آج نوجوانوں میں دہریت اور لامذہبیت کے رجحانات بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا پسِ منظر، اسباب اور وہ دلائل اور اعتراضات جنھیں یہ اپنی بے بنیاد سوچ اور تصورات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان تمام امور کا جائزہ ہم اس مضمون کے گزشتہ دو حصوں (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن ماہ جنوری اور ماہ مارچ24ء) میں لے چکے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ہم اس طبقہ کی طرف سے کیے جانے والے مزید اعتراضات اور سوالات کا جائزہ لیں گے، جن کے جوابات عموما ہمارے نا پختہ اذہان میں نہیں پائے جاتے اور اپنے دین کے ساتھ کمزور تعلق پر قائم رشتہ رکھنے والے نوجوان شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے نوجوان طلبہ و طالبات جو سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں جاتے ہیں، وہ دہریت اور لا مذہب طبقہ کی باتیں سن کر گھبرا جاتے ہیں۔ بعد ازاں میڈیا ، چینلز اور شب و روز رونما ہونے والے واقعات اس آگ میں ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ ہر عمر کے لوگ خواہ وہ پروفیشنلز، ڈاکٹرز اور انجینئرز ہیں یا عام نوجوان جنھیں اپنے دین اور عقائد پر پختگی نہیں ہوتی، توحید، اللہ رب العزت کے وجود اور ضرورتِ مذہب پر واضحیت نہیں ہوتی، وہ اس طبقہ کے دلائل اور اعتراضات سے التباس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے سوالات انھیں بڑی آسانی سے اپنی طرف راغب کرتے ہیں اور پھر ان خیالات اور احساسات کو اردگرد کا ماحول اور رونما ہونے والے واقعات ایندھن فراہم کر دیتے ہیں۔ذیل میں دہریت اور لامذہب طبقہ کی طرف سے کیے جانے والے چند مزید اعتراضات بیان کرتے ہوئے ان کا علمی محاکمہ کیا جارہا ہے:
1۔ کیا مذہب تمام مسائل کی جڑ ہے؟
اس طبقہ کی طرف سے مذاہب بالخصوص اسلام پر لگائے جانے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مذہب بنیادی طور پر دنیا میں تمام مسائل کی جڑ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر مذہب نہ ہوتا تو 9/11 نہ ہوتا۔۔۔ مذہب نہ ہوتا تو برطانیہ میں 7/7 نہ ہوتا۔۔۔ مذہب نہ ہوتا تو تقسیم ہند نہ ہوتی۔۔۔ یہ مذہب ہی ہے جس کی وجہ سے عزت کے نام پر قتل عام کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ مذہب ہی ہے جس کی وجہ سے بمباری، قتل و غارت اور جنگیں ہیں۔۔۔ مذہب ہی کی وجہ سے لوگوں کو ہاتھ کاٹنے، کوڑنے مارنے اور اس طرح کی دیگر سزائیں دی جاتی ہیں۔‘‘ گویا یہ طبقہ اس طرح کے بہت سارے کمزور نوعیت کے دلائل پیش کرتا ہے۔ عام نوجوان جو دینِ اسلام کی مبادیات سے بھی ناواقف ہیں، وہ جب ان دلائل کو سنتے ہیں اور پھر میڈیا اور دیگر ذرائع سے اس کے شواہد دیکھتے ہیں، تو وہ اس طرح کی باتیں سن کر ان کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔
اس طبقہ کے اس اعتراض اور سوال کے اندر ہی اس کا جواب بھی پوشیدہ ہے۔ اگر تمام جنگوں اور قتل و غارت گری کے پیچھے مذہب کارفرما ہے تو اعتراض کرنے والوں سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ پوری دنیا میں اسلحہ بنانے والی فیکٹریز میں سے کوئی ایک فیکٹری بھی کسی مذہبی تنظیم کی نہیں ہے بلکہ تمام فیکٹریز سیاسی بنیادوں پر ملک بناتے ہیں اور اس کے اندر کہیں کبھی کوئی مذہب یا مذہبی افکار کارفرما نہیں ہوتے۔ یہ تمام جنگیں سیاسی مقاصد کے لیے لڑی جاتی ہیں ۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی مثال لے لیں، وہاں مذہب نہیں بلکہ ان طاقتوں کے اپنے سیاسی مقاصد کارفرما تھے جس کی وجہ سے یہ جنگیں لڑی گئیں، اسلحہ بنایا گیا، قتل و غارت کا بازار گرم ہوا، ایٹم بمز کے ذریعے حملہ کیا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ ان تمام کے پیچھے مذہب، مذہبی تصورات یا مذہبی عقائد کارفرما نہیں تھے۔ پس یہ تمام نقصانات ان طبقات سے پیدا ہوئے ہیں جو درحقیقت مذہبی تصورات کے قائل ہی نہیں ہیں اور اللہ رب العزت کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی و استعماری مقاصد کے لیے ایسی مہمات کرتے ہیں جس کے نتیجے میں خون ریزی ہوتی ہے اور انسان کی جان کا حرمت اور تقدس بھی باقی نہیں رہتا۔ پس اس طبقہ کی طرف سے کیے جانے والے اس اعتراض کے دلائل بنیادی طور پر بے بنیاد ہیں۔
اس طبقہ سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ اگر برصغیر کی تقسیم کی وجہ مذہب ہے تو جب آسٹریلیا، امریکہ اور ساؤتھ افریقہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی تو کیا اس آزادی کے پیچھے بھی مذہب کارفرما تھا؟ وہاں پر تمام ممالک ایک ہی مذہب کے ماننے والے تھے۔ پس یہ الزام ہی بے بنیاد ہے۔ دراصل آزادی انسان کا ایک بنیادی حق ہے جو اللہ رب العزت نے انسانیت کی فطرت میں رکھا ہے اور ہر انسان ایک آزاد فضا اور ریاست میں سانس لینا چاہتا ہے۔ جہاں پر اس کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے اور اس کی اگلی نسلیں ایک آزاد فضا میں پروان چڑھ سکیں۔
افسوس کہ لامذہبیت اور دہریت کے اس اعتراض کے سامنے ہمارے نوجوان کا ذہنی معیار اور علم کی سطح بھی اس حد تک گر چکی ہے کہ وہ اس طرح کے بے بنیاد اور کمزور سوالات کا بھی جواب نہیں دے سکتے اور ان کی زبان پر بھی یہی سوالات جاری ہوجاتے ہیں۔بدقسمتی سے آج ایسا ماحول بن گیا ہے کہ جو نوجوانوں اور یونیورسٹی و کالجز کے طلبہ و طالبات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر مذہبی طبقہ میں سے کوئی شخص چوری کرلے، فریب و دھوکہ دے، کرپشن کرے یا کوئی بھی برا کام کرے تو الزام مذہب پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح کے جملے بولے جاتے ہیں کہ ’’دیکھو اس نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، مگر چوری کرتا ہے‘‘، ’’یہ مذہبی آدمی ہے مگر اس نے یہ برا کام کیا ہے۔‘‘ لیکن جب وہی چوری اور کرپشن کوئی سیکولر آدمی کرتا ہے تو سیکولر نظامِ تعلیم پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا، کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ ’’سیکولر ہے، یہ ماڈرن تعلیمی اداروں سے پڑھا ہوا ہے مگر چوری کرتا ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر سیکولر اور ماڈرن نظامِ تعلیم پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی تو مذہبی روپ رکھنے والے شخص کی کرپشن اور چوری پر اس شخص کا مذہب مورد الزام کیسے ٹھہرتا ہے۔
جس طبقے میں ہم بستے ہیں، بدقسمتی سے ہم نے خود ایسے تفکرات سے مذہب، اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق، محبت، دین کی رغبت اور دین کی ضرورت کو نظر انداز کیا ہے۔ جب ان سیکولر ادارہ جات کے اندر ہمارے بچے اس حال میں جاتے ہیں کہ وہ اپنی مذہبی بنیادوں پر پختہ نہیں ہیں تو باہر کے لوگوں سے باآسانی کمزور دلائل اور باتوں کو مان کر خود بھی اعتراضات اور سوالات اٹھانے والے طبقے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
2۔ نفسیاتی اور ذہنی امراض کا علاج مذہب پر اعتقاد میں ہے
اگر ہم سائنس اور میڈیکل تناظر سے بات کریں تو بذات خود سائنس، میڈیکل اور سائیکالوجی ایسے سوالات کا جواب فراہم کرتی ہے۔ سائیکالوجی خود اقرار کرتی ہے اور یہ امر سائنسی طور پر ثابت بھی ہے کہ آج کے دور میں مذہب پر اعتقاد، یقین اور ایمان رکھنا؛ ذہنی تناؤ اور depressions کا علاج ہے۔ یہ وہ امراض ہیں کہ ساری سائنسز مل کر بھی ان کا علاج نہیں کر پاتیں اور مریض کو ساری زندگی ادویات دیتی رہتی ہیں مگر ان کے ذہنی امراض کا علاج نہیں کر پاتیں۔ اگرمذہب بے وقعت اور بے کار شے ہے تو اللہ رب العزت نے مذہب میں ایسی کون سی طاقت رکھی ہے کہ یہ لوگوں کے ذہنی دباؤ کا علاج کرتا ہے۔
اس حوالے سے دہریے اور لامذہب کہتے ہیں کہ مذہب کے ذریعے لوگوں کے ذہنی دباؤ اور depressions کا علاج، در حقیقت Placebo effect ہے۔ Placebo effect یہ ہے کہ جب ایک مریض ڈاکٹر کو کہتا ہے کہ مجھے اس دوائی سے آرام نہیں آیا حالانکہ اس کا علاج اسی دوائی میں ہوتا ہے تو عقلمند ڈاکٹر سمجھ لیتا ہے کہ اب مریض کا نفسیاتی طور پر اس دوائی سے یقین اٹھ گیا ہے، پس وہ اس دوائی کے ساتھ ایک اور بے ضرر دوائی کا اضافہ کردیتا ہے۔ جب مریض اس دوائی کے اضافے کے ساتھ پچھلی تجویز کردہ دوائی کو کھاتا ہے تو اسے آرام آنے لگ جاتا ہے۔ اسی طرح مذہب کے ذریعے ذہنی امراض کا علاج کے بارے میں دہریے اور لامذہب کہتے ہیں کہ ’’درحقیقت مذہب؛ Placebo efect ہے۔ جب میڈیکل اور سائیکالوجی ہمیں یہ suggest کرتی ہے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں depressions کا علاج مذہب مہیا کرتا ہے تو یہ درحقیقت Placebo efect ہے، حالانکہ اس کو آرام درحقیقت ان ہی ادویات سے آرہا ہوتا ہے۔‘‘
اگر ان کی اس دلیل کو مان بھی لیں کہ ذہنی دباؤ کا علاج مذہب میں ہونا دراصل Placebo efectہے تو بنیادی طور پر اس کے کیمیکلز، اس کی ساخت اور اصل میں تو برکت کا ہونا ثابت ہوجاتا ہے، چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیا جائے، جس کے نتیجے میں مذہب اور اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق، اعتقاد اور امید کا تعلق انسان کے نفسیاتی اور ذہنی امراض کا علاج مہیا کرتا ہے۔
3۔ اخلاقیات؛ مذہب کی عطا ہے
دنیا میں اخلاقیات اور اچھی عادات مذہب کی عطا ہے۔ یہ ہمارا اعتقاد ہے اور ہم ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے مذاہب کے ذریعے اچھی عادات اور اخلاقیات عطا فرمائی ہیں۔ یعنی ان اخلاقیات کا بنیادی ذریعہ مذاہب ہی ہیں جو مختلف ادوار میں اللہ رب العزت انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے بھیجتا رہا ہے۔مذہب اور وجودِ باری تعالیٰ کا انکار کرنے والے بالخصوص ڈارون تھیوری پر یقین رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اچھی عادات و اخلاقیات انسان کی فطرت میں ہے، اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔ مذاہب نے ہمیں یہ اخلاقیات نہیں دیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اخلاقیات انسان کی فطرت میں ہے اور نظامِ ریاست ہی اخلاقیات انسان کے اندر داخل کر سکتا ہے تو آج کے دور کی سب سے مہذب سوسائٹی امریکہ میں کچھ سال قبل جب ایک پولیس آفیسر کے ہاتھ سے ایک افریقن امریکن شہری کا قتل ہو گیا تھا تو چند گھنٹوں کے اندر شکاگو شہر کی صورت وہیں کے انتہائی مہذب معاشرے کے لوگوں نے یہ بنا دی تھی کہ کوئی ایک دکان اور مکان بھی چوری سے محفوظ نہیں رہے تھے۔ وہ انتہائی مہذب معاشرہ اس وقت درندوں کا شہر لگ رہا تھا۔ قانون کی بالادستی اور ریاست کا کنٹرول کچھ دیر کے لیے ختم ہوا تو ان کے اندر اخلاقیات نامی کوئی شے نہ رہی جو انھیں کنٹرول میں رکھ سکتی۔ قانون کی بالادستی کی صورت میں بیرونی اور ریاستی طاقت جس نے انسان کو باندھ کر رکھا ہوا تھا، کچھ دیر کے لیے وہ طاقت ختم ہوئی تو اب وہاں کے لوگ جو کچھ کر رہے تھے، وہ ان کا اندر تھا۔
اس کے برعکس اگر کوئی صحیح مہذب اسلامی تعلیم یافتہ معاشرہ ہو، جو اسلام اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی عطا کردہ تعلیمات کے ماننے والے ہوں تو وہ قانونی اور ریاستی طاقت کی غیر موجودگی میں بھی اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس کی مثال ہم 2014ء کے دھرنے کی دے سکتے ہیں کہ جہاں پر ریاستی طاقت کا کوئی بیرونی نظام نہیں ہے لیکن 72 دن میں کسی ایک کی چھوٹی سی چوری بھی نہیں ہوتی۔کسی کی رقم بھی گر جاتی ہے تو وہ بھی اس تک پہنچا دی جاتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء طاقت کے باوجود کوئی چوری نہیں کرتا اور لوگ ان حالات میں بھی پیسے دے کر اسے خریدتے ہیں۔ اس دھرنے میں کوئی پولیس آفیسر داخل بھی نہیں ہو سکتا لیکن پھر بھی وہاں پر ہر چیز کنٹرول میں تھی۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا۔۔۔؟ درحقیقت یہ دین اور انسان کے باطن کی اخلاقیات تھیں جو اس نظام کو چلا رہی تھیں۔ پس اگر کوئی انسان اکیلا بھی کہیں بستا ہو مگر اس کے اندر اخلاقیات کا درس اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے آیا ہوا ہے تو وہ اکیلا بھی اللہ رب العزت کا خوف رکھے گا۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اخلاقیات دین نے نہیں دی بلکہ دنیا کی دی ہوئی ہے تو کسی معاشرے سے قانون اور ریاست کی بالادستی اور اثر و نفوذ کا نظام تھوڑی دیر کے لیے منقطع کرکے دیکھے تو اسے سارا منظر واضح ہوجائے گا۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس طرح کی بیسیوں مثالیں ہیں۔ پس یاد رکھیں کہ جہاں پر مذہب کو ماننے والا کوئی مہذب انسان رہتا ہے اور کوئی اسے نہ بھی دیکھ رہا ہو، تب بھی اسے احساس رہتا ہے کہ میرا مولا مجھے دیکھ رہا ہے، لہذا وہ نظم و ضبط میں رہتا ہے اور اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑتا۔
پس معلوم ہوا کہ کسی ملک کے قانون اور ریاستی طاقت نے اخلاقیات نہیں دیں بلکہ اخلاقیات کا درس مذہب نے دیا ہے، کوئی بھی ملک محض قانون کی بالادستی اور ریاستی طاقت سے معاشرہ میں اخلاقیات قائم نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بین الاقوامی قوانین اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی وجہ سے اخلاقیات قائم ہیں تو سوال پید اہوتا ہے کہ پاپا نیوگنی نامی ملک میں 1998ء تک انسانی گوشت کیوں کھایا جاتا رہا اور بازاروں میں انسانی گوشت کیوں فروخت ہوتا رہا؟ اگر 1998ء تک بین الاقوامی قانون اس بیابان اور دور دراز تک کے علاقے میں نہیں پہنچا تو اس وقت تک وہاں پر اخلاقیات بھی نہیں تھیں، بعد ازاں قانون کی طاقت نے ان کے اس عمل پر پابندی لگادی لیکن اگر انسان میں اللہ رب العزت کا خوف ہو اور وہاں پر ریاست جتنی بھی کمزور ہو تو وہ خوف انسان کو اخلاقیات کے نظم میں سمودیتا ہے۔
4۔ ثقافتی اور کلچرل مسائل کا تعلق مذہب سے قائم کرنا درست نہیں
اسی طرح اس طبقہ کی طرف سے کئی ایسے الزامات ہیں جن کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ان کا تعلق ثقافت اور کلچر سے ہے۔ ان مسائل کو مذہب سے جوڑنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کیونکہ اس علاقے کا کوئی مرکزی مذہب ہوتا ہے، چنانچہ سازش کے ساتھ الزام اسی مذہب کے سر پر دھر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک الزام لگاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاں خواتین کو ان کے حقوق کی آزادی نہیں ہے۔ وہ اس کا سبب مذہب کو ٹھہراتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں تو شادی سے پہلے لڑکی کو لڑکا دیکھنے کا حق دیا گیا ہے لیکن پاکستان، انڈیا اور افریقہ کے کئی ممالک کے اندر یہ حق لڑکی کو نہیں دیا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس میں مذہب کی غلطی کہاں ہے۔۔۔؟ مذہب نے تو یہ حق دیا ہے۔ اس عمل کو جہالت اور کلچر کا نام تو دیا جاسکتا ہے کہ اس نے ایسا کر رکھا ہے مگر اس میں مذہب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
اگر شدت اور عورتوں کو ان کے حق نہ دینا مذہب کا مسئلہ ہوتا تو اسلام کے آنے سے پہلے تو بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، ان بچیوں کو جینے کا حق نہیں دیا جاتا تھا جبکہ دینِ اسلام نے آ کر بچیوں کو زندگی دی ہے اور انھیں جینے کا حق عطا کیا ہے۔ یہ شاخسانہ تو لا مذہبیت کا ہے کہ وہ عورتوں اور بچیوں سے اُن کے جینے کا بھی حق چھین لیتے ہیں۔ پس جہاں پر خدا خوفی نہ ہو وہاں پر حق تلفی ہوتی ہے اور جہاں پر خدا خوفی ہو، وہاں پر کوئی کسی کا حق تلف نہیں کرتا۔
5۔ مذہبی لٹریچر اور کتب میں موجود غیر اخلاقی تحریروں کی حقیقت
ایک اور اعتراض جو اس طبقے کی طرف سے کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مذہبی لٹریچر کے اندر سے غیر اخلاقی نوعیت کی تحریریں نکال کر دلیل کے طور پر لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’دیکھو! اگر یہ سچا دین ہے تو کتنی کمزور اور سطحی بات فلاں فلاں کتاب میں درج ہے۔‘‘ یہ طریقہ کار تو بدقسمتی سے آج مسالک کے مابین بھی ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے کے مسلک کی بعد کے ادوار میں لکھی گئی کتابوں میں سے کمزور تحریریں نکال کر لاتے ہیں اور اصل شخصیات پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ دہریہ اور لامذہب طبقہ یہی کچھ مذاہب کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی کسی کتاب سے کمزور بات مل گئی تو اسے دلیل بنا کر بانی مذہب پر سوال اٹھاتے ہیں اور پھر وہاں سے آگے بڑھ کر اللہ رب العزت کی ذات اور وجود پر سوال اٹھا دیتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سب سے زیادہ دلائل بائبل میں سے پیش کرتے ہیں۔ یعنی دین اور مذہب کو رد کرنے کے لیے اپنے زیادہ دلائل بائبل میں سے لاتے ہیں۔ بائبل کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کے بہت سے versions ہیں۔ اس کی ترتیب اور اس کی compilation مختلف انداز میں ہوئی ہے اور کرسچن کمیونٹی خود بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ لہذا دہریت اور لا مذہب فکر کے حاملین کو باآسانی بائبل کی تحریروں میں سے ایسے دلائل مل جاتے ہیں جنھیں یہ غیر اخلاقی قرار دیتے ہیں۔
تین سوال۔۔۔
اگر یہ طبقہ کسی تحریر کو غیر اخلاقی سمجھ کر مذہب کا انکاری ہے تو اس پر اس حوالے سے ان لوگوں سے میرے تین سوال ہیں:
1۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جس چیز کو یہ غیر اخلاقی قرار دے رہے ہیں، اس غیر اخلاقی کی بنیاد کیا ہے۔۔۔؟ جب ان کے نزدیک مذہب کے اخلاقیات؛ اخلاقیات ہی نہیں ہیں تو پھر انھیں یہ بات کس نے کہی کہ یہ غیر اخلاقی ہے۔۔۔؟ اگر انھوں نے اسے غیر اخلاقی قرار دینا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس بات پر ان کا اعتقاد ہے کہ اخلاقیات مذہب کی دی ہوئی ہے۔
ایک atheist کی ایک معروف کتاب Why I am not Christian ہے، اس کتاب کو دہریے اپنی دلیل بناتے ہیں اور اس کا بہت تذکرہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کے آغاز میں ایک واقعہ درج ہے کہ ’’ایک یہودی خاندان atheist ہوگیا اور اللہ کے وجود سے انکاری ہوگیا۔ بعد میں وہ کسی شہر میں منتقل ہوئے اور اس فیملی کے بچے کیتھولک کرسچن سکول میں جانے لگ گئے۔ اس سکول میں تثلیث (trinity) کا تصور تھا یعنی وہاں پر ایک خدا کی نہیں بلکہ تین کی بات ہو رہی تھی۔ بچے نے گھر واپس آ کر اپنے باپ کو کہا کہ بابا خدا تو تین ہوتے ہیں۔ باپ نے سمجھایا کہ نہیں، بیٹا! ایسی بات نہیں ہے، خدا تین نہیں ہوتے بلکہ خدا کا وجود ہی نہیں ہے۔ بچے نے کہا کہ میری ٹیچر نے مجھے بتایا ہے کہ خدا تو تین ہیں۔ باپ کافی دیر اس بچے کو سمجھاتا رہا۔ پھر وہ اصل احساس جو کسی کی ضد میں چھوڑ رکھا ہوتا ہے، اس نے جوش مارا اور اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اب میری بات دھیان سے سن لو کہ خدا ایک ہی ہے جسے ہم نہیں مانتے۔‘‘
بتانا مقصود یہ ہے کہ اگر اس طبقہ کو کسی تحریر میں غیر اخلاقی بات نظر آتی ہے تو انھوں نے جس پیمانے پر اسے غیر اخلاقی قرار دیا ہے، وہ پیمانہ انھیں مذہب نے دیا ہے جو ان کے لاشعور میں ہے لیکن اب وہ ضد میں اس کا انکار کرتے ہیں۔
2۔ مذہبی لٹریچر میں موجود غیر اخلاقی تحریروں پر دہریوں اور لا مذہب کے اعتراضات کے حوالے سے میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ بائبل، ہندومت اور دیگر مذاہب کے لٹریچر سے کچھ واقعات اور کہانیاں کو بطور دلائل بیان کرتے ہیں اور ان دلائل پر اعتراضات قائم کرتے ہوئے اسلام جیسے حقانی مذہب کا بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک دلیل بھی قرآن سے نہیں لا پاتے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر انھیں مذہبی کتابوں کا رد کرنا ہے تو دلیل قرآن مجید سے لائیں کیونکہ ان تمام مذہبی کتابوں میں سے قرآن مجید وہ کتاب ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے خود ضمانت دی ہے۔انھیں اگر اللہ رب العزت کے وجود اور مذہب کی ضرورت کا انکار کرنا ہے تو پھر سب سے قابلِ اعتماد ذریعہ قرآن کی صورت میں موجود ہے، وہ یہاں سے اپنی بات کے دلائل دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید سے اپنے اعتراض پر کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی اسلام کی بات کریں گے تو واقعاتی دلائل لائیں گے، مسلمانوں کی حرکات کو دلیل بنائیں گے لیکن قرآن پر انگلی نہیں اٹھا سکتے اور وہاں سے ایک بھی سطر کمزور ثابت نہیں کر سکتے۔ یہ جب بھی Textualاعتراض لائیں گے تو بائبل سے لائیں گے اور جب واقعاتی اعتراض لائیں گے تو پھر مسلمانوں میں اعتراض ڈھونڈتے ہیں۔ اگر انھیں یہ کرنا ہے تو پھر انصاف کریں، Textual اعتراض کرنا ہے تو قرآن کے متن میں سے اعتراض لائیں، اس میں سے کمزوری تلاش کریں۔ جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے ضمانت عطا کی ہے کہ یہ میرا کلام ہے۔ باقی آسمانی کتابیں تو انبیاء کرام علیہم السلام کی سوانح حیات (Biographies) ہیں اور ان کے کلمات ہیں۔
مثال کے طور پر بائبل کا مطالعہ کریں تو بیشتر آیات اس طرح ہیں جس طرح ہم حدیث قدسی کو روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ رب العزت یوں فرماتا ہے۔اسی طرح بائبل میں بھی ہمیں اسی طرح کی زبان نظر آتی ہے کہ بائبل لکھنے والا یہ کہتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام نے یہ فرمایا اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے۔ اس تناظر میں تو بائبل کا متن اسلامی اصطلاح میں درجہ حدیث کی طرح کا ہوگا۔ پس صحیح الوہی کلام اور اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتاب جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے، وہ قرآن ہی ہے۔ لہذا اگر دہریے اور لا مذہب خدا کے وجود اور ضرورتِ مذہب کا انکار کرتے ہیں تو پھر قرآن مجید سے دلیل لائیں۔
نوجوان طلبہ و طالبات اور ہر مسلمان اس دلیل کو ذہن نشین کرلے کہ جب بھی کوئی اس طرح کی بات کرے تو اسے کہیں کہ مجھے دوسری کتابوں کے متن (text) کی بات نہ کرو بلکہ قرآن سے دلیل لاؤ، قرآن کی کسی آیت کا رد کرکے دکھاؤ، اس میں سے کوئی نقص اور کوئی کمزوری تلاش کرکے دکھاؤ۔ جب وہ ایسا نہیں کر پائے گا تو بذات خود ان کے دلائل کمزور ہو جائیں گے۔
3۔ جب وہ کسی کتاب میں سے کوئی کمزور سطر تلاش کرتے ہیں اور اس کتاب کی ثقاہت پر اعتراض کرتے ہیں تو میرا اس پر تیسرا سوال یہ ہے کہ اس کمزور سطر سے خدا کے وجود کا انکار کہاں سے ثابت ہو جاتا ہے۔۔۔؟ لکھنے والا انسان ہے، ایک واقعہ رونما ہوا،ان مذہبی کتب کے کئی versions ہیں جن میں ہر ایک نے مختلف انداز سے لکھا ہے تو کسی کی اس تحریر سے خداکے وجود کا انکار کیسے ہو جاتا ہے۔
اس کو علوم الحدیث کی مثال سے سمجھیں کہ محدثین نے حدیث کو صحیح، حسن، ضعیف اور دیگر اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ اب حدیث کی اقسام بنا دینے سے اس متن کی ثقاہت تو قابلِ سوال ہو سکتی ہے لیکن کیا کسی کمزور حدیث کو پڑھ کر معاذ اللہ آقاe کے ہونے کا انکار کر دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آقاe کی ذات بابرکات کو کبھی بھیجا ہی نہیں تھا۔ کسی کی تحریر یا متن سے کسی کی ذات کا انکار نہیں ہوتا۔ دہریے جب اپنی کتابوں میں درج کرتے ہیں کہ ’’کیونکہ فلاں کتاب کا Text (متن) کمزور ہے، غیر عقلی (illogical) ہے یا ہماری فہم اور سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے، اس لیے خدا ہے ہی نہیں،‘‘ تو ان کی یہ بات عقلاً قبول نہیں کی جاسکتی۔ جب کسی کے بیان کی کمزوری سے کسی کے وجود کا انکار نہیں ہوتا تو کسی کتاب کی تحریر سے خدا کے وجود کا انکار کہاں سے ہو جاتا ہے۔۔۔؟ پس اگر کوئی دلیل کے طور پر کسی بھی مذہبی کتاب کی کمزور تحریر لاتا ہے تو وہ لکھنے والے کی غلطی تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے اللہ رب العزت کی ذات، اس کے وجود اور اس کے مالک و خالق کائنات ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
تمام لوگ بالخصوص نوجوان اور طلبہ و طالبات ان دلائل کو سمجھیں اور اپنے آپ کو عقلی طور پر پختہ کریں۔ طلبہ جن اداروں اور تعلیمی درسگاہوں میں پڑھنے جاتے ہیں، وہاں بےشمار ایسے فتنے اور باتیں کرنے والے لوگ ان کے درمیان ہوتے ہیں، اگر طلبہ عقلی دلائل اور دین پر اعتقاد کے حوالے سے کمزور ہوں گے تو اس طبقہ کی کمزور سے کمزور دلیل بھی انھیں بہا لے جائے گی اور ان کے عقائد کو تباہ و برباد کر دے گی۔ لہذا عقل (logics) کو استعمال کریں، مطالعہ کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دل میں اپنے دین کی محبت ضرور پیدا کریں۔ دین سے محبت ہو تو پھر دلائل بھی سمجھ آجاتے ہیں اور logic بھی آجاتی ہے لیکن اگر خود ہی دین سے متنفر ہیں، دین دوری اور دین بیزاری ہے، دین قید کرنے والا لگتا ہے تو پھر اپنے دلائل کے بجائے دوسروں کے دلائل ہی اچھے لگیں گے۔ اس صورت میں اپنے اوپر الزام اور سوال اٹھاتے رہیں لیکن دین اور اللہ رب العزت کے وجود پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔
(جاری ہے)