اندرونی اور بیرونی مشکلات اور بے سرو سامانی کے باوجود یہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہوتا گیا اور بالآخر پہلی اسلامی جوہری قوت ہونے کا شرف حاصل کیا۔ جہاں اسے کچھ شعبوں میں ترقی اور عزت نصیب ہوئی وہاں اس سے کہیں زیادہ حکمرانوں کی غلط اور خود غرضانہ پالیسیوں کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑی اور 24 سال بعد ہی اس کا مشرقی بازو علیحدہ ہوگیا۔ اس حصہ کا بنگلہ دیش کے نام پر جنوبی ایشیا کے نقشے پر اُبھرنا ایک ایسا زخم تھا جو مندمل ہونے کے بعد بھی آج تک تکلیف کا احساس دلا رہا ہے۔
پاکستان کی تخلیق چونکہ خالصتاً دو قومی نظریئے پر ہوئی اس لحاظ سے مذہب ہی اس کے تشخص کا بنیادی پہلو تھا مگر غاصب اور جابر حکمرانوں کی اسلامی روایات و تعلیمات سے انحراف نے اسے بتدریج تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ نتیجتاً وطن عزیز ابھرتی ہوئی معاشی قوتوں کے درمیان نڈھال اور لاغر دکھائی دیتا ہے۔ معیشت کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ ان دگر گوں حالات میں اگر ملک پاکستان کے ناخدا اس کے معاشی مفادات کا تحفظ نہ کرسکے تو اس کی نظریاتی پہچان اور تشخص کو بچانا کیسے ممکن ہوگا۔ ۔ ۔ ؟ عالمی معاشی ضابطے کے تحت کچھ لو اور کچھ دو کے اصول اور پالیسی پر اپنے مفادات کی خاطر تمام ممالک اپنا تشخص برقرار رکھتے ہیں۔ اگر ملک اس معیار اور کسوٹی پر پورا نہ اترے تو اس کی حیثیت بے نام کی اس زمین جیسی رہ جاتی ہے جس پر کوئی بھی قبضہ کرکے اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو اپنے اندر ضم کر سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں Economic integration کے نام پرجنوب مشرقی ایشیا میں چند ممالک کے اتحاد کو مستقبل کی عالمی قوت کا محور تصور کیا جا رہا ہے۔ مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو ان حالات میں بھی متذبذب ہے۔ مستقبل میں اس کے تشخص، ساکھ، پہچان اور عزت و وقار کو خطرہ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مملکت کے جملہ امراض کا بنیادی سبب حقیقی قیادت سے محرومی ہے۔ آج علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اور سر سید احمد خان رحمۃ اللہ علیہ جیسی فکری اور عملی قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستان کو دنیا کے نقشہ میں اس کا حقیقی مقام دلا سکے۔
بھارت، چین، روس اور دیگر مغربی ممالک اس کے معاشی گھیراؤ میں پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں دنیا کی رہنمائی کی ذمہ داری اس خطے کو نبھانے کا موقع ملا تو ہر ملک کو Competitive Advantage کی بنیاد پر کردار ادا کرنا پڑے گا مگر پاکستان اپنے موجودہ حالات میں دہشت گردی، غربت، بدامنی، مہنگائی، معاشی تنگدستی اور حقیقی قیادت کے فقدان کے تناظر میں اپنی نظریاتی پہچان پر دنیا کو سوال اٹھانے کی دعوت دے رہا ہے۔ پاکستان کو مستحکم کرنے کے لئے معاشی میدان میں انقلاب نہ لایا گیا تو اسے کوئی عالمی معاشی طاقت گود لے لے گی۔ آج حکمرانوں کو مفاد پرستی کی سیاست نظر انداز کرنا ہوگی۔ دو قومی نظریئے کی اساس دین اسلام ہے لہذا اس ملک کے انتظام و انصرام اور آئین و قوانین میں ہر جگہ دین اسلام کی تعلیمات کو مقدم رکھنا ہوگا۔ زندگی کے ہر شعبہ کی طرح یہاں سیاست بھی دین اسلام کے احکامات کے تابع ہونی چاہئے۔ سیاست، دین میں کُل کا نہیں جز کا درجہ رکھتی ہے اور سیاست کی بنیاد دین سے کٹ کر نہیں رکھی جاسکتی۔ اس لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
پاکستان کے نام نہاد حکمرانوں نے مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے سیاست کو دین سے جدا کر دیا جس کے نتیجے میں ہر طرف چنگیزیت کا راج دکھائی دیتا ہے۔ احکام الہٰیہ ہی سیاسی نظریات کو ایک پُروقار ریاست کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں، مذہب ہی اسلام کے سیاسی نظریات کی روح ہے اور اسی سے ریاست کے اجزائے ترکیبی وجود میں آتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد کی 23 سالہ زندگی کا دار و مدار اور مرکز و محور سیاسی زندگی ہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام قوانین و ضوابط اور اصول معاشرے کی ترقی اور استحکام پر مبنی تھے اور انہی کے تحت ریاست مدینہ ایک ترقی یافتہ ریاست ڈیکلیئر ہوئی۔
پاکستان مذہبی نظریات کی اساس پر قائم ہوا جب بھی اسلام کے نظریات سے متصادم اور متضاد افکار و نظریات کو یہاں پروان چڑھایا گیا، اسی وقت اس کی بنیادوں کو شدید خطرات سے دوچار ہونا پڑا۔
عالمی برادری میں پاکستان کے کمزور ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان اساسی نظریئے کے برعکس سوشلزم، کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے تجربات سے گزرتا رہا۔
پاکستان کا نظریاتی امام ریاست مدینہ کو ہونا چاہئے تھا مگر 62 سال گزرنے کے بعد بھی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی قوم کو اسلامی فلاحی ریاست نصیب نہ ہو سکی کیونکہ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لئے دینی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور اپنی حاکمیت کا سکہ چلانے والوں نے رہنمائی مدینہ کی بجائے واشنگٹن اور ماسکو سے لینا شروع کر دی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔
یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ نظریہ پاکستان کو چند مفاد پرستوں نے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر استعمال کیا اور مخلص، قابل اور ایماندار رہنما کو صرف حصول مقصد کے لئے اپنا پیشوا مانا۔ قائداعظم (جو مغربی قانون کے ماہر تھے) سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا تو انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ میں قرآن حکیم اٹھا کر پوری دنیا پر واضح کیا تھا کہ اس مملکت خداداد کے آئین کا ماخذ کیا ہوگا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے خطہ پاکستان کو اس لئے حاصل کیا ہے کہ ہم اسے اسلامی تجربہ گاہ بنائیں مگر قیام پاکستان کے بعد جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور نوابوں نے اپنے چہروں سے خود ہی وہ سارے نقاب نوچ ڈالے جن پر نظریہ پاکستان اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کا گمان گزرتا تھا۔ نیت میں مفادات کی ہوس کو جواں رکھنے والے اس طبقے نے اپنی اصلیت دکھائی تو قائداعظم کو کہنا پڑا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔
ان ہی زنگ آلود ذہنیت رکھنے والے ’’رہنماؤں‘‘ نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے فوراً بعد ہی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لئے ملکی و قومی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حرص و طمع کے ریکارڈ قائم کئے۔ قائداعظم کے فرمان کے برعکس پاکستان کو نام نہاد جمہوریت اور آمریت کا سامنا ہی رہا۔
نام نہاد جمہوریت اور پاکستان یقینا ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر قائد اعظم کے جانشین ہونے کے دعویدار اب تک انہیں یک جان دو قالب ثابت کرنے کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے فروری 1948ء میں فرمایا :
’’پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس دستور کی صورت کیا ہوگی لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی نوعیت جمہوری ہوگی اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہوگی۔ میر ایمان ہے کہ یہ اصول جس طرح چودہ سو سال پہلے قابل عمل تھے آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں‘‘۔
لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اس عظیم قائد کے اس پاکستان میں 1973ء تک کوئی آئین اور دستور وجود میں نہیں آسکا۔ آمریت نے پاکستان کی گردن پر اپنے مضبوط پنجوں کو پہلے سے زیادہ مضبوط کیا۔ پاکستان کے ہر دور کے حکمرانوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ آمریت کی سیاسی گدی کی حفاظت کی قسم بلا تفریق سب نے کھا رکھی ہے۔ ایوب سے مشرف تک فوجی آمروں اور ان کے خوشہ چین نام نہاد جمہوری رہنماؤں نے آمریت کی اس حد تک آبیاری کی کہ آمریت کی آکاس بیلوں نے حقیقی جمہوریت کے پودوں کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ دوسری طرف اسلامی نظریات سے دوری نے پاکستان کا مجموعی تشخص بھی سوالیہ نشان بنائے رکھا۔
قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ مغرب کے معاشی سسٹم کو استحصالی نظام حیات گردانتے تھے۔ آپ کے نزدیک بلاسود بینکاری نظام ہی پاکستان کی خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے۔ آپ نے 1949ء میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا :
’’ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا مالی نظام پیش کرنا ہوگا جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اصولوں پر قائم ہے‘‘۔
لیکن آج پاکستان کے حکمرانوں نے سودی نظام کی پیروی کرتے ہوئے ملک پاکستان کو بھکاری بنا دیا۔ آج حکمران اپنے ہاتھوں میں کاسہ گدائی لئے کبھی ورلڈ بینک سے اور کبھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے قرضہ اور گرانٹس کے لئے پھر رہے ہیں اور ملک سودی نظام کے سبب قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح پھنسا ہوا ہے۔
صرف پاکستان ہی کیا پوری امت مسلمہ اسلام کے اس حقیقی معاشی ماڈل سے انتہائی دور دکھائی دیتی ہے جس کی بنیاد 1400 سال قبل مدینہ کے تاجر صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی میں رکھی تھی۔ سرمایہ داریت اور اشتراکیت میں بٹی امت نے اپنا معاشی تشخص کھودیا جس کے نتیجے میں اس کے وسائل پر بھی غیر قابض دکھائی دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں پھنس کر امریکہ آج اپنے ہی قائم کردہ نظام کے باعث تیسری دفعہ بڑے Economic Recession سے گزر رہا ہے اور معاشی تنزلی کا نہ رکنے والا سفر شروع کر چکا ہے۔ امریکہ کے کئی بینک دیوالیہ ہو چکے۔ ان حالات میں بھی سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) کی پیروی کو جاری رکھنا اپنے حقیقی معاشی تشخص کی مزید بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آج امریکہ، سیاہ فام شخص کو صدر بنا کر پیغام دے رہا ہے کہ اس کی پالیسیاں غلط تھیں، سرمایہ دارانہ نظام میں اشتراکی نظام کی آمیزش پر مجبور ہونے والا امریکہ اپنی گرتی ہوئی معاشی ساکھ کو بچانے کی سعی کر رہا ہے مگر پاکستانی حکمران آج بھی اسی نظام کی اتباع کو جاری رکھنے پر مُصر دکھائی دیتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اپنے سیاسی اور معاشی تشخص کو نظریہ اسلام کے تابع کیا جائے۔ اسی سے نظریہ پاکستان کو تحفظ ملے گا اور پاکستان ایک حقیقی اسلامی ریاست کے طور پر اپنا کھویا ہوا تشخص بحال کر کے باوقار انداز میں خطے کے ممالک کے ساتھ عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کے قابل ہوگا۔ پاکستان کو نظریاتی امام ریاست مدینہ کو بنانا ہوگا۔ عادلانہ معیشت کی بنیاد مواخات مدینہ پر رکھ کر اسلام کے معاشی ماڈل کی پیروی کرناہوگی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال قبل پوری امت کو ایک جسم قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’مومنین کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔
انہی الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اخوت، بھائی چارہ، اتحاد اور ملی یگانگت کا عملی اظہار کرنا ہوگا۔ علامہ اقبال نے فرمایا :
بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ فغانی
آج پاکستان کے تشخص پر کاری ضرب فرقہ واریت، دہشت گردی، بدامنی اور لاقانونیت کی صورت میں لگ رہی ہے۔ ملک دشمن عناصر پاکستان کے قومی تشخص کو خاک میں ملانے کے لئے اس نفرت کی آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔
پاکستان کے قومی تشخص، نظریاتی اساس اور جداگانہ حیثیت کو زندہ و جاوید کرنے کے لئے پاکستانی عوام اور سیاسی لیڈروں کے کچھ فرائض اور تقاضے ہیں۔ ان کی بجا آوری سے ہی ایک پاکستانی، اچھا شہری اور پاکستان دنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ پاکستان کا جمہوری نظام تب نفع بخش ہوگا جب اس کا آئین اسلامی روح کے مطابق ہوگا۔ اہل قیادت کے انتخاب کے لئے ماحول اسی وقت سازگار ہوگا جب عوام علمی و سیاسی شعور اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہو لیکن اس کے برعکس آج پاکستانی عوام نسلی، لسانی بتوں کے سامنے سربسجود ہیں۔ باشعور عوام اچھی قیادت کا چناؤ کر سکتے ہیں اور ایک اچھی قیادت ہی ملک کو فلاح اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
اے حلقہ یاراں ایسے باوفا شخص کو چن
کہ دنیا بھی داد دے تیرے حسنِ انتخاب کی
ملکی تشخص کو مستحکم کرنے کے لئے تعلیمی میدان میں جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں دسترس حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ نظام عدلیہ اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا۔ جس دن یہ عہد کر لیا گیا پاکستان دیگر مسلم ریاستوں کے لئے قابل تقلید بن جائے گا اور خطے میں اس کا کردار مسلم دنیا کے لیڈر کے طور پر تسلیم کرلیا جائے گا۔