پوری طرح یہ اس لیے حاوی نہیں کہ اس کا تعلق صرف ظاہر سے ہوتا ہے، باطن سے نہیں۔ نیزیہ اُمورِ عامہ سے بحث کرتا ہے اور خاص حالات کا اس میں لحاظ نہیں رکھا جاتا۔پھر قانون میں یہ سقم بھی ہے کہ وہ مجرم کو سزا دیتا ہے مگر محسن اور نیکو کار کے صلہ کا کوئی اہتمام نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں قانون کی گرفت سے لوگ حیلے بہانے کے ذریعے بچ جاتے ہیں اور قانون میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کا کما حقہ تعاقب کر سکے۔
یہی حال فلسفۂ اخلاق کا ہے۔ کوئی اخلاقی فلسفہ خواہ اُسے کتنے ہی عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیاہو، کسی معاشرے کے چند افراد کو تو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے لیکن پورے معاشرے کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کر سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ہر فلسفی کا اپنا فلسفہ اخلاق ہوتا ہے اور ظاہر ہے اُس میں انسانی سطح پر جو فکری لغزشیں پائی جاتی سکتی ہیں، اُن کا پورا امکان موجود ہوتا ہے۔
چنانچہ معاشرے کی تہذیب و اصلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے بیدار ضمیر اور زندہ قلوب کا وجود بہت ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اخلاق کی نشو و نما اور ارتقاء میں ضمیر کا اس حد تک عمل دخل ہے تو خود ضمیر کی تخلیق کا راز کس چیز میں مضمر ہے؟
ضمیر کی تخلیق و تعمیر میں ایمان کا کردار
ضمیر کی تعمیر و تخلیق میں ایمان بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسے زندگی عطا کرنے، اس کی آواز کو زیادہ مؤثر بنانے اور ہر قدم پر اس کی محرک اور فعال حیثیت بر قرار رکھنے کے لیے ایمان ناگزیر ہے۔ اللہ پر ایمان انسان کے اندر یہ اعتقاد راسخ کر دیتا ہے کہ وہ جہاں بھی ہو اللہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے اورسفر و حضر اور خلوت و جلوت میں اللہ سے اُس کی کوئی کیفیت چھپی نہیں رہ سکتی۔ اُس کے پوشیدہ اعمال اور ظاہری حرکات و سکنات ہر ایک سے اللہ پوری طرح باخبر ہے۔
ایمان باللہ کے بعد انسانی ضمیر کو جو چیز مزید سنوار اور نکھار دیتی ہے وہ یومِ آخرت پر ایمان ہے۔ یومِ آخرت پر ایمان دراصل اس حقیقت کا شعور ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہے، ہر اچھے عمل کی جزا ملے گی اور ہر بُرائی کا خمیازہ بُھگتنا ہو گا۔ اُس وقت اُس کی زندگی کے ہر لمحہ کی تفصیل اُس کے سامنے رکھ دی جائے گئی۔
حیاتِ انسانی کا یہ سارا ریکارڈ جسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے پوری جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ مرتب کیا ہو گا اور جس کے مطابق اُس سے مواخذہ و محاسبہ کیا جائے گا، ایک ایسی نا قابلِ تردیددستاویز ہو گی جسے جھٹلایا نہیں جا سکے گا، یہ احساس قلب کی زندگی کا ضامن اور ضمیر کی بیداری کا باعث ہوتا ہے۔
اللہ کے بارے میں یہ اعتقاد اور یومِ آخرت پر اس نوعیت کا ایمان ہی انسان کو ہر آن اللہ کی نگرانی کا احساس دلاتا ہے اور اپنے نفس کے محاسبہ پر مجبور کرتا ہے۔ چنانچہ وہ کھلی آنکھوں سے اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیتا ہے، نتائج و عواقب پر نظر رکھتا ہے، ظلم و ستم اور خیانت و بد عہدی جیسے اعمال سے پرہیز کرتا ہے، اپنے فرائض کو خوش اُسلوبی سے بجا لاتا ہے ا ور دوسروں کے حقوق خوش دلی سے ادا کرتا ہے۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کے محاسبے کا خوف ہو اور نہ ہی چھپ کر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں اُسے ندامت لاحق ہو سکتی ہو۔ خدا کے حاضر و ناظر ہو نے کا کامل یقین اُسے راهِ راست سے ہٹنے اور اخلاقی انحطاط کا شکا ر ہونے سے بچاتا ہے اور اگر کبھی وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر یا بے دھیانی و لاعلمی میں کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو احساس ہونے پر توبہ و استغفار اور دیگر ذرائع سے اُس کا مداوا کرتے ہوئے دوبارہ راست روی پر گامزن ہو جاتا ہے۔
ضمیر بلا ایمان کی حقیقت
جو لوگ ایمان کی نفی کر کے فلسفہ اخلاق کی عمار ت کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں، اُن کا مؤقف یہ ہے کہ تربیت اخلاق کے لیے ضمیر اپنی مجرد حیثیت میں با لکل کافی ہے اور اس مقصد کے لیے دین و ایمان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر اُن کے خیا ل میں اخلاقی تصورات انسانی ضمیر میں فطری طور پر موجود ہوتے ہیں اور انسان ایمان کی غیر موجودگی میں بھی اخلاقِ حسنہ پر کار بند رہ سکتا ہے۔
اس دعوٰی میں جزوی صداقت موجود ہے۔ قرآنِ مجید کے بقول انسانی فطرت میں نیکی و بدی اور خیروشر میں امتیاز کی صلاحیت فطری اور جبلی طور پر رکھ دی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا.
(الشمس، 91: 8)
’’پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایمان سے محروم لوگوں کے ہاں بھی اخلاقِ حسنہ کے کچھ مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں۔ تاہم یہ چند ایک مستثنیات ہیں جو بڑی قلیل تعداد میں اور وہ بھی محدود دائرے میں ہیں۔ عمومی اور اُصولی قاعدہ یہی ہے کہ رہنمائی کے قابل ضمیر صرف وہی ہوتا ہے جس نے ایمان کی روشنی سے جلا پائی ہو، جسے تعلیماتِ دین نے مسائلِ حیات کا مکمل شعور بخشا ہو، جو حلال و حرام سے پوری طرح باخبر ہو اور خطاء و صواب میں امتیاز کر سکتا ہو۔ جس کی آواز ہر حال میں صداقت پر مبنی ہو اور جو ہر قیمت پر اُصولوں کی پاسبانی کرتا ہو۔ یہ سارے اوصاف اُسی ضمیر کے ہیں جو نورِ ایمان سے منور ہو۔
جہاں تک نورِ ایمان سے محروم ضمیر کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تاریخ کی یہ واضح شہادت موجود ہے کہ ہر دور میں دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے لوگ ضمیر کی آواز کو سنتے رہے ہیں مگر اُن کے قلوب و ضمائر کبھی ہم آہنگ نہیں پائے گئے حالانکہ محاسنِ اخلاق کی عمارت تو اُن عالمگیر سچا ئیوں پر قائم ہونی چاہئے جو زمان و مکاں کے تغیر و تبدل سے ماوراء ہوں مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک زمانہ کے لوگ ایک چیز کو عین عدل اور سراپا خیر سمجھتے ہیں مگربعدکے کسی دور میں اُسی چیز کو عدل کے منافی اور خیر سے محروم قرار دے دیا جاتا ہے۔
اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے اہلِ عرب کا رہن سہن، پسند و نا پسند اور صحیح و غلط کا معیار کچھ اور تھا۔ وہ شراب و قمار کے دلدادہ تھے، حرام خوری او ر حرام کاری سے اُن کی طبیعت میں کراہت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اپنی معصوم بچیوں کو زندہ درگور کردینا بھی اُن کے نزدیک کوئی بُرا کام نہیں تھا، عورتوں پر ظلم و ستم کرنا، یتیموں کا مال کھانا اور معمولی سی بات پر قتل و غارت گری پر اُتر آنا، اُن کے روزمرہ کے مشاغل تھے۔ ان تمام اعمالِ قبیحہ کا ارتکاب د ن رات کرنے کے باوجود اُن کا ضمیر کبھی ملامت نہ کرتا تھا۔ مگر یہی لوگ جب اسلام کے دامن سے وابستہ ہوگئے اور دینِ فطرت کی تعلیمات کو جذب کرنے لگے تو اُن کی زندگیوں کارنگ ہی بدل گیا۔ اُن کے جائز ناجائز اور خیروشر کے پیمانے پہلے سے بالکل مختلف ہو گئے اور اب اُن کے ضمیر کی آواز بھی وہ نہیں تھی جسے وہ پہلے کبھی سنا کرتے تھے۔
صدائے ضمیر کا یہ اختلاف اس حقیقت کے اثبات کے لیے کافی ہے کہ ضمیر اپنی مطلق حیثیت میں فضائلِ اخلاق اور اعمالِ حسنہ کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ بلاشبہ ضمیر ایک فطری قوت ہے اور ایک ملکہ تمیز سے عبار ت ہے مگر اس ملکہ کو معصوم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لہذا ضروری ہے کہ ضمیرِ انسانی کو کسی ٹھوس اورپائیدار حقیقت سے مربوط اور منسلک کر دیا جائے۔ ایسی حقیقت جو معصوم ہو اور ہر شائبہ عیب و خطا سے پاک ہو۔ وہ حقیقت صرف دین و ایمان ہی ہو سکتی ہے جس کا منبع و سرچشمہ عقلِ انسانی نہیں بلکہ الہامی ہدایت ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دین و ایمان کے بغیر ضمیر ایک بے معنی چیز ہے۔
ایمان کی حقیقت
ایمان سے مراد محض لسانی، ظاہری، رسمی، رواجی اور موروثی ایمان نہیں ہے جو ایک شخص کو محض مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے پر مل جاتا ہے اور اُسے قلب و باطن میں اُتارنے اور مضبوط و مستحکم بنانے میں اُس نے کوئی کوشش نہیں کی ہوتی بلکہ اس سے مراد وہ زندہ، بیدار اور شعوری ایمان ہے جو ظاہر سے گزر کر باطن میں گھر کر چکا ہواور لسانی اقدار سے آگے بڑھ کر قلبی تصدیق کے درجے کو پہنچ چکا ہو جیسا کہ ایمان مجمل کی تعریف میں اقدارِ لسانی کے ساتھ تصدیق قلبی کو بھی شامل کیا گیا ہے:
اقرار باللسان وتصديق بالقلب.
(عسقلانی، ، فتح الباري، قوله باب من جاهد نفسه في طاعة الله عز وجل، 11: 339، رقم:6135)
چنانچہ حقیقی ایمان وہی ہے جو انسان کے رگ و ریشے میں اس طرح رچ بس جائے کہ اُٹھتے بیٹھتے زبان سے اُسی کا اظہار ہو اور ایسی تصدیق کہ اُس کے متعلق دل میں شک و تردد کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہے۔ یہی اقدار و تصدیق انسان کے افکار و نظریات کی صورت گری کرے، اسی کے سانچے میں اُس کے جملہ اعمال و افعال ڈھل جائیں اور زندگی کی تمام سرگرمیوں میں ایمانی نظریات کا رنگ جھلکتا ہو ا دکھائی دے۔
ایمان کس طرح عمل کو مستلزم ہے اس کا اندازہ ذیل کی حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:
الإيمان بضع وستون شعبة والحياء شعبة من الإيمان.
(بخاری، کتاب الایمان، باب أمور الإيمان وقول الله تعالى ليس البر أن تولوا وجوهكم...، 1: 12، رقم: 9)
’’ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور حیاء بھی ایمان کا حصہ ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
من احب للہ وابغض للہ واعطی للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان.
(سنن ابی ابوداود، 4: 220، رقم: 4681)
’’جس نے اللہ کی خاطر ہی کسی سے محبت کی اور اللہ کی خاطر ہی کسی سے نفرت کی اور اللہ کی خاطر ہی کسی کو دیا اور اللہ کی خاطر ہی کسی کو نہ دیا تو اُس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‘‘
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی ایمان پوری زندگی پر اپنے نقوش مرتب کرتا ہے اور اُسے اللہ کے رنگ (صبغتہ اللہ) میں رنگ دیتا ہے۔ انسان کے افکار و نظریات، اُس کے جذبات و اطوار، حرکات و سکنات اور اعمال و افعال سب کے سب اطاعتِ الہٰی اور اللہ کی بندگی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہوتا جو دائرہ ایمان سے باہر ہو۔ یہی وہ ایمان ہے جو انسان کو اخلاق کے اعلیٰ مراتب تک پہنچاتا ہے۔ اُس کی سیر ت و کردار کی اصلاح کرتا ہے اور اُس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے اُسے مفید اور کار آمد بناتا ہے۔
گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایمان نہ تو محض زبانی دعوٰی کا نام ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر بعض حقائق کی معرفت کو حاصل کر لینے کا نام ہے بلکہ یہ تو درحقیقت ایک ایسا اخلاقی اور روحانی عمل ہے جو دل و دماغ کی گہرائیوں تک اپنا اثر و نفوذ رکھتا ہے اور انسان کے ارادہ و اختیار عقل و شعور اور وجدان الغرض ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وحی والہام کی مدد سے انسان پر حقائق کا انکشاف کرتا ہے۔ یہ انکشاف محض علم کی حد تک نہیں رہتا بلکہ ایسے محکم یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں ریب و تشکیک کا کوئی حملہ بھی اُسے متزلزل نہیں کر سکتا۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اُولٰٓـئِکَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ.
(الحجرات، 49: 15)
’’ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعوائے ایمان میں) سچیّ ہیں۔‘‘
یہ یقینی علم جو کسی انسان کو ایمان کی بدولت نصیب ہوتا ہے اُس کے دل کو ذاتِ حق کے تابع کر دیتا ہے۔ اُس کے ارادہ و اختیار کو سمع وطاعت سکھاتا ہے اور اُس کے تکبرو غرور کو خشوع و خضوع میں بدل دیتا ہے اور بالاخر گوشت پوست کا یہ مجسمہ تسلیم و رضا کا پیکر بن جاتا ہے۔ اس کے بعد معرفتِ حق انسان کے اند ر حرارتِ عمل پیدا کرتی ہے اور عقیدہ و ایمان کے مقتضیات کی تکمیل کے لیے اُسے سرگرم بنا دیتی ہے۔
ایمان اور عصرِ حاضر کے مسائل
دین و ایمان سے محروم لوگ، نام نہاد قسم کے دانشوار اور جدید سیکولر ذہن کے حاملین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مذہب کی تعلیمات صدیوں پرانی ہیں جو جدید دور کے مسائل کو حل نہیں کر سکتیں۔ زندگی اور اُس کے مسائل بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور ایمان کے پاس اُن کا شافی حل نہیں ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔اس لیے کہ مسائل بھی وہی ہیں جو ہزاروں سال پہلے تھے اور اُن کے حل کے لیے نسخہ بھی وہی کار آمد ہے جو صدیوں کا آزمودہ ہے .بقول علامہ اقبالؒ ؎
زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری ہے مقصد جدید و قدیم
زندگی کے مسائل جو آج سے صدیوں پہلے تھے، وہی آج بھی فکرِ انسانی پر تسلط جمائے ہوئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج یہ مسائل نئے رنگ میں سامنے آئے ہیں نیز اُن کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے بھی انسان کو امن کی ضرورت تھی اور آج بھی انسان اس کا شدت سے ضرورت مند ہے۔۔۔ آفاتِ ارضی و سماوی، دکھ، تکلیف اور بیماریاں پہلے بھی انسانوں کو لاحق تھیں اور آج بھی ہیں۔۔۔ انسان ایک دوسرے کے حقوق پر پہلے بھی ڈاکہ ڈالتاتھا اور آج اس تہذیب و تمدن کے روشن دور میں بھی ڈاکہ زنی عام ہے۔۔۔ جھوٹ، مکر و فریب، وعدہ خلافی و بد عہدی جیسے اوصافِ رذیلہ اُس زمانے میں بھی انسان کے لیے مُضر تھے جب وہ اُونٹوں اور گدھوں پر سواری کرتا تھا اور آج بھی جب کہ وہ کاروں اور جیٹ طیاروں میں سفر کرتا ہے۔۔۔ ظلم و ستم، انسانوں کا انسانوں کے ہاتھوں استحصال پتھر کے زمانے میں بھی ہوتا تھا اور آج ایٹم بم کے دور میں بھی حق تلفی اور استبداد کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ ۔۔ خدا کے خوف سے عاری اور انبیاء و رسل علیہم السلام کی تعلیمات سے انحراف کرنے والے لوگوں کی پہلے بھی کمی نہ تھی اور آج بھی کمی نہیں ہے۔۔۔ مرد و عورت اور فرد و معاشرہ کے مابین تعلقات میں عالمِ انسانی افراط و تفریط کا شکار پہلے بھی رہا ہے اور آج بھی ہے۔
پس جب زندگی کے مسائل اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہی پرانے ہیں تو اُن کے حل کیلئے نسخہ کیمیا بھی وہی کا ر آمد ہو سکتا ہے جس نے چودہ صدیاں پہلے عرب کے بگڑتے لوگوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی اور اخلاقی انحطاط کی پستیوں میں گرے ہوئے معاشرہ کو اخلاقی کمال کے اُس مقام پر پہنچادیا تھا کہ وہ معاشرہ امامتِ عالم کی قیادت کے منصب پر فائز ہو گیا۔