خوابوں کا شہر
میں گذشتہ سال کی طرح ’’استنبول فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ کلچر‘‘ کی دعوت پر 20 جون کو لاہور سے استنبول براستہ کراچی روانہ ہوا تھا۔ کراچی سے مسلسل 5 گھنٹے کی فلائٹ کے بعد جب 21 جون کی صبح استنبول اتا ترک ایئر پورٹ پر پہنچا تو یہاں اسی وقت اسلام آباد سے بھی بعض عزیزان وطن ’’آستانہ خلافت‘‘ کی خنک ہواؤں میں اترے تھے۔ استنبول ایئر پورٹ پر طیارے اترتے نہیں برستے ہیں۔ ہم ترکش ایئر لائن سے یہاں پہنچے تھے اور ہمارے دیکھتے دیکھتے درجنوں طیارے لینڈ کر چکے تھے۔ اسی طرح میں نے دس منٹ میں مسلسل 8 طیارے رن وے سے ہوا میں بلند ہوتے دیکھے۔ اس آمد و رفت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دنیا بھر سے لوگ کس قدر کثرت اور رغبت سے آتے ہیں۔
استنبول ہمارے خوابوں میں ہی رچا بسا نہیں رہتا بلکہ اس کی تاریخی، ثقافتی، دینی اور جغرافیائی حیثیت دنیا کے ہر ذی شعور شخص کے لئے باعث کشش ہے۔ یہ شہر دلآویز 1100 سال تک بازنطینی اور رومی سلطنت کا مضبوط ترین مرکز رہا پھر اسے بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمان فاتحین کی توجہات حاصل رہیں مگر غیر معمولی حصار اور تینوں طرف سمندر ہونے کی وجہ سے یہ تقریباً 800 سال تک مسلسل کاوشوں کے باوجود اسلامی سلطنت کا حصہ نہیں بن سکا۔ حالانکہ ترکی میں اسلام کا نور ہدایت تو خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لے کر وارد ہوئے تھے جس کی بڑی علامت میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے مزارات ہیں۔ اہل استنبول اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس میزبان کی میزبانی کا دائمی شرف حاصل ہے، جن کا انتخاب کسی اور نے نہیں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا تھا جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی آ کرآپ کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔
بالآخر اس عالمی شہرت یافتہ عیسائی دارالحکومت کو 24 سالہ سلطان محمد نے 1453ء میں فتح کیا اور اہل عالم کو اپنے نام کے ساتھ ’’فاتح‘‘ کا لفظ بولنے پر مجبور کر دیا۔ موجودہ ترک مسلمان اپنے بچوں کے نام کثرت کے ساتھ ’’محمد فاتح‘‘ رکھتے ہیں۔ ترکی مسلمان جس طرح صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا احترام کرتے ہیں اسی طرح ان کے دلوں میں سلطان محمد فاتح رحمۃ اللہ علیہ کی عزت اور عظمت رچی بسی ہے۔ آج بھی استنبول کا قدیم حصہ جو یورپ میں شامل ہے ’’فاتح‘‘ کے نام سے ہی منسوب ہے۔ اسی حصہ میں اسلامی سلطنت کے انمٹ نقوش قدم قدم پر اسلام کی عظمت و شوکت کی داستانیں سنا رہے ہیں۔ سلطان محمد فاتح نے جب اس شہر کو فتح کیا تو اسی روز اس کے سب سے بڑے چرچ ’’ایاصوفیہ‘‘ میں نماز ظہر کی امامت کرائی۔ دنیا کے قدیم اور وسیع ترین عیسائی عبادت خانے میں خود قرآن کی تلاوت کی اور اللہ کی وحدانیت کا اعلان کیا۔ نماز سے فارغ ہوا تو تین اعلان کئے جو تا حال تاریخ کا حصہ ہیں :
- پہلا اعلان یہ تھا کہ اس شہر کا نام قسطنطنیہ کی بجائے آج سے اسلام بول ہو گا۔ ترکی زبان میں اسلام بول کے وہی معنی ہیں جو اسلام آباد کے ہیں۔ یعنی اسلام کا مرکز و مقام۔
- سلطان نے دوسرا اعلان یہ کیا کہ آج سے عثمانی سلطنت کا دارالخلافہ ’’ادرنہ‘‘ کی جگہ یہی شہر ہو گا۔
- تیسرا اعلان یہ تھا کہ ایاصوفیہ چرچ آج کے بعد ایا صوفیہ مسجد ہو گی۔
اسلام بول بعد میں استانبول بن گیا مگر اس کا معنی وہی ہے۔ یہ شہر خلافت عثمانیہ کا مرکز بنا تو اللہ تعالیٰ نے عثمانیوں کو پورے عالم اسلام پر حکومت کا شرف عطا فرما دیا۔ عثمانی خلفاء اس اعتبار سے پوری تاریخ میں منفرد رہے ہیں کہ انہوں نے پوری امانت، دیانت اور اخلاص و وفاداری کے ساتھ دین اسلام کی خدمت کی۔ حرمین شریفین کے اندرونی حصے آج بھی ترکوں کی کاریگری اور عقیدت کی گواہی دے رہے ہیں۔ وہ گنبد خضریٰ جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں نقش ہے جسے محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک قبر کا نشان ہونے کی سعادت حاصل ہے یہ بھی عثمانی عہد حکومت کی نشانی ہے۔
عثمانیوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے حرمین شریفین کی تعمیر کے لئے باقاعدہ طور پر ایک نسل تیار کی جنہیں قرآن مجید حفظ کرایا گیا پھر انہیں اسلامی تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر فن تعمیر سکھایا گیا۔ ان میں سے پھر خصوصی انتخاب کے بعد نہایت متقی اور پرہیزگار لوگوں کو چنا گیا اور ان کے ہاتھوں میں مسجد حرام اور مسجد نبوی کی تعمیر و تزئین کا مقدس فریضہ سونپا گیا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے دوران ادب بارگاہ رسالت کا یہ عالم تھا کہ کسی پتھر کا سائز اگر کم کرنا مقصود ہوتا تو اسے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کاٹنے کی بجائے دو کلومیٹر دور واقع کارخانے میں جا کر کاٹا جاتا اور واپس لا کر دیوار میں چن دیا جاتا۔ حرمین شریفین کی تعمیر کرنے والے باوضو رہتے، روزہ رکھتے اور درود شریف کا ورد کرتے تھے۔
عہدِ عثمانی کے آثار
استنبول میں ان عثمانی خلفاء کی دین دوستی کے نشانات آج بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مسجد سلطان احمد، مسجد سلیمانیہ، مسجد بایزید، مسجد شہزادہ، مسجد فاتح، مسجد ابو ایوب انصاری، مسجد ایا صوفیہ، ٹاپ کپی پیلس نیو مسجد اور اس طرح کی ایک سے ایک خوبصورت وسیع و عریض سینکڑوں مساجد ہیں جن کے ایک ایک انچ پر محبت، وقار اور دین دوستی کے نقوش ثبت ہیں۔ ان مساجد کے ساتھ آج بھی ہسپتال، سکول اور لائبریریاں موجود ہیں جو اسلام کے نظام عبادت کے ساتھ نظام تربیت، نظام تعلیم، خدمت خلق اور اسلامی طب کی افادیت کی علامات ہیں۔ یہ مساجد ان گنت ہیں۔ مصطفی کمال کی استعمار پروری اور اسلام دشمنی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ان تاریخی مساجد کو تالے لگا دیئے تھے اور ایا صوفیہ کی تاریخی مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا جو تا حال میوزیم ہی ہے۔ البتہ موجودہ حکومت نے ان مساجد کی تزئین اور حفاظت کا خاطر خواہ انتظام کر رکھا ہے۔ خاص طور پر ان میں پانچ وقت کی باجماعت نماز کے لئے خوش الحان قاری اور امام رکھے گئے ہیں۔
یہ مساجد آج بھی اچھوتے حسن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ان مساجد کے گرد خوبصورت باغات اور کشادہ راستے ان کے ماحول کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ مسجد فاتح جہاں سلطان محمد فاتح کا مزار بھی ہے کئی سو سال گزرنے کے بعد اب بھی اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ ایک ہی پتھر کے چوڑے اور بلند ستون، سنگ مر مر کی دراز سلیں اور پھر رنگوں کے انتخاب نے اس کے ظاہری حسن میں کمال پیدا کر رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ مسجد گذشتہ ہفتے تعمیر ہو کر نمازیوں کے لئے کھولی گئی ہے۔ صحنِ مسجد کے ایک کونے میں وہ فرزند اسلام ابدی نیند سو رہا ہے جس کے بارے میں رسول خدا محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا :
’’روم کے شہر کو فتح کرنے والا لشکر بھی خوب ہو گا اور اس کا سپہ سالار بھی خوب ہو گا‘‘۔
اس بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصداق یہ سلطان آج بھی ترکوں کی عقیدت کا مرکز ہے۔ استنبول اور اس کے گردو نواح میں رہنے والے ترک لوگ عمرے اور حج پر جانے سے قبل سیدنا ابو ایوب اور سلطان فاتح کے مزارات پر حاضری دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ دنیا کے بڑے سیاحتی مرکز استنبول میں آنے والے یورپی سیاح ہر جگہ جاتے ہیں مگر اس مسجد اور قبر کی طرف رخ نہیں کرتے، کیوں؟ اس لئے کہ سلطان محمد ان کے نزدیک وہ شخص ہے جس نے رومی سلطنت کی آخری مضبوط اور مقدس نشانی کو عالم عیسائیت سے چھین کر اسلام کا مرکز بنا دیا اور پھر اسی شہر میں بیٹھ کر عثمانیوں نے چھ صدیوں تک تین براعظموں پر شاندار حکومت کی اور یورپ کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اسی استنبول سے رجب طیب اردگان نے اپنی سیاست کا آغاز کیا جو گذشتہ دس سالوں سے ترکی میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی علامت بن گئے ہیں۔ ترکی مسلمان طیب اردگان کو سلطان فاتح کا معنوی بیٹا سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ استنبول ایک بار پھر دنیا پر حکومت کرنے والے مذہب اسلام کا مرکز ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
ترکی کے قصبات اور دیہات
گذشتہ سال کے برعکس اس مرتبہ میں نے ترکی کی خنک فضاؤں میں 18 روز گزارے ہیں اور اس کے تقریباً 15 شہروں کے تاریخی مقامات، تعلیمی و تربیتی اداروں اور مذہبی و دینی مراکز میں جانے کا موقع ملا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ترکی کے بارے میں مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں ابھرنے والے مجموعی تاثر کا عمیق جائزہ لیا جائے۔ عام طور پر لوگ بوجوہ ترکی کے معروف و مشہور شہر استنبول میں چند روز رہتے ہیں، اس کے تاریخی مقامات کو دیکھتے ہیں اور آنے والے زائرین کی کثیر تعداد کا غالب رنگ ڈھنگ دیکھ کر یہ تاثر قائم کر لیتے ہیں کہ یہاں ’’لامذہبیت‘‘ کا دور دورہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کے صاف ستھرے حسن کا عریاں پن یورپ کو پیچھے چھوڑ چکا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عثمانی خلفاء کی بنائی ہوئی وسیع و عریض مساجد بھی اب آباد ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
کسی بھی ملک کی ثقافتی پہچان اس کے قصبات اور دیہات ہوتے ہیں۔ لہذا ترکی کے قصبے اور دیہات خصوصاً مشرقی ترکی کے تمام علاقے ہمارے ہاں کے سرحدی علاقوں کی طرح نہایت صاف ستھرے دینی ماحول اور مذہبی پہچان کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ میرے میزبان دوستوں کا تعلق سعید نورسی کی تحریک ’’طلباء رسائل نور‘‘ سے تھا جو حیران کن طریقے سے سیکولر ترکی کو خاموشی کے ساتھ دینی، روحانی اور مذہبی افراد فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تبدیلی کا محرک ایک شخص
بدیع الزمان سعید نورسی بیسویں صدی کے وہ پرعزم صاحب علم و بصیرت شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام مخالف حکومت کے بدترین اقدامات کا تن تنہا مقابلہ کیا اور قلم کو تلوار بنا کر تمام تر الحادی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ تاریخ دعوت و عزیمت میں صوفیانہ طرز تعلیم و تربیت کا ایسا ہی نادر نمونہ برصغیر کے بطل جلیل حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا تھا جب مغلیہ سلطنت کے فرماں روا شاہی حکمنامے کے ساتھ دین اکبری کا اعلان کر چکے تھے اور دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھلا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔
میں نے اپنے قارئین کو سعید نورسی کے مجاہدانہ صوفیانہ اور مجددانہ کارناموں کی ایک جھلک گذشتہ سال دورہ ترکی کے بعد انہی صفحات پر تین اقساط کے ذریعے دکھائی تھی۔ ان احوال کی تفصیلات ایک مکمل کتاب کی متقاضی ہیں جو ان شاء اللہ جلد ہی مکمل کر لی جائے گی۔ سرِدست اس دورے کے چند تاریخی، دینی اور علمی پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے میں قارئین کو اس دورے کے علمی اور تحقیقی پہلوؤں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں اس لئے کانفرنس میں شرکت سے اس سفر کی روئیداد کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
کانفرنس میں شرکت
عام طور پر جب کسی کانفرنس کا تذکرہ ہو اور اس میں شرکت کی دعوت دی جائے تو لامحالہ تصور ابھرتا ہے کہ یہ کوئی عوامی اجتماع ہو گا اور شرکت کی دعوت خطاب سے مشروط ہو گی۔ یہ عوامی مزاج بالعموم ہمارے ہاں زیادہ ہے اور اس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ بہر حال مجھے استنبول میں جس کانفرنس میں جانے اور اس میں باقاعدہ شرکت کا موقع مل رہا ہے وہ قطعاً عوامی یا سیاسی اجتماع نہیں ہوتا بلکہ مخصوص اور منتخب لوگوں کی علمی، تحقیقی اور فکری ملاقاتیں ہوتی ہیں جہاں بدیع الزماں سعید نورسی کی فکر و فلسفہ کو موضوع بنا کر عالم اسلام کے مسائل اور امکانات پر غور و خوض ہوتا ہے۔ ترکی قوم نے جن مشکلوں میں دینی کام کا تسلسل جاری رکھا وہ دیگر اقوام اور علاقوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس لئے یہ بدیع الزمان سعید نورسی اور ان کے رسائل نور کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ترکی میں جاری ملحد نظام حکومت ایمانی جذبوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکا اور استعماری قوتوں کے بنائے ہوئے جال اب خود بوسیدہ اور ناکارہ ہو کر ختم ہو رہے ہیں اسی طرح عالم اسلام کے سیاسی، معاشی، ثقافتی، مذہبی اور تعلیمی مسائل بھی اس عبقری صفت صوفی منش شخص کی مخلصانہ کاوشوں سے حل ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے وہ دنیا کے کونے کونے پر رسائل نور کا پیغام پہنچانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کی اسی دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ استنبول میں ایک مستقل ادارہ صرف ان امور کی نگرانی کرتا ہے جو اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں میں سیمینار اور تحقیقی مقالہ جات سے متعلق ہیں۔ چنانچہ اس ادارہ کے زیر انتظام یہ چوتھی کانفرنس تھی جو صرف یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور سینئر طلباء پر مشتمل تھی جو کسی نہ کسی حوالے سے سعید نورسی پر تصنیف و تحقیق کا کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ سال جب مجھے حرم مکہ میں سعید نورسی اور ان کی جماعت ’’النور‘‘ سے پہلی مرتبہ تعارف ہوا تو میں نے اسے منہاج القرآن کے دستور، منشور اور فکر و منہج کے بہت زیادہ قریب پایا۔ سعید نورسی ایک ذہین، مخلص اور پرعزم شخصیت تھے جن کی وفات 1960ء میں ہو چکی ہے۔ ان کے حالات پڑھ کر یوں لگا جیسے وہ بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی کی طرح قدرت کے خصوصی انتظامات کے سائے میں تیار ہوئے اور وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی فرمائی۔ خصوصاً بچپن، لڑکپن، سیاسی نظریات اور صوفیانہ طرز دعوت میں بے حد مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی مماثلت اور محبت کی بنیاد پر ہمارے درمیان مضبوط باہمی رشتے استوار ہو چکے ہیں جو دوسروں کے ہاں کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود مستحکم نہیں ہو سکے۔
اس مرتبہ میرے ساتھ محترم یوسف عباس بھی تھے جو ہمارے ہاں منہاج یونیورسٹی میں Ph.D کے سکالر ہیں اور حضرت بدیع الزماں سعید نورسی اور حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نظریہ جہاد پر راقم کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ پاکستان سے دوسری نمائندگی شمائلہ مجید کر رہی تھیں جو پنجاب یونیورسٹی شعبہ اسلامیات میں سعید نورسی کی تعلیمات پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اسی طرح اس مرتبہ بھارت سے بھی کئی اداروں کی نمائندگی تھی۔ الھدی یونیورسٹی کیریلا سے کچھ طلباء تھے۔ ندوۃ العلماء، جامعہ ملیہ دھلی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے بھی نمائندگی تھی۔ علاوہ ازیں امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، اٹلی، فرانس، جرمنی، سوئٹزر لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، فلپائن اور عرب ممالک سے متعدد سکالر حضرات تشریف لائے تھے۔ زبان کی سہولت کی خاطر ان شرکاء کو دو بڑے گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک انگریزی اور دوسرا عربی زبان کا گروپ۔ دونوں گروپس میں آٹھ آٹھ سیشن ہوئے جن کو متعلقہ سینئر اساتذہ نے چیئر کیا۔ چنانچہ انگلش گروپ کے پانچویں سیشن کی صدارت راقم الحروف نے منہاج یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے کی۔ یوں دنیا بھر سے آئے ہوئے اساتذہ اور طلباء کے سامنے منہاج یونیورسٹی کا باوقار تعارف بھی ہوا۔
اس دو روزہ ریسرچ سیمینار کے اختتام پر حسب سابق انتظامیہ نے آبنائے فاسفورس میں ایک گرینڈ ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ ایک بڑا بحری جہاز 5 گھنٹوں کے لئے حاصل کر کے اس پر ہر طرح کے کھانے اور پھل لگا دیئے جاتے ہیں۔ شرکائے کانفرنس کے علاوہ اس تقریب میں دیگر اہل علم و فکر حضرات اور تجارت پیشہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ ایک تعارفی، تفریحی اور یادگار تقریب ہوتی ہے جو صاف ستھری نیلگوں سمندری لہروں پر یادگار اور پرلطف لمحات کی امین ہوتی ہے۔ گذشتہ سال مجھے اسی اجتماعی سمندری تفریح کے دوران ’’طلبائے نور‘‘ کے دینی مدارس ’’درس خانوں‘‘ کا تعارف ہوا اور میں اگلے ہی دن اپنے میزبان دوست کے گھر سے سامان اٹھا کر ایک درس خانے کا مہمان بن گیا۔ تب مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا تھا کہ جماعت النور کیسے زیر زمین نظام دعوت و تربیت کے ذریعے اپنے مشن کو فروغ دیتی رہی ہے اور آج بھی یہ فرشتہ صفت لوگ ایک سیکولر معاشرے میں اسلام کا نور کس جاں فشانی، مالی ایثار اور ذاتی قربانی سے پھیلا رہے ہیں۔
یلدز یونیورسٹی میں دوسری کانفرنس
اس سال اسی کانفرنس کی انتظامیہ نے ایران اور ترکی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے تعاون سے اسلام کے ان مفکرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک پروقار کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جنہوں نے سماجی اور عمرانی افکار و خیالات سے دنیا کو مستفیض کیا ہے۔ اسلامی مفکرین کی اس طویل فہرست میں علامہ ابن خلدون، ڈاکٹر علی شریعتی اور سعید نورسی پر تحقیقی مقالات کی تعداد زیادہ تھی۔ اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت مغرب سماجی افکار اور تبدیلیوں کا کریڈٹ لینے میں تیزی دکھا رہا ہے۔ ثانیاً یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ مسلم مفکرین نے الہٰیات پر ہی اپنی توجہ مرکوز کئے رکھی۔ باقی رہے سائنسی، سماجی اور عمرانی پہلو تو ان پر مسلمانوں کا کوئی واضح کردار نہیں چنانچہ یہ کانفرنس اس لحاظ سے اچھا آغاز ثابت ہو سکتی ہے کہ اسلامی ممالک کے تعلیمی اداروں میں اسی طرح کی ٹھوس اور مثبت سرگرمیاں فروغ پا سکیں اور جدید نسل کو اپنے عظیم مشاہیر کے علمی اور سماجی کارناموں کا علم ہو سکے۔
یلدز ٹیکنیکل یونیورسٹی پرانے استنبول کے اس بلند اور سرسبز احاطے میں ہے جو عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کے محل کے قریب خوبصورت سرسبز مقام پر واقع ہے۔ جہاں چنار کے صدیوں پرانے درخت آج بھی اپنے شاندار ماضی اور خوش حال مکینوں کی داستانیں سنا رہے ہیں یہاں ایک مسجد بھی ہے جس میں سلطان عبدالحمید ثانی نے اپنے ہاتھوں سے لکڑی پر کشیدہ کاری کا کام کیا ہوا ہے۔ سلطان کا ذوق لطیف اور کاریگری دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔ خوشی تو ان کے ذوق لطیف پر ہوئی مگر افسوس اس لئے ہوا کہ ہمارے بادشاہوں کی اسی ’’بادشاہت‘‘ نے انہیں گرد و پیش کے ماحول، تقاضوں اور ان حکمت عملیوں سے بیگانہ رکھا جن کی بناء پر مغرب اور یورپ صنعتی اور علمی انقلاب کے سہارے دنیا پر چھا گیا اور ہمارے عظیم سلاطین اپنی روحانی تسکین کے لئے مساجد کی کشیدہ کاری اور نقش و نگار میں مصروف رہے۔ اللہ تعالیٰ ان نیک خصلت سربراہان حکومت کو اسلام کی خدمت کا اجر عطا فرمائے مگر عثمانی سلطنت کے آخری ایام کی کہانی ایسے ہی تلخ زمینی حقائق پر مشتمل ہے جب ایک طرف مسلمان ترقی یافتہ یورپی اقوام کی طرف حسرت کی نظر سے دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان ممالک میں باہمی فساد اور لڑائیاں زوروں پر تھیں۔ یہ وہی دور ہے جب جمال الدین افغانی اسلامی ممالک میں اتحاد کی کاوشیں کر رہے تھے اور عین نوجوانی میں سعید نورسی جدید تعلیمی ادارے کا خواب لے کر استنبول آئے تھے مگر دونوں کے ساتھ دربار عثمانی نے نامناسب سلوک کیا تھا۔
استنبول سے وان براستہ نورس
گذشتہ سال مجھے ترکی میں ’’طلبائے نور‘‘ کے چند مراکز دیکھ کر ان کے دیگر مراکز دیکھنے کا شوق پیدا ہوا تھا چنانچہ اس مرتبہ میں نے خصوصی طور پر استنبول سے باہر نکل کر ان کے شہر، چھوٹے قصبات اور گاؤں دیکھنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ چنانچہ میں نور محمد دغان کی رہنمائی میں 25 جون کو استنبول سے نکل کھڑا ہوا۔ ابتدائی دو دن میرے ساتھ یوسف عباس شامل رہے مگر ان کی وطن واپسی تھی۔ چنانچہ استنبول سے 5 گھنٹوں کی مسافت پر ’’طاؤشنل‘‘ قصبے میں قیام کے دوران فیصل آباد سے گئے ہوئے کچھ حضرات کے علاوہ ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس بھی ہمارے ہم سفر بن گئے۔ جو اگلے تین روز تک میرے ساتھ رہے۔ بعد ازاں جب یہ بھی واپس آ گئے تو میں اپنے سفر کے اگلے مرحلے پر اکیلا دیار بکر کی طرف روانہ ہو گیا۔ دیار بکر رومیوں کا مضبوط مرکز تھا جس کو فتح کرتے ہوئے 17 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت ہوئی۔ آج شب برات تھی، میرے میزبانوں نے شب بیداری کے بعد خود بھی روزہ رکھا اور مجھے بھی روزہ رکھوایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مزارات پر حاضری کے بعد شہر کے تاریخی مقامات دیکھے اور اسی روز ہم اگلے رفقاء مصطفی اور محمود بھائی کے ساتھ ترکی کے پہاڑی علاقوں میں چلے گئے۔ یہ پہاڑی علاقے کردوں کے علاقے ہیں۔ یہاں اسلام اپنی حقیقی شکل کے ساتھ موجود رہا ہے۔ اس علاقے میں مدارس دینی آج بھی موجود ہیں اور صوفیاء کی خانقاہیں بھی کام کر رہی ہیں۔ یہی علاقہ دراصل سعید نورسی صاحب کا علاقہ ہے جہاں انہوں نے تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل طے کئے۔
چنانچہ اس مرتبہ مجھے ان کے دشوار گزار پہاڑی علاقے میں محصور گاؤں ’’نورس‘‘ سمیت ان مقامات کا مشاہدہ کرنے کا موقع بھی ملا جہاں حکومت انہیں قید و بند کی سخت ابتلاء سے گزارتی رہی۔ یہ علاقے کشمیر کی وادیوں سے بہت مماثلت رکھتے ہیں، وہی آبشاریں، ندیاں اور میوہ جات کے درخت اور ٹھنڈا موسم۔
مجھے ’’وان‘‘ شہر سے 6 کلومیٹر دور خوفناک پہاڑوں کے دامن میں وہ مقام بھی دیکھنے کا موقع ملا جہاں سعید نورسی نے انقرہ کی بھرپور حکومتی مراعات اور سیاسی زندگی سے کنارہ کشی کے بعد گوشہ گمنامی میں دو سال گزارے اور سخت ترین روحانی ریاضات میں خود کو معنوی جہاد کے لئے تیار کیا۔ بعد ازاں جب انہیں یہاں سے سینکڑوں میل دور ایک اور پہاڑی مقام ’’بارلا‘‘ میں نظر بند کر دیا گیا تو انہوں نے وہاں بھی تمام تر حکومتی نگرانی کے باوجود قلمی جہاد جاری رکھا۔ ایک چھوٹے سے گھر اور اس سے متصل چنار کے درخت کو اپنی حیران کن سرگرمیوں کا محور بنا لیا۔
یہاں بیٹھ کر انہوں نے وہ ’’رسائل‘‘ تحریر کرنے شروع کئے جو انتہائی راز داری کے ساتھ ان کے تلامذہ نے پورے ملک میں پھیلا دیئے۔ یہ رسائل اب 9 ضخیم جلدوں میں چھپ چکے ہیں اور دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ مکتوبات سیاسی انتقام یا عوام کو بھڑکانے کے لئے نہیں بلکہ سیکولر انقلاب کے ملحدانہ اثرات سے لوگوں کے قلوب و اذہان کو محفوظ رکھنے کے لئے لکھے گئے۔ ان رسائل کی زبان نہایت موثر اور سادہ ہے۔ ان میں علمی، عقلی اور سائنسی استدلال کی بھرمار ہے۔ یہ قرآن حکیم کی معاصر تفسیروں میں سب سے جاندار تفسیر بھی ہے اور علم العقائد تصوف، کلام اور سماجی مسائل کے حل کا خوبصورت مجموعہ بھی۔ جس کیف اور درد کے ساتھ استاد نورسی نے یہ رسائل تحریر کئے اسی ایثار، قربانی اور دیانت کے ساتھ ان کے ارادت مند طلباء نے انہیں محفوظ کیا۔ جان پر کھیل کر ان کی نقول تیار کیں اور زیر زمین نظام ترسیل کے ذریعے لاکھوں کاپیاں ملک کے کونے کونے میں پہنچا دیں۔ اس قلمی اور دعوتی جہاد میں ان کے کئی شاگرد شہید ہو گئے اور بعض کو طویل سزائیں بھی بھگتنا پڑیں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے استنبول سے لے کر وان تک درجنوں چھوٹے بڑے شہروں کے ہزاروں مراکز دیکھے ہیں جنہیں یہ لوگ ’’درس خانہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ان کی روحانی تربیت گاہیں ہیں جہاں نہایت معیاری اور صاف ستھرے ماحول میں ان لوگوں کو خدمت دین کے فریضے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ ایک خود کار نظام کے تحت ہر جگہ ایسے مراکز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ترک مسلمانوں کی تیسری یا چوتھی نسل اس امانت کو لے کر اب دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے۔ یہ جنونی یا سخت گیر مسلمان نہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ، خوش اخلاق، باصلاحیت، متقی اور متحمل مزاج نوجوان ہیں جو خود کو صرف اور صرف دین کا خادم سمجھتے ہیں اور اسلام کو مکی دور سے نکال کر مدنی دور میں لانے کے لئے خود کو مطلوبہ صلاحیت سے لیس کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ لوگ آپ کو انگریزوں کی طرح ٹو پیس میں ملبوس نظر آئیں گے ان کے چہروں پر داڑھی بھی نہیں ہے لیکن اندر سے صاف ستھرے، پرہیزگار، دل و نگاہ کی حفاظت کرنے والے اور عالم اسلام کے پکے خیر خواہ۔ ان کے نظام میں کوئی عہدہ اور منصب نہیں سب طلبائے نور ہیں البتہ ان لوگوں کی خصوصی تکریم کی جاتی ہے جو ’’وقف‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ وقف لوگ دن رات اسی مشن کی خدمت کرتے ہیں اور بالعموم شادی شدہ نہیں ہوتے۔
اسی قافلہ نور سے تربیت پانے والے ایک فردِ فرید محمد فتح اللہ گولن ہیں جو احیائے اسلام کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرح عالمی سطح پر نہایت کامیاب کاوشیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ انہوں نے فلاحی تعلیمی مراکز کے قیام کے ذریعے ترکی معاشرے میں خاموش انقلاب برپا کر دیا ہے۔ وہاں آپ کو کوئی شخص ان پڑھ نظر نہیں آئے گا۔ کوئی باصلاحیت نوجوان اس لئے زیور تعلیم سے محروم نہیں رہے گا کہ اس کے پاس تعلیمی اخراجات کا بندوبست نہیں۔ ان مراکز نے طلباء کو مناسب اور مددگار ماحول فراہم کر دیا ہے۔
فتح اللہ گولن کی سرپرستی میں جاری بڑے بڑے اداروں سے فارغ ہونے والوں نے سیاست، معیشت، میڈیا اور انتظامیہ کو دیانتدار باصلاحیت افراد فراہم کئے ہیں۔ رجب طیب اردگان کی حالیہ معجزانہ کامیابیوں کا دار و مدار دراصل انہی مراکز پر ہے۔ موجودہ معاشی اور سیاسی استحکام کے پیچھے دراصل اسی جماعت النور کی شبانہ روز کاوشیں کار فرما ہیں جو کئی دہاہیوں پر مشتمل ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ سیاسی تبدیلی جو ترکی کے ان مستقل مزاج مخلص مسلمانوں کی جدوجہد سے ممکن ہوئی ہے اس کے اثرات صرف ترکی تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس خوش آئند تبدیلی سے پورا عالم اسلام مستفید ہوگا۔ مگر عالم اسلام میں موجود بے شمار مذہبی اور اعتقادی مسائل کے قطع نظر ترکوں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں 95 فیصد لوگ حنفی اور سنی عقیدہ پر عمل پیرا ہیں۔ سیکولر آئین کی بے شمار قباحتوں کے ساتھ انہیں ایک فائدہ یہ رہا ہے کہ یہاں ہماری طرح کی شتر بے مہار آزادی کی عدم موجودگی نے قدرے سکون بحال رکھا۔ یعنی ہمارے برصغیر کی طرح ہر منبر و محراب سے ایک نیا اسلام متعارف ہونے کی ’’سعادت‘‘ سے یہ لوگ چونکہ دور رہے ہیں اس لئے مذہبی افتراق و انتشار کی وہ افسوسناک صورت حال یہاں ہرگز نہیں جو ہمارے ہاں بدقسمتی سے پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان کے دیگر مہلک امراض میں ایک بڑی مرض یہ ہے کہ یہاں بے شمار مسالک، دھڑے اور فرقے تو موجود ہیں مگر اصل اور حقیقی اسلام کہاں ہے؟ ہمارے نوجوان اس معاملے میں کافی پریشان ہیں۔ ترکی میں باہر سے پڑھ کر جانے والوں میں اکا دکا لوگ مخاصمانہ مسلکی کشاکش سے متاثر ضرور ہوتے ہیں تاہم وہ معتدل اجتماعی نظام میں زیادہ خرابی کا باعث نہیں بنتے۔
(جاری ہے)