القرآن : اہلُ اللہ کی زندگی کا ماحصل

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتب : محمد یوسف منہاجین معاون : محمد انعام مصطفوی

گذشتہ ماہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن یوتھ لیگ کے زیر اہتمام مری میں منعقدہ تربیتی کیمپ میں اصلاحِ احوال اور تزکیہ نفس کے حوالے سے ٹیلی فونک گفتگو فرمائی۔ اپنی گفتگو کے دوران شیخ الاسلام نے منہاج القرآن یوتھ لیگ کے جوانوں اور تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و اراکین کو بطورِ خاص مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ دعوت الی اللہ کے منصب پر فائز احباب اولیاء و صلحاء کی زندگیوں سے سبق حاصل کریں اور اُن کی نصیحتوں کو اپنا زیور بنائیں اور عمر بھر اس کی روشنی میں سفر طے کریں۔ اس خطاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے قائین کی نذر کیا جارہا ہے :

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىO فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىO

(النازعات، 79 : 40، 41 )

’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہو گا‘‘۔

امام غزالی کے ایک شاگرد نے ان سے اپنی تربیت کی غرض سے کچھ سوالات کیے اور اپنے روحانی احوال کی اصلاح کے لیے رہنمائی اور نصیحت چاہی آپ نے جو نصیحت اور راہنمائی فرمائی اس میں سے ایک حصہ میں نے آپ کی نصیحت اور راہنمائی کے لیے منتخب کیا ہے۔

امام غزالی بیان کرتے ہیں کہ اکابر اولیاء اللہ میں سے حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نام کے ایک بزرگ گزرے ہیں، ’’اصم‘‘ بہرے کو کہتے ہیں یعنی جو سن نہیں سکتے۔ ان کا نام حاتم تھا اور اصم ان کا لقب۔ آپ بہرے نہیں تھے مگر لقب ’’اصم‘‘ اپنے نام کے ساتھ لگا لیا تھا۔ یہ لقب اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک خاتون ان سے کوئی مسئلہ دریافت کرنے کے لیے آئی، وہ آپ کے پاس بیٹھ کر مسئلہ دریافت کر رہی تھی کہ اچانک اس خاتون کے پیٹ میں ہوا کا بوجھ ہوا اور ہوا آواز کے ساتھ خارج ہو گئی۔ وہ خاتون اپنی اس حرکت پر شرمسار ہوئی اور اسے اپنی یہ حرکت بڑی ناگوار گزری کہ حضرت حاتم رحمۃ اللہ علیہ کیا سوچیں گے۔ حضرت حاتم نہیں چاہتے تھے کہ اس خاتون کو کوئی شرمساری یا شرمندگی ہو اور اس کی طبیعت پر بوجھ ہو لہذا آپ نے اس خاتون کی شرمساری و شرمندگی کو ختم کرنے کے لئے اپنے کان اس کی طرف کیے اور کانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ذرا اونچی آواز میں بات کرو، جب یہ کہا تو اس خاتون کو حوصلہ ہو گیا اور وہ سمجھی کہ یہ بہرے ہیں اور بہرے ہونے کی وجہ سے انہوں نے آواز نہیں سنی اور میں ان کے سامنے شرمندگی سے بچ گئی۔

پس اسکی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے، اس کو شرمندگی اور ندامت سے بچانے کے لئے اور اس کے اس ظاہری عیب پر پردہ ڈالنے کے لیے آپ نے خود کو بہرہ ظاہر کیا۔ جب تک وہ خاتون زندہ رہی تب تک ہر شخص سے حضرت حاتم جب بات کرتے تو کان آگے کر کے کہتے ذرا اونچا بولیں یعنی بہرے ہی بنے رہے تاکہ جس ذریعے سے بھی اس خاتون تک خبر پہنچے تو یہی خبر پہنچے کہ وہ بہرے ہیں کہیں یہ اطلاع نہ پہنچے کہ وہ صحیح ہیں اور اس دن انہوں نے میری شرمساری کو چھپانے کے لیے ایسا عمل کیا، حقیقت میں بہرے نہیں ہیں، اس سے وہ شرمندگی محسوس کرے گی۔ پس ایک خاتون کو شرمساری و شرمندگی سے بچانے کے لئے حضرت حاتم عمر بھر بہرے بنے رہے اور اپنا لقب ’’اصم‘‘ اختیار کیا اسی بنا پر انہیں حاتم اصم کہتے ہیں۔

اعلیٰ ایمان، اعلیٰ اخلاق ہی سے ممکن ہے

اس واقعہ سے آپ کے لیے پہلا درس اخلاق کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعلی ایمان، اعلی اخلاق کے بغیر ممکن نہیں۔ جس شخص کے اخلاق سب سے بہتر ہیں اسی کا ایمان بہتر ہے۔

ایک اور موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم میں سے جو شخص اخلاق میں عمدہ ہے وہی شخص ایمان میں عمدہ ہے۔ پس ایمان اور اخلاق کو آپس میں اس قدر لازم و ملزوم بنایا گیا ہے کہ ایمان کا حسن و کمال، اخلاق کے حسن و کمال میں رکھا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے کارکن اقامت دین اور احیائے اسلام کے عظیم مشن کی شمع جلا رہے ہیں۔ ۔ ۔ اس مصطفوی مشن کے علمبردار ہیں اور سوسائٹی میں اعلی اقدار، اعلی Spiritual Human Values کو زندہ کرنے کے دعویدار ہیں۔ ۔ ۔ اسکو زندہ کرنے کے علمبردار ہیں۔ ۔ ۔ لہذا آپ کی زندگی ظاہراً اور باطناً اعلی اخلاق اور کردار کی آئینہ دار ہونی چاہیے اور یہ اعلی اور عمدہ اخلاق زندگی کے ہر پہلو پہ غالب رہے۔ آپ آپس میں جب گفتگو کریں تو آپ کے منہ سے گالی نہ نکلے۔ پاکستانی کلچر میں ایک عام طریقہ ہے کہ دوران گفتگو آپس میں ایک دوسرے کو یا کسی اور کو جس سے غصہ ہو، لڑائی ہو اس کو گالی دے دیتے ہیں۔ ۔ ۔ اس کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں۔ ۔ ۔ Nick Names ایسے رکھ دیتے ہیں جو دوسرے کو پسند نہیں ہوتے، جس سے ان کی عزت کم ہوتی ہے، جو اسے ناگوار گزرتے ہیں اور اس کی تحقیر اور تذلیل کا باعث بنتے ہیں۔ ۔ ۔ اگر کسی کی دلشکنی ہو تو ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے، یہ سب چیزیں عمدہ اخلاق کے خلاف ہیں اور سوئِ اخلاق میں آتی ہیں۔ ہمارے کسی عمل سے کسی کا دل ٹوٹ جائے، کسی کی طبیعت پہ بوجھ ہو ہم اسکی پرواہ نہیں کرتے۔ ہمیں صرف اپنے جذبات کی پرواہ ہے، کسی کے جذبات کی نہیں ہے۔ جس شخص کو دوسرے کے جذبات کی پرواہ نہ ہو وہ عمدہ اخلاق کا حامل نہیں اور جو عمدہ اخلاق کا حامل نہیں ہے وہ اللہ کے دین اور اسکی قدروں کی تبلیغ اور دعوت لوگوں کو دینے کا حقدار نہیں ہے۔ اس طرح کرنا دھوکہ اور منافقت میں شمار ہوتا ہے۔

پس اپنی زبان، گفتگو، اپنے معاملے، اپنے برتاؤ اپنے عمل، ایکدوسرے کے بارے میں سوچ اور سراسر ظاہر و باطن میں عمدہ اخلاق اور حسن اخلاق کے پیکر بن جائیں۔ آپ کی زندگیوں میں کسی شخص کو برے اخلاق کی کوئی چیز دکھائی نہ دے۔ اگر یہ ایک عمل آپ زندگی میں اپنا لیں تو سمجھیں جس کام کا عَلم آپ نے اٹھا رکھا ہے آپ اس کے حقدار ہوگئے۔ اسی کردار اور اخلاق کی وجہ سے حضرت حاتم اصم اور اس قبیل کے لوگ آج بھی مخلوق خدا کے لئے رہنمائی کا باعث ہیں۔ وہ صوفی بھی تھے، ولی بھی تھے، اہل اللہ بھی تھے، مردان حق بھی تھے، بلند رتبہ لوگ بھی تھے اور ہزار بارہ سو سال گزر گئے مگر دنیائے اسلام آج تک انہیں یاد کرتی ہے، ان کے تذکرے کرتی ہے اور اپنے قلب و باطن کو جِلا بخشتی ہے۔ ان کے اخلاق، کردار اور ان کی بندگی کی اسی شان نے ان کی زندگی میں دوام پیدا کر دیا۔

استقامت

حضرت حاتم اصم، حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔ حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابر اولیا، ائمہ ولایت اور ائمہ تصوف میں ہوتا ہے۔ حضرت حاتم اصم نے 30 سال سے زیادہ عرصہ حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں گزارا۔ اہل اللہ کا معمول تھا کہ نصیحت کامل اور فیض حاصل کرنے کے لیے 30 ,30 سال، 35 سال اور اگر کسی کی عمر ہوتی تو 40 سال تک صحبت میں رہتے، تربیت پاتے اور ریاضت کرتے۔ ایک شیخ کی بارگاہ میں 30 سال سے زیادہ وقت گزارنا اور ان کی صحبت میں قائم اور دائم رہنا استقامت کی علامت ہے۔

حضرت حاتم اصم کی زندگی سے دوسری نصیحت یہ حاصل ہوئی کہ ’’استقامت‘‘ اختیار کرو۔ ہماری طبیعت یہ ہے کہ ہم جلد تھک جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دو چار نشستوں میں وہ کچھ مل جائے جو اگلے زمانوں میں 20 ,20 اور30 ,30 اور40 ,40 سال اپنے شیوخ کی خدمت میں رہ کرحاصل ہوتا۔ وہ زمانے بھی اچھے تھے، لوگ بھی اچھے تھے۔ ۔ ۔ حالات بھی اچھے تھے، احوال بھی اچھے تھے۔ ۔ ۔ ماحول بھی اچھا تھا، صحبت بھی اچھی تھی۔ ۔ ۔ تعلیم و تربیت بھی اچھی تھی۔ ۔ ۔ ریاضت اور مجاہدہ دن رات جاری رہتا۔ ۔ ۔ عبادات بھی کرتے تھے، ریاضات بھی کرتے تھے۔ ۔ ۔ محنت کرتے، عجلت نہیں کرتے تھے۔ ۔ ۔ بے صبر اور بے حوصلہ نہیں ہوتے تھے۔ ۔ ۔ جب ایک راہ پر چل پڑے تو استقامت کے ساتھ زندگی کا ایک معقول حصہ اسی صحبت اور اسی مجلس میں گزار دیتے تھے۔ پھر اللہ پاک اس محنت، ریاضت، ادب، خدمت اور محبت کے ساتھ اس طویل صحبت کے اختیار کرنے پر انہیں فیوضات عطا فرماتا۔ ہم نے یہ پیمانے بھی بدل دیئے ہیں لہٰذا صرف صحبت ہی نہیں چاہیے بلکہ صحبت، خدمت، محبت، ادب، عبادت، ریاضت، تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ استقامت بھی چاہیے۔

اہل اللہ کی زندگی کا ماحصل

حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد حضرت حاتم اصم سے پوچھا کہ آپ نے 30 برس میری صحبت میں گزارے بتاؤ میری صحبت میں رہ کر کیا سیکھا، کیا پایا؟ انہوں نے عرض کی کہ حضرت میں نے 8 سبق ان 30 سالوں میں سیکھے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان 8 چیزوں کا نسخہ اور یہ 8 فوائد کا سبق مجھے کافی ہے، اسی بنا پر میری خلاصی اور نجات ہوگی اور آخرت کے دن کی کامیابی حاصل ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ 8 سبق کیا ہیں جومیری صحبت میں 30 برس رہ کر سیکھے۔

حضرت حاتم اصم کے بیان کردہ 8 اسباق کے علاوہ دو چیزیں میں آپ کے لئے بیان کرچکا۔

1۔ حسن اخلاق 2۔ نیک صحبت میں استقامت

اب آیئے اُن 8 چیزوں اور زندگی کے ماحصل کا مطالعہ کرتے ہیں جوحضرت حاتم اصم کو صحبت میں استقامت رہنے کے نتیجے میں نصیب ہوئیں۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان تعلیم، نصیحت کے طور پر درج بالا دو اسباق اخلاق اور استقامت کے ساتھ ساتھ درج ذیل ہر ایک سبق کو اپنا زیور بنا لیںاور عمر بھر اس کی روشنی میں سفر طے کریں۔

1۔ فانی کی بجائے باقی سے دوستی

حضرت حاتم اصم فرماتے ہیں کہ میں نے مخلوق میں دیکھا کہ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی محبوب اور معشوق ہے۔ اس دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی شے یا شخص سے محبت اور عشق کرتا ہے۔ میں نے غور و فکر کیا کہ ہر عاشق کا جو محبوب ہے وہ اگر اسے مل بھی جائے اور ان کی سنگت بھی ہو جائے تو آدھے لوگ تو وہ ہیں جن کے محبوب ان کی مرض الموت تک اُن کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی سنگت مرض الموت تک رہتی ہے جونہی ان کی موت واقع ہوتی ہے ان کی سنگت ختم ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ آدھوں کو دیکھا کہ ان کے محبوب دفن کرنے تک ساتھ جاتے ہیں۔ میں نے غور کیا کہ کیا کوئی ایسا بھی ہے جو قبر میں بھی اس کے ساتھ جائے۔ ۔ ۔ قبر جو تنہائی کا کمرہ ہے کیا کوئی ایسا ہے جو اس کی قبر میں بھی اس کے ساتھ ہو۔ ۔ ۔ میں نے عمر بھر دیکھا کہ کوئی محب اپنے محبوب کے ساتھ جس کے لیے وہ مرتا رہا، جیتا رہا۔ ۔ ۔ خواہ وہ دوست اور محبوب اس کی اولاد ہے خواہ وہ اس کے بیوی بچے ہیں، خواہ اس کے دوست اور دنیا کے محبوب ہیں، خواہ مال و دولت ہے، خواہ جاہ و منصب ہے، خواہ زیب و زینت ہے، جس شے کے لیے بھی وہ جیتا مرتا، محنت کرتا، محبت کرتا، چاہتا اور اس کے لیے پوری زندگی کو گنواتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ جب اس پر تنہائی کا وقت آتا ہے تو کوئی ایسا اس کا مونس و ہمدم نہیں ہے جو اس کے ساتھ گیا ہو، ہر ایک کے محبوب اسے قبر کی دیوار تک دفن کر کے واپس چلے آئے، اور اسے تنہا و یکتا قبر کی تنہائی میں چھوڑ آئے۔

پس میں نے غور و فکر کیا کہ کیا یہ محبوب اچھے ہیں کہ جب اس کی تنہائی کا وقت آیا۔ ۔ ۔ اس پر ایک وحشت طاری ہونے اور مشکل وقت آیا۔ ۔ ۔ تو اس کے مشکل، تنہائی، یکتائی اور پریشانی کے وقت میں اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ ۔ ۔ یا وہ دوست اچھا ہے جو قبر کی تنہائی اور مشکل میں بھی اسکے ساتھ رہے۔

پس میں نے سوچا وہ دوست کون ہو سکتا ہے جو بندے کی قبر میں اور پریشانی کے عالم میں اس کے ساتھ ہوتو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ دوست صرف اعمال صالحہ ہیں۔ اس کی نیکیاں، اس کی عبادات۔ ۔ ۔ یعنی راتوں کو اٹھنا، پابندی سے نماز پڑھنا، پابندی سے تلاوت کرنا۔ ۔ ۔ ہمیشہ عبادت اور طہارت میں رہنا۔ ۔ ۔ اللہ کے احکام کی اطاعت کرنا، صدقہ خیرات کرنا۔ ۔ ۔ نیک اعمال کی کثرت کرنا، لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا، احسان کرنا۔ ۔ ۔ میں نے کہا کہ انسان کو اعمال صالحہ سے محبت کرنی چاہیے۔ بندے کو نیک اعمال کا اتنا لالچ ہو کہ اسے جہاں موقع ملے وہ اسے کر ڈالے۔ اعمال صالحہ سے محبت کی جائے اس لئے کہ اعمال صالحہ دفن کے وقت باہر نہیں رہ جاتے۔ نیک اعمال اپنانا ہی اچھا ہے اور انہوں نے کام آنا ہے۔ جنہوں نے قبر میں ساتھ ہونا ہے ان کا ساتھ اب ہی اپنا لیا جائے اور جو قبر ساتھ نہیں جائیں گے ان کا ساتھ دنیا میں بھی اپنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

2۔ خواہشاتِ نفس کی مخالفت

آپ کی صحبت میں دوسرا سبق میں نے یہ حاصل کیا کہ سارے لوگ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں، ہر شخص خواہشات نفسانی کو پورا کرنے میں زندگی گزارتا ہے اور اسی کی کوشش و تگ و دو کرتا ہے۔ ہر شخص ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے، میں نے اللہ پاک کا قول قرآن مجید میں پڑھا :

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىO فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىO

(النازعات، 79 : 40، 41)

’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہو گا‘‘۔

پس جو شخص قیامت کے دن جواب دہ ہونے کے تصور سے کانپ گیا اور خوف زدہ ہو گیا کہ جب اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے تو میرے پاس اس وقت کے لیے کیا سامان ہے جو اس وقت سے ڈر گیا اور اس نے اپنے ہوائے نفس کی پیروی سے توبہ کر لی۔ ۔ ۔ اپنے نفس کی خواہشوں کی پیروی سے رک گیا۔ ۔ ۔ اپنے نفس کو بچا لیا۔ ۔ ۔ تو اللہ نے فرمایا بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانہ بنا دیا گیا۔

جب میں نے اللہ پاک کا یہ وعدہ سنا تو مجھے یقین ہوا کہ قرآن اللہ کا سچا کلام ہے اور اس کے اندر جو اللہ نے وعدہ کیا ہے وہ سچا وعدہ ہے وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، سو میں اس دن سے اپنے نفس کی خواہش کی خلاف ورزی کرتا ہوں۔ ۔ ۔ مجاہدہ کو میں نے اپنی عادت بنا لیا ہے۔ ۔ ۔ میں نفس کو مجاہدے پر لگاتا ہوں اور میرا نفس جس چیز کی خواہش کرتا ہے میں اس کی مخالفت کرتا ہوں، اس طرح میں نے نفس کو زیر کر لیا۔ پس میں اللہ کی پیروی کرتا ہوں اور نفس میری پیروی میں لگا رہتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی عبادت، اس کی اطاعت اور بندگی میں نفس کو عادی بنا دینا اور نفس کی پیروی سے رک جانا دوسرا سبق ہے جو میں نے آپ کی صحبت سے حاصل کیا۔

3۔ دنیا کی حرص کا خاتمہ

تیسری چیز جو آپ کی صحبت سے حاصل کی وہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر شخص دنیا کو اکٹھا کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک خواہ ضروریات و حاجات کو پورا کرنے کے لیے، خواہ زندگی کو آسائش و آرام دینے کے لیے، خواہ زندگی کو لذت دینے کے لیے الغرض ہر شخص دنیا جمع کرنے پر مصروف ہے اور اس پر قبضہ جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے جب اس پر غور کیا تو میری نگاہ قرآن مجید کے ایک اور مقام پر گئی :

مَا عِنْدَکُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اﷲِ بَاقٍ.

(النحل، 96)

’’جو (مال و زر) تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے‘‘۔

پس میں نے فانی کے پیچھے دوڑنا اور حرص کرنا چھوڑ دیا اور باقی کی طلب میں لگ گیا۔ اب ضروریات کے لیے تو کماتا ہوں مگر جمع کرنے کی خواہش ختم ہو گئی ہے۔

4۔ عزت کا پیمانہ۔ ۔ تقویٰ

میں نے چوتھی چیز مخلوق میں دیکھی کہ وہ کسی نہ کسی چیز میں اپنی عزت سمجھتی ہے۔ ہر شخص کا ایک گمان ہے کہ مجھے عزت ملے۔ ۔ ۔ کوئی کہتا ہے مال میں عزت ہے۔ ۔ ۔ کوئی کہتا ہے اولاد میں عزت ہے۔ ۔ ۔ ہر شخص کا اپنا ایک پیمانہ ہے مگر خدا نے بھی ایک پیمانہ مقرر کیا ہے کہ

اِنَّ اَ کْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰکُمْ.

’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔ (الحجرات، 49 : 13)

سو میں نے دنیا کے عزت کے جھوٹے پیمانے توڑ دیئے اور سچا پیمانہ تقوٰی اور پرہیز گاری کو اپنا لیا۔

5۔ غیبت، مذمت اور حسد سے اجتناب

میں نے مخلوق میں دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کی پشت پیچھے مذمت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں ان سب کی اصل وجہ حسد ہے۔ صرف حسد کی بنا پر کئی کسی کی پشت پیچھے اس کی مذمت کرتا ہے۔ وہ حسد مال کی وجہ سے ہوتا ہے، علم کی وجہ سے ہوتا ہے، عہدہ و منصب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے قول کی طرف نگاہ دوڑائی :

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا.

’’ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں ‘‘۔ (الزخرف، 43 : 32)

تم ایک دوسرے پر حسد کیوں کرتے ہو، یہ جو لوگوں کو عزت دی ہے، مال و دولت دیا ہے، جاہ و منصب دیا ہے، رزق دیا ہے، شہرت دی ہے، یہ ہم نے دیا ہے۔

میں نے یقین کر لیا کہ جس چیز پر میں حسد کرتا ہوں اور جلتا ہوں اور لوگوں کی مذمت اور غیبت کرتا ہوں وہ تو اللہ کا فیصلہ ہے کسی کے بس کی تو بات ہی نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے کہ جسے جتنا چاہا عطا کر دیا۔ اس دن سے میں نے توبہ کر لی اور میں کسی کی مذمت نہیں کرتا، حسد نہیں کرتا اور اللہ نے جس کو جو دیا ہے اس پر راضی اور خوش ہوتا ہوں اور ترک حسد کر لیا۔

6۔ دشمنیوں کا مرکز و محور شیطان کو بنانا

میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ کسی نہ کسی سے عداوت رکھتے ہیں۔ چھپے طریقے سے یا ظاہر طریقے سے۔ ۔ ۔ تھوڑا یا زیادہ۔ ۔ ۔ مذہبی لوگ ہوں۔ ۔ ۔ سیاسی لوگ ہوں، سماجی، معاشی، معاشرتی لوگ ہوں۔ ۔ ۔ جس کو بھی دیکھو عداوت ضرور چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر عداوت ہی کرنی ہے تو اللہ سے پوچھتے ہیں کہ عداوت اور دشمنی کس سے کی جائے۔ دوستی کرنی ہو تو اعمال صالحہ سے کریں دشمنی کرنی ہو تو کس سے کریں ؟ تو اللہ پاک نے یہ سبق دیا۔

اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ.

(الاعراف، 7 : 22)

’’بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے‘‘۔

اگر دشمنی کرنی ہے تو شیطان تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے بس اس کے دشمن بن جاؤ اور دشمنی کا سارا غصہ چھپا ہوا بھی اور ظاہر بھی شیطان کے خلاف نکالو۔ اس دن سے میں نے ساری دشمنیاں ختم کر دیں۔ ۔ ۔ ساری عداوتیں دل سے نکال دیں۔ ۔ ۔ اور اپنی ساری دشمنیوں کا مرکز و محور فقط شیطان کو بنا دیا۔ اب میری دشمنی صرف شیطان سے ہے۔ اس کے سوا کسی شخص سے میری دشمنی نہیں ہے۔ جب دشمنی میرے دل سے نکل گئی تو ہر ایک کے لیے خیر خواہی میرے دل میں پیدا ہو گئی۔

تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان آپ اس وقت سچے مومن اور اس مشن کے سچے علمبردار بنیں گے جب ہر ایک کے لیے آپ کا دل خیر خواہ ہو جائے۔ ۔ ۔ اور رتی بھر بھی دشمنی کا اثر آپ کے دل میں نظر نہ آئے۔ ۔ ۔ کسی کے لیے حسد، غیبت اور چغلی آپ کی زندگی میں نہ رہے۔ ۔ ۔ اور ساری مخالفتوں کا رخ صرف شیطان کے لیے ہو۔ ۔ ۔ تب آپ کامیاب ہیں۔

7۔ حرص و طمع کا خاتمہ

میں نے دیکھا ہر شخص طلبِ معاش، طلبِ مال میں جد و جہد کر رہا ہے۔ ۔ ۔ تگ و دو کر رہا ہے، بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔ ۔ ۔ اس بھاگ دوڑ اور تگ و دو میں حرام بھی کما بیٹھتا ہے اور مشکوک بھی کما بیٹھتا ہے۔ ضروریات کے لیے اپنی تگ و دو میں حلال کے مقابلے میں حرام اور مشکوک کا فرق بھی نہیں رکھتا اور یہ حرام اور مشکوک کمانے کی وجہ سے اس کی عزت بھی جاتی رہتی ہے اور اللہ کی نگاہ میں اس کی قدر و منزلت بھی جاتی رہتی ہے۔ ہر شے کے لیے اس کی ذات میں طمع ہے اور یہ طمع اس کی عزت بھی گنواتا ہے اور لوگوں کی نگاہ میں بھی اس کے مقام کو گرا دیتا ہے۔ میں نے غور کیا کہ وہ کیا طریق ہے کہ لوگوں کی نگاہ میں بھی میری قدر و منزلت نہ گرے تو میں نے اللہ پاک کا ایک وعدہ قرآن مجید میں پڑھا، اللہ فرماتا ہے :

وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُهَا.

(هود، 11 : 6)

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے‘‘۔

تمہاری ذمہ داری تگ و دو کرنا ہے۔ ۔ ۔ حرص و لالچ کرنا نہیں، طمع کرنا نہیں۔ ۔ ۔ لہٰذا تگ و دو سے انسان خراب نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ طمع اور حرص سے خراب ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دن سے میں نے طمع اور حرص ختم کر دیا۔ ۔ ۔ رزقِ حلال کی تگ و دو کے ساتھ اللہ پر توکل کر لیا۔ رزقِ حلال اور محنت کو جاری رکھا اور حرص و طمع ختم کردیا۔ لوگوں کے حال دیکھنا بند کر دیئے کہ فلاں کو زیادہ مل گیا اور فلاں کو اس سے بھی بڑھ کر مل گیا۔ جو میرے نصیب میں ہے مجھے مل جائے گا اور میری ذمہ داری اس کے لیے تگ و دو و تدبیر کو بروئے کار لانا ہے۔ پس میں نے حرص ولالچ کو ختم کر دیا اور اللہ کے ساتھ اپنا یقین وابستہ کر لیا۔

8۔ توکّل علی اللہ

میں نے دیکھا کہ ہر شخص اس دنیا میں کسی نہ کسی پر اعتماد کرتا ہے۔ ۔ ۔ کوئی مال پر، کوئی درہم و دینار پر۔ ۔ ۔ کوئی کسی شخص پر۔ ۔ ۔ اور کوئی وسائل پر اعتماداور بھروسہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ کوئی فن پر۔ ۔ ۔ کوئی اپنی تجارت پر۔ ۔ ۔ الغرض ہر شخص کسی نہ کسی شے پر بھروسہ کرتا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ پر، کوئی اپنی جوان اولاد پر۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا کہ یہ سب بھروسے کمزور ہیں اور یہ انسان کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اُوندھے منہ گراتے ہیں اور انسان کو ناکام و نامراد کر دیتے ہیں۔ میں نے اللہ سے پوچھا کہ سب سے اچھا سہارا کون سا ہے تو اس نے فرمایا :

وَمَنْ يَّتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ فَهُوَ حَسْبُه.

(الطلاق، 65 : 3)

’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے‘‘۔

سو اس دن سے محنت جاری رکھی اور سارے بھروسے ختم کر دیئے اور صرف اپنے اللہ پر بھروسہ کیا۔

حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے جب اپنے شاگرد حضرت حاتم اصم کا یہ سبق سنا تو فرمایا میرے بیٹے اللہ تجھے نیک توفیق سے ان اعمال پر ہمیشہ کاربند رکھے۔ تو نے جو 8 نکتے میری صحبت میں 30 برس گزار کر سیکھے۔ میں نے عمیق نظر سے پوری تورات کو بھی پڑھا، زبور کو بھی پڑھا : انجیل کو بھی پڑھا تھا اور عمیق نظر سے قرآن مجید کو بھی پڑھا۔ اللہ کی قسم میں نے اللہ کی اتاری ہوئی چاروں کتابوں میں جتنی تعلیمات پڑھیں وہ ساری کی ساری ان 8 نکتوں کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ جس شخص نے ان 8 نکتوں پر، ان 8 سبقوں پر عمل کر لیا وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو گیا۔

تحریک منہاج القرآن کے کارکنان! ایک عظیم مشن کے فرزند ہیں اس لیے لازم ہے کہ آپ اپنے اعمال اور احوال کو سنواریں اور آپکی زندگی میں کوئی قاعدہ اور کلیہ ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ کچھ زندگی کے اصول ہونے چاہئیں۔ ۔ ۔ کچھ ضابطے ہونے چاہئیں جو ظاہر و باطن میں واضح دکھائی دیں، وہ آپ کا طرہ امتیاز ہوں۔ ۔ ۔ وہ آپ کے اوصاف کہلائیں۔ ۔ ۔ وہ آپ کی نمایاں شناخت کہلائیں۔ پس جن 10 چیزوں کا تذکرہ ہوا یہ آپ کی نمایاں شناخت ہونی چاہئیں۔

دعوت کا تقاضا

پہلے زمانوں میں بڑے لوگ اور بڑی ہستیاں دعوت دینے والوں سے سوال کر کے ان کو ناپتے تولتے تھے کہ یہ کس جگہ پہ کھڑا ہے۔ کیا دعوت کا کام کرنے کی اہلیت ہے بھی یا نہیں۔ ۔ ۔ ؟ آج ہم سب دعوت دینے کے منصب پر ہیں۔ کیا ہم دعوت دینے کے اہل ہیں یا نہیں۔ ہمیں خود اس پر غور کرنا ہوگا اور اپنی کمی و کوتاہی کو دور کرتے ہوئے دعوت کے تقاضوں کو حقیقی معنوں میں پورا کرنا ہوگا۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ جن دنوں کوفہ میں تھے ان دنوں دمشق کی عظیم الشان مسجد میں بڑے بڑے اجتماع ہوتے اور دور دراز سے علماء، خطباء، واعظین آتے اور دین کی دعوت اور اشاعت کرتے۔ ایک دفعہ وعظ و نصیحت کرنے کے لیے حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بھی آئے ہوئے تھے۔ اس وقت ابھی امام نہ بنے تھے۔ مختلف لوگ وعظ دے رہے تھے، اللہ کے دین کی دعوت دے رہے تھے کہ اچانک مولا علی رضی اللہ عنہ کوفہ کی اس شاہی مسجد میں آئے۔ ۔ ۔ آپ نے ان کے وعظ کو سنا۔ ۔ ۔ ایک ایک دو دو جملے مختصراً کلام سنا، آپ سمجھ گئے کہ یہ حقدار نہیں ہیں سب کو بلا کے قطار میں کھڑا کر دیا کہ آپ قابل نہیں کہ مخلوقِ خدا کو وعظ کریں، آپ خود بھی ہلاک ہوں گے اور ان کو بھی ہلاکت میں مبتلا کر دیں گے۔ اتنے میں امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بھی آ گئے اور وعظ کرنے لگے تو آپ نے ان کو بھی روک لیا اور کہا میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اگر آپ نے ٹھیک جواب دے دیا تو آپ کو اجازت دے دوں گا، آپ وعظ کر سکیں گے اگر جواب نہ دیئے تو آپ کو بھی باقی لوگوں کی طرح صف میں کھڑا کر دوں گا۔

اگر نااہل دعوت دیں گے تو وہ موثر نہ ہوگی کیونکہ ان کے اندر معرفت نہیں ہے۔ اس لئے معرفت کے بغیر جب دعوت دیں گے تو اس میں حکمت و دانائی نہیں ہو گی، تاثیر نہیں ہو گی۔

دین کا خلاصہ۔ ۔ ۔ ورع

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا امیر المومنین پوچھیے کیا پوچھتے ہیں؟ حضرت علی نے فرمایا بتاؤ

مَا مَلَاکُ الدِّيْن. (دین کا خلاصہ کیا ہے؟)

آپ نے جواب دیا ’’الورع‘‘۔ ’’ورع دین کا خلاصہ ہے‘‘۔

ورع دو طرح کا ہے۔

1۔ ورع ظاہری 2۔ ورع باطنی

ورع ظاہری تو یہ ہے ہر حرام سے پرہیز کرنا۔

ورع باطنی یہ ہے کہ ہر شے کو چھوڑ کر اپنے یقین کی صحت کو اللہ پر قائم کر لینا۔ ۔ ۔ اللہ پر ایسا بھروسہ کرنا کہ وہ جو دے اس پر دل پر سکون اور خوش ہو جائے اگر یہ کیفیت پیدا ہو تو اس کو ورع کہتے ہیں۔

اللہ کے ساتھ تعلق ظاہر اور باطن میں ایسا ہو جائے کہ اللہ کا تعلق اسے سکون اور لذت دے اور اللہ کے غیر پر کوئی بھروسہ اسے سکون نہ دے۔ اگر قلب و باطن کی کیفیت اللہ کے ساتھ یہ ہو جائے تو یہ ورع ہے۔

دین کا فساد۔ ۔ ۔ طمع

پھر فرمایا : وَمَا فَسَادُ الدِّيْن.

’’دین کا فساد کس میں ہے‘‘؟

حضرت حسن بصری نے عرض کی ’’ طمع‘‘۔ دین کا سارا فساد طمع میں ہے۔

طمع کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی محبتوں، چاہتوں، دنیاکے مال و وسائل اور راحت و سکون پربھروسہ کرے اور ان کے لیے اپنے دل میں حرص رکھے۔ اس کا توکل اللہ پر نہ ہو بلکہ دنیا پر ہو۔ یہ کیفیت اگر دل میں ہو تو اسے طمع کہتے ہیں۔ فرمایا جس کا دل اوپر سے نماز پڑھ رہا ہے، تہجد پڑھ رہا ہے، ظاہری وضع قطع ہے، قرآن ہاتھ میں ہے۔ ظاہری جو بھی ہے مگر اس کے دل کا تعلق اللہ کے ساتھ ایسانہیں جو اسے ہر طرح کے بھروسے سے بے نیاز کر دے۔ اگر وہ ترکِ طمع اور کامل ورع نہیں رکھتا تو دین کا فساد ہے اور دین کے مغز سے محروم ہے۔ وہ خود بھی ہلاک ہوتا ہے اور جس کو دعوت دی جا رہی ہے وہ بھی ہلاک ہوتا ہے کسی کو کوئی نفع نہیں ہوتا۔

یہ وہ سبق ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حسن بصری سے اور حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حاتم اصم سے سنا اور اسے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا۔ پس آپ اپنی زندگیوں سے طمع ختم کر دیں اور ورع پیدا کریں۔ دل اور باطن کے حال درست کریں۔ اور جو 10 سبق بتائے گئے ان کے مطابق زندگی کی ترجیحات، محبتیں اور راحتیں بدلیں۔ اس سے آپ کی زندگی میں خوشبو آئے گی۔ ۔ ۔ نور آئے گا۔ ۔ ۔ اندھیرے دور ہوں گے۔ اللہ پاک آپ کو اسی رنگ میں رنگ دے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)