منہاج القرآن کا نام ہی اس کی مشن سٹیٹمنٹ ہے۔ رواں صدی میں علوم القرآن کے فروغ کے لئے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے جو خدمت انجام دی اور اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ انجام دے رہے ہیں وہ بلاشبہ قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے۔ شرق و غرب سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم حضرات اور نوجوان طبقہ اس مستند علمی و دینی مواد سے مستفید ہورہا ہے۔ حال ہی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے قلم سے قرآن حکیم کا عربی زبان سے براہ راست انگریزی زبان میں ترجمہ شائع ہوا جس کی تاریخ ساز، عظیم الشان تقریبِ رونمائی برطانیہ میں ہو چکی ہے اور انگریزی دنیا کے لئے یہ ترجمۂ قرآن The Manifest Quran کے نام سے دستیاب ہے۔ یہ ترجمہ قرآن بہت جلد پاکستان میں بھی دستیاب ہو گا۔ اس ترجمۂ قرآن کی انفرادیت اس کی عام فہم انگریزی زبان ہے۔ وہ انگریزی زبان جو اِس وقت تعلیمی، تدریسی، تجارتی، سماجی، معاشرتی حلقوں میں بولی اور سمجھی جارہی ہے۔ شیخ الاسلام نے اس ترجمہ کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
یہ ترجمۂ قرآن آج کے انگریزی بول چال والے نوجوانوں کے لئے زادِ راہ اور مینارۂ نور ہے۔ یہ ترجمۂ قرآن تفہیم کے اعتبار سے تفسیری شان کا حامل ہے۔ قرآن ایک ایسی الوہی کتاب ہے جس کی صداقت و حقانیت پر کوئی کلام نہیں ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ براہ راست اللہ رب العزت نے لے رکھا ہے۔ قرآن ہی وہ ضابطۂ حیات ہے جس پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف اُمت مسلمہ صراطِ مستقیم حاصل کر سکتی ہے بلکہ کوئی غیر مسلم بھی اگر اخلاص کے ساتھ اس کے اِخلاقی و سائنسی مضامین اور تعلیمات پر تدبر کرے گا تو اُس پر بھی کائنات کے اسرار و رموز کھلتے چلے جائیں گے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری رواں صدی کے ایک عظیم محقق اور مجدد ہیں۔ اُنہوں نے فکری سطح پر قرآن مجید سے جو راہ نمائی حاصل کی اُس کا ابلاغ بھی عام فہم زبان میں کیا ہے۔ اللہ رب العزت نے اُنہیں علم و تحقیق سے محبت کی جس نعمت سے نوازا ہے ،اُس کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے اظہار کا سلیقہ اور طریقہ بھی وافر عطا کیا ہے۔
ہر دور میں قرآنی مفاہیم اور مطالب کا اداراک مسلمان کی اولین ضرورت رہا ہے تاکہ منشاء خداوندی کو پا سکے اور پھر اسی سانچے میں زندگی کو ڈھال سکے۔ اللہ کروڑ ہا رحمتیں فرمائے ان مستقبل اندیش اور حقیقت شناس ربانی علماء پر اُمت محمدیہ ﷺ کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہر دور میں قرآنی تعلیمات و مفاہیم کو عام کرنے کی کوشش کی اور تفاسیر و تراجم کے ذریعے انہیں خاص و عام تک پہنچایا۔ قرآن پاک ایسی کتاب نہیں جسے بازیچۂ اطفال بنا لیا جائے۔ اس کے لئے ادب و لغت میں مہارت، قوانین بلاغت میں مجتہدانہ بصیرت، ناسخ و منسوخ، توجیہ و تطبیق، تفسیری قوانین و ضوابط سے آگاہی اور فقہ و تدبر کے علاوہ عربی زبان سے خاص لگاؤ اور اس کا مزاج شناس ہونا ضروری ہے مگر جدت پسند اور بزعم خویش روشن خیال حضرات نے اپنی قابلیت کے غرور اور گھمنڈ میں ان اوصاف خاصہ کی ضرورت محسوس نہیں کی اور انشاپردازی کے زور پر ایسے تراجم پیش کر دئیے جنہیں اردو ادب کے حوالے سے انشا پردازی کا بہترین نمونہ تو کہا جاسکتا ہے مگر قرآنی مطالب کا حامل و علم بردار نہیں۔ یہ سعادت اُسی مردِ حق آگاہ کا استحقاق شرعی ہے جسے قرآن پاک کے ساتھ روحانی و جذباتی وابستگی حاصل ہو۔۔۔ وہ عربی علوم و فنون کا تیور شناس، ادب و لغت اور معانی و بلاغت کا ماہر اور اصول استنباط سے آگاہ ہو۔۔۔ فقہی مسائل پر عبور رکھتا ہو۔۔۔ ارض القرآن کی جغرافیائی حدود سے باخبر ہو۔۔۔ افلاک و آفاق کے بارے میں اُس کی معلومات وسیع اور جدید ترین ہوں۔۔۔ اور ان خوبیوں کے ساتھ وہ تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ معیار پر بھی پورا اُترتا ہو۔
آج کی جدید دنیا کو بھی ایک ایسے ہی ترجمے کی ضرورت تھی جو اُن کے ذوق کے مطابق عام فہم، رواں دواں اور اسلوب قرآن سے ہم آہنگ ہو اور قاری محسوس کرے کہ اُس نے بات کی تہہ کو پالیا ہے۔ چنانچہ جہاں اور بہت سی سعادتیں اور نعمتیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زیدِ مجدہ کے حصے میں آئی ہیں، وہاں یہ سعادت اور توفیق بھی ان ہی کو ارزانی ہوئی کہ وہ ایک معانی خیز اور دورِ حاضر کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق ایک سلیس و رواں ترجمہ اُمت کو عطا فرمائیں اور اُن کی اس دینی و علمی ضرورت کو پورا کریں چنانچہ شیخ الاسلام نے گو نا گوں مصروفیات کے باوجود اس طرف توجہ دی اور اپنے فکر و فلسفہ اور عمیق مطالعہ کے نتائج کو اردو زبان میں عرفان القرآن اور انگریزی زبان میں The Manifest Quran میں سمو دیا۔یہ تراجم لغوی، نحوی، ادبی، علمی، اعتقادی، فکری، سائنسی، تفسیری اور جملہ پہلوؤں پر مشتمل جامع، عام فہم اور نادر ہیں۔ دوران مطالعہ علم دوست قاری بہت جلد محسوس کر لیتا ہے کہ ترجمہ میں سلاست و روانی پائی جاتی ہے اور اِس میں فصاحت و بلاغت، حُسنِ بیان اور عربی چاشنی کے ساتھ ساتھ وہ سب خوبیاں بھی موجود ہیں جو ایک سلیس اور عام فہم ترجمہ میں ہونا ضروری ہیں۔ ان تراجم کی ایک خاص بات اور انفرادیت یہ ہے کہ اِس میں مقام الوہیت اور ادبِ رسالتﷺکا بطورِ خاص خیال رکھا گیا اور ترجمہ میں یہ احتیاط برتی گئی ہے کہ قلم سے کوئی ایسا جملہ یا فقرہ نہ نکلنے پائے جو بے ادبی کے زمرے میں آتا ہو اور مقامِ الوہیت و ادبِ رسالت ﷺ کے منافی ہو۔ آج کے معاشرہ میں آزادیٔ افکار نے ابلیس کے اشارے پر یہ ستم بھی ایجاد کر دیا ہے کہ تراجم میں ادب و احترام کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور بے دھڑک ایسے الفاظ لکھ دئیے جاتے ہیں جو ادب و احترام کے معیار پر پورے نہیں اترتے اور اسلامی عقائد و نظریات سے متصادم ہوتے ہیں۔
شیخ الاسلام کی ہمت و استقلال اور جُہدِ مسلسل جس قدر رواں دواں ہے، اُسی قدر ان کا اشہبِ قلم بھی اپنی پوری رفتار سے گامزن ہے۔ ترجمۃ القرآن کے باب میں اہل علم ،علماء، محققین نے گراں قدر کام کیا ہے مگر اس میں ایک پیاس محسوس کی جاتی رہی ہے۔ قرآن مجید کے تراجم میں عربی زبان کی معنوی وسعتوں کو ہر ممکن حد تک سمونے کی علمی، فکری، شعوری اور تبلیغی کاوش کا کیا جانا ضروری تھا مگر یہ پہلو تشنہ رہا۔تیز رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے سائنسی علوم نے قرآنی اور کائناتی حقائق کی توثیق و تصدیق کر کے جو عصری شعور تشکیل دیا اُس کے ساتھ قرآنی حقائق کا ابلاغ نئے دور کی سائنسی اصلاحوں کے ذریعے کیاجاتا مگر ترجمہ کرتے ہوئے یہ جہت نظر انداز ہوتی رہی۔ قرآن حکیم کی حقانیت کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنا ضروری تھا۔ اس علمی خلاء کو عرفان القرآن کے ذریعہ بالخصوص شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پُر کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان تمام اُمور کو کمال نفاست و فراست کے ساتھ انجام دیا اور عرفان القرآن میں جدید سائنسز کے توثیق کردہ قرآنی حقائق کا عصری شعور دیا۔ اسی طرح علم الفلکیات، علم النباتات، علم کیمیا، علم برقیات، علم حیاتیات، علم طب، علم الجنین، نفسیاتی علوم، نفسیات، صحافت، تعلیم، سیاسیات، معاشیات، عمرانیات اور فنون لطیفہ کے متعلق قرآن مجید نے قیامت تک آنے والے انسانوں کو تعلیمات سے نوازا ہے۔قرآن پاک قیامت تک کے لئے ذریعہ راہ نمائی و وسیلۂ ہدایت ہے۔ اس لئے قیامت تک کی سائنسی ایجادات اور تخلیقات قرآن مجید کے تعلیمی مضامین سے باہر نہیں ہیں۔ زمینی حقائق اور سائنسی انکشافات کو قرآن مجید میں بیان کئے گئے پیشگی حقائق سے جوڑنا محققین کی اولین ذمہ داری ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان تمام تقاضوں کو بحسن خوبی پورا کیا ہے۔
قرآن و علوم القرآن پر شیخ الاسلام کی معرکہ آراء تصانیف
1۔ عرفانُ القرآن (اُردو ترجمہ قرآنِ حکیم)
2۔ پارہ نمبر 1 تا 4 (قرآن کا سہ لسانی لفظی و بامحاورہ ترجمہ مع نحوی ترکیب)
3۔ تفسیر منہاجُ القرآن (سورۃُ الفاتحہ، جزو اَوّل)
4۔ تفسیر منہاجُ القرآن (سورۃُ البقرہ)
5۔ فَلسفۃ الحروف المقطعۃ (تفسیر الم نموذجا) (عربی)
6۔ اَلْمَوْسُوْعَۃُ الْقُرْآنِیَّۃ: قرآنی اِنسائیکلوپیڈیا (8 جلدوں پر مشتمل مجموعہ مضامینِ قرآن)
7۔ مَناہِجُ الْعِرْفَان فِي لَفْظِ الْقُرْآن (لفظِ قرآن کے معانی و معارف)
8۔ حروفِ مقطعات کا قرآنی فلسفہ
9۔ حقانیتِ قرآن کے داخلی دلائل (وجوہِ اِعجازِ قرآن)
10۔ الدرر فی فضائل ومطالب السور
11۔ سورۂ فاتحہ اور تعمیرِ شخصیت
12۔ تکوین الشخص الإنسانی فی سورۃ السبع المثانی (عربی)
13۔ اَسمائے سورۂ فاتحہ
14۔ سورۂ فاتحہ اور تصورِ ہدایت
15۔ اُسلوبِ سورۂ فاتحہ اور نظامِ فکر و عمل
16۔ سورۂ فاتحہ اور تعلیماتِ طریقت
17۔ سورۂ فاتحہ اور اِنسانی زندگی کا اِعتقادی پہلو
18۔ شانِ اَوّلیتِ سورۂ فاتحہ
19۔ اَوّلیتِ سورہ فاتحہ اور اَوّلیتِ نورِ محمدی
20۔ سورۂ فاتحہ اور تصورِ عبادت
21۔ حکمتِ اِستعاذہ (تفسیر اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ)
22۔ تَسْمِیَۃُ الْقُرْآن (تفسیر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ)
23۔ فلسفۂ تسمیہ
24۔ معارفِ اِسم اللہ
25۔ لفظِ ربُ العالمین کی علمی و سائنسی تحقیق
26۔ صفتِ رحمت کی شانِ اِمتیاز
27۔ معارِفِ آیۃ الکرسی
28۔ معارِفُ الکوثر
29۔ کَشْفُ الْغِطَا عَنْ مَعْرِفَۃِ الْأَقْسَامِ لِلْمُصْطَفٰی ﷺ عربی)
30۔ شانِ مصطفی ﷺ میں قرآنی قَسمیں )کَشْفُ الْغِطَا عَنْ مَعْرِفَۃِ الْأَقْسَامِ لِلْمُصْطَفٰی ﷺ)
31۔ العِرْفَانُ فِي فَضَائِلِ وَآدَابِ الْقُرْآنِ {قرآن حکیم اور تلاوتِ قرآن کے فضائل}
32۔ اَلتِّبْیَان فِي فَضْلِ بَعْضِ سُوَرِ الْقُرْآن {قرآن حکیم کی منتخب سورتوں کے فضائل}
33۔ ’کنز الایمان‘ کی فنی حیثیت
34۔ اَربعین: فضائلِ قرآن پر چالیس اَحادیثِ مبارکہ {زُبْدَۃُ الْعِرْفَان فِي فَضَائِلِ الْقُرْآن}
35۔ نص اور تعبیرِ نص
36۔ تحقیقِ مسائل کا شرعی اُسلوب
37۔ فطرت کا قرآنی تصوّر
38۔ تربیت کا قرآنی منہاج
39۔ قرآنی فلسفۂ انقلاب (دو جلدیں)
40۔قرآنی فلسفۂ تبلیغ
41۔ مقصدِ بعثت انبیاء علیہم السلام
42۔ پیغمبرِ اِنقلاب اور صحیفۂ اِنقلاب
43۔ قرآنی فلسفۂ عروج و زوال
44۔ نَہْجُ التَّرْبِیَّۃِ الْإِجْتِمَاعِیَّۃِ فِي الْقُرْآنِ الْکَرِیْم (عربی)
45۔ المفتوحات الرحمانیۃ فی التفسیرات القرآنیۃ (زیرِ طبع)
46۔ تفسیر القادري (عربی، زیرِ طبع)
47۔ مختصر البیان فی تفسیر القرآن (عربی، زیرِ طبع)
48۔ التفسیر الجُملي (عربی، زیرِ طبع)
49۔ التفسیر التربوي (عربی، زیرِ طبع)