لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ.
(الفتح : 27)
’’بے شک اﷲ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت کے عین مطابق سچا خواب دکھایا تھا کہ تم لوگ، اگر اﷲ نے چاہا تو ضرور بالضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، (کچھ) اپنے سر منڈوائے ہوئے اور (کچھ) بال کتروائے ہوئے (اس حال میں کہ) تم خوفزدہ نہیں ہو گے‘‘۔
روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں یہ خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکر مہ میں مع صحابہ کرام رضی اللہ عنہمم کے اطمینان سے داخل ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔ اور احرام سے فارغ ہو کر کچھ لوگوں نے حسب قاعدہ سر کا حلق کروایا اور بعض نے سر کے بال کٹوائے اور یہ کہ آپ بیت اﷲ میں داخل ہوئے اور بیت اﷲ کی چابی آپ کے ہاتھ آئی۔
چونکہ انبیاء کا خواب سچا ہوتا ہے گو کہ خواب میں اس واقعہ کا کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا تھا، اور حقیقت میں یہ خواب فتح مکہ کے وقت پورا ہونے والا تھا مگر جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خواب سنایا تو وہ سب کے سب مکہ مکرمہ جانے اور بیت اﷲ کا طواف کرنے کے ایسے مشتاق تھے کہ فورًا ہی تیاری شروع کر دی۔
مد ینہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جس نے سنا اسے اﷲ کی طرف سے مکہ میں مسلمانوں کے داخلہ کا فیصلہ سمجھا۔ مہاجرین کئی سال سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے کہ کب وہ حجرِ اسود کو بوسہ دے سکیں گے۔ قریش مکہ نے انصار مسلمانوں کیلئے بھی حج و عمرہ نا ممکن بنا دےئے تھے، اس لئے یہ بشارت انصار کیلئے بھی اتنی ہی خوشی کی بات تھی جتنی بڑی خوشی یہ مہاجرین کیلئے تھی۔ غریب الوطن مسلمانوں کو اس شوق نے، جو بیت اﷲ کا ان کے دل میں تھا، بے چین کر دیا اور انہوں نے اسی سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفر مکہ کیلئے آمادہ کر لیا۔
پس منظر
تفصیلات بیان کرنے سے پہلے ہم سفر مکہ کے اسباب و ضروریات اور پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔
غزوہ احزاب میں شکست کے بعد قریش اس قابل نہ رہے تھے کہ وہ اسلام کی روز افزوں نمو پذیر زبردست قوت سے ٹکر لے سکیں۔ اہل اسلام کا اثرورسوخ شمال میں دومتہ الجندل تک پہنچ گیا تھا۔ جنوب میں بنو مصطلق اور بنو ہذیل کے علاقوں تک اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔ اب مکہ تین اطراف سے اسلام کی عسکری قوت کے گھیرے میں تھا۔ قریش صرف یمن کی طرف نکل کر تجارت کر سکتے تھے۔ تجارتی ناکہ بندی اور خشک سالی نے ان کی اقتصادی حالت کو نڈھال کر دیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خندق کے بعد فرمایا تھا ’’اب آئندہ کبھی قریش کو جرات نہ ہو گی کہ وہ ہم پر اقدامی کاروائی کر سکیں اب ہم اُن کے خلاف اقدام کریں گے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ج 3، 221)
وہ اپنی قوت کو پہلے ہی بدر واحد میں آزما چکے تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر وہ عرب بھر کی متحدہ قوت کو مسلمانوں کے خلاف سمیٹ لائے تھے اور بری طرح ناکام ہوئے تھے، لہذا اب ان کے بس میں اسلام کا مٹانا نہ رہا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَO
(الصف : 8)
’’یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریںo‘‘۔
اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصد بعثت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَO
(الصف : 9)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریںo‘‘۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری حیات طیبہ اور اس مخصوص دور کے حالات سیرت پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی عمر عزیز کے قلیل ہونے اور عرب کے وسیع اور ہمہ رنگ معاشرے، کافتہ للناس دین کی اشاعت اور نفوذ کے مقصد عظیم کے طویل و دراز ہونے کا بے حد احساس رہا ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیات مبارکہ کے ہر لمحہ میں، وحی الہی کی روشنی اور اپنی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے اقدامات برابر جاری رکھے جن سے اسلام بتدریج ترقی، طاقت، اشاعت اور توازن کی راہ پر گامزن رہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس آفاقی دعوت کو لے کر مبعوث ہوئے تھے اس کا دائرہ کار کسی مخصوص خطے، زبان، نسل یا رنگ تک محدود نہیں تھا۔ رسول انسانیت رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ اثر میں تو پوری کائنات تھی۔ وہ پورے روئے کائنات کے ہادی و رہنما بن کر تشریف لائے تھے۔ اس لئے ضروری تھا کہ ریاست مدینہ میں استحکام کے بعد بیرونی ماحول کو اسلام سے روشناس کیا جاتا لیکن یہ مقصد اس وقت تک کما حقہ، حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا جب تک کفار مکہ کی مزاحمت کا خاتمہ نہ ہو جاتا، اس لئے کہ مکہ مکرمہ سرزمین حجاز کی سیاسی، ثقافتی، مذہبی اور روحانی سرگرمیوں کا تاریخی مرکز تھا۔ خود تحریک اسلامی کا نقطہ آغاز بھی یہی سرزمین تھی۔ اس لئے یہاں قدم جمائے بغیر موجودہ دعوت اسلامی کی موئثریت جزیرہ نمائے عرب سے باہر خاصی مشکل تھی۔
(مقدمہ سیرت الرسول، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 433)
آپ کا یہ مقولہ کہ اسلام کے سامنے عرب و عجم مفتوح ہوں گے، مکہ سے لے کر مدینہ تک اتنی بار سامنے آتا ہے اور اس دور میں اتنا زبان زد عام رہا ہے کہ اس کی نوعیت تحریک اسلامی کے مستقل سلوگن کی سی معلوم ہوتی ہے۔ اسلا م نے اپنا پولیٹیکل وجود منوانے کیلئے صلح حدیبیہ کا راستہ اختیار کیا۔ اس بات کا پتہ ہمیں بخاری کی اس روایت سے بھی ملتا ہے کہ جس میں ابو سفیان ہرقل قیصر روم سے ہمکلام ہوتا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اسے یقین ہوچکا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غلبہ حاصل ہو جائیگا اور یہ حدیبیہ کے فوراً بعد کا واقعہ ہے حالانکہ اسلام کو بطور مذہب قبول کرنے میں تو عربوں کو بالعموم اور قریش اور خود ابو سفیان کو با لخصوص بڑا وقت لگا۔
حالات کا تقاضا اور مدینہ کی ریاستی پالیسی
اسلام اپنی ابتداء سے لے کر تیرہ سالہ مکی زندگی اور چھ سالہ بعد از ہجرت کی عمر میں علاقائی سطح کے تمام داؤ پیچ اور نشیب و فراز سے نہ صرف آگاہ ہو چکا تھا بلکہ ناسازگار ترین حالات سے بہ حسن و خوبی عہدہ براء ہو چکا تھا۔ اب اسلام علاقائی سطح کے دور سے نکل کر عالمگیریت اور بین الاقوامیت کے دور (Phase) میں کامیابی سے داخل ہونا چاہتا تھا۔ اس تبدیلی و ترقی کے عمل میں حالات کی ناموافقت اور مخالفتوں کی شدت آڑے آرہی تھی۔ ایک طرف یہود کی سازش خیبر کو اپنا مرکز بنا کر اسلام کے مقدس وجود پر حملہ آور ہو رہی تھی اور وہ اس سلسلے میں قبائل عرب کو بھڑکا کر، متحدہ لشکر سے قریش کو امداد دے کر، ریاست مدینہ پر حملہ آور ہونے کی جسارت بھی کر چکے تھے۔ دوسری طرف گروہ قریش تھا جو اپنی تمام تر مرکزی قیادت کھو دینے، حالات سے بری طرح پٹ جانے، اقتصادیات میں سخت ناکامی اور حربی قوت کے شدید ترین زوال سے دو چار ہوجانے کے باوجود صدیوں کی بت پرستی، جاہلانہ فخر و تمکنت اور اپنی نسلی و مذہبی سیادت کھونے اور چھوڑنے کیلئے بالکل بھی آمادہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ قبائل عرب اور خود قریش میں ایسے عناصر موجود تھے جو اسلام کی حقانیت کے قائل ہو چکے تھے مگر باقی عرب قریش کی طرف اور قریش اپنی جھوٹی انا کی طرف دیکھ رہے تھے اور اسلام کی قربت سے ہچکچا رہے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دوران اگرچہ دعوتِ اسلام کو دور دراز خطوں میں پہچانا شروع کر دیا تھا لیکن باقاعدہ عالمی مہم شروع کر نے سے پہلے مکہ مکرمہ کو اسلامی ریاست کے زیر نگیں لانا بہت ضروری تھا۔ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مرحلے پر بھی ایک ٹھوس، مؤثر اور مدبرانہ حکمت عملی اپنائی۔ (مقدمہ سیرت الرسول، ڈاکٹر طاہرالقادری : 1، 434)
مدینہ کی مستقل اصولی پالیسی یہ تھی کہ جو محارب بھی صلح کا خواہاں ہو اس کی خواہش امن کا احترام کیا جائے۔ تصادم سے بچ کر حلیفانہ تعلقات پیدا کر نا حکومت مدینہ کی سرگرمیوں کا اہم شعبہ تھا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امن کے معاہدات کر کے اور زیادہ سے زیادہ وسعت نظر اور لچک کا مظاہرہ کر کے ایسے حالات پیدا کر رہے تھے کہ مخالفتیں آہستہ آہستہ دم توڑ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی بشارتو ں اور مقاصد کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ اور مسلمانوں کو روم وفارس اور شام و یمن میں اسلام کو رائج کر نے کی منزل کے قریب کر کے چھوڑنا تھا۔ اور اپنے فرامین کی حقانیت کو مشرکین، منافقین اور مسلمانوں پر واضح کر کے چھوڑنا تھا۔ اس نازک موقع پر مقامیت کے دور(Phase) سے نکل کر بین الاقوامیت کے دائرہ کار میں آنے کیلئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دور رس نگا ہ بصیرت نے محسوس کیا کہ قریش اور یہود خیبر میں سے کسی ایک سے صلح کر کے دوسرے سے نپٹا جائے اور نہ صرف اس کا قلع قمع کیا جائے بلکہ اندرونی محاذ پر زیادہ سے زیادہ امن حاصل کر کے اتنی ترقی کر لی جائے جو اسلام کے مجوزہ راستے (Course of action) میں آنے والی رکاوٹوں کے سدباب کیلئے ضروری ہو۔ جنگ احزاب سے عہدہ براء ہوتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ پیچیدہ مسئلہ آگیا تھا کہ کیسے اس دوہرے محاذ کو توڑا جائے۔ موجودہ حالات میں مکہ کی طرف اقدام کریں تو خیبر کے یہودی اور بنو غطفان مدینہ پر چڑھائی کر سکتے تھے اور اگر خیبر کی طرف متوجہ ہوں تو قریش دھاوا بول سکتے تھے۔ یہ بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ دور رس کا کتنا صحیح اندازہ تھا کہ ان دونوں میں سے خیبر کا محاذ ایسا تھا کہ جسے ایک ہی ہلہ میں توڑا جا سکتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ قریش مکہ ہی کو بآسانی صلح پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ (محسن انسانیت، 533)
اسی لمحہ غور و خوض میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خواب دکھایا جاتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین و انصا ر کی شدید خواہش اور تکمیل دین کی اپنی مساعی جمیلہ کی بر آوری کیلئے عمرہ کا ارادہ فرماتے ہیں۔ چونکہ خواب میں وقت متعین شدہ نہ تھا تو یہ بھی احتمال تھا کہ ابھی مقصد حاصل ہو جائے۔ بلکہ صحابہ کو فتح کا یقین تھا۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ج 1 : 336 ’’وهم علی طمع ان يد خلو امکة‘‘ باب صلح حدیبیہ کتاب المغازی)
ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کو مکہ سے بچھڑے ہوئے چھ برس ہونے کو آئے تھے۔ معاملہ محض حب وطن ہی کا نہ تھا بلکہ کعبہ دعوت ابراہیمی کا مرکز تھا اور دعوت ابراہیمی کی تجدید اب مسلم جماعت نے کی تھی۔ اس جماعت کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ ہمیشہ کیلئے اپنے آپ کو اپنے اعتقادی مرکز سے منقطع رکھ سکے۔ قریش اب تک راستہ نہیں دے رہے تھے اور بظاہر کشمکش کا آخری فیصلہ ہونے میں لمبی مدت درکار تھی۔ اس پہلو سے جذبات آہستہ آہستہ مضطرب ہو رہے تھے۔ ضرورت تھی کہ اسلام کے علمبرداروں کی طرف سے حرم پر اپنے حق کا اظہار ہو۔
اﷲ کریم متعدد بار بطریق وحی بہ زبان نبوت اپنی نعمتوں کی تکمیل کا جو وعدہ مسلمانوں سے فرما چکے تھے اب ان نعمتوں کے اتمام کا عملی اظہار ہونے والا تھا۔ یہ نعمت الہی دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکمیل اور عرب میں ایک ایسی اسلامی مملکت کے قیام کے ساتھ مشروط تھی جس کے دائرہ کار میں مسلمانوں کے محبوب وطن مکہ کا شامل ہونا شرط اول کی حیثیت رکھتا تھا اور مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جس میں کعبہ مرکز توحید ہو جائے اور شیطان، عرب میں اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو جائے۔ (ابن ماجہ باب الخطبہ یوم نحر، ’’وان الشیطن قدیئس من ان یعبد فی ارضکم ھذہ ابدًا ‘‘)
قرآن میں ويتمّ نعمة عليک (القرآن 48 : 2) کہہ کر جس نعمت کے اتمام کا ذکر کیا گیا ہے یہ سفر اسی منزل کی جانب ایک ایسے قدم کی حیثیت اختیار کرنے والا تھا جو روئیداد دین و حکمت میں ایک اہم سنگ میل کا مقام رکھتا ہے۔ اسی منزل کا حصول اليوم اکملت لکم دينکم واتممت عليکم نعمتی (القرآن5 : 3) والے دن پوری آب و تاب سے ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روز افزوں سیاسی طاقت کے ہر لمحہ میں یہ پالیسی عیاں رہی تھی کہ آپ کو اپنے کسی دشمن کی، چاہے وہ بدوی قبائل عرب ہوں یا مغرور قریش مکہ یا قبائل شمال و جنوب کی منظم حکومتیں، تباہی مقصود نہ تھی۔ آپ ان کو اسلام کے دائرے میں لانا اور اسلامی حکومت اور امت کارکن بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس پالیسی کا عملی اظہار ہر غزوہ اور ہر سریہ میں ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرے ہوئے دشمن پروار کرنے اور اس کا کام تمام کرنے کے بجائے اس کو گلے سے لگا لینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ قریش مکہ کے ساتھ بھی آپ کی یہ پالیسی شروع ہو رہی تھی اور جنگ بدر اور اس کے قیدیوں، مختلف سرایا میں پکڑے گئے دوسرے قریشی قیدیوں اور بسا اوقات ان کے مالِ غنیمت کے معاملہ میں آپ نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ آپ ان کی تباہی اور بربادی نہیں چاہتے بلکہ ان کو اسلام کا پیروی اور امت مسلمہ کارکن دیکھنا چاہتے تھے۔ قریش مکہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پالیسی سے پوری طرح واقف تھے اور اس کا بخوبی احساس رکھتے تھے۔
یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں برابر قریشیوں کا اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن دُوسری طرف ان کی اسلامی ریاست کی روز افزوں طاقت سے یہ بھی خدشہ تھا (جو اگرچہ حقیقی نہ تھا مگر قریش کے لئے صحیح تھا) کہ مسلمان کسی وقت بھی مکہ پر مسلح حملہ کر سکتے ہیں اور مکہ کی سیادت و قیادت کو آن واحد میں بالکل ختم کر سکتے ہیں۔ قریش مکہ کی دن بہ دن د گرگوں سیاسی اور فوجی طاقت اور اسلامی ریاست کی روز افزوں ترقی و استحکام کا یہی زمانہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ جا کر عمرہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
مکہ کی تیاری اور کوچ
یکم ذی قعد، سن چھ ہجری، بروز دو شنبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو صحابہ کے ساتھ مدینہ سے کوچ فرمایا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع سفر تا آخر اس بات کا بڑی شدت سے التزام کیا کہ آثار و قرائن اور مسلم گروہ کے رویے ایسے رہیں کہ جن سے واضح طور پر امن کا پیغام ملے اور نہ صرف قریش پر بلکہ تمام عربوں پر عیاں ہوجائے کہ مسلمانوں کا مقصد صرف عمرہ ہے۔ اس اہتمام کا مقصد یہ تھا کہ قریش پر زیادہ سے زیادہ اخلاقی دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ مسلمانوں کا راستہ روکنے سے باز رہیں۔ حرمت کے مہینوں میں جدال و قتال، قتل و غارت اور فتنہ و فساد کے تمام سلسلے رک جاتے تھے۔ دور دور سے لوگ آتے، نہ انہیں راستوں میں کوئی گزند پہنچتی اور نہ حرم سے روکا جاتا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذیقعدہ کا انتخاب اسی لئے فرمایا تھا کہ یہ حرمت کا مہینہ تھا۔
نیزوں اور تلواروں کے سوا کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ تلواریں چمڑے کے میانوں میں تھیں۔ (ابن سعد : طبقات ج 1؛394) کیونکہ مقصود عمرہ ادا کرنا تھا نہ کہ جنگ میں الجھنا۔ ویسے بھی مصلحت کا تقاضا تھا کہ قریش کو ہر ممکن طریقے سے یقین دلا دیا جاتا کہ پرامن طور پر حرم پاک کی زیارت کے سوا کچھ مطلوب نہیں۔ صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا اکرام مقصود ہے۔ (ابن ہشام ج 2 : 368) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قافلے کے ساتھ ہدی کے ستر اونٹ تھے۔ (ایضاً)
ذوالحلیفہ پہنچ کر عمرے کا احرام باندھا گیا اور قربانی سے قبل کی رسمیں ادا کی گئیں تاکہ عوام الناس اور خصوصاً قریش کو معلوم ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قتال کا کوئی ارادہ نہیں۔ (ایضاً)
’’ان میں دو رسمیں بطور خاص قابل ذکر ہیں :
اوّل : اشعار یعنی اونٹ کے کو ہان میں خفیف سا ز خم لگا دینا۔
دوم : تقلید یعنی جانوروں کے گلے میں قلا دے یا پٹے ڈالنا۔
ان علامتوں یا نشانیوں سے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان جاتا کہ یہ قربانی کے جانور ہیں جو حرم پاک کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں کوئی چھیڑتا نہ تھا۔ سب کے سب غیر مسلح تھے صرف ایک ایک تلوار نیام میں ساتھ رکھ لی گئی جو اس زمانے میں سفر کا ضروری آلہ سمجھی جاتی تھی، اور عرب کے معروف قاعدے کے مطابق ہر مسافر کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت تھی۔
قریش کی ہٹ دھرمی اور لڑائی کی تیاری
قافلہ روحا پہنچا تو اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بحیرہ احمر کی طرف مشرکین کا ایک گروہ جمع ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی کہ قریش کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر مل چکی ہے۔ انہوں نے آس پاس کے قبائل سے کہہ دیا ہے کہ آپ کو روکا جائے۔ خود بھی لاؤ لشکر کے ساتھ ذی طویٰ آ بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہرگز حرم میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ دو سو سواروں کو خالد بن ولید کی سرکردگی میں کراع الغمیم بھیج دیا ہے۔ یہ بستی عسفان سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھی۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطمع نظر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش کے ساتھ جھگڑوں اور جنگوں کے مقامی دائرے سے نکل کر باقی عرب دنیا میں اشاعت اسلام کی ذمہ داری سے عہدہ براء ہونا چاہتے تھے۔ بہت سے عرب قبائل کی نظر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قریش کی چپقلش کے انجام پر تھی۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش سے امن کا معاملہ کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام کی فطری تبلیغی نیچر محفوظ رہے اور عربوں پر حق عیاں ہو جائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا اور پیش آمدہ صورتحال پر ردعمل کیلئے مشورہ لیا اور فرمایا :
’’کیا ہم سر یعنی مکہ کی طرف چلیں یا ان لوگوں کی طرف بڑھیں جو ان کی مدد کر رہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے مشورہ دیا کہ ہم بیت اﷲ کے قصد سے نکلے ہیں کسی سے جنگ کیلئے نہیں، اس لیے ہم اپنے قصد پر رہیں۔ ہاں اگر کوئی ہمیں مکہ سے روکے تو ہم جنگ کریں گے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی) حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہ آپ سے کہہ دیں اذهب انت وربک فقاتلا ( القرآن 5 : 26) بلکہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ رہ کر قتال کریں گے۔ اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر نے بھی اس رائے کی تائید کی۔ (ضیاء النبی 4 : 131) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بس اب اﷲ کے نام پر مکہ کی طرف چلو۔ (تفسیر ابن کثیر 5 : 52، بخاری کتاب المغازی باب صلح حدیبیہ)
عسفان مکہ سے تریسٹھ میل دور تھا اور خالد بن ولید کا دستہ مکہ سے 55 میل دور نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ روکنے کیلئے کھڑا تھا۔ تصادم سے بچنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کے مشورہ سے، بنی اسلم کے ایک شخص عمر وبن عبد کی نشاندہی میں، غیر روائیتی دشوار گزار پہاڑیوں اور گھاٹیوں کے درمیان راستہ بدل کر پچاس میل کا سفر کر کے حدیبیہ کی خشک وادی میں پہنچ گئے اور قریش کی چال کو ناکام بنا دیا۔ نرم زمین میں وادی کے موڑ پر پہنچے تو فرمایا :
’’قولو نستغفرالله ونتوب اليه‘‘ (ابن ہشام، ج 2، 369) ’’قریش کو علم ہوا تو وہ تیزی سے حدیبیہ کے سامنے البلدہ کے پانی کے چشموں پر پہنچ کر قابض ہو گئے اور اپنا لشکر جمع کر کے اہل توحید کا راستہ روکا‘‘۔
قریش کی مشکل
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سفر مذہبی اور سیاسی ہر دو جہتیں لئے ہوئے تھا۔ قریش مکہ پر اعلان سفر بہت بھاری ہوا۔ (واقدی، 384) وہ سخت مشکل میں گرفتار ہو گئے اور بقول محمود شیت ان پر پروپیگنڈہ کی جنگ مسلط کر دی گئی۔ (الرسول القائد، 1964) ’’سو یہ سفر قریش کیلئے بھاری چیلنج بن گیا۔ اگر وہ زائرین کی مزاحمت نہ کریں تو گویا مکہ ہمیشہ کیلئے مسلمانوں پر کھل گیا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے رفقاء کے حرم میں آنے سے بہت ہی گہرے اثرات شہر والوں پر پڑ سکتے تھے‘‘۔
دوسری طرف زائرین کے قافلے کو روکنے میں بھی قریش کی پوزیشن سخت خراب ہوتی تھی۔ رائے عامہ میں رو یہ چلتی کہ ان لوگوں نے ایک مذہبی حق میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ لڑنے میں پہل کرتے ہیں تو یہ الزام سر آتا ہے کہ حرام مہینوں کی حرمت توڑی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے پہلے ہی حرم کی حرمت کا احترام کرنے اور فقط عمرہ کیلئے غیر جنگی سفر کرنے کا خوب اچھی طرح چرچا ہو چکا تھا۔ پھر جنگی اسلحہ ساتھ نہ تھا اور قربانی کے نشان زدہ جانوروں کا ریورڑ نوعیتِ سفر کی شہادت دے رہا تھا، گویا قریش سخت پیچیدگی میں گھر گئے تھے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ جانتی تھی کہ ساری اکڑفوں کے باوجود اس وقت قریش کیلئے مصالحت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
یہیں پر آپ نے ایک تجویز بھی float کر دی کہ قریش مسلمانوں سے ایک محدود مدت کا معاہدہ کر لیں۔ دوسری طرف اپنے ساتھیوں کا مورال اور اعتماد بڑہانے اور قائم رکھنے کیلئے اہل مکہ کے تازہ ترین اقدامات پر مشورہ بھی طلب کر لیا تھا جس کا نتیجہ بہت حوصلہ افزاء تھا۔
’’اس طرح کے حالات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نازک صورت حال کو اسلامی معاشرے میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال کیا‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتی پالیسی
اس سارے عمل کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش، اسکے اتحادیوں اور تمام اہل عرب کو حقیقی معنوں میں یہ باور کروا دیا تھا کہ آپ کی مساعی جمیلہ امن برقرار رکھنے کی خواہش پر مبنی اور اور صلح جوئی کی داعی و ضامن تھیں۔ قریش خود کو بے بس پا رہے تھے۔ اتحادیوں اور دوسرے اہل عرب کے دلوں میں قریش کی ہٹ دھرمی اور زیادتی کا تصور مضبوط ہو رہا تھا اور مسلمانوں کا مورال پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور بلند نظر آرہا تھا۔ پس یہی وہ عوامل ہیں جن کی بناء پر ہم کہ سکتے ہیں کہ استحکام اور نفوذ و اشاعت اسلام اور مسلمانوں کے عالمی غلبہ و تمکن کے وسیع تر مقصد کے راستے میں فوری تزویراتی Short term stretagic اقدامات کی حدیبیہ والی قسط Episode کے جملہ مقاصد میں سے آدھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہیں پر حاصل کر لیے تھے۔ مگر ابھی تک ایک کٹھن امتحان باقی تھا اور وہ تھا قریش کے مغرور، جاہلانہ اور ضدی مشرکانہ رویوں کے اسلام کے تازہ، سچے، ولولہ انگیز، امید افزاء اور صداقت پر مبنی مجنونانہ رویوں، بے چین محبت، بے قرار مقصدیت اور حمیت حق سے تصادم کی صورت میں اس طرح توازن پیدا کرنا کہ مسلمانوں کے مورال پر ناروا بوجھ ڈالے بغیر اسلام کی تحریک کے دوسرے دور (Phase) یعنی بین الاقوامیت کے ابتدائی مراحل میں کامیابی سے داخل ہوا جاسکے۔ (جاری ہے)