اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ.
(الشوریٰ، 42: 30)
’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی (کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔‘‘
آج ہم من حیث المجموع بے شمار مصائب، آلام اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ ایک مصیبت و آزمائش ختم ہوتی ہے تو دوسری مصیبت و آزمائش اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ ان حالات میں ہم جب گردونواح میں بسنے والی انسانیت کو تڑپتے، سسکتے اور بے بسی و بے کسی کے عالم میں دیکھتے ہیں تو خوف، دہشت اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان مصائب و آلام اور پریشانیوں کا سبب کیا ہے۔۔۔؟ قرآن مجید کی مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان مصائب و آلام کے سبب کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ہم اپنی بداعمالیوں کے نتیجے میں اپنے اوپر مصیبت مسلط کرلیتے ہیں۔ اللہ رب العزت تو رحیم و کریم اور عفو و درگزر کرنے والا ہے، وہ یہ نہیں چاہتا کہ میرا بندہ مصائب اور تکالیف کا شکار ہو، اسی لیے مذکورہ آیت کریمہ میں اس نے واضح کردیا کہ وہ ہماری کئی نافرمانیوں، گناہوں اور غفلتوں کو معاف فرمادیتا ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی جو گناہ بچ جاتے ہیں، ان کے سبب یہ سارے مصائب اور تکالیف آتی ہیں۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید اور حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ہمیں ان مصائب، آزمائشوں اور پریشانیوں سے نکلنے کے لیے قوانین اور ضوابط کا ایک پیکج دیا ہے، تاکہ ہم اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے مطیع اور فرمانبردار بن جائیں اور ان آزمائشوں اور مصائب سے بچ سکیں۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لایزید فی العمر الا البر ولا یردالقدر الاالدعا وان الرجل لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ.
(سنن ابن ماجہ، 2: 1334، الرقم: 4022)
اللہ رب العزت کی اطاعت اور فرمانبرداری، اس کے احکام کی بجا آوری، اوامر ونواہی کی پابندی، اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے اور نیک کاموں سے عمر بڑھتی چلی جاتی ہے۔دعا کرنے سے تقدیریں ٹل جاتی ہیں اور بے شک آدمی اپنے کسی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔
آپ ﷺ نے تنگی رزق کے مسئلہ کو حل فرمادیا اور واضح کردیا کہ رزق کی کشادگی اطاعت میں پنہاں ہے۔ گویا جب گناہ بڑھتے ہیں تو رزق محدود ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ گناہوں اور نافرمانیوں کے اثرات تو اس قدر ہیں کہ اس سے انسان کا حافظہ بھی کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جو چیز یاد کرتے ہیں، بھول جاتی ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
شکوت الی وکیع سوء حفظی فارشدنی الی ترک المعاصی
واخبرنی بان العلم نور ونوراللہ لایھدی لعاصی
(آلوسی، روح المعانی، 6: 90)
میں نے اپنے استاذ شیخ وکیع سے حافظہ کی کمزوری کا مسئلہ بیان کیا تو انھوں نے مجھے گناہوں کو ترک کرنے کی ہدایت فرمائی اور مجھے بتایا کہ علم نور ہے اور اللہ کا نور گناہ گاروں کو نہیں دیا جاتا۔
حضرت امام شافعی کو ترکِ معاصی کی نصیحت کے ضمن میں یہ امر ذہن نشین رہے کہ ’’حسنات الا1برار سیئات المقربین‘‘کے مصداق نیکوکار لوگوں کی نیکیاں، مقربین کے مقام و مرتبے کے مطابق نیکی نہیں بلکہ بعض اوقات گناہ تصور ہوتی ہیں۔ اس لیے امام شافعی اپنے مقام کے مطابق سوءِ حفظ کی شکایت کررہے ہیں اور ان کے شیخ ان کے مقام و مرتبہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھیں اس ہدایت سے نواز رہے ہیں۔
ہمارے گناہ بڑھنے کے سبب ہماری عمر اور ہمارا رزق کم ہوتا چلا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ ہم اپنے اعمال و احوال پر غور کریں اور ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں، ہم اللہ کے حضور شکوہ و شکایت کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تمام مصائب و آلام اور پریشانیاں میرے لیے کیوں ہیں جبکہ میں تیری عبادت و اطاعت بھی کرتا ہوں۔ اس حوالے سے اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ رب تو کریم اور رؤف و رحیم ہے، وہ تو مخلوق کو پالنے والا اور رب العالمین ہے، وہ ہمارا رزق کیوں محدود کرے گا۔۔۔؟ ہمیں اس جانب متوجہ ہونا ہوگا کہ ہمارے عمل، اطاعت اور عبادت و تقویٰ میں کمی کے سبب ہم اللہ کی نگاہِ کرم سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہم اپنی طرف دیکھنے کی بجائے شکوے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اس حوالے سے ہمیں چاہیے کہ ان حالات میں شکوہ و شکایت کے بجائے اپنے اعمال و احوال کی اصلاح کریں اور صبر کے ساتھ اللہ سے مدد مانگیں۔ ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.
(البقرة، 2: 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا الله صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔‘‘
ہم نے خدا کے حضور جھک کر اس کو منانا تھا، آنکھوں کو اشک بار کر کے، اپنی پیشانیوں کو اس کے حضور جھکا کر اور اپنے قلوب کو متواضع کر کے اس کے حضور پیش ہونا تھا، لیکن افسوس کہ ہم نے شکوے اور شکایت سے اس کی ساری رحمت کا رخ اپنی طرف سے پھیر دیا۔
مصائب کے حل کا قرآنی پیکج
مصائب اور پریشانیوں کے حل کے لیے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مواقع پر ہماری رہنمائی فرمائی۔ ان مقامات میں سے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ. وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللهِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللهَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا اِنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ.
(النحل: 90۔91)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔ اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالاں کہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بے شک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
اس فرمانِ الہٰی میں پریشانیوں اور مصائب کے حل کا ایک مکمل پیکج موجود ہے۔ اس کی روشنی میں ہم یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ اس کے فرامین کیا ہیں اور اس حوالے سے ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے لطف، عطا، کرم اور اس کے جودو سخا سے حصہ لینا چاہتے ہیں تو ان آیات میں مذکور درج ذیل احکام پر عمل کرنا ہوگا:
1۔ عدل وانصاف قائم کرنا
اللہ تعالیٰ ہمیں معاشرے میں عدل، مساوات اور انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر عدل کا فقدان ہوگا تو رحمت کا بھی فقدان ہوگا۔ جس طرح گناہ کی زیادتی سے عمر اور رزق کم ہوجاتا ہےاور اللہ کی لطف و عطا کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، اسی طرح عدل و انصاف کے نہ ہونے کے سبب بھی رحمت سے محرومی مقدر بنتی ہے۔ انسانی معاشرے میں قانون اور نظام عدل کے لازمی نفاذ کے بغیر غلامی، ظلم و ستم، جبر و طاغوت اور استحصال پر مبنی نظام ختم نہیں ہو سکتا۔ اگر معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو اللہ رب العزت کے حکم کے مطابق یہاں عدل و انصاف کو ہر قدم پر رواج دینا ہوگا اور عدل، انصاف اور مساوات کے قوانین کو غلامی سے بچانا ہوگا۔
لغت میں عدل کا معنی یہ ہے کہ:
وضع الشئی فی محله.
ہر شے کو اس کے محل (مقام) پر رکھنا عدل ہے۔
یعنی ظالم کو کٹہرے میں ہونا چاہیے۔۔۔ مظلوم کی داد رسی ہونا چاہیے۔۔۔ جہاں عالم کو ہونا چاہیے، وہاں عالم ہو۔۔۔ جہاں قاضی کو ہونا چاہیے، وہاں قاضی ہو۔۔۔الغرض والدین، اساتذہ اور طلبہ میں سے جو جس بھی مقام کا اہل ہے، اسے وہاں ہونا چاہیے۔ اسی طرح جہاں ایک مطیع اور فرمانبردار بندے کو ہونا چاہیے، بندہ اپنے اسی مقامِ بندگی پر رہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی ولی اللہ نے کہا تھا کہ بندہ بن، خدا نہ بن۔ یعنی بندہ اپنے مقام پر رہے۔
عدل کے حوالے سے ہم محدود تصور کا شکار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف عدالتیں ہی عدل و انصاف دینے کی پابند ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ معاشرے کے ہر طبقہ اور ہر فرد کو اپنی اپنی حیثیت میں اور اپنے اپنے مقام پر ہر صورت عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہوگا۔ جس کا جو کام اور ذمہ داری ہے، وہ اس کام کو کماحقہ سرانجام دے۔ جن کا کام تعلیم و تربیت دینا ہے، وہ اپنے اس منصب سے انصاف کریں، جنھیں منصف کے عہدہ پر بٹھایا گیا ہے، وہ کسی بھی صورت عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔۔۔ حاکم اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے عدل و انصاف سے کام لیں۔۔۔ اسی طرح والدین، طلبہ، تاجر اور معاشرے کا ہر طبقہ اگر اپنی ذمہ داریوں کے عین مطا بق اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے تو اس کا یہ عمل اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ عدل وانصاف ہوگا۔
معاشرے میں خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم overlapping یعنی دوسرے کے کاموں میں مداخلت شروع کرتے ہیں اور ان کے اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ مقننہ، انتظامیہ (administration) کو overlap کرتی ہے، عدلیہ، مقننہ کو overlap کرتی ہے، مقننہ؛ عدلیہ کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے، عدلیہ؛ انتظامی امور میں دخل اندازی کرتی ہے۔
(1) ریاستِ مدینہ کی بنیاد عدل وانصاف پر رکھی گئی
آقا علیہ السلام نے عدل و انصاف اور امن او امان پر مبنی ریاستِ مدینہ کی صورت میں ایک معاشرہ عطا کیا تھا۔ جہاں رہنے والے ہر شخص کو بلاتفریق عدل وانصاف کی ضمانت دی گئی تھی۔ آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کے آئین (میثاق مدینہ) کے دو آرٹیکلز (آرٹیکل نمبر16 اور 26) پر اس عدل وانصاف کی بنیاد قائم فرمائی۔ ان آرٹیکلز میں آپ ﷺ نے عدل کی تعریف، اس کا نظام، قواعد و ضوابط اور code of conduct (نظام العمل) بھی واضح فرمادیا۔ میثاقِ مدینہ کے آرٹیکل نمبر16 میں آپ ﷺ نے فرمایا:
وإن المؤمنين المتقين على من بغى منهم أو ابتغى دسيعة ظلم أو إثم أو عدوان أو فساد بين المؤمنين وإن أيديهم عليه جميعا ولو كان ولد أحدهم.
(ابن هشام، السیرۃ النبویہ، 3: 33)
یعنی اس ریاست مدینہ میں رہنے والے تمام تقوی شعار مومن اس شخص کے خلاف متحد ہو جائیں گے، جو سرکشی اختیار کرے گا، جو قانون شکنی کرے گا، ظلم کرے گا، گناہ پر مبنی زندگی پر اصرار کرتا چلا جائے گا، جو بدعنوانی کا ارتکاب کرے گا، جو پر امن اہلِ مدینہ کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں ایمان والوں کو میں حکم دیتا ہوں کہ اس کے مواخذہ کے لیے ریاستِ مدینہ میں رہنے والے باشندوں کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں گے۔ خواہ وہ کسی بڑے خاندان کے بڑے باپ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
آپ ﷺ نے عدل اور انصاف کے تقاضے واضح فرمادیے کہ معاشرے میں یہ روش ہوگی تو خیر ہوگی لیکن اگر بڑے بچ جائیں اور کمزور ہتھیا لیے جائیں، بڑوں اور طاقتوروں کے لیے کئی حیلے اور بہانے ڈھونڈ لیے جائیں، قانون بدل لیے جائیں تو پھر وہاں عدل، انصاف، خیر، امن اور سکون قائم نہیں ہوسکتا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس عدل و انصاف کو صرف زبانی حد تک نہ رکھا بلکہ اس کے معیار کی مثال بھی خود وضع فرمادی۔ جب ایک بڑے خاندان کی بیٹی مخزومیہ چوری کرتے پکڑی گئی اور اس پر حد جاری ہونے لگی تو لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید کو آپ ﷺ کی بارگاہ میں سفارشی بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا.
(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، 3: 1282، رقم: 3288)
’’ اے اسامہ کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد قائم کرتے لیکن بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نے بھی (چوری) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ لیتا۔‘‘
معلوم ہوا کہ طاقتوروں اور مالداروں کو اُن کے ظلم کے باوجود بچانا اور انھیں سزا نہ دینا، یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ اُس دور میں بھی جب کوئی طاقتور اور ظالم پکڑا جاتا تو اس کو بچانے والا کوئی سفارشی آ جاتا اور اسے بچا کر لے جاتا جبکہ اگر کوئی غریب پکڑا جاتا، جس کے ساتھ کسی کے مفادات نہ ہوتے اور جس کا کوئی سفارشی نہ ہوتا تو اس پر حد نافذ کردیتے۔ جس معاشرے میں ایسا عدل و انصاف ہو گا، جس کی مثال حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے قول و عمل سے قائم فرمائی، وہاں لوگوں کو رزق کی فراوانی ہوگی اور معاشرہ امن، سکون اور خوشحالی کا گہوارہ ہوگا۔
میثاق مدینہ کے آرٹیکل نمبر 26 میں آپ ﷺ نے فرمایا:
وإنه من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فإنه قود به إلا أن يرضى ولي المقتول وإن المؤمنين عليه كافة ولا يحل لهم إلا قيام عليه.
(ابن هشام، السیرۃ النبویه، 3: 33)
یعنی اگر کسی مومن کو کسی شخص نے ناحق قتل کیا اور اس کی شہادت بھی واضح ہوگی تو اس پر حد نافذ ہوگی، اس قتل کے عوض کے ساتھ قصاص واجب ہوجائے گا سوائے اس کے کہ اس مقتول کا ولی خون بہا لینے پر راضی ہو جائے۔ تمام اہلِ ایمان مل کر اس کے قصاص کی تنفیذ کریں گے۔ اس سزا کو نافذ کرنے کے سواء تم پر کچھ اور حلال نہیں ہوگا۔ یعنی سب کھڑے ہو کر اس قاتل اور ظالم کو کٹہرے میں لاؤ گے اور اس کے خلاف آواز بھی بلند کرو گے۔
(2) حکمران اور عوام کے اعمال کا باہمی تعلق
سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ عدل تو عدل نافذ کرنے والے اداروں نے کرنا ہے۔ ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے اس امر کی بھی وضاحت فرمادی کہ تمہارا فرض یہ ہے کہ تم کھڑے رہو گے۔۔۔ تم ظالم کا مواخذہ کرتے رہو گے۔۔۔ تم حق کی بات بلند کرتے رہو گے۔۔۔ تم ظلم سے نفرت کرتے رہو گے۔۔۔اور مظلوم کا ساتھ دیتے رہو گے۔
جس معاشرے سے عدل ختم ہو جائے گا، اس کا وبال اس معاشرے میں رہنے والوں پر پڑے گا۔ آج ملکی حالات کے سبب عام بندہ یہ کہتا ہے کہ ’’آج ملکی معیشت ختم ہو گئی، جینا اجیرن ہوگیا، کاروبار ختم ہونا شروع ہوگیا، وسائل محدود ہوگئے، دوائی مہنگی ہوگئی، پیٹرول مہنگا ہوگیا، الغرض ہر شے مہنگی ہوگئی، یہ سب تو حکمرانوں کی بداعمالیوں کے سبب ہے مگر ہم پر یہ مصائب کیوں۔۔۔؟‘‘ اس حوالے سے آپ ﷺ نے واضح فرمادیا کہ جب تک تم ظلم کو قبول کرتے رہو گے، ظالم کے سامنے جھکتے رہو گے اور خاموشی سے اپنے نظام کے ساتھ سمجھوتہ کرتے رہو گے تو حکمرانوں کے اعمال کا وبال اسی طرح معاشرے پر پڑتا رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
انما زمانکم سلطانکم. فاذا صلح سلطانکم صلح زمانکم و واذا فسد سلطانکم فسد زمانکم.
(البیهقی، السنن الکبریٰ، 8: 162، رقم: 16429)
بے شک تمہارے زمانے کے حالات کا دارومدار تمہارے حکمرانوں پر ہوگا۔ اگر تمہارے حکمران نیک و صالح ہوں گے تو تمہارا زمانہ بھی حالات کے اعتبار سے اچھا ہوگا۔ اگر تمہارے حکمران برے ہوں گے تو تمہارا زمانہ بھی برا ہو گا۔
حضرت ابوجلد سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
یبعث علی الناس ملوک بذنوبهم.
(ابونعیم، حلیۃ الاولیاء، 6: 59)
لوگوں پر ان کے گناہوں کی پاداش میں کرپٹ حکمران آئیں گے۔
یعنی جیسے لوگ ہوں گے، ویسے حکمران ہوں گے۔ گناہ بڑھتے چلے جائیں گے تو کرپٹ حکمران بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ اگر گناہ سے معمور زندگی بسر کریں گے تو علم، عمل، عمر، رزق سے محرومی بھی ہوگی، خدا کی نافرمانی میں بھی شمار ہوگا، خدا کی رحمت، عدل اور انصاف سے بھی محروم ہوں گے اور کرپٹ حکمران بھی مسلط ہوتے چلے جائیں گے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ
یکون علی الناس ملوک باعمالهم.
(نعیم بن حماد، الفتن، 1: 115، رقم: 264)
لوگوں پر حکمران ان کے اعمال کے عوض ہوں گے۔
یعنی جیسے اعمال ہوں گے، ویسے عُمال اور حکمران ہوں گے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ معاشرہ میں ظلم ہو رہا ہے تو یہ کہنے سے قبل ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ کیا ہم بھی کہیں اپنی حیثیت کے مطابق ظلم کے مرتکب تو نہیں ہورہے۔۔۔؟ کیا ہم اپنے گھر والوں، والدین، بہن بھائی، رشتہ دار، دوست احباب، ہمسایوں سے زیادتی تو نہیں کررہے۔۔۔؟ کیا ہم کسی کے مال پر غاصب بن کر تو نہیں بیٹھے ہوئے۔۔۔؟ کیا ہم کسی یتیم کا مال تو نہیں ہتھیا رہے۔۔۔؟ ہم صرف حکمرانوں کو ہی کیوں دیکھتے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا۔ ہم نیکوکار ہوں گے تو نیکوکار حکمران آئیں گے۔۔۔ ہمارے اعمال بھلائی پر مبنی ہوں گے تو بھلائی کرنے والے حکمران آئیں گے لیکن اگر ہمارے اعمال ظلم پر مبنی ہوں گے تو ظالم حکمران آئیں گے۔
2۔ پیکرِ احسان ہونا
مصائب اور پریشانیوں کا دوسرا حل ’’احسان‘‘ کرنا ہے۔ اللہ رب العزت نے احسان کو قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.
(البقرة، 2: 195)
’’بے شک الله تعالیٰ محسنین سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ.
(الرحمٰن: 60)
’’احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
عرف عام میں احسان بھلائی کو کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت فرمارہا ہے کہ مجھے وہ لوگ پیارے لگتے ہیں جو پیکرِ بھلائی ہیں اور جن کے ہر قول اور عمل سے بھلائی کے سوا کچھ صادر نہیں ہوتا۔ جن کا وجود، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور سننا دیکھنا تک بھلائی ہوجاتا ہے۔ گویا پیکرِ احسان اور محسن وہ شخص ہوتا ہے جس سے کسی کو نقصان، ظلم اور تکلیف نہیں پہنچتی۔ وہ سراسر پیکرِ رحمت ہوتا ہے۔۔۔ وہ جہاں قدم رکھے، وہاں خیر آ جاتی ہے۔۔۔ جس سے بات کرے، اس کے دل میں ٹھنڈک آجاتی ہے۔۔۔ نصیحت کرے تو دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ جب بندہ اس کردار کا حامل ہوجائے تو پھر اسے مقامِ احسان پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
جس معاشرے میں احسان کرنے والے بڑھ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فرمان؛ ھل جزاء الاحسان الا الاحسان کے مصداق اس معاشرے کے رہنے والوں کو ’’احسان‘‘ ہی کی صورت میں جزا دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے محبوب کے امتیوں کو احسان اور بھلائی کرتا دیکھوں گا تو میں فرشتوں کو یہ کیوں نہیں کہوں گا کہ فرشتے جاؤ، یہ احسان والے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ احسان ہی کرو۔۔۔ یہ بھلائی والے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ بھلائی کرو۔۔۔ ان کو کشادہ رزق دیتے رہو۔۔۔ ان پر خیر اور سلامتی بھیجتے رہو۔۔۔ اور انہیں امن و امان کا گہوارہ بنائے رکھو۔
3۔ صلہ رحمی
مصائب و پریشانیوں کا تیسرا حل اللہ تعالیٰ نے ’’وایتاء ذی القربیٰ‘‘ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ یعنی قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق ادا کرنا، انسان کو مصائب سے نجات دلاتا ہے۔ جس معاشرے میں صلہ رحمی ختم ہو جائے اور خونی رشتے داروں کے ساتھ قطع رحمی کے معاملات شروع ہو جائیں تو وہاں اللہ کی رحمت کا نزول بند ہو جاتا ہے۔۔۔ رزق کی تنگی کم ہو جاتی ہے۔۔۔ عذابِ الہٰی نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور لوگ مصیبت اور ابتلا میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس کے فورا بعد خونی رشتوں کو پیدا فرما یا۔ پھر اللہ رب العزت نے خونی رشتوں کو مخاطب بنا کر فرمایا کہ کیا تمہیں اس بات پر خوشی نہیں کہ میں تمہارے لیے ایک قاعدہ بیان کر دوں۔ خونی رشتوں نے کہا کہ مولا! وہ کیا ہے؟ فرمایا:
ان اصل من وصلک واقطع من قطعک.
(صحیح بخاری، کتاب الادب، 5: 2232، رقم: 5641)
جو تجھے جوڑے گا، میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا میں اسے توڑ دوں گا۔
گویا اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ جو ان رشتوں کو توڑتا ہے، میں اس سے اپنا تعلق توڑ لیتا ہوں اور جو ان رشتوں کو جوڑتا رہتا ہے، میں انہیں ہمیشہ اپنی بارگاہ سے جوڑے رکھتا ہوں۔
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا:
ان الرحم شجنۃ من الرحمن، فقال اللہ من وصلک وصلتہ ومن قطعک قطعتہ.
(صحیح بخاری، کتاب الادب، 5: 2232، رقم: 5642)
خونی رشتے اللہ رب العزت کی رحمانیت کی ایک شاخ ہے۔ پس اللہ نے فرمایا (اے خونی رشتے) جس نے تجھے جوڑا، میں اسے جوڑے رکھوں گا اور جس نے تجھے توڑ دیا، میں نے بھی اسے اپنی بارگاہ سے توڑ دیا یعنی میرا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں۔
صلہ رحمی دنیا اور آخرت میں فائدہ دیتی ہے۔ اس کا تعلق ہماری عمر، ہمارے رزق اور لوگوں سے پیار اور محبت میں اضافہ کے ساتھ بھی ہے۔ آقاعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
من احب ان یبسط له فی رزقه وینساله فی اثره فلیصل رحمه.
(صحیح بخاری، کتاب الادب، 5: 2232، رقم: 5640)
جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی آئے اور اس کی عمر میں برکت آئے تو وہ صلہ رحمی کرے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے رزق بڑھنے، عمر میں اضافے اور خیر آنے کا ایک کلیہ عطا کردیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس فرمانِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے صلہ رحمی کو اپنے اخلاق اور کردار کا حصہ بنالیں اور اپنے تمام خونی رشتہ داروں کے ساتھ ہر قسم کی ناراضگی کو ختم کردیں۔ جن کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو ان سے معافی مانگیں اور اگر اُن کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی ہے، تو انھیں معاف کردیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
يا رسول الله إن لي قرابة أصلهم ويقطعوني وأحسن إليهم ويسيئون إلي وأحلم عنهم ويجهلون علي فقال لئن كنت كما قلت فكأنما تسفهم المل ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك.
یا رسول اللہ! میرے کچھ ایسے رشتہ دار ہیں کہ میں ان کے ساتھ صلح رحمی کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں مگر وہ میرے ساتھ تعلق توڑتے ہیں، میں ان سے بھلائی کرتا ہوں مگر وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ان کے سے بردباری سے پیش آتا ہوں۔ مگر وہ میرے ساتھ جہالت آمیز سلوک کرتے رہتے ہیں۔
آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اگر یہ بات ایسے ہی ہے جیسے تو نے بیان کی ہے تو جب تک تو یہ کرتا رہے گا، ان کے منہ میں دوزخ کی راکھ جاتی رہے گی اور جب تک تو یہ روش اور بھلائی کا رویہ جاری رکھے گا، اللہ کی بارگاہ سے ایک فرشتہ اتر جائے گا جو ہر وقت تیری مدد کر رہا ہوگا۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، 4: 1982، رقم: 2558)
حضور نبی اکرم ﷺ کے ایک اور فرمان میں رزق میں کشادگی، خیر اور رحمت کی ضمانت کو صلہ رحمی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
من اتقى ربه ووصل رحمه أنسىء له في عمره وثرى ماله وأحبه أهله.
(بخاری، الادب المفرد، ص: 34، رقم: 59)
جس نے اللہ رب العزت کا تقوی اختیار کیا اور صلہ رحمی کی، اس کی عمر بڑھ جائے گی، مال میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور خاندان والے اس سے محبت کرنا شروع کر دیں گے۔
اس فرمان میں تقوی اور صلہ رحمی کی صورت میں ہمیں مصائب کے حل کا نسخہ عطا کیا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اس معاشرے کو خوبصورت اور حسین و جمیل بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔