سوال: رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں اور لیلۃ القدر کے متعلق رہنمائی فرمائیں؟
جواب: رمضان المبارک کے آخری عشرے کی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں راتیں، طاق راتیں کہلاتی ہیں۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
فِی رَمَضَانَ، فَالْتَمِسُوْهَا فِی الْعَشِرا لْأَوَاخِرِ فَإِنَّهَا فِی وَتْرٍ، فِی إِحْدَی وَ عِشْرِيْنَ، أَوْ ثَلَاثٍ وَعِشْرِيْنَ، اَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِيْنَ، اوَ سَبْعٍ وَّ عِشْرِيْنَ، اَوْ تِسْعِ وَ عِشْرِيْنَ، اَوْ فِی اٰخِرِ لَيْلَةِ، فَمَنْ قَامَهَا ابْتِغَاءَ هَا اِيْمَانًا وَاِحْتِسَابًا، ثُمَّ وُفِّقَتْ لَهُ، غُفِرَلَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ.
(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 319، رقم: 22713)
’’لیلۃ القدر رمضان میں ہے سو تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخری رات ہے۔ جس شخص نے لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور طلبِ ثواب کے ساتھ قیام کیا، پھر اسے ساری رات کی توفیق دی گئی تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
یہ رات بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل ہے جسے قرآن کریم نے ہزار راتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ جمہور علماء امت کا مؤقف یہ ہے کہ لیلۃ القدر امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لئے خاص انعام ہے جو اس سے قبل کسی اور امت کو عطا نہیں کی گئی۔ حدیثِ مبارکہ سے بھی اس موقف کی تائیدہوتی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ لوَهَبَ لِأُمَّتِيْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَلَمْ يُعْطِهَا مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ.
(ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 173، رقم: 647)
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری امت ہی کو عطا کی اور تم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفراز نہیں کیا۔‘‘
کیونکہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ہے، لہٰذا اِسے رمضان کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہئے۔اس رات کو اللہ رب العزت نے اپنی خاص حکمت سے مخفی رکھا ہے۔دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم، جمعہ کے روز قبولیتِ دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو مخفی رکھنے کی بھی متعدد حکمتیں ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ اگر لیلۃ القدر کو مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہوجاتی اور اسی رات کی عبادت پر اکتفا کر لیا جاتا۔ ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔
2۔ اگر بامرِمجبوری کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔
3۔ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا بے حدمحبوب ہے۔ لیلۃ القدر کا تعین اس لئے نہیں فرمایا تاکہ بندے اس ایک رات کی تلاش میں پانچوں طاق راتوں میں جاگ کر اپنے رب کو مناسکیں۔
4۔ عدمِ تعیین کی ایک وجہ گناہگاروں پر شفقت بھی ہے، کیونکہ اگر علم کے باوجود اس میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لازم آتا۔
لیلۃ القدر کی فضیلت میں کتبِ حدیث میں بہت سی روایات مذکور ہیں۔ ذیل میں چند ایک احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ يْمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2: 709، رقم: 1910)
’’جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا ارشاد نبوی ﷺ میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر اور طاعت و عبادت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ برائی نہ کرنے کا عہد کرے۔ اس شان سے عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدۂ مغفرت بن کر آتی ہے۔ لیکن وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو اس رات کو پائے مگر عبادت نہ کرسکے۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’یہ ماہ جو تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2: 309، رقم: 1633)
ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو 83 سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں۔
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں۔ وہ ہر اُس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔‘‘
(بيهقی، شعب الإيمان، 3: 343، رقم: 3717)
سوال: کیا ہر شخص صدقہ فطر یکساں ادا کرے گا یا اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے گا؟
جواب: ہر طبقہ کے لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کریں گے، جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
’’صرف مُسِنَّۃ کی قربانی کرو۔ لیکن اگر دنبوں میں مُسِنَّۃ کا ملنا دشوار ہو تو چھ ماہ کے دنبے کی قربانی بھی کرسکتے ہو۔‘‘
( نسائی، السنن، کتاب الضحايا، باب المسنة والجزعة، 7: 218، رقم: 4378)
بکرے، گائے اور اونٹ میں مُسِنَّۃ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ پینے کے دانتوں کی جگہ چرنے اور کھانے کے دانت نکل آئیں۔ بکرے کی عمر ایک سال ہو تو اُس کے یہ دانت نکلتے ہیں جب کہ گائے دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہوجائے تو اُس کے کھانے کے دانت نکلتے ہیں۔ شریعت میں اِجازت ہے کہ ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق بکروں، دنبوں، گایوں یا اونٹوں کی قربانی کرے۔ اِسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ فطر کی بھی مختلف اَقسام کو اُمت کے لئے جائز فرمایا جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہم ایک صاع (چار کلو گرام) اناج (بطور صدقہ فطر) ادا کرتے تھے؛ یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کشمش ادا کرتے تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو گندم کا آٹا آگیا جو اُس وقت نسبتاً سب سے مہنگا تھا ۔ تو نصف صاع (دو کلو) گندم کو ان چیزوں کے چار کلو کے برابر قرار دے دیا گیا۔‘‘
(بخاری، الصحيح، کتاب صدقة الفطر، باب صاع من زبيب، 2: 548، رقم: 1437)
ایک اور حدیث مبارک میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ اَقدس میں ہم ایک صاع اناج بطور صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ ہمارا اناج جَو، کشمش، پنیر اور کھجور پر مشتمل ہوتا تھا۔‘‘
(بخاری، الصحيح، کتاب صدقة الفطر، باب الصدقة قبل العيد، 2: 548، رقم: 1439)
لہٰذا مختلف آمدنی رکھنے والے طبقات اپنی اپنی آمدن اور مالی حیثیت کے مطابق دو کلو گندم کی قیمت سے لے کر چار کلو کشمش کی قیمت تک کسی بھی مقدار کو صدقۂ فطر کے طور پر ادا کریں گے تاکہ غرباء و مستحقین کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔
سوال: عید کی رات کو عبادت کرنے اور عیدالفطر کے بارے رہنمائی فرمائیں۔
جواب: عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔
عید کا دن جہاں خوشی و مسرت کے اظہار اور میل ملاپ کا دن ہوتا ہے وہاں عید کی رات میں کی جانے والی عبادت کی فضیلت عام دنوں میں کی جانے والے عبادت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَتَیِ العِيْدَيْنِ مُحْتَسِبًا ِللهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوْتُ الْقُلُوْب.
(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فيمن قام فی ليلتی العيدين، 2: 377، رقم: 1782)
’’جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کا دل اس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دل فوت ہو جائیں گے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ: لَيْلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيْلَةَ عَرَفَةَ، وَلَيْلَةَ النَّحْرِ، ولَيْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
(منذری، الترغيب والترهيب، 1: 182)
’’جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں: آٹھ ذو الحجہ، نو ذوالحجہ (یعنی عید الاضحیٰ)، دس ذوالحجہ، عید الفطر اور پندرہ شعبان کی رات (یعنی شبِ برات)۔‘‘
سوال: عید الفطر کی نماز کا وقت کیا ہے اور کیا ا س کی ادائیگی میں تاخیر جائز ہے؟
جواب: عید الفطر کی نماز کا وقت آفتاب کے بلند ہو جانے کے بعد زوال سے پہلے تک رہتا ہے۔ عید الفطر کی نماز میں تاخیر کرنا جائز ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو نجران میں حکم دیا:
عَجِّلِ الْاَضْحٰی وَاَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَکِّرِ النَّاسَ.
(بيهقی، السنن الکبری، 3: 282، رقم: 5944)
’’عید الاضحی کی نماز جلدی ادا کرو اور عید الفطر کی نماز دیر سے ادا کرو اور لوگوں کو وعظ سناؤ۔‘‘