عبادات اور ذوق عمل میں اضافہ کا موجب
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں :
کان اذا دخل العشر الاخير شد مئزره واحيا ليله، وايقظ اهله.
’’جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آ جاتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نئے سرے سے کمر بستہ ہو جاتے تھے ساری رات خود بھی جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)
شرح و تفصیل
رمضان المبارک کی آخری تہائی کے نو، دس دن مسلمانوں کے لئے خصوصی جہد و عمل اور توجہ و انہماک کے دن ہیں۔ بیس روز گزر جانے کے بعد یہ ماہ مبارک پابرکاب مہمان کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، ماضی کے بحر سکوت و سکون میں تحلیل و مدغم ہونے والا ایک ایک لمحہ اس کی روانگی و رخصت کی اطلاع دینا شروع کر دیتا ہے۔ چونکہ یہ مہینہ برکتوں کا بے کراں سمندر ہے، انعامات و سعادت کا کبھی خشک نہ ہونے والا سرچشمہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عطایائے ربانی کا مظہر ہے، اس لئے اس کی عظمتوں سے کماحقہ آگاہ نہ ہوتے ہوئے بھی، اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے شایان شان طریقے سے الوداع کہنے کے طریقے تعلیم کئے گئے ہیں جیسا کہ استقبال کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اسلئے ہے تاکہ ناواقف و غافل بھی اس کی برکات سے محروم نہ رہے اور رمضان کے احترام کے صدقے اس کا بیڑا پار ہو جائے۔ چنانچہ احادیث کے مندرجات سے ثابت ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آخری تہائی میں پہلے سے بھی زیادہ پُرشوق، تازہ دم اور سرگرم عمل ہو جاتے تھے، اس تہائی میں خوب ذوق و انہماک سے عبادت کرنے کے لئے پہلے ہی سے تیاری شروع فرما دیتے تھے اور جب یہ دن آ جاتے تو آپ کی عبادت میں نمایاں اضافہ ہو جاتا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی مذکورہ حدیث میں اسی کیفیت کو بیان فرمایا گیا ہے :
ایک اور مقام پر اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا کہ
کان يجتهد فی العشر الاخير ما لا يجتهد فی غيره.
(مسلم)
آخری عشرہ میں جتنی محنت فرماتے، باقی دنوں میں اتنی نہیں فرماتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی فعل حکمت و بصیرت سے خالی نہیں۔ اس لئے یہ سوچنا بالکل بجا ہے کہ آخری عشرہ میں خصوصی اہتمام کیوں فرماتے؟ اس کی وجہ امت کے افراد کو ہمہ وقت مستعد اور تازہ دم رکھنا مقصود تھا کیونکہ مسلسل ایک کام کرتے کرتے انسان تھک جاتا ہے اور اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے یا یکساں اور ہموار عمل اس کی طبیعت میں رچ بس جاتا ہے اور اس کے ذہن میں اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ انسان کی فطرت اور طبعی خاصہ ہے۔
بیس دن کے روزہ رکھنے اور افطار کرنے کے یکساں عمل سے اس بے دلی کا پیدا ہو جانا ممکن تھا۔ اس لئے دانائے فطرت اور نباض حقیقت نے اپنے ذوق عمل اور طرز طریق سے آخری عشرے کو بالکل جدا اور نیا مقام عطا کر دیا۔ گویا اصل ذوق و شوق، ریاضت و عبادت اور یاد و بندگی کا وقت تو اب آیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ عبادت میں تنوع پیدا ہو جائے اور بیس دن کی پیہم مشقت ذوق عمل میں کمی نہ کر دے۔ فطرت شناسی کی یہ اتنی جاندار اور اتنی بڑی مثال ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔
دوسرا عشرہ پہلے عشرہ کے قریب ہی ہوتا ہے اور دس دن کی مدت کچھ اتنی لمبی بھی نہیں، اس لئے دوسرے عشرے کی صرف انفرادیت بیان کرنے پر اکتفا کی۔ ارشاد فرمایا :
اوله، رحمة و اوسطه مغفرة وآخره عتق من النار.
پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ کی آگ سے خلاصی کا ہے۔
مگر تیسرے عشرہ کی زبانی اور عملی طور پر بے شمار خصوصیات بیان فرمائی ہیں تاکہ امتی کو یہ احساس ہو کہ وہ ایک نیا کام اب ہی شروع کر رہا ہے اور اس طرح سارا رمضان اسی کیف و سرور، ذوق و شوق اور سوز و مستی کے ساتھ گزر جائے۔ اس آخری عشرے کا ایک ممتاز وصف یہ بھی ہے کہ اس میں اعتکاف کیا جاتا ہے، اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے اور دولت مندوں کو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم ہے۔
اعتکاف
اللہ کے لئے ضبط نفس، گوشہ تنہائی میں سب سے کنارہ کشی اور علائق دنیا سے بے رغبتی کے عملی اظہار کا نام اعتکاف ہے۔ چونکہ سبھی انسان اس مزاج و فطرت کے مالک نہیں ہوتے کہ سب سے ناطہ توڑ کر کسی تنہا کونے میں مالک حقیقی سے لو لگانے کا خیال ان کے دماغ میں آئے بلکہ بعض مخصوص افراد ہی کو یہ سعادت ارزانی ہوتی ہے، اس لئے اعتکاف سب پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ یاران نکتہ دان کے لئے خاص صلائے عام دے دی گئی کہ جو چاہے اس کنج عافیت میں آ کر حقائق و معارف کے رنگین انوار و تجلیات کے نظاروں سے لطف اندوز ہو۔ اگر ہر ایک پر فرض کر دیا جاتا تو شاید اسلام پر رہبانیت کی تعلیم کا دھبہ لگ جاتا اور اگر بالکل اجازت نہ دی جاتی تو کتنی سعید و شاہین صفت روحیں اپنی اصلی پرواز سے محروم رہ جاتیں۔
اب کسی شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ آخری دس دنوں میں اعتکاف کر لے تاکہ حق تبارک و تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کی عملی تربیت حاصل کر سکے۔ یہ آقا علیہ السلام کا دستور تھا۔
کان يعتکف العشر الاخير من رمضان حتی قبضه الله.
(ترمذی ص 98)
رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ وصال شریف تک یہی معمول رہا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
کان يجاور فی العشر الاواخر من رمضان ويقول تحروا ليلة القدر فی العشر الاواخر من رمضان.
(ترمذی)
آپ آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور حکم دیا کرتے تھے کہ اسی میں شب قدر کو تلاش کرو۔
بیہقی کی روایت ہے۔
من اعتکف عشرا فی رمضان کان کحجين و عمرتين.
جس نے عشرہ رمضان کا اعتکاف کیا، یہ دو حج اور دو عمروں کی طرح ہو گا۔
شب قدر
عمل و ریاضت کے شیدائیوں کے لئے شب قدر خاص اہمیت و کشش رکھتی ہے کیونکہ اس میں انتہائی مختصر وقت میں حیرت انگیز حد تک زیادہ سے زیادہ رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین عمل کے شیدائی تھے، ایک دفعہ ان کے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا :
گذشتہ امتوں کے لوگ طویل ترین عمروں کے مالک ہوتے تھے، ان میں سے بعض اپنی ساری عمر عبادت و اطاعت میں کھپا دیتے تھے۔ ۔ ۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر عرض کی : ہماری عمریں تو مختصر ترین ہوتی ہیں ہم کتنی بھی محنت کریں، عمل میں ان خوش قسمت افراد کی برابری نہیں کر سکتے۔ عمر کی طوالت ان کو ہم پر فوقیت بخش دے گی۔ ۔ ۔چونکہ اصحاب عزیمت وہمت تھے، خود کو میدان عمل میں بے بس پا کر افسردہ خاطر ہوئے اور اپنی بے بسی اور ساتھ ہی اطاعت و عبادت کے لئے اپنی رغبت کا اظہار کیا۔ قدرت ربانی نے ان کے خلوص و ذوق کو پذیرائی بخشی اور سورہ القدر نازل فرما کر بتایا شب قدر کی ایک رات کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔ طلوع فجر تک اس میں انوار و ملائک کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ یہ خوشخبری سن کر ان کی رگوں میں مسرت کی لہر کے ساتھ جذبہ عمل کی بجلیاں بھی دوڑ گئیں اور شب قدر کی تعین کے بارے میں استفسار فرمایا :
اگر محنت و عمل پر ابھارنا اور ان کی قوت عمل کو بیدار کرنا مقصود نہ ہوتا تو بتا دیا جاتا، فلاں تاریخ کو شب قدر ہوتی ہے مگر جذبہ عمل کو مہمیز لگانے کے لئے وہ طریقہ اختیار کیا جس میں مایوسی بھی نہیں اور ہر طبقہ کا شوق بھی برقرار رہتا ہے مثلاً یہ کہہ دیا جاتا کہ سارا سال عبادت کر کے شب قدر تلاش کرو تو اکثریت کی ہمتیں پست ہو جاتیں، اس لئے اس پست ہمتی اور مایوسی سے بچانے کے لئے بتا دیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ کچھ لوگ ہی اتنے بلند ہوتے ہیں جو مسلسل دس راتیں بھی جاگنے کے لئے تیار ہوں، اس لئے پانچ راتیں مخصوص فرما دیں کہ وہ آخری عشرے کی طاق راتیں ہیں۔ کچھ لوگ پانچ راتیں جاگنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے، انہیں ستائیسویں شب کو جاگنے کا مشورہ دیا۔
اس پردہ پوشی سے مترشح ہوتا ہے کہ ہر طبقہ کے افراد کو ان کے درجہ کے مطابق عمل و فعل پر ابھارنا مقصود ہے کہ جتنا کسی سے ہو سکے، ضرور جاگ کر اپنے مالک کی رحمت سے جھولیاں بھرنے کی کوشش کرے اور عمل سے دست کش ہو کر نہ بیٹھ جائے، چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
انها فی رمضان وانها ليلة سبع وعشرين ولکن کره ان يخبرکم فتتکلوا.
(ترمذی)
وہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے لیکن تمہیں اس لئے خبر نہ دی کہ بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جاؤ۔
بخاری شریف میں ہے :
خرج ليخبر الناس ليلة القدر فتلاحی رجلان من المسلمين. قال صلی الله عليه وسلم خرجت لاخبر. فتلاحی فلان وفلان، وانها رفعت وعسی ان يکون خيرالکم. فالتمسوها فی التاسعه والسابعه والخامسه.
(صحيح بخاری : 893)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کا بتانے کے لئے تشریف لائے، اس وقت دو شخص آپس میں جھگڑ پڑے۔ (آپ کی طبع مبارک پر یہ جھگڑا گراں گزرا، لہذا آپ واپس تشریف لے گئے) بعد میں فرمایا ہم باہر آئے تھے تاکہ شب قدر کے بارے میں بتائیں لیکن فلاں فلاں نے جھگڑنا شروع کر دیا اور وہ اٹھا لی گئی۔ ممکن ہے یہی تمہارے حق میں بہتر ہو۔ لہذا تم انتیسویں، ستائیسویں اور پچیسویں میں سے اسے تلاش کرو‘‘۔
گویا قدرت کو بھی منظور نہ تھا کہ عام لوگوں میں اس کا چرچا ہو، یہ صرف اسی لئے تاکہ مسلمانوں میں عمل و بخشش اور جدوجہد کا جذبہ قائم رہے۔
امام شافعی فرماتے ہیں حدیث پاک میں جو یہ آتا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر ڈھونڈو غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام اس طرح پوچھتے تھے : یارسول اللہ اکیسویں شب میں تلاش کریں؟ آپ فرما دیتے ہاں، دوسرا ستائیسویں کی یقین دہانی کرا لیتا، اسی طرح پچیسویں ستائیسویں اور انتیسویں کے بارے میں پوچھتے اور آپ سب کو وہی جواب دیتے کیونکہ آپ کی عادت مبارکہ تھی۔
کان يجيب علی نحو مايسال عنه يقال له نلتمسها فی ليلة کذا؟ فيقول التمسوها فی ليله کذا.
(ترمذی)
جیسا سوال ہوتا، ویسا ہی جواب دیا کرتے تھے۔ پوچھا جاتا، فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے : ہاں فلاں رات میں تلاش کرو۔ شب قدر کی واضح تعیین تو نہ فرمائی مگر ترغیب و شوق کے لئے اس کے بے شمار فضائل بیان فرما دیئے دیلمی کی روایت ہے :
ان الله وهب لامتی ليلة القدر ولم يعطها لمن کان قبلهم.
بے شک اللہ تعالیٰ نے صرف میری امت کو شب قدر دی ہے اور جو لوگ گزر گئے ان کو نہیں دی۔
طبرانی کی روایت ہے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو۔
فمن قامها ايمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه.
جس نے ایمان و یقین کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس میں قیام کیا اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : میں اس رات میں کیا دعا کروں؟ فرمایا :
اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی.
اے اللہ! تو معاف فرمانے والا ہے، عفو و درگزر کو پسند فرماتا ہے، مجھے معاف فرما دے۔
فطرانہ
اس عشرے کی ایک خصوصی عبادت صدقہ فطر بھی ہے، جو ہر صاحب حیثیت مسلمان پر تقریباً دو سیر گندم یا اس کی قیمت، کے حساب سے فرض ہے، اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ہونی چاہیے تاکہ غرباء و نادار اپنی ضروریات خرید کر سب کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
زکوة الفطر فرض علی کل مسلم حر و عبد ذکر وانثی من المسلمين.
(دار قطنی)
صدقہ فطر، مسلمان مرد و عورت، آزاد غلام سب پر فرض ہے۔
صدقہ فطر کی فرضیت کی حکمت بیان کرتے ہوئے آقا علیہ السلام نے فرمایا :
زکوٰة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطمعه للمسالکين. من اداها قبل الصلاة فهی زکوٰة مقبولة ومن اداها بعد الصلاة فهی صدقة من الصدقات. ان شهر رمضان معلق بين السماء والارض. لا يرفع الا بزکوة الفطر.
روزہ دار سے جو لغویات اور فضول حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ فطرانہ ان سے روزوں کی تطہیر کرتا ہے اور مساکین کی خوراک کا ذریعہ ہے جو شخص نماز عید سے پہلے ادا کر دے اس کی طرف سے یہ قبول کر لیا جاتا ہے مگر جو بعد نماز ادا کرے، اسے عام دیئے جانے والے صدقہ کا ثواب ملتا ہے، فطرانہ کا نہیں (اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ) روزے زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں جب تک فطرانہ کی ادائیگی نہ ہو۔