کسی بھی انسانی معاشرے میں تمام افراد یکساں نہیں ہوتے۔ فرشتہ صفت انسان بھی ہیں اور شیطان اور حیوان نما انسان بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔۔۔ قابلِ فخر انسان بھی ہیں اور باعثِ ندامت انسان بھی ہیں۔۔۔ خود غرض بھی ہیں اور جانثار بھی ہیں۔۔۔ اپنے وجود میں کل عالمِ انسانیت کے لیے قابلِ فخر بھی ہیں اور ساری انسانیت کی تذلیل کا عنوان رکھنے والے بھی ہیں۔۔۔ الغرض اس دنیا میں نور بھی ہے اور ظلمت بھی ہے۔اسی طرح یہ سارا عالم، عالمِ انسداد بھی ہے۔ ہر اچھائی کے مقابل برائی بھی ہے اور ہر برائی کے مقابل اچھائی بھی ہے۔انسان ہمیشہ سے اس تغیر پذیر معاشرے کا حصہ ہے۔
ایک منظم اور مہذب معاشرہ اپنے اجتماعی وجود میں یقین، اعلیٰ اصول اور بہترین اخلاق، اجتماعی فرض کا احساس اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر معاشرے میں اخلاقی گراوٹ آجائے، ہر شعبۂ حیات میں بے اصولی عام ہوجائے اور خود غرضی ہر جگہ اپنے ڈیرے ڈال لے، طاقت اور دولت سے مرعوبیت ایک معاشرتی حقیقت بن جائے اور معاشرے میں بزدلی اور ظلم کا چلن عام ہوجائے تو قومی زندگی کے شجر سایہ دار کو گھن لگ جاتا ہے اور پھر نئے نئے حکمرانوں اور حکومتوں کا آنا بھی قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔
اخلاقی گراوٹ کے شکار معاشرے میں اگرچہ تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں ترقی پہلے سے بھی زیادہ ہو اور قوم کی ظاہری دھوم دھام بھی اپنی جوبن پر دکھائی دے رہی ہو مگر اس سب کے باوجود اس قوم کو تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس لیے کہ جب اقدار، اخلاق اور تہذیب کے درخت کی جڑیں سوکھ جائیں اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوجائے تو محض پانی ڈالنے سے اسے سر سبز و شاداب نہیں کیا جاسکتا۔ باطن اور اندرون کی تباہی کے سبب ظاہر کی چمک دمک کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1۔ ایک وقت تھا دنیا میں روم کی سلطنت کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس سلطنت اور تہذیب نے بڑے بڑے منتظم، قانونی دماغ اور اعلیٰ فوجی سپہ سالار پیدا کیے مگر اسی رومی سوسائٹی کو جب بداخلاقی اور عیش پرستی کا روگ لگ گیا اور اس کی تہذیب پر ظلم، ناانصافی اور ناجائز طرفداری و جانبداری نے اپنا تسلط جمالیا تو اس کی قسمت کا ستارہ گردش میں آگیا۔ دنیا کی اس غالب اور حاکم تہذیب کو اندر اور باہر کے دشمنوں نے دبوچ لیا اور وہ روم جس کی ساری دنیا میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی، وہ یورپ کی نیم وحشی قوم کے حملوں سے تنگ آگیا۔ چھٹی صدی ہجری میں ایرانیوں نے اس کے مشرقی حصے پر حملہ کرکے اس کی سطوت کو خاک میں ملادیا۔ نوے ہزار آدمیوں کو قتل کیا گیا اور اس کی تمام نو آبادیوں اور اس کے زیر تسلط علاقوں پر قبضہ کرلیا گیا اور اس کے پائے تخت قسطنطنیہ کو بھی اپنے زیر نگیں کرلیا۔
اس کے چند برسوں کے بعد جب رومیوں کو پھر سے سنبھلنے کا موقع ملا تو وہ اسلامی سلطنت کے زیرِ تحت آگئے۔ روم کی سوسائٹی کی اخلاقی حالت اتنی کمزور اور کھوکھلی ہوچکی تھی کہ ہرقل جیسا لائق جنرل بھی اس گرتی ہوئی رومی سوسائٹی کو تھام نہ سکا۔ یہ وہی ہرقل تھا جس نے اپنی تنظیمی قابلیت اور فوجی لیاقت سے ایران کے قلب میں اپنا رومی جھنڈا لہرایا تھا اورکسریٰ ایران کی حکومت کو الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا تھا مگر ہرقل جب اسلامی فوج کے سامنے آیا تو ان کے دینی جوش اور شوقِ شہادت اور ان کے اخلاق کی طاقت کا مقابلہ نہ کرسکا، نتیجتاً وہ میدان جنگ میں شکست سے دوچار ہوا اور اسے اپنا ملک ان کے حوالے کرنا پڑا۔
2۔ ایران میں کسریٰ کی حکومت، اس کی فوجی طاقت اور قومی دولت کا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ لیکن اسی قوت، طاقت اور دولت کے نشے نے ان میں اخلاقی برائیوں کو پروان چڑھا دیا تھا اور برسوں تک ان کے قومی جسد کو بد اخلاقی اور بے اصولی کا کیڑا کھاتا رہا۔ ان کی اخلاقی پستی، اقدار کی تنزلی، اصولوں سے بے اصولی اور قومی بے حمیتی کی وجہ سے ان کا مستقل مزاج بادشاہ اور رستم جیسا تجربہ کار فوجی جنرل بھی اس ملک کی عظیم سطوت اور شوکت کو نہ بچا سکا۔ اسلام کے عظیم مجاہدوں نے مشرق اورمغرب کے ان شہنشاہوں کو اور ان کی سلطنت کو اپنے زیر انتظام کرلیا۔
3۔ اسی طرح خود اسلامی سلطنت بغداد کی عباسی خلافت کا دنیا میں طوطی بولتا تھا۔ خوارزم شاہ کی سلطنت اپنے زمانہ میں روئے زمین کی سب سے بڑی سلطنت تھی لیکن مسلمانوں کی سوسائٹی روح سے خالی اور اخلاقی کمزوریوں سے داغدار ہوچکی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تاتاریوں کا سیلاب آیا اور سیکڑوں برس کا تمدن اور علم و تہذیب کا ذخیرہ ان وحشی حملوں کے ذریعے خاک میں مل گیا۔ اگر کچھ عرصہ کے بعد اسلام نے تاتاریوں پر اخلاقی فتح حاصل نہ کرلی ہوتی اور ان تاتاریوں کے دلوں کو اپنے ایمانی افکار اور اپنی روحانی اقدارکے ذریعے بدل نہ دیا ہوتا تو پھر مسلم سوسائٹی کو اپنا وجود باقی رکھنا بڑا مشکل ہو جاتا۔
4۔ اسی طرح ہم تاریخ کے اوراق الٹ پلٹتے جائیں تو تاریخِ انسانی سے عبرو نصائح کا ایک انبار ہمارے سامنے عیاں ہوجاتا ہے۔ ہمارے سامنے تاریخ انسانی میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے مناظر آجاتے ہیں۔ فرانس دنیا کی سپر پاور ہوکر اخلاقی کمزوریوں کا شکار ہوجاتا ہے اور تعیش پسندی اس قوم کی شناخت بن جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر اتحادی فرانس کو سہارا نہ دیتے تو یہ ناقابل تلافی نقصان اٹھاتا۔ اس اخلاقی پستی اور تہذیبی تباہی کے دور سے قبل اس فرانسیسی قوم نے اپنی ذہانت اور اپنی بہادری کا سکہ ساری دنیا سے منوایا تھا۔ نپولین جیسا جنرل اور اسی طرح کے دلیر اورنڈر لیڈر اس قوم نے پیدا کیے مگر جب اقوام اپنی اعلیٰ روایات کو چھوڑ کر مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر زوال کا شکار ہوتی ہیں تو یہ اپنی روشن تاریخ کو بھی داغدار کردیتی ہیں۔
قوم میں تبدیلی ان کے باطن کی تبدیلی سے رونما ہوتی ہے۔ انسانی شخصیت کی اندرونی تبدیلی کے لیے ایمان سے بڑھ کر کوئی قوت، طاقت اور تربیت مؤثر نہیں رہی ہے
5۔ اگر ہم ہندوستانی معاشرے پر نظر ڈالیں تو اس معاشرے نے فلسفہ و حکمت، ادب و شاعری اور کئی میادین میں اپنا ایک نام پیدا کیا تھا۔ پانچویں صدی ہجری میں اس نے اپنی اخلاقی تعلیم کو اپنی پہلوی زبان میں ڈھالا اور چین کے باشندوں نے بھی اپنی دانائی اور علم کے باوجود ہندوستانی علم وحکمت کے خزانوں سے فائدہ اٹھایا مگر دسویں صدی میں جب ہندوستانی معاشرے پر خود غرضی اور ذاتی عداوت کے نظریات نے اپنے سائے دراز کردیئے، قوم کی اخلاقی اقدار زوال کا شکار ہوئیں، شرک اپنی انتہا کو چھونے لگا، دولت نے ہندوستانی ذہنوں میں ایک معبود کی صورت اپنالی، لٹریچر، مذہب، صنعت، مصوری، ثقافتی اور عبادت گاہوں میں شہوانیت، نفسانیت اور عریانیت سرایت کرگئی تو یہ معاشرہ بھی اخلاقی زوال کا شکار ہوگیا۔
اس معاشرے کی اس اخلاقی پستی کے عالم میں وسط ایشیا سے ایک تازہ قوم آئی جس کی اخلاقی حالت یہاں کے باشندوں کے مقابل زیادہ مضبوط تھی۔ یہ اسلام کے ماننے والے تھے، انہوں نے اپنی ایمانی قوت، اخلاقی جرأت اور کردار کی طاقت سے ہندوستانی معاشرے کو مسخر کرلیا اور یہاں کی سماجی زندگی کو اپنے اخلاق و کردار اور اپنی اعلیٰ انسانی اقدار سے خوب متاثر کیا۔ انہوں نے یہاں کی تہذیب کو اپنی تہذیب کے رنگ میں رنگ دیا۔ یہاں کی تہذیب کی رگوں کو اسلامی تہذیب کا خون پہنچایا۔ مساواتِ انسانی کو عام کیا، انسان دوستی کو فروغ دیا، روحانی اور مادی اقدار میں اعتدال و توازن پیدا کیا، توحید خالص کے نور کو ہر ہر ذہن و دل میں پہنچایا اور نبوت و رسالت کی شمع کو فروزاں کیا۔ یہاں کی تاریخ میں ادب، سچائی، دیانتداری، اخلاقی بہادری اور زہد و پاکیزگی کے روشن چراغ جلائے اور اقدار کے ایسے عملی نمونے فراہم کیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
کسی بھی اعلیٰ انسانی معاشرہ کو اپنی تہذیبی روایات اور اخلاقی اقدار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ہر حاکمِ وقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوم کی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی اور سماجی ترقی کو بھی پروان چڑھائے
6۔ رفتہ رفتہ ہندوستانی معاشرہ بھی مختلف قسم کی اخلاقی اور روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوا اور بے اصولی کی زندگی ترجیح پانے لگی۔ عیش پسندی اور خود غرضی کو اختیار کیا جانے لگا اور وہ مسلمان جو ہندوستانی سوسائٹی کو سنبھالنے والے تھے، اب وہ خود زوال اور پستی کا شکار ہونے لگے۔اخلاقی اور سماجی برائیوں نے ان کو اپنا نشانہ بنایا، خانہ جنگی کا ماحول ہر طرف نظر آنے لگا، ناجائز طرفداری، بے جا پاسداری، بے وفائی اور وعدہ خلافی کی بری اطوار نے ان کو جکڑ لیا۔ نتیجتاً ملک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ شہروں میں بے چینی و افراتفری پیدا ہوگئی، راستوں کا امن اور سلامتی چھن گئی۔ حتی کہ ہر طرف خلفشار اور انتشار کا ماحول پیدا ہوگیا۔ جب یہاں کے لوگ حکومت کرنے کی اپنی لیاقت کھو بیٹھے تو سات سمندر پار لوگوں نے اس ملک ہندوستان کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔ اس فرنگی قوم نے اپنی انتظامی قابلیت سے ملک کے نظام کو احسن طور پر سنبھالا اور ہر شعبہ زندگی میں قابلِ قدر اصلاحات کیں۔
اس نئے نظام نے ہندوستانی سوسائٹی کو جہاں مادی طور پر فائدہ پہنچایا، وہاں اس سوسائٹی کی مسلّمہ اقدارکو کسی حد تک نقصان بھی پہنچایا۔ جو برائیاں یہاں کبھی دیکھنے کو نہ ملتی تھیں وہ قدم قدم پر نظر آنے لگیں۔ اہل فرنگ نے رومی سلطنت سے وراثتاً یہ اصول پایا تھا کہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو۔ اسی اصول کے تحت انہوں نے ہندوستان پر ایک سو سال تک مطلق العنان حیثیت سے حکومت قائم کی۔ فرنگی سلطنت نے ہندوستانی سرزمین پر اچھائیوں کے ساتھ جن برائیوں کو پروان چڑھایا ان میں قومی رقابت اورمخاصمت کا جذبہ بڑی قوت سے ابھرا۔ دفتری کاٹ پھانس کا نظام آیا، اپنے معمولی فائدے کو دوسروں کے بڑے نقصان پر ترجیح دینے کا کلچر آیا۔ اندرونی سازشیں ہر جگہ بپا ہوتی ہوئی دکھائی دیں۔مذہب اور اخلاق سے بے پرواہی اختیار کی گئی۔ اپنی ذات، برادری، عزیزوں و دوستوں کے لیے ناجائز کو جائز بنایا گیا اور اپنے ذاتی مقصد اور فائدے کے لیے دفتری اور قانونی ذہانت کو استعمال کرکے حقداروں کو محروم رکھا گیا۔
یوں دفتروں اور سرکاری اداروں میں دھیمی آنچ پر باہمی عداوت و مخاصمت کے نادیدہ ماحول کو فروغ دیا گیا۔ دفتروں میں ہندو اور مسلمان میں باہمی نفرت و عداوت پیدا ہوئی اور افسر اور ماتحت کے درمیان بھی نفرت و حقارت نے جنم لیا۔ مقامی لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والا باہمی نفرت، عداوت اورمخالفت و مخاصمت کا یہی وہ بیج تھا جو رفتہ رفتہ پودے سے تناور درخت بنا۔ جس نے بالآخر ایک ہزار سال تک اکٹھی بسنے والی دونوں اقوام کو نہ صرف تقسیم کیا بلکہ جدا جدا وطن کے مطالبے پر مجبور کیا۔ یہ آزادی کی تحریک صرف فرنگی استعمار سے ہی نجات نہ تھی بلکہ ایک دوسرے سے بھی نجات کی تحریک تھی۔ نفرت و عداوت اور مخاصمت کا یہی ماحول تقسیم ہند کے وقت اپنے پورے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔جب ہجرت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کردیا جاتا ہے، ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے اور ہزاروں بچوں کو سنگینوں اور بھالوں میں پرودیا جاتاہے۔
مذکورہ تاریخی واقعات سے اس جانب توجہ مبذول کروانا مقصود ہے کہ کسی بھی اعلیٰ انسانی معاشرہ کو ہر حال میں اپنی تہذیبی روایات، اپنی اخلاقی اقدار اور اپنی انسانی شناخت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ہر حاکمِ وقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوم کی جہاں مادی ترقی کو فروغ دے، وہاں اس کی اخلاقی اور سماجی ترقی کو بھی پروان چڑھائے۔یہی قوم و ملک کے ساتھ اس حاکم کی سچی خیر خواہی اور محبت ہے۔ہر قوم کو ہر زمانے میں اخلاقی اصلاح اور سماجی سدھار کی ضرورت ہوتی ہے۔ملک کی معاشی و سیاسی منصوبہ بندی کے ساتھ حکمرانوں کو سوسائٹی کی اعلیٰ اقدار اور ارفع روایات کو زندہ رکھنے پر بھی محنت کرنی چاہیے۔
جب ہم ایشین سوسائٹی کے مقابل یورپین سوسائٹی کو دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں ایک طرف انسانی زندگی کی بہترین تنظیم اور اعلیٰ شہریت کا احساس غالب نظر آتا ہے، انسان کی بحیثیت انسان قدر نظر آتی ہے اور سوسائٹی کے افراد گھٹیا قسم کی بداخلاقیوں سے اعراض کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ قسم کی بداخلاقیوں اور بلند معیار کی بے اصولیوں کو وہ شاید جائز سمجھتے ہیں اور افراد کی بجائے اقوام اور ممالک کے ساتھ ناانصافیاں کرتے ہیں۔ پسماندہ اقوام کو لڑا کر اور غریب ممالک کو تباہ کرکے اپنی تجارت کو خوب فروغ دیتے ہیں۔ شہروں کو مٹی میں ملادینے سے احتراز نہیں کرتے۔ افراد اور اشخاص کے معاملے میں ادنیٰ سی وعدہ خلافی پر ان کو تکلیف ہوتی ہے مگر اقوام اور ممالک کے معاملے میں بڑی سے بڑی عہد شکنی کرتے ہیں۔
مقام غور یہ ہے کہ اس معاشرے کے حکمرانوں کے کردار میں یہ تضاد کیوں ہے۔۔۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر دل سے خالی اور ضمیر سے عاری نظام تعلیم کسی قوم اور ملک کو اخلاقی سطح پر اونچا کرسکتا ہوتا تو اس وقت مغرب شخصی اور اجتماعی اخلاق میں دنیا کے لیے نمونہ ہوتا۔حقیقت امر یہ ہے کہ معاشرے کی اصل تعمیر اور پائیدار ساخت پیغمبروں کی تعلیمات پر ہوتی ہے اور ان ہی کے اصولوں کو اپنانے سے اقوام عظیم بنتی ہیں۔ انبیاء و رسل علیھم السلام اپنی ساری توانائیاں معاشرے کی اصلاح اور فلاح پر صرف کرتے تھے اور ان کے کردار کو عظیم کردارمیں ڈھالتے تھے۔ وہ اپنی سوسائٹی سے ان ہونی امیدیں قائم نہیں کرتے تھےاور نہ ہی ان پر وہ بوجھ ڈالتے تھے جس کو وہ اٹھا نہ سکیں۔ وہ سب سے پہلے معاشرے کے ایمان اور عقیدہ پر محنت کرتے، پھر اپنے معاشرے کے اخلاق اور اعمال کو سنوارتے اور سدھارتے تھے۔ اپنے ماتحت، زیر تربیت اور اپنے ماننے والوں کے کردار کو عظیم کردار میں بدلتے تھے۔ قوم کو اپنی نفسیاتی خواہشات کو منضبط کرنے کی تعلیم دیتے تھےاور بسا اوقات اپنی خواہشات کے برعکس اور نفس کے خلاف کام کرنے کی طاقت ان میں پیدا کرتے تھے۔ جب نفوس کا تزکیہ ہوجاتا تو ان سے اعلیٰ کردار جنم لیتے۔ جیسے پھل دار درخت سے پھل پیدا ہوتے ہیں، آگ سے گرمی پیدا ہوتی ہے، سورج سے روشنی ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح انبیاء و رسل علیھم السلام کی اعلیٰ تعلیم کے ذریعے بہترین تربیت یافتہ اور عظیم شخصیات منصہ شہود پر آتی ہیں۔ بلاشبہ افرادا کی اصلاح سے اعلیٰ اورمثالی معاشرہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔
جب اقدار، اخلاق اور تہذیب کے درخت کی جڑیں سوکھ جائیں اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوجائے تو محض پانی ڈالنے سے اسے سر سبز و شاداب نہیں کیا جاسکتا۔ باطن اور اندرون کی تباہی کے سبب ظاہر کی چمک دمک کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جاسکتا
قوم میں تبدیلی ان کے باطن کی تبدیلی سے رونما ہوتی ہے۔ انسانی شخصیت کی اندرونی تبدیلی کے لیے ایمان سے بڑھ کر کوئی قوت، طاقت اور تربیت مؤثر نہیں رہی ہے۔ جب تک انسان کے اندر اللہ کی ذات کا یقین پیدا نہ ہو اور اس کا خوف اس کے وجود میں جگہ نہ پائے اور اللہ کے حضور جوابدہی کا کوئی ڈر اسے نہ ہو تو اس آدمی کا اخلاق اور کردار کبھی نہیں سنور سکتا۔ اللہ کی ذات پر یقین اور ایمان ہی انسان کے اندر ذہنی اور اخلاقی انقلاب پیدا کرتاہےا ور اس کے کردار کو عظیم کردار کا روپ دیتا ہے۔ یہی وہ ایمان کی طاقت اور قوت تھی جس نے چھٹی صدی ہجری کے انسانوں کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت اور قیادت میں دنیا کا عظیم انسان بنا دیا تھا اور ان کی صدیوں کی بری عادتیں چھڑا دیں۔ وہ لوگ جو معصوم اور بے گناہ بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے اب یتیموں کی کفالت کو اپنے لیے سب سے بڑا اجر عظیم سمجھنے لگے۔
اس اسلامی معاشرے میں جنم لینے والا یہی وہ عظیم اخلاقی کردار تھا جس کے باعث کسریٰ ایران کے ساتھ جنگ میں ایک غریب مسلمان مجاہد میدان جنگ میں قیمتی ہیرے و جواہرات اور سونا ملنے پر خاموشی سے امیر الحرب کے سپرد کردیتا ہے کہ یہ اللہ کا مال ہے، اس کو بیت المال میں جمع کرلیں اور اپنے نام کو اس لیے ظاہرنہیں کرتا کہ مجھے کسی کے شکریہ اور تعریف کی قطعاً حاجت نہیں ہے۔ جس کی رضا اور خوشنودی کے لیے میں نے یہ سارا عمل کیا ہے، وہ مجھے خوب جانتا ہے۔ اس معاشرے کی اعلیٰ اخلاقی حالت، سماجی رفعت اور عظیم طاقت یہ تھی کہ شراب حرام ہونے کے حکم کا سن کر شراب کا پیالہ منہ سے ہٹ جاتا ہے، منہ کی شراب اُگل دی جاتی ہے، شراب کے مٹکے اور برتن توڑ دیئے جاتے ہیں اور مدینہ منورہ کی گلیوں کی نالیوں میں شراب بہتی ہوئی نظر آتی ہے۔
معاشرے کی اصل تعمیر اور پائیدار ساخت پیغمبروں کی تعلیمات پر ہوتی ہے اور ان ہی کے اصولوں کو اپنانے سے اقوام عظیم بنتی ہیں۔ انبیاء و رسل علیھم السلام اپنی ساری توانائیاں معاشرے کی اصلاح اور فلاح پر صرف کرتے تھے اور ان کے کردار کو عظیم کردارمیں ڈھالتے تھے
رسول اللہ ﷺ نے انسانیت کی اصلاح اور فلاح اور ان کی اخلاقیات کی تعمیر کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔ اپنا سب کچھ قربان کیا، بادشاہی کا تاج اور دولت کو ٹھکرایا، اپنے آبائی اور محبوب وطن کو چھوڑا، پیٹ پر پتھر باندھے، کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا، گھر والوں کو فقر و فاقہ میں شریک رکھا، دنیا کی ہر قربانی دی اور دنیا کے ہر فائدے اور ہر لذت سے دور رہے مگر عالم انسانیت کوصراط اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کا وہ درس دے گئے کہ تاریخِ انسانی کا دھارا بدل گیا۔
آپ ﷺ نے محض 23 برس میں دنیا کی کایا پلٹ دی، دنیا کا ضمیر جگادیا، نیکی کو شر پر غلبہ مل گیا، انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز ہوگئی، خدا کی بندگی کا راستہ کھل گیا، انسان طبقات میں ذات پات کی اونچ نیچ دور ہوگئی، زبان و نسل اور رنگ و علاقے کا فرق ختم ہوگیا، قومی اور نسلی غرور ٹوٹ گیا، عورتوں کو ان کے حقوق مل گئے اور کمزور اور بے کسوں کی دلجوئی ہونے لگی۔
ایسے کردار کا حامل انسانی معاشرہ معرضِ وجود میں آیا جس کے افراد دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرنے لگے، دوسروں کے آرام کی خاطرمصیبت برداشت کرنے لگے اور کمزور کو طاقتور پر ترجیح دینے لگے۔
اگر انسانی معاشرہ صدیوں کا سفر کرتے کرتے پیچھے چلا جائے تو اس انسانی معاشرے کی تعمیر میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے اسے عطا کیا ہے، وہ سب کچھ اس سے اگر لے لیا جائے تو انسانی تہذیب اور انسانی معاشرہ ہر مثبت قدر اور اخلاق سے محروم نظر آئے گا۔
آج دنیا کی موجودہ فتنہ و فسادکی حالت دین اسلام کی تعلیمات سے دوری اور اسوۂ مصطفیٰ ﷺ کو اپنے کردار و عمل کا حصہ نہ بنانے کے سبب ہے۔ عصر حاضر میں اگر انسانی اقدار اور ارفع انسانی روایات میں کوئی تباہی اور بربادی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اس موجودہ زبوں حالی پر ہمارا کردار اس شخص کی طرح ہے جو سارے درخت کاٹ کاٹ کر سایہ تلاش کرتا ہے۔
تمام پیڑ جلا کر خود اپنے ہاتھوں سے
عجیب شخص ہے کہ سائے تلاش کرتا ہے
ہمیں ایمان کے اس شجرِ سایہ دار کی حفاظت کرنا ہوگی، اسے محبت رسول ﷺ اور تعلیماتِ دین سے سیراب کرنا ہوگا، اسی صورت ہم اس شجر سے اعمالِ صالحہ کا پھل حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔