پاکستان میں جن بحرانوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ان کی ترتیب لگائیں تو سر فہرست قیادت کا بحران نظر آرہا ہے۔ صالح، دیانتدار، جرات مند اور دور اندیش قیادت کے فقدان نے یہاں بیشتر مسائل جنم دیئے ہیں۔ بانی پاکستان کی زندگی نے وفا کی ہوتی اور انہیں تعمیر وطن کے لئے پانچ سال بھی مل جاتے تو یہ ملک یقینا ایک فلاحی، اسلامی ریاست کے طور پر دنیا میں اپنا نام روشن کروا چکا ہوتا کیونکہ قوم میں بے انتہاء صلاحیتیں اور جذبے موجود ہیں۔ قانونی اور جمہوری پروسیس سے معرض وجود میں آنے والا یہ ملک آزادی کے فوراً بعد بانی قائد کی وفات کی وجہ سے لاقانونیت اور آمریت کی چراگاہ بن گیا۔ باقاعدگی کے ساتھ انتخابات ہوتے رہتے اور شفاف جمہوری نظام جاری رہتا تو اہل قیادت بھی خود بخود ابھر کر سامنے آجاتی۔
وطن عزیز کا دوسرا اور سب سے بڑا قومی المیہ یہ ہے کہ یہاں قومی یکجہتی کا فقدان ہے۔ مختلف زبانیں، مختلف جغرافیائی اور نسلی شناختیں آج تک ایک قومی دھارے میں نہیں ڈھل سکیں حالانکہ اکثریت میں مرکزِ وحدت دینِ اسلام ہے جو بذات خود ایک مضبوط اور ناقابل تقسیم قوت ہے۔ یہ وہی قوت ہے جس نے بلال رضی اللہ عنہ و یاسر رضی اللہ عنہ جیسے حبشی غلاموں کو بوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کی صف میں لاکھڑا کیا۔ آج بھی حرم مکہ و مدینہ کی طرح پوری دنیا میں کروڑوں لوگ جمع ہوکر ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، ایک صف میں اللہ کے حضور سربہ سجود ہو کر دن میں بار بار یہ اعلان کرتے ہیں کہ ’’تمیز رنگ و بو برماحرام است‘‘ لیکن تعجب ہے کہ اس قدر قدیم اور مضبوط دینی روایات پر عمل کرنے والے لوگوں کے درمیان بلوچ، پٹھان، سندھی، پنجابی اور سرائیکی تعصبات کے تہہ در تہہ پردے حائل ہیں جبکہ ان سب محدود علاقائی پہچانوں پر اسلام اور ایمان کی آفاقی پہچان کو غلبہ ہونا چاہئے۔ رنگ نسل اور زبان و مذہب کے صدیوں پرانے فرق کے باوجود قومی دھارے میں متحد رہنے والوں کی سب سے بڑی مثال ہمارے قریبی ہمسائے بھارت کی سوسائٹی ہے۔ بے پناہ معاشی اور سماجی مسائل کے باوجود بھارت ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا عالمی برادری میں اپنی باعزت جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں قومی یکجہتی میں رکاوٹ دو بڑی وجوہات ہیں۔ جب تک یہ ختم نہیں ہوں گی ہم ایک قوم نہیں بن سکتے، پہلی وجہ جاگیر دارانہ اور قبائلی نظام ہے جس نے ہر شعبہ زندگی میں اونچ نیچ اور آقا و غلام کی واضح لکیر کھینچ رکھی ہے۔ وسائل اور سہولیات ایک طبقے کے پاس جمع ہیں اور مسائل اور مشکلات دوسرے طبقے کے حصے میں کھنچی چلی آتی ہیں۔ دن بہ دن ان کے درمیان واقع خلیج وسیع ہو رہی ہے اور آئے روز کے خودکش بم حملے، ڈاکے، قتل و غارت گری کے واقعات اسی بڑھتی ہوئی خلیج کا شاخسانہ ہیں۔
قومی یکجہتی میں دوسری بڑی رکاوٹ پاکستان میں موجود مذہبی تفرقہ و انتشار ہے۔ آزادی کا اثر کسی اور شعبے نے لیا ہو یا نہیں تفرقہ پروری نے خوب لیا ہے۔ باقی دنیا کی طرح یہاں بھی پہلے سنی شیعہ کی تقسیم تھی اور کافی حد تک فضا پُرامن تھی مگر اظہار رائے کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارا مذہبی طبقہ ’’ترقی کی کئی منزلیں‘‘ طے کر چکا ہے۔ پوری دنیا کے برعکس یہاں اہلحدیث، دیوبندی اور بریلوی مسالک اتنے تعصبات کے ساتھ پنپ چکے ہیں کہ ان کے درمیان مصالحت تقریباً ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ منافرت کی دیواریں اتنی اونچی اور مضبوط ہیں کہ انہیں گرانے کی کوشش کرنے والا خود ہی ان کی زد میں آجاتا ہے۔ ان مذہبی فرقوں میں سے ہر ایک غیر مسلموں کو تو شاید آسانی سے اکاموڈیٹ کرلیتا ہے لیکن مخالف مسلک کے متعلق برداشت اور تحمل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس منافرت اور تکفیری رحجان میں طالبان کی حالیہ سرگرمیوں نے بڑا واضح کردار ادا کیا ہے۔ ا س خطرناک محاذ پر مثبت اور نتیجہ خیز کردار صرف اور صرف وہ علماء کرام ادا کر سکتے ہیں جو خود فرقہ پرستی کی پیداوار نہ ہوں۔ ان کا دل و دماغ قرآن و سنت کی تعلیمات سے روشن ہو اور اللہ کے دین کو رحمت سمجھ کر مخلوق خدا کے درمیان محبت و مروت کی زبان سے پھیلانے کا صوفیانہ مزاج رکھتے ہوں۔
وطن عزیز کی سلامتی، خود داری اور عزت کو خطرے سے دو چار کرنے والا تیسرا بحران معاشی عدم استحکام ہے۔ دین مخالف اور وطن دشمن قوتوں سے قرضوں کا حصول ہماری ایسی مجبوری ہے جو ہمیں عالمی سطح پر بار بار ذلیل و رسوا کر رہی ہے۔ وسائل معیشت ہمارے ہاں بہت سے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں مگر اعلیٰ قیادت سے لے کر ایک معمولی کلرک تک پورا ماحول کرپشن کے کینسر کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ملکی اداروں کی نیلامی، قومی املاک کی خرید و فروخت اور لوٹ مار ہماری سیاسی اور انتظامی کارگزاری میں شامل ہوگیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے دشمن وہ نہیں جو اس کی سرحدوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں بلکہ وہ ہیں جو ملک کے وسائل کو ذاتی جاگیر سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔ اس کے اثاثے غیروں کے ہاں فروخت کرتے ہیں اور غریب عوام کو لوٹ کر پیسہ باہر منتقل کرتے ہیں۔ دور کی بات نہیں، گذشتہ دس بارہ سالوں کے سیاسی کرداروں اور آمریت کے مہروں کو دیکھیں سب کے سب اب ملک چور ثابت ہو چکے ہیں۔ اس بحران پر قابو پانے کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ عوامی بیداری ہے۔ ملت فروش حکمران ہمارے کاندھوں پر بیٹھ کر بار بار آگے آتے ہیں، اگر ہم انہیں پہچان لیں اور آئندہ انہیں اپنی ’’خدمات‘‘ پیش نہ کریں تو کافی حد تک اس میدان میں مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔
مندرجہ بالا بحرانوں کا منطقی نتیجہ اور فطری رد عمل جو ایک بڑے بحران کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑا ہوگیا ہے، توانائی کا بحران ہے۔ اس وقت پورا ملک اندھیروں میں ڈوب چکا ہے۔ اس ملک میں سالانہ 10 سے 15 فیصد کی شرح سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن گذشتہ 30 سالوں سے یہاں پاور جنریشن پر نہ صرف کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ کالا باغ ڈیم جیسے قومی منصوبے کو سیاسی مصلحتوں کی بناء پر ختم کرنے کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 3600 میگاواٹ بجلی ہماری ضرورت سے کم پیدا ہو رہی ہے مگر آج بھی سنجیدگی اور دردِ دل کے ساتھ قومی اور سیاسی قیادت اس سلسلے میں کسی امید افزاء پیش رفت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ سرحد، بلوچستان کے قبائلی علاقوں کی طرح کراچی جیسے باشعور شہری علاقوں میں آج بھی بجلی چوری کا رحجان معمول کی بات ہے۔ بجلی کی اس شدید قلت کے نتیجے میں روز مرہ مشکلات اور کمر توڑ مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ خصوصاً لاکھوں غریب لوگ باعزت روزگار سے فارغ ہوگئے ہیں نتیجتاً جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کاروباری اور گھریلو صارف حالات سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اپنے ہی ملک کی قیمتی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے اور پریشان عوام کو کسی بڑے انقلاب کی طرف دھکیل رہی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ اگر مخلص ہے اور اسے عوام سے ذرا سی بھی ہمدردی ہے تو فوری طور پر کالا باغ ڈیم سمیت دوسرے قومی سطح کے منافع بخش منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ صدر اور وزیراعظم سمیت مرکزی اور صوبائی وزیروں کی فوج ظفر موج کی فضول خرچیوں اور عیاشیوں کو بند کر دیا جائے اور قومی جذبے کے ساتھ توانائی مہیا کرنے والے اداروں کی مدد کی جائے۔ حالات پریشان کن ضرور ہیں مگر ان کا مقابلہ بہ آسانی کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ بالادست طبقے کی طرف سے لوٹ مار بند کردی جائے۔
ڈاکٹر علی اکبر قادری