ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ.
(آل عمران، 3: 19)
’’بے شک دین الله کے نزدیک اسلام ہی ہے اور اہلِ کتاب نے جو اپنے پاس علم آ جانے کے بعد اختلاف کیا وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا۔‘‘
آج کے دور میں خواص، عوام، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات اور کم تعلیم یافتہ عامۃ الناس خواتین و حضرات تمام کے لیے اسلامی عقائد کے وہ تمام لازمی پہلو جاننا ضروری ہیں جن کے حوالے سے اذہان میں بہت سی غلط فہمیاں، اشکال اور مغالطے پائے جاتے ہیں۔ ان مغالطوں اور اشکالات کے اندھیرے میں جب لوگ پریشان رہتے ہیں اور صحیح رہنمائی کے طلبگار ہوتے ہیں تو وہ ان اعتقادی امراض کے علاج کے لیے مختلف طبیبوں اور معالجوں کے پاس جاتے ہیں مگر انھیں یہ سمجھ بھی نہیں ہوتی کہ جس کے پاس ہم جارہے ہیں، وہ اس مرض کے علاج کے لیے کامل طبیب ہے یا نہیں۔۔۔؟ کامل طبیب کی پہچان کے پیمانہ سے بھی لاعلمی کے سبب بہت سی پریشانی لوگوں کے ذہن میں جنم لیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلامی عقائد، اصول اور فروع کے باب میں اگر غلط فہمیاں پیدا ہوں، اختلافات جنم لیں اور لوگوں میں حق اورباطل، درست اور غلط، صحیح اور سقیم میں امتیاز کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو وہ کیا کریں۔۔۔؟ عام طرزِ عمل اور رائج نظام یہ ہے کہ لوگ اس سلسلہ میں مختلف لوگوں اور ان اہلِ علم کے پاس جاتے ہیں، جن پر اُنھیں اعتماد ہوتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ بہت سی جگہوں سے اُنھیں مختلف جواب ملیں اور ہر کوئی ایک جدا دلیل پیش کردے۔ عامۃ الناس کے پاس چونکہ اتنی صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ وہ تعین کرسکیں کہ پیش کی جانے والے دلیل میں سے قوی اور ضعیف دلیل کون سی ہے؟ نتیجتاً مغالطے، اختلافات اور غلط فہمیاں اپنی جگہ موجود رہتی ہیں۔ مسئلہ بتانے والا عالم، امام، خطیب یا رہنما؛ اس مسئلہ کی درست تعبیر اور تشریح کرتے ہوئے صحیح حکم صادر کر رہا ہے یا غلط۔۔۔؟ عام سادہ لوح مسلمانوں میں علم نہ ہونے کے سبب اس فرق کو جاننے کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی، لہذا وہ دین کے باب میں مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔
مختلف اہلِ علم کی طرف سے عامۃ الناس کو ملنے والے جوابات اور فتاویٰ میں اختلاف معمولی نوعیت کا نہیں ہوتا بلکہ ان تمام کے جوابات باہم متضاد ہوتے ہیں۔ کئی اسے عینِ ایمان قراردیتے ہیں تو دوسری طرف اسے عینِ کفر اور شرک قرار دیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں ایک عام مسلمان، ایک طالبِ علم اور ایک طالبِ ہدایت پریشان پھرتا رہتا ہے کہ وہ کس کی بات کو درست تسلیم کرے اورکس کی بات کوغلط قرار دے۔۔۔؟
لہٰذاضروری ہے کہ اس امرکے تعین کے لیے ہم ابتداء میں ایک اصول اور قاعدہ مقرر کریں کہ غلط اور صحیح میں امتیاز کا پیمانہ کیا ہوگا۔۔۔؟ جب دنیا کے ہر علم و فن کے قاعدے، اصول اور فارمولے ہیں تو اسلامی عقائد اور قرآن و سنت کے احکام کی تشریحات کے باب میں قاعدہ اور ضابطہ کیوں نہیں ہوگا۔۔۔؟ یہ پیمانہ اور اصول و ضابطہ موجود ہے مگر اسے جاننے کے لیے ہم نے کبھی محنت نہیں کی اور بالعموم علمائے کرام نے بھی اس methodology پر توجہ دینے، لوگوں تک اسے پہنچانے اور سمجھانے کے مضمون کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔
میں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حضور نبی اکرم ﷺ کے نعلین پاک کے تصدق سے اولاً اسی پیمانے، اصول اور ضابطہ کو واضح کروں گا اور پھر بعد ازاں توحید، رسالت اور دیگر عقائدِ صحیحہ کو بالترتیب بیان کروں گا۔ اگر ہم عقائدِ صحیحہ اور عقائد باطلہ میں امتیاز پیدا کرنے کے لیے methodology کو سمجھ جائیں تو عقائدِ صحیحہ کی تمام ابحاث کو سمجھنے کا پچاس فیصد کام مکمل ہو جائے گا۔
عقائد میں صحیح اور غلط کے تعین کے پیمانہ کو جاننا کیوں ضروری ہے؟
عقائد میں صحیح اور غلط کے تعین کے پیمانے، اصول اور ضابطہ کو جاننا کیوں ضروری ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ دودھ میں پانی کی مقدار کو جاننے کے لیے لیکٹومیٹر (Lactometer) استعمال کیا جاتا ہے۔ دودھ کے اندر لیکٹومیٹر ڈالیں تو وہ کتنا ڈوبتا ہے اور کس گریڈ پر آکر کھڑا ہوتاہے، اس سے خالص دودھ اور پانی کی مقدار معلوم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح عقائدِ صحیحہ کو جاننے کے لیے بھی ایک پیمانہ موجود ہے جس سے عقائدِ صحیحہ نکھر کر سامنے آجاتے ہیں اور ان میں التباس اور ملاوٹ کی حقیقت بھی معلوم ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں کے عقائد خالص دودھ کی طرح ہیں اور بعض کے عقائد میں ایک تہائی پانی کی ملاوٹ ہے، بعض میں آدھا پانی ملا ہواہے اور بعض میں ایک چوتھائی دودھ ہے تو تین حصے پانی ملاہواہے اور پانی بھی بعض کا گدلا ہے۔
یاد رکھیں کہ عقائدِ اسلامیہ اور عقائدِ صحیحہ کے باب میں اللہ رب العزت نے ایسا نہیں کیا کہ ہماری مرضی پر چھوڑ دیا کہ جس کے جی میں جو بات آئے وہ اُسی کو قبول کرلے اور جو من کو پسند نہ ہو، اُس کو رَد کردے۔ کون سا عقیدہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔۔۔؟ کس عقیدے میں کتنی خالصیت اور کتنی ملاوٹ ہے۔۔۔؟ کس عقیدے میں کون سی تعبیر غلط اور کون سی تشریح درست ہے۔۔۔؟ کسے قبول کیا جائے اور کسے رد کیا جائے۔۔۔؟ بہر صورت اس کی methodology دینِ اسلام کی تعلیمات کے اندر موجود ہے۔
آج کل بالعموم پوری دنیا میں اور بالخصوص پاکستان میں بدقسمتی سے سب سے بڑا مظلوم ’’دین‘‘ ہے۔ ہر شخص جو اَن پڑھ بھی ہے اور کسی مدرسہ میں ایک بھی دن نہیں گیا، وہ بھی عالم اور مفتی ہے۔ اس سے بھی کوئی مسئلہ پوچھیں تو وہ بیان کر دیتا ہے کہ میرے خیال میں یہ بات اس طرح ہے۔ اسی طرح پاکستان کا ہرشخص سیاست دان بھی ہے، سیاست کی جو بات بھی اس سے پوچھیں وہ آپ کوجواب دے گا، ہر شخص معیشت دان بھی ہے اور پاکستان کے معاشی مسائل کا حل بھی بیان کردے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں ہر آدمی سب کچھ ہے۔ ہر مسئلہ پر وہ اپنی رائے اور ماہرانہ تجویز دینے کے لیے تیارہے۔ یہ بدقسمتی اس لیے ہے کے قوم کو تربیت سے محروم رکھا گیاہے اور اس مظلومیت میں دین سب سے آگے ہے۔ ہر شعبۂ زندگی کا آدمی دین پر بے دھڑک گفتگو کرتاہے اور وہ سمجھتا ہے چونکہ میں مسلمان ہوں، لہٰذا دین کی ہربات پر رائے دینا، حکم لگانا، فتویٰ دینا، نکتہ نظر پیش کرنا اور اس کی تعبیر و تشریح کرنا (استغفراللہ العظیم) میرا پیدائشی حق ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان ہونے کا یہ مطلب یہ کہاں سے آگیا کہ وہ علومِ دین میں بھی ماہر ہوگیا۔ ہم عقائد، دین کی تعلیمات اور دینی ہدایات کے باب میں اصول و قواعد چھوڑ بیٹھے ہیں، جس وجہ سے ہمارا حال اس طرح کا ہو گیا ہے اور اس امر نے ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ دین کے بارے میں رائے زنی، نکتہ نظر کا اظہار اور فتاویٰ دینے کے حوالے سے ہمارا حال اس طرح ہے جیسے سائیکل کا پنکچر لگانے والا شخص موٹر سائیکل کا انجن کھول کر بیٹھ جائے تو ظاہر ہے کہ پھر موٹر سائیکل کا کیا حال ہوگا۔۔۔ جو شخص موٹر بائیک کا مکینک ہے وہ مرسڈیز کا انجن کھول کر بیٹھ جائے تو کیا حال ہوگا۔۔۔؟ گاڑی کا مکینک ہوائی جہاز کا انجن کھول لے اور کار کاڈرائیور ہوائی جہاز میں پائلٹ کی سیٹ پر جا بیٹھے تو ہم جانتے ہیں کہ کیا حال ہوگا۔۔۔؟ نفسیات کا ماہر، accountant بن کر بیٹھ جائے تو کیا حشر ہوگا۔۔۔؟ لوہار، سونے کے زیورات بنانے بیٹھ جائے تو کیا ہوگا۔۔۔؟ کیا کسی آنکھ کے ماہر ڈاکٹر کو دماغ کا آپریش کرنے اور گردے کے ماہر کو ہارٹ سرجری کرنے کی کوئی اجازت دیتا ہے؟ ہر گز نہیں دے گا۔ اس لیے کہ یہ اصول کے خلاف ہے اور جہالت اور ظلم ہوگا۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں ایسا نہیں کرنے دیتے مگر یہی کام دین کے باب میں ہر روز ہرشخص کررہاہے۔ جس شخص کی شکل دین دارانہ ہے، سر پر عمامہ ہے، ٹوپی ہے، داڑھی رکھی ہے، شرعی لباس پہنتا ہے، خطاب کرلیتاہے، امام ہے، اُس سے جو مسئلہ چاہیں پوچھ لیں، وہ آپ کو فتویٰ دے دے گا۔
کیا دین پر ہر شخص کی رائے قابلِ قبول ہے؟
ہر فن کے لیے رجال اورماہر لوگ ہوتے ہیں، ہر مضمون کی اپنی ایک خصوصیت، اصول اور قاعدہ و ضابطہ ہوتاہے۔ تعلیمی اداروں میں ہر علم و فن کے الگ الگ ماہرین اور اساتذہ ہوتے ہیں اور وہ صرف اپنے علم سے متعلقہ مضامین پڑھاتے ہیں۔ کمپیوٹر کا استاد فزکس اور کیمسٹری نہیں پڑھاتا، ریاضی والا بیالوجی نہیں پڑھاتا۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ہر علم اور فن میں تخصّص (specializations ) ہے، جب تک کوئی تخصّص کا حامل نہ ہو وہ کسی ایک خاص میدان میں ایک واضح اور حتمی رائے اور رہنمائی نہیں دے سکتا اور اگر اس سے پوچھا جائے تو وہ کہے کہ میں اس کا ماہر نہیں ہوں۔
سیدنا امام مالکؒ سے ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کے کسی ایک غزوہ کے حوالے سے سوال کیا۔ امام مالکؒ نے سوچ کر کہا کہ مجھے دو دن دو، میں اہلِ علم سے پوچھ کر تمہیں جواب دوں گا۔ امام مالکؒ جو حدیث کے بڑے امام ہیں اور امام شافعی کے استاد ہیں، اُنہوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اس لیے کہ آپ کا تخصّص علم الحدیث اور فقہ تھا۔ انھوں نے چاہا کہ وہ لوگ جو غزوات کے specialist ہیں، اُن سے پوچھ کر سائل کو صحیح رہنمائی دی جائے۔ اس شیوۂ علم کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کے زمانے میں ہر شخص اہلِ علم ہے، اس کو علم کی ’’ع ل م‘‘ کا بھی پتہ نہ ہو، وہ بھی اہلِ علم ہے۔ پہلے زمانوں میں طریقہ یہ ہوتا تھا کہ غزوات اور اسفار و واقعات پر حجت کسی اور امام کو مانا جاتا۔۔۔ تفسیر میں کسی اور کی بات حجت ہوتی۔۔۔ فقہ میں کسی اور کی بات حجت ہوتی۔۔۔ حدیث میں کسی اور کی بات حجت اور اتھارٹی ہوتی۔۔۔ تاریخ میں کسی اور کی بات اتھارٹی ہوتی۔ گویا پہلے زمانوں میں علم؛ ضابطے، قاعدے اور اصول کے مطابق رواں دواں رہتا تھا، اس لیے لوگ ہدایت پر رہتے تھے۔ افسوس کہ ہم نے سب کچھ خلط ملط کر دیا ہے اور قواعد کی دیواریں توڑ دی ہیں۔ جو آدمی آج کل سیاسی تجزیہ نگار، صحافی، سماجیات کا ماہر اور بولنے والاہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں ہرچیز کا ماہر ہوں، لہذا وہ دین پر بھی رائے دے گا اور آیات کی تفسیر بھی کرتا نظر آئے گا۔ وہ حدیث کو ضعیف کہہ کر (معاذ اللہ) کلیتاً رد بھی کردے گا۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں کہ حدیثِ ضعیف ا ور حدیثِ صحیح کیا ہوتی ہے؟
اس بات کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کریں کہ اگر کسی خاص علم و فن کے میدان میں کوئی متخصّص (specialist) ہے تو وہ کسی غیر متخصص (non-specialist) کو جو اُس میدان کا ماہر نہیں، اُسے اپنے موضوع پر بات نہیں کرنے دے گا اور کہے گا کہ تمہیں معلوم نہیں ہے، میں اس میدان کا ماہر ہوں اور میری بات حتمی ہے۔ لیکن جب اس کے سامنے حدیث، فقہ، شریعت، اصولِ حدیث، اصولِ تفسیر، عقیدہ اور اصولِ دین کی کوئی بات آجائے تووہ اس حدود میں پھلانگ کرداخل ہوجائے گا اور اس پر اپنی حتمی رائے بھی دے ڈالے گا۔ جب سے ہم نے اپنی رائے کودین بنا لیا، گمراہی عام ہوگئی ہے۔
درست اور غلط عقائد میں فرق کرنے کے پیمانے اور اصول و ضوابط کے حوالے سے یہ امر ذہن میں رہے کہ میں اصول سے مراد اساسی عقائد نہیں لے رہا، بلکہ اصول سے مراد methodology اور اس کے scientific پہلو لے رہا ہوں۔ جیسے فقہ، تفسیر اور حدیث میں اصول ہیں، اسی طرح عقیدہ درست اور غیر درست کے بارے میں بھی کچھ اصول اور ضابطے ہیں۔
امت کا 72 فرقوں میں تقسیم ہونا کس بنیاد پر ہوگا؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لم یکن في بني إسرائیل شيء إلا وهو فیکم کائن.
(ابونعیم، کتاب الفتن، 1: 38، رقم: 36)، (هندی، کنزالعمال، 11: 109، رقم: 31396)
جو کچھ بنی اسرائیل کے زمانے میں ہوا وہ میری امت میں بھی ہوگا۔ یعنی سیاسی، سماجی، معاشی اور دینی و مذہبی اعتبار سے ایسے ادوار میری امت پر بھی آئیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بَنِي إِسْرَائِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَی أُمَّهُ عَلَانِیَةً لَکَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّةً کُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمَنْ هِيَ یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْهِ وَأَصْحَابِی.
(ترمذی، السنن، أبواب الإیمان، 5: 26، 2641)
’’میری امت پر وہ کچھ ضرور آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا، جس طرح ایک جوتی دوسری جوتی کے برابر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں کے پاس علانیہ آیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو یہ حرکت کریں گے۔ بنی اسرائیل بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت کے تہتر (73) فرقے ہوں گے، ایک کے سوا باقی سب جہنمی ہوں گے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ نجات پانے والے کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو میرے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے راستے پر ہوں گے (یعنی اہل سنت و الجماعت)۔‘‘
یاد رکھ لیں کہ جہنم میں جانے کایہ مطلب نہیں کہ وہ 72 فرقے کفارو مشرکین ہوں گے اور دائمی جہنم میں رہیں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ کے الفاظ ادا فرمائے ہیں اور انھیں فرقوں میں بٹ جانے کے باوجود اپنی امت ہی قرار دیا ہے۔ یہ فرقے دراصل عقائد میں اختلاف کی وجہ سےمعرضِ وجود میں آئیں گے اور اس گمراہی کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے لیکن بعد ازاں آپ ﷺ کے ارشاد گرامی:
مَنْ قَالَ لَا إلٰهَ إلَّا الله دَخَلَ الْجَنَّۃَ.
(حاکم، المستدرک، 4: 279، الرقم: 7638)
کے مصداق، اگر اُن کا عقیدہ توحید و رسالت پر ہے تو بنیادی طور پر اپنے عذاب کا زمانہ بھگت کر بلآخر جنت میں جائیں گے۔ مگر وہ لوگ جو عقائد میں حد پھلانگ جائیں گے اور کفر و شرک میں چلے جائیں گے، صرف وہ ہمیشہ جہنمی ہوں گے۔
اختلافِ عقائد کی وجہ سے مختلف طبقات، فرقوں اور مسالک کا وجود میں آنا نئی چیز نہیں، آقاعلیہ السلام نے اس کی خبر دے دی۔ ان 72 فرقوں میں سے اللہ تعالیٰ کی توحید، حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت اور قرآن کو کلامِ الٰہی نہ ماننے والا کوئی نہ ہو گا۔ یہ لوگ ایسے نہیں ہوں گے کہ وہ دین اسلام کے بنیادی ارکان نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا انکار کرنے والے ہوں بلکہ درحقیقت وہ اِن بنیادی عقائد کی تشریحات اور اِن کے معانی کے تعین میں اختلاف کرنے والے ہوں گے۔ یعنی اِن کا اختلاف اس امر پر ہوگا کہ اِن احکام سے مراد کیاہے۔۔۔؟ اِن الفاظ کا معنی کیا ہے۔۔۔؟ اِن قرآنی آیات کی تعبیر کیا ہے۔۔۔؟ اِن احادیث کے معانی کا اطلاق کہاں ہوگا۔۔۔؟ الغرض اُن کے اختلافات معانی، تعبیر اور تشریح پر ہوں گے اور اس طرح مسلک اور عقیدہ بن جائے گا۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ:
کَانَ النَّاسُ یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ الْخَیْرِ وَکُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَۃَ أَنْ یُدْرِکَنِي فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا کُنَّا فِي جَاهِلِیَّۃٍ وَشَرٍّ فَجَائَنَا اللهُ بِهَذَا الْخَیْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَیْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ نَعَمْ، قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِکَ الشَّرِّ مِنْ خَیْرٍ؟ قَالَ نَعَمْ وَفِیهِ دَخَنٌ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ قَوْمٌ یَهْدُونَ بِغَیْرِ هَدْیِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْکِرُ قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِکَ الْخَیْرِ مِنْ شَرٍّ؟
دوسرے حضرات تو رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے متعلق دریافت کیا کرتا کہ کہیں وہ مجھے پا نہ لے۔ چنانچہ میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے اندر تھے، پس اللہ تعالیٰ ہمارے پاس اس خیر کو لے آیا۔ کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ فرمایا: ہاں۔ میں عرض گزار ہوا کہ کیا اُس شر کے بعد خیر ہے؟ فرمایا: ہاں، لیکن اس میں دھواں ہو گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ دھواں کیا ہو گا؟ فرمایا: کہ وہ من مانے راستے پر چلیں گے، اُن کی بعض باتیں تم پسند کرو گے اور بعض نا پسند۔ میں عرض گزار ہوا کہ کیا اُس کے بعد بھی شر ہے؟ فرمایا:
نَعَمْ دُعَاۃٌ عَلَی أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَیْهَا قَذَفُوهُ فِیهَا.
میری امت میں ایسے دعوت دینے والے، تبلیغ کرنے والے، لوگوں کو اپنے موقف، نکتۂ نظر، عقیدہ، نظریہ اور مسلک کی طرف دعوت دینے والے ہوں گے جو جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ لوگوں کو تو نظر نہیں آ رہا کہ وہ جہنم کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ لوگوں کو تو وہ دین عقیدہ اور مسلک کی دعوت مسجد کے منبر اور اجتماعات میں ہی دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی کسی نہ کسی ٹی وی چینل، سوشل میڈیا چینل، مدرسہ میں بیٹھا ہے اور دعوت دے رہا ہے، کوئی تصانیف اور کوئی تقاریر اور خطبات کے ذریعے تبلیغ کررہا ہے۔ الغرض ہر ایک کے اپنے اپنے طریقے ہیں، مگر یہ لوگ کہ جن کی حقیقت لوگوں کو نظر نہیں آرہی، یہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہیں اور جو ان کی بات مانے گا، اس کو جہنم میں ڈال دیں گے۔ یعنی وہ خود بھی اپنی گمراہی کے سبب جہنمی ہوچکے ہوں گے اور جو اُن کی دعوت پر لبیک کہے گا اور اُن کی بات، تعبیر، تشریح اور نظریہ قبول کرلے گا، اسے بھی یہ لوگ جہنم میں گرا دیں گے۔
لازمی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ بات سن کر پریشان ہوئے ہوں گے کہ داعی، مبلغ اور رہنما لوگوں کو جہنم سے بچانے کا وسیلہ بننے کے بجائے لوگوں کو جہنم میں پہنچارہے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ یہ امر ان کے ماتھے پر تو نہیں لکھا ہوا کہ وہ خود بھی جہنمی ہیں اور دوسروں کو بھی جہنم کا مستحق بنارہے ہیں۔ اس پر حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہما کو پریشانی لاحق ہوئی تو عرض کیا:
یَا رَسُولَ اللهِ! صِفْهُمْ لَنَا؟
آقا! ایسے لوگوں کی ہمیں پہچان بتادیجیے، اُ ن کی صفات بیان کریں تا کہ آپ کی امت اُن سے بچ سکے۔
حضور ﷺ نے فرمایا:
هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَیَتَکَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا.
وہ لوگ ہماری ہی جماعت سے ہوں گے اور ہماری ہی بولی بولیں گے۔ یعنی ان کا گوشت پوست، لباس، رنگ روپ ہماری طرح کا ہی ہوگا، دیکھنے میں ہماری طرح ہی لگیں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔
آقا علیہ السلام صرف اہل عرب کی بات نہیں فرما رہے، ہماری زبان سے مراد عربی میں بات کرنا نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن وسنت اور اسلام کی بات کریں گے، قرآن و حدیث کے حوالے دیں گے اور اُن کی بولی ہماری بولی جیسی ہو گی۔ اس پر حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہما نے پوچھا:
فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَکَنِي ذَلِکَ؟
اگر میں ایسا زمانہ پا لوں یا ایسا داعی مجھے ملے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟آقا علیہ السلام نے فرمایا:
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِینَ وَإِمَامَهُمْ.
’’مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے امام کے ساتھ رہنا۔‘‘
یعنی اکثریت اور اُن کے امام، رہبر اور پیشوا کا دامن تھامنا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا:
فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَهُمْ جَمَاعَۃٌ وَلَا إِمَامٌ؟
’’اگر اُن کی کوئی جماعت اور کوئی امام نہ ہو؟‘‘
یعنی وہ اکثریت اور اُن کا امام، رہبر و پیشوا نہ ملے اور اس کی پہچان نہ ہو تو پھر کیا کروں؟اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّهَا۔ وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَۃٍ حَتَّی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَی ذَلِک.
(بخاری، الصحیح، کتاب الفتن، 6: 2595، الرقم: 6673)
تم فرقوں سے علیحدگی اختیار کر لینا خواہ تمہیں کسی درخت کی جڑ ہی چبانی پڑے، یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے لیکن رہنا اسی حالت میں۔ یعنی قرآن و سنت کی طرح طرح کی تشریح کرنے والے، امت کو کافر اور مشرک بنانے والے اور تفرفہ و انتشار میں ڈال کر دھڑے بندی کرنے والے، اُن فرقوں اور اُن فرقہ بازوں سے بچ کر رہنا۔
معلوم ہوا کہ تفرقہ اور فرقے ہوں گے۔ قرآن و سنت، دین اسلام اور شریعت کی ہی بات کرنے والے ایسے ہوں گے کہ ہماری بولی بول رہے ہوں گے مگر ہر ایک عقیدہ کی تشریح و تعبیر جدا جدا کررہا ہوگا۔ یہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور دوزخ میں لے جائیں گے۔ آپ ﷺ کے اس فرمان مبارک سے اس امر کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے کہ امت میں تفرقہ ہوگا لیکن ان سے بچ کر رہنا ہے۔ آج ہم ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عقائد میں صحیح اور غلط میں امتیاز کا پیمانہ، اصول اور ضابطہ ہمیں معلوم ہوتا کہ ہم ان فرقوں سے محفوظ رہ سکیں۔
آج ہم مجموعی اعتبار سے جس صورت حال کا شکار ہیں، اس میں اس مضمون کی اہمیت اجاگر ہوجاتی ہے کہ ہم ایک methodology کا تعین کریں، ایک اصول، قاعدہ او رضابطہ جانیں اور سیکھیں، جس کے ذریعے ہم دُرست اور غلط۔۔۔ حق اور باطل۔۔۔ اور غلط دعوت دینے والے اور درست دعوت دینے والے میں تمیز کرسکیں اور جان سکیں کہ کون سا راستہ جہنم کی طرف لے جاتاہے اور کون سا جنت کی طرف۔۔۔؟ کون سا عقیدہ مبنی برحق ہے اور کون سا مبنی برحق نہیں ہے۔۔۔؟ کیونکہ قرآن و حدیث، شریعت، دین اور اسلام کی صورت میں بولی سارے ایک ہی بول رہے ہیں اور عقیدۂ صحیحہ اور باطلہ میں تمیز کرنا مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
(جاری ہے)