اس قانون کی مثالیں ہمیں جابجا ملتی ہیں۔ مثلاً ایک دن کا پیدا ہونے والا شیرخوار بچہ جب بھوک محسوس کرتا ہے تو وہ اُسکے ازالے کے لیے کسی شے کی طلب کا اظہار کرتے ہوئے رونا شروع کر دیتا ہے حالانکہ وہ لفظ بھوک سے آشنا بھی نہیں ہے۔ اسکی وجہ محض یہی ہے کہ بھوک کی حالت اُس کے لیے ضرررساں اور نقصان دہ ہے لہٰذا اُس کی فطرت اُسے اس حالت سے بچاناچاہتی ہے چنانچہ وہ اس حالت سے باہر آنے کے لیے دودھ یاکسی اور چیزکی طلب کرتا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ہاتھ اگر کہیں بے دھیانی میں آگ کی سمت بڑھنے لگے تو فوراً ہمارے ارادے کے بغیر ہی پیچھے ہٹتا ہے۔ ہماری آنکھوں میں اگر کوئی چیز پڑنے لگے تو وہ غیر ارادی طور فوری بند ہو جاتی ہیں تاکہ ہرقسم کے نقصان سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ یہ مثالیں اس حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص ہر معاملے میں فطری اور جبلّی طور پر ہر قسم کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے اور ہر قسم کے فائدے اور منافع کو اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
لیکن دوسری طرف روز مرہ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت شاہراہِ حیات پر سفر کرتے ہوئے تعمیر کوچھوڑ کر تخریب کی طرف چل پڑتی ہے اور بیسیوں ایسے کام کرتی ہے جو اُسے تباہی و بربادی کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ مثلاً سگریٹ نوشی اور دوسرے نشہ جات کااستعمال، قتل، زنا، چوری، ڈکیتی، دوسروں کوناحق ستانا اور اسی طرح کے بہت سے مذہبی، اخلاقی، سماجی و معاشرتی جرائم جن میں مبتلاہو کر انسان دوسروں کو نقصان پہنچانے اور معاشرے کا امن و سکون تہس نہس کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ذہنی و قلبی سکون و اطمینان سے محروم کر لیتا ہے اور دنیا و آخرت کی تباہیاں، بربادیاں، رسوائیاں اور ذلتیں خرید لیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ہوتاہے؟ انسان اپنی فطرت کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اُن کی مخالف سمت میں چلتے ہوئے نفع کی بجائے نقصان کاسودا کیوں کر لیتا ہے اور کامیابی و کامرانی کے راستے کو چھوڑ کر ناکامی و نامرادی کے راستے پر چل کر اپنی منزل کو کھوٹا کیوں کر لیتا ہے؟
اس سوال کے جواب پر غور کرنے سے جوبات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی دوچیزوں سے عبارت ہے۔
1۔ فکر 2۔ عمل
فکر اور عمل اگرچہ دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر اور لازم ہیں اوراسی طرح ملی ہوئی ہیں جیسے آگ کے ساتھ حرارت اورسورج کیساتھ روشنی۔ ان دونوں میں تعلق یہ ہے کہ فکر مقدم ہے اورعمل مؤخر۔ انسان کا ہر عمل اُس کی فکر کا آئینہ دارہوتا ہے۔ ہر چیز پہلے خیال اور فکر کی سطح پر نمودار ہوتی ہے اور پھر اُس کے بعد عمل کے سانچے میں ڈھلتی ہے۔ لہٰذا فکر اگر درست ہوگی تو عمل بھی درست ہوگا اورفکر غلط ہوگی توعمل بھی غلط ہو جائے گا۔ لہٰذا عمل کو درست کرنا ہے تو پہلے فکر کو درست کرنا ہوگا۔ یہ فکر کی گمراہیاں ہیں جو انسان کو تعمیر کے راستے سے ہٹا کر تخریب کے راستے پر ڈال دیتی ہیں۔ تاریخِ انسانی میں جو بھی تخریب کاریاں، تباہیاں اور بربادیاں ہمیں دکھائی دیتی ہیں وہ سب کی سب پہلے انسانوں کے ذہنوں میں جنم لیتی رہی ہیں اور پھر ہی عمل کا روپ دھارتی رہی ہیں۔ فکری گمراہیوں کاسبب ذہنی مغالطے، غلط فہمیاں اور توہمات ہیں جو حقیقت کے چہرے پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور انسان کو اشرف المخلوقات کے بلند ترین مقام سے نیچے گرا کر جانوروں کی سطح پر بلکہ بعض اوقات اس سے بھی نیچے لے آتے ہیں۔
سقراط کا قول ہے’’ نیکی، علم ہے اور بدی، جہالت ‘‘۔ اس کامطلب بھی یہی ہے کہ جب انسان کو کسی بھی معاملے میں صحیح علم حاصل ہو جاتا ہے تو وہ لازماً عمل کا روپ دھارتا ہے جو کہ نیکی کی شکل بنتی ہے۔
اسکے برعکس کسی بھی معاملے میں جہالت سے انسان کے اندر توہمات اورغلط تصورات پیدا ہوتے ہیں جن سے غلط عمل جنم لیتا ہے جو بدی کی شکل بنتی ہے۔ انسانی فکر کوسنوارنے اور بگاڑنے میں علم کابہت بڑا عمل دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے علم کے حصول پر اتنا زور دیا ہے کہ دنیا کے کسی اورمذہب اور تہذیب نے اتنا زور نہیں دیا۔ قرآنِ مجید کی پہلی وحی کآغاز ہی حصولِ علم کی تلقین سے ہو رہا ہے۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.
(العلق : 1)
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا‘‘۔
قرآنِ مجید میں جابجا علم کی اہمیت کے حوالے سے ارشادات ملتے ہیں۔
1. قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ.
’’فرما دیجئے : کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں‘‘۔ (الزمر : 9)
2. يَرْفَعِ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِيْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ.
’’اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرمادے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا‘‘۔ (المجادلہ : 11)
3. إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
’’بس اﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ (فاطر : 28)
اسی طرح حضور علیہ السلام نے بھی علم کی اہمیت کے حوالے سے کئی ارشادات فرمائے۔
1. طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ.
(سنن ابن ماجه، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، ج 1، ص 81، رقم 224)
’’علم کی طلب کرنا ہرمسلمان مرد اور عورت پرفرض ہے‘‘
2. اُطْلُبُوالْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّيْن.
(شعب الايمان، السابع عشر من شعب الايمان، ج 2، ص 253، رقم 1663)
’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے‘‘
لیکن علم سے مراد وہی علم ہے جو انسان کو فکری لغزشوں، گمراہیوں، توہم پرستیوں سے نکال کر حقیقت سے آشنا کر دے نہ وہ علم کہ جو اُلٹا انسان کو شکوک و شبہات اور گمراہیوں کی دلدل میں ڈال کر حقیقت سے دور کر دے۔ ایسے علم سے پناہ مانگی گئی ہے۔
حضور علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی۔
3. اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لاَّيَنْفَع.
(صحيح مسلم، باب التعوذ من شرما عمل ومن شر مالم يعمل، ج 4، ص 2088، رقم 2722)
’’اے اللہ !میں تیری پناہ مانگتاہوں اُس علم سے جونفع نہ دے‘‘
علم کا نفع بخش نہ ہونا دو جہتوں سے ہو سکتا ہے۔
1۔ علم نظریاتی طور پر غلط ہو اور اسکے نتیجے میں انسان فکری گمراہیوں کا شکار ہو جائے جن کا لازمی نتیجہ عملی گمراہیوں کی شکل میں نکلے گا کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ’’عمل تابع ہوتا ہے حال کے اور حال تابع ہے علم و یقین کے‘‘
2۔ علم کے غیر نفع بخش ہونے کی دوسری جہت یہ ہے کہ علم بذاتِ خود تو صحیح ہو لیکن وہ عمل کا روپ نہ دھار سکے۔ اسلام کامطالبہ ہے کہ انسان کاعلم نظری اعتبار سے بھی صحیح ہوناچاہیے اور اُسے انسانی شخصیت میں اس طرح رچ بس جانا چاہیے کہ انسان اُس کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہو جا ئے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سوچ، فکر اور عمل کا وہ کون سا لائحہ عمل ہے جسے اپنا کر انسان فکری لغزشوں اور عملی گمراہیوں سے بچ سکتا ہے اور زندگی کے زاویوں کو درست کر سکتا ہے؟ یہاں چار اُصول بیان کیے جا رہے ہیں جن کو اپنانے سے انسان صحیح روش کو اپنا کر اپنی زندگی کو کامیابی و کامرانی کی شاہراہ پر چلا سکتا ہے، زندگی کے بازار میں زندگی کی پوری قیمت وصول کر سکتا ہے اور زندگی کے دامن کوحقیقی خوشیوں اور مسرتوں سے بھرنے کیساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے ماحول پر خوشگوار اثرات ڈال سکتا ہے۔ یہ صرف ایک نظریہ (تھیوری) ہی نہیں ہے بلکہ ایک عملی طریقہ (Practical Method) بھی ہے جو انسانی زندگی کو نئی راہوں اور نئی منزلوں سے آشنا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کر کے اسے اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہو جائے۔ یہ اُصول اسلامی تعلیمات اور علمِ نفسیات کی جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں جو کہ ذیل میں درج ہیں :
(1 ) مثبت سوچ (2) حقیقت پسندی
(3) خودشناسی (4) نصب العین
ذیل میں ان سب کی تشریح و تفصیل درج کی جا رہی ہے۔
1- مثبت سوچ
اللہ رب العزت نے اس کائنات میں ہر چیزکاجوڑاجوڑا بنایاہے۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّهَا.
(يٰسين : 36)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کیے‘‘۔
قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ کی رُو سے کائنات کی ہر چیز جوڑا جوڑا بنائی گئی ہے۔ مثلاً دن رات، مرد و عورت، آسمان و زمین، گرمی و سردی، خیر و شر وغیرہ۔ بنظرِغائر دیکھا جائے تو زندگی کاسارا حسن ہی اس تضاد میں ہے۔ عربی زبان کاایک مقولہ ہے
اَلْاَشْيَاءُ تُعْرَفُ بِاَضْدَادِهَا.
’’چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں‘‘
کائنات کی دوسری تمام اشیاء کی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانی سوچ کے بھی دو انداز بنائے ہیں :
1۔ مثبت سوچ 2۔ منفی سوچ
جس طرح ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر معاملے کے بھی دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک روشن اور دوسرا تاریک۔ مثبت سوچ کامطلب ہے تصویر کے روشن پہلو کودیکھنا یعنی ہرمعاملے کی مثبت جہت کو لینا۔ بالفاظِ دیگر ہرحال میں پُر اُمید اور رجائیت پسند ہونا جبکہ منفی سوچ کا مطلب ہے تصویر کے تاریک پہلو کو دیکھنا یعنی معاملے کی منفی جہت کو لینا۔ بالفاظِ دیگر معاملے کے تاریک پہلو کو دیکھتے ہوئے مایوسی، نااُمیدی اور پست ہمتی کاشکار ہو جانا۔
مثبت اور منفی سوچ کا تعلق کسی ایک معاملے سے نہیں ہے بلکہ زندگی کے جملہ معاملات میں یہ دونوں قسم کی سوچیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً میز پر آدھا گلاس پانی کاپڑا ہوا ہے، ایک کہتا ہے آدھا خالی ہے، دوسرا کہتا ہے آدھا بھرا ہوا ہے۔ اگرچہ دونوں ہی صحیح کہہ رہے ہیں مگر دونوں کے نکتہ نظر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اول الذکر کی سوچ منفی ہے جو معاملے کے تاریک پہلو کو دیکھ رہی ہے جبکہ مؤخر الذکر مثبت سوچ کا مالک ہے جو معاملے کے روشن پہلو کو دیکھ رہا ہے۔ ۔ ۔ اسی طرح ایک شخص کسی بستی میں گیا وہاں اُسے جوتے کی ضرورت پیش آگئی۔ اُسے ساری بستی میں تلاش کے باوجود جوتے کی دکان ہی نہ ملی۔ اب سامنے کی بات تویہ ہے کہ وہ بندہ مایوس ہو کر کہتا کہ عجیب بستی ہے جس کے اتنے بڑے رقبے میں جوتے کی دکان ہی کوئی نہیں ہے۔ لیکن وہ بندہ مثبت سوچ والا تھا اُس نے سوچا کہ یہاں جوتے کی دُکان کھول کر خوب منافع کمایا جا سکتا ہے۔ چناچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور خوب منافع کمایا۔
سوامی و ویکانند کے ایک مسیحی دوست نے ایک مرتبہ اُن کی دعوت کی۔ اُس نے اپنے کمرے کی میز پر مختلف مذاہب کی کتابیں اس طرح اوپر نیچے رکھ دیں کہ سب سے نیچے سوامی جی کی مذہبی کتاب تھی اور سب سے اوپر اُس کی اپنی مذہبی کتاب۔ سوامی جی جب کمرے میں داخل ہوئے تو اُس نے کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پر تبصرہ کریں۔ بظاہر یہ واقعہ اشتعال دلانے والا تھا مگر سوامی جی نے کمالِ تحمّل کامظاہرہ کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا کہ
The foundation is really good.
’’بنیادتوواقعی اچھی ہے‘‘
بظاہر تو سوامی جی کے لیے یہ ایک منفی واقعہ تھا مگر اُن کی مثبت سوچ نے اس منفی واقعہ میں سے بھی مثبت پہلو نکال لیا۔
یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے پوچھا گیا کہ کسی آدمی کے تعلیم یافتہ ہونے کی علامت کیاہے؟ اُس نے کہ
The person who can create thing out of nothing.
’’وہ شخص جو ’نہیں‘ سے ’ہے‘ کو تخلیق کر سکے‘‘
عظیم سائنسدان الفریڈایڈلر نے اپنی ساری زندگی انسان کی چھپی ہوئی مخصوص صلاحیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ
One of the wonder-filled characteristics of human beings is there power to turn a minus into a plus.
’’ انسانی شخصیت کی خصوصیات میںسے ایک حیرت ناک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک ’نہیں‘کو’ہے‘ میں تبدیل کرسکتاہے‘‘
فورڈ کمپنی کے مالک ہنری فورڈنے اسی حقیقت کومندرجہ ذیل خوبصورت انداز میں بیان کیا۔
You think you can or you cannot you are right.
’’اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ کوئی کام کر سکتے ہیں توآپ ٹھیک ہیں اوراگر آپ یہ سوچیں کہ آپ نہیں کر سکتے تو بھی آپ سچے ہیں‘‘(وجہ یہ ہے کہ اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کر سکتے ہیں تو واقعی آپ کر سکیں گے اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے تو نہیں کر سکیں گے)
یہ حقیقت ہے کہ انسان کی سوچ ہی تمام کامیابیوں کی بنیاد ہے اور انسان کی سوچ ہی اُسے ناکامیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کی عملی زندگی اُس کے ارادوں کے ماتحت ہوتی ہے اور ارادے سوچ اور فکر کے ماتحت ہوتے ہیں۔ منفی سوچ کا نتیجہ خراب زندگی ہے اور مثبت سوچ کا نتیجہ خوشگوار زندگی ہے۔ انسان کے جملہ اعمال و افعال میں سوچ کی حیثیت وہی ہے جو مکان کی تعمیر میں نقشہ کی ہوتی ہے۔
جیسا نقشہ۔ ۔ ۔ ویسا مکان، جیسی سوچ۔ ۔ ۔ ویسا انسان۔ انسان کی سوچ کا اُس کی صلاحیتوں پر بڑا زبردست اثر پڑتا ہے۔ منفی سوچ انسان کو کمزور کرتی ہے اوراُس کی صلاحیتوں کو جامد کر دیتی ہے جبکہ مثبت سوچ اُس کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے اور اُسے آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس بات کوریاضی کی مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ جس طرح ریاضی میں اعداد کو جمع کرتے جانے سے مجموعہ بڑھتاچلاجاتا ہے جبکہ منفی کرنے سے حاصلِ تفریق کم سے کم ہوتا چلا جاتاہے۔ اسی طرح مثبت سوچوں سے انسان پھیلتا ہے اور کامیابیوں اور کامرانیوں کی نئی داستانیں رقم کرتا ہے جبکہ منفی سوچ سے انسان سکڑتا چلا جاتا ہے اور اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر رہ جاتا ہے۔
ہر انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں، خوابیدہ قوتیں اور لامحدود امکانات بنانے والے نے رکھ دئیے ہیں لیکن اُنہیں جاننے، سمجھنے اور پروان چڑھانے کے لیے مثبت سوچ کی ضرورت ہے۔ دین، دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں مثبت سوچ کی مرہونِ منت ہیں اورتمام ناکامیوں کی تہہ میں کہیں نہ کہیں منفی سوچ ہی دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ کے اندر جتنے بھی لوگ کامیابی کی چوٹی پر دکھائی دیتے ہیں یہ سب کے سب وہ لوگ ہیں جو مثبت سوچوں سے لبریز تھے جو ہر قسم کے ناخوشگوار حالات میں مبتلا ہو کر بھی پُراُمید اور باحوصلہ رہنا جانتے تھے۔
جب یہ بات طے ہوگئی کہ مثبت سوچ انسانی زندگی کی کامیابی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے تو پھر اسلام جواپنے دامن میں انسانیت کے لیے صرف دنیا کی نہیں بلکہ دنیا کے ساتھ آخرت کی کامیابیوں کو لے کر آیا لازماً اُسے مثبت سوچ کا علمبردار ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے جب ہم اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں ہمیں قدم قدم پر مثبت سوچ کو اپنانے اور منفی سوچ سے سختی سے پرہیز کرنے کی تلقین ملتی ہے۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اپنے عقائد سے لے کر جملہ تعلیمات تک ہر جگہ اور ہر معاملے میں مثبت سوچ کادوسرا نام ہے (گواسلام مثبت سوچ سے بہت آگے کی چیز ہے اور مثبت سوچ تو اُس کافقط ایک جز ہے) وضاحت کے لیے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
٭ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے گناہ گار بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ.
(الزمر : 53)
’’تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘‘۔
مایوسی کیا ہے؟ منفی سوچ کا دوسرا نام ہے اور پُرامید رہنا مثبت سوچ ہے۔ تو یہاں مثبت سوچ کو اپناتے ہوئے ہرحال میں اُمید کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ (جاری ہے)