قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly effective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کا یہ سلسلہ ماہنامہ منہاج القرآن میں جنوری 2011ء سے جاری ہے اور اب تک تین خصوصی عادات ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘، ’’انجام پہ نظر رکھنا‘‘ اور ’’ترجیحات کا تعین‘‘ کو مختلف جہات سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے چوتھی عادت ’’انسانی تعلقات میں مضبوطی اور استحکام‘‘ کا پہلا حصہ نذرِ قارئین ہے۔
ہر انسان دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے۔ انسان کے اجتماعیت پسند ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کی فطرت ہی اس طرح کی بنائی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل جُل کر رہنے میں تسکین پاتی ہے اور دوسروں سے الگ تھلگ بالکل تنہا رہنے میں وحشت محسوس کرتی ہے (سوائے اُن مخصوص لوگوں کے جو اللہ رب العزت کی محبت کے نشے میں اتنا سر شار ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں جلوتوں سے کہیں زیادہ مزہ خلوتوں میں آتا ہے اور اُن کیلئے عرصہ دراز تک دوسروں سے الگ رہنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا)۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ زندگی کے تقاضوں اور لوازمات کی فراہمی کیلئے ہر شخص دوسرے بہت سارے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو اپنی زندگی کی ضروریات کو خود پورا نہیں کر سکتا۔ ایک انسان کی ایک دن کی روٹی ہی بے شمار لوگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہی حال دیگر ضروریات زندگی کا بھی ہے۔ چنانچہ دوسرے لوگوں سے مل جل کر اجتماعی زندگی گزارنا ہمارا فطری اور طبعی تقاضا بھی ہے اور ہماری بقاء اور ارتقا ء کیلئے ضرورت اور مجبوری بھی ہے۔
کامیاب زندگی گذارنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم جس ماحول اور معاشرے میں رہ رہے ہوں اُس سے ہم آہنگ ہوں اور وہ ماحول ہمارا مددگار و معاون ہو، تاکہ ہمارے لئے اپنی صلاحیتوں اور مواقعوں سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا آسان ہو۔ اس مقصد کیلئے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ ہمارے مضبوط، پائیدار اور خوشگوار تعلقات کا ہونا ضروری ہے۔ جتنے زیادہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوں گے اُتنا ہی ہمیں دوسرے لوگوں کا تعاون حاصل ہو گا اور ہمارے لئے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی صلاحیتوں کو اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس کے بر عکس دوسرے لوگوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم نہ ہونے کی صورت میں قدم قدم پر دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ ہو گا اور وہ ہمارے معاون بننے کی بجائے ہمارے راستے میں رکاوٹ بن جائیں گے۔ جس کی وجہ سے ہم نہ تو اُن سے مطلوبہ تعاون حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کر سکیں گے۔ نتیجتاً ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے سفر کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں رہے گا۔
اسلام میں باہمی تعلقات کو خوشگوار رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور ان کو مضبوط سے مضبوط بنانے کے لئے باقاعدہ تعلیمات دی گئی ہیں۔ اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ محض دنیوی زندگی کو خوشگوار اور آسان بنانے کیلئے ہی اچھے تعلقات کو برقرار رکھنے پر زور نہیں دیتا بلکہ اس معاملے کو ایمان اور آخرت کی فلاح و بہبود کے ساتھ جوڑ کر اُسے دنیا و آخرت کی سعادتوں اور بھلائیوں کے حصول کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن ِ مجید میں ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ.
(الحجرات : 10)
’’بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو‘‘۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ.
(الصَّفّ ، 61 : 4)
’’بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو (دہشت گردی اور بربریت کے خاتمے، قیامِ اَمن اور تکریم اِنسانیت کے لیے) اُس کی راہ میں (یوں) صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں‘‘۔
اس آیت میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے مومن بندوں کا باہم مل جل کر، اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کی راہ میں جدوجہد کرنا بہت پسند ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
المومن مالف ولا خير فيمن لا يالف ولا يولف.
’’ مومن اُلفت و محبت کا پیکر ہوتا ہے اور اُس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو دوسروں سے محبت نہیں کرتا اور دوسرے اُس سے محبت نہیں کرتے ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دین و دنیا اور آخرت کی سعادتوں کے حصول کیلئے ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم معاشرے سے الگ تھلگ اپنا جزیرہ بنانے کے بجائے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھیں۔ ہم دوسروں کو محبت دینا جانتے ہوں اور اُن سے محبت لینا جانتے ہوں۔ ہم ہر کسی کے مدد گار اور معاون بنے ہوئے ہوں اور دوسری طرف ہمارا سارا ماحول ہمارا مدد گار اور معاون بنا ہوا ہو۔ اس مقصد کیلئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت خوشگوار ہوں جن کی بنیاد محبت و مؤدت، ہمدردی و خیرخواہی اور ایثار و قربانی کے بہترین اُصولوں پر قائم ہو۔
تسخیر ذات
سمجھنے اور ذہن نشین کرنے والی اہم ترین بات یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی اولین بنیاد اپنے آپ پر ضبط حاصل کرنا ہے بالفاظ دیگر ’’تسخیرکائنات‘‘ کی پہلی شرط ’’تسخیر ذات‘‘ ہے۔ اپنے آپ پر فتح حاصل کئے بغیر ماحول کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔ ذاتی فتح عوامی فتح سے پہلے آتی ہے۔ اجتماعی کامیابی سے پہلے انفرادی کامیابی ضروری ہوتی ہے۔ انفرادی کامیابی پہلی منزل ہے اور اجتماعی کامیابی دوسری منزل۔ جس طرح آپ پہلی منزل کو تعمیر کیے بغیردوسری منزل تعمیر نہیں کر سکتے اُسی طرح ذاتی استحکام اور شخصی تعمیر کے بغیر ماحول اور معاشرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم نہیں کر سکتے۔ سر ایڈ منڈ ہیلری جنہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا، اُن کا ایک نہایت خوبصورت اور با معنی قول یہ ہے کہ :
’’ہم پہاڑ کو فتح نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو فتح کرتے ہیں‘‘۔
مراد یہ ہے کہ بیرونی دنیا کو فتح کرنے سے پہلے ہم اپنی ذات کو فتح کر تے ہیں اور اپنے آپ پر عبور حاصل کر تے ہیں۔ یہی ذاتی فتح ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم باہر کی دنیا کو فتح کرنے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ اس طرح کسی دانشور کا ایک قول کچھ یوں ہے :
’’جو شخص اپنے آ پ پر فتح حاصل کر لے اُس کے لئے دوسروں پر فتح حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں‘‘۔
اس سے ملتا جلتا ایک اور قول یہ ہے کہ
’’دوسروں کے پیچھے پڑنے کے بجائے تم اپنے پیچھے پڑو‘ اپنے آپ کو پکڑ کر تم بہتر طور پر دوسروں کو پکڑ سکتے ہو‘‘۔
مندرجہ بالا اقوال کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے سے پہلے اپنے آپ کو بہتر کرنا ضروری ہے۔ ماحول اور معاشرے کو مسخر کرنے کیلئے پہلے اپنے آپ کو مسخر کرنا ضروری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی بھی تعلق کا اہم ترین جزیہ ہوتا ہے کہ آپ خود کیا ہیں؟
اگر ہم دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں تو کسی اور جانب دیکھنے سے پہلے ہمیں اپنے آپ پر نظر دوڑانا ہو گی۔ اور اُن کی نظروں میں سچی عزت حاصل کرنے کے لیے زبان سے کہنے یا ظاہر کرنے کی بجائے حقیقتاً وہ کچھ بن کر دکھانا ہوگا۔ اصل عزت نفس اپنے آپ پر عبور حاصل کرنے میں ہے۔ اسی سے خود مختاری حاصل ہوتی ہے اور یہ خود مختاری ہی ہمیں باہمی انحصار کے قابل بناتی ہے جب تک ہم سچی خود مختاری حاصل نہیں کر لیتے، اُس وقت تک انسانی تعلقات میں ترقی حاصل کرنے کے جوہر کی خواہش حماقت ہے۔ ممکن ہے کہ ہم کوشش کریں اور موافق حالات میں ہمیں تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل ہو جائے لیکن جب ناموافق حالات آئیں گے اور وہ ضرور آئیں گے تو ہمارے پاس وہ بنیاد ہی نہیں ہو گی کہ جو چیزوں کو مجتمع رکھ سکے۔
لہٰذا انفرادی کامیابی سے اجتماعی کامیابی کے میدان میں داخل ہونے کیلئے جس باہمی انحصار کی ضرورت ہوتی ہے اُس کی بنیاد یہ ہے کہ پہلے ہم خود اپنی ٹانگوں پرکھڑے ہوں اور اپنے وجود کیلئے کسی کے محتاج نہ ہوں۔ خود انحصاری(Self Dependence) ایک معرکہ ہے جبکہ باہمی انحصار(Inter Dependence) ایک ایسا انتخاب ہے کہ جو صرف خود مختار لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ تسخیر ذات سے ہمیں خود مختاری میں مدد ملے گی اور کہہ سکیں گے کہ ’’میں اپنی ذات کا خود ذمہ دار ہوں اور اپنی تقدیر خود بنا سکتا ہوں‘‘۔ ایسا ہو جانا بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ ذاتی فتح ہے۔ بعد ازاں عوامی فتح کا مرحلہ آتا ہے اور عوامی فتح ہمیں باہمی انحصار کے قابل بنائے گی اور ہم دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا سیکھیں گے اور کہہ سکیں گے کہ ’’میں ایک ٹیم کارکن ہوں۔ میرے پاس بہت قوت ہے اور میں لوگوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہوں‘‘ یہ پہلی سے بھی بڑی کامیابی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا يومن احدکم حتی يحب لاخيه ما يحب لنفسه.
(بخاری، الصحيح، 1 : 19، رقم : 28)
اس حدیث مبارکہ سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو رہی ہے کہ دوسروں سے محبت کرنے اور ان کے لئے پسند کرنے سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنی پڑتی ہے اور اپنے لئے اچھی چیز کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو ہی پسند نہیں کرتا ‘یا اپنے آپ سے نفرت کرتا ہے وہ دوسروں کو کیا پسند کرے گا؟ اپنی ذات سے محبت، اپنے آپ کو پہچانے بغیر، اپنے جوہر کو جلا دیئے بغیر اور ضبط نفس و پختگی کردار کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اگر ہو بھی جائے تو وہ بے بنیاد ہو گی۔ جلد یا بدیر ہمارے اندر کا کھوکھلا پن ہماری اپنی نظروں میں اور زمانے والوں کی نظروں میں نمایاں ہو جائے گا۔ اگر ہمارا اپنی ذات پر کنٹرول نہیں ہے اورہمارے کردار کے اندر مضبوطی اور استحکام نہیں ہے تو ہم کبھی بھی اپنی نظروں میں صحیح معنوں میں عزت نفس کے حامل نہیں بن سکتے۔ سچی عزت نفس پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب ہم پورے اعتماد کے ساتھ ضبط نفس اور پختگی کردار کے ساتھ آزادانہ کھڑے ہوں۔ ورنہ ہمارا ضمیر اندر سے ہمیں ملامت کرتا رہتا ہے یا پھر ہمیں ضمیر سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بے ضمیر بن جانا پڑتا ہے۔ نیز زمانے والوں کی نگاہوں میں بھی ہمارے قول و فعل کا تضاد نمایاں ہوتا رہتا ہے اور اُن کی نظروں میں معزز و محترم بننے کی ہماری کاوشیں بے نتیجہ رہتی ہیں۔
فارسی زبان میں ایک کہاوت ہے :
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز باباز
’’ ایک طرح کے پرندے اکٹھے اُڑتے ہیں کبوتر، کبوتروں کے ساتھ اور باز، بازوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں‘‘۔
چنانچہ عملی زندگی کے اندر عموما ً ایساہی ہوتا ہے کہ جس طرح کے انسان ہم خود ہوتے ہیں اُسی طرح کے انسانوں کیساتھ ہمارے رابطے اور تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ
(النُّوْر ، 24 : 26)
’’ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لیے ہیں، اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں‘‘۔
انگریزی زبان کا مندرجہ ذیل محاورہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے :
A man is known by the Company he keeps
’’ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے‘‘
مطلب یہ کہ جس طرح کا آدمی خود ہوتا ہے اُسی طرح کے دوست احباب اُسے مل جاتے ہیں یا پھر جس طرح کے دوست احباب کیساتھ کسی کا اُٹھنا بیٹھنا ہو، اُسی سانچے میں وہ ڈھلتا چلا جاتا ہے۔
چنانچہ یہ اُصول ہم سب صادق آتا ہے کہ اگر ہم ذاتی نظم و ضبط اور اچھے کردار کے باعث عزت نفس رکھتے ہوئے اپنے قدموں پر آزادی اور اعتماد کیساتھ کھڑے ہوں تو اُسی طرح کے لوگ بھی ہماری عزت کرنے اور ہم پر اعتماد کرنے میں رغبت محسوس کریں گے اور یوں باہمی عزت و احترام کی بناء پر ہمارے لئے باہمی اعتماد کا راستہ کھل جائے گا۔ اب یہ انحصار اُن لوگوں کے درمیان ہو گا جو دوسروں کے محتاج اور طفیلی نہیں ہوتے بلکہ اپنے اپنے قدموں پر کھڑے باصلاحیت، باکردار، اور خود مختار(Independent) افراد ہوتے ہیں۔ لیکن بلند تر مقاصد اور عظیم تر کامیابیوں کے حصول کیلئے وہ باہم انحصار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو بھر پور طریقے سے استعمال میں لائے ہوئے ترقی اور کامیابی کی اُن بلندیوں تک پہنچا جا سکے جہاں تک پہنچنا انفرادی طور پر کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہے۔
جس ماحول اور کائنات کو تسخیر کرنے کے لئے ہم اپنے آپ کو تسخیر کر رہے ہیں اس سے مراد دوسروں کے اُوپر قابو پانا یا غلبہ حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کی نگاہوں میں ہماری عزت اور احترام ہو، وہ ہم پر اعتماد اور اعتبار کر رہے ہوں او ر ہماری ہر جائز اور معقول بات کو ماننے پر تیار ہوں نیز مثبت مقاصد کیلئے ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو ہماری صلاحیتوں کے ساتھ ملا کر مشترکہ جدوجہد کے لیے بخوشی آمادہ ہوں تاکہ باہمی خوشگوار تعلقات کے ماحول میں ایک باوقار انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے ہوئے اورایک دوسرے کی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کرتے ہوئے بلند تر مقاصد اور اعلیٰ اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔
جذباتی اکاؤنٹ
اس سے پہلے کہ ہم تسخیر ذات سے تسخیر کائنات کی منزل کی طرف روانہ ہوں، باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم ترین حقیقت کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے جسے کامیاب، خوشگوار اور پر اثر تعلقات کی کلید بھی کہہ لیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس حقیقت کو جذباتی اکاونٹ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ہم سب لوگ جانتے ہیں کہ بینک اکاونٹ کیا ہوتا ہے۔ ہم بینک میں اپنے نام کا ایک اکاؤنٹ کھلواتے ہیں اور اُس میں وقتا ً فوقتا رقم جمع کرواتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت وہ ہمارے کام آ سکے۔ جتنی زیادہ رقم ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے اُسی کی مناسبت سے ہمارے اندر معاشی حوالے سے تحفظ اور اعتماد کا لیول بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر وقت آنے پر ہم آسانی کے ساتھ مطلوبہ رقم نکلوا کر اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جتنے بھی لوگ ہمارے ساتھ مختلف حیثیتوں سے منسلک ہوتے ہیں اُن میں سے ہر ایک کے ساتھ ہمارا ایک جذباتی اکاؤنٹ کھلا ہوتا ہے۔ ہم اپنے روز مرہ کے برتاؤ اور طرزِ عمل کو اس اکاؤنٹ میں جمع کرواتے یا نکلواتے رہتے ہیں جونہی ہم باہمی تعلقات کے اس اکاؤنٹ میں مثبت رویوں کی صورت ڈیپازٹس جمع کرواتے ہیں تو تعلقات مضبوط ہو جاتے ہیں اور جب ہم منفی رویوں کی صورت کچھ نکلواتے ہیں تو تعلقات میں کمی آ جاتی ہے اور اعتماد کی سطح نیچے آ جاتی ہے۔ مضبوط اور صحت مند تعلق طویل عرصہ تک مسلسل سرمایہ جمع کروانے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ یہاں جس جذباتی اکاونٹ کی بات کی جا رہی ہے وہ ایک تشبیہاتی اکاونٹ ہے جس کا وجود ہمارے ذہنوں میں ہوتا ہے اور رقم سے مراد روپیہ پیسہ نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمار ا رویہ (Behaviour) ہے جو مختلف مواقع پر ہم ظاہر کرتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ :
قيمته المرء محاسنه
’’ آدمی کی قدرو قیمت اُس کے محاسن ہیں‘‘
یہ قول بڑے ہی بامعنی انداز میں بتا رہا ہے کہ دوسرے لوگوں کی نظروں میں ہماری قدر و منزلت کا دار و مدار ہماری خوبیوں (محاسن) پر ہوتا ہے ان خوبیوں کی دو قسمیں ہیں۔
1۔ پہلی قسم تو ہماری ذاتی خوبیاں ہیں جن کا تعلق ہماری شخصیت اور کردار سے ہے۔
2۔ ذاتی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ والی خوبیوں کو بھی اپنانا ہو گا۔
ہم اپنی ذات میں کتنے ہی منظم، مضبوط، اور مستحکم ہوں لیکن تکبر اور خود پسندی کا شکار ہو کر دوسرے لوگوں کو حقیرسمجھتے ہوں اور اُن کے ساتھ ہمارا رویہ ہتک آمیز ہو، تو پھر ہماری تمام تر خوبیوں کے باوجود لوگوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے ہماری عزت کرنا ممکن نہیں ہوگا اگرچہ وقتی طور پر بظاہر کسی مجبوری یا مصلحت کی بنا پر وہ ہمیں سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہوں۔
اسلام کی تعلیمات میں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، ایثار و قربانی، محبت و مودت، ہمدردی و خیر خواہی، نفع بخشی و فیض رسانی، عفو و درگزر وغیرہ کی جتنی بھی ہدایات دی گئی ہیں وہ ساری کی ساری باہمی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے اور جذباتی اکاؤنٹ میں بڑے بڑے ڈیپازٹس جمع کروانے کا زبردست ذریعہ ہیں۔ اس کے برعکس حسد، بغض، کینہ، تکبر، لالچ، بخل، غصہ، نفرت اور انتقام وغیرہ جیسی جن چیزوں سے روکا گیا ہے وہ سب کی سب جذباتی اکاونٹ میں سے بڑی بڑی رقمیں نکال کر تعلقات میں بگاڑ پیدا کر دیتی ہیں۔ ذرا غور کریں کہ اسلام کس قدر خوبصورت دین ہے جو اُخروی زندگی میں سعادت کے حصول کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی کو بھی کس قدر خوشگوار بنا دیتا ہے اور اس کی تعلیمات کو دل و جان سے اپنا لیا جائے تو دنیا ہی جنت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ گویا اسلام کے سنہری اُصولوں پر عمل کرنے کی بناء پر انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نظروں میں بھی محبوب بنتا چلا جاتا ہے۔ اور اس کے برعکس ان اُصولوں کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا مجرم بننے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نظروں میں بھی اپنا وقار اور مرتبہ کھو دیتا ہے۔
جذباتی اکاؤنٹ کے اہم ڈیپازٹس
ہم صبح سے لیکر شام تک دوسرے لوگوں کے ساتھ جو طرز عمل اپنارہے ہوتے ہیں اُس کے ذریعے کہیں جذباتی اکاونٹ میں رقم جمع کروا رہے ہوتے ہیں اور کہیں نکال رہے ہوتے ہیں۔ ان رقوم کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے چھ بڑی رقوم یہاں بیان کی جا رہی ہیں جو تعلقات کو بنانے یا بگاڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
(i) فرد کو سمجھنا
دوسرے شخص کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کی کوشش کرنا ایک بہت بڑی رقم ہے جوہم جذباتی اکاؤنٹ میں جمع کروا سکتے ہیں ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایک انفرادیت عطا فرما رکھی ہے۔ اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اُس کے رحجانات، میلانات، ترجیحات اور پسند و ناپسند کو دوسرے لوگ جانیں اور اُن کا احترام کریں۔ ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کو اپنے آپ پر قیاس کرتے ہوئے اپنے افکار و خیالات اور عقائد و نظریات کی روشنی میں تشریح کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک چیز ہمارے لئے اہم ہو مگر وہ کسی دوسرے کیلئے بالکل ہی اہم نہ ہو یا ایک چیز ہمیں پسند ہو اور دوسرے کو بالکل ہی ناپسند ہو۔ اگر ہم دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنا چاہتے ہوں تو ہمیں اُن کی دلچسپیوں اور میلانات کو سمجھنا ہو گا۔ اور اُس کے مطابق ہی اُن کے ساتھ معاملہ کرنا ہو گا۔ دعوت دین کے آداب سمجھاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف سورہ النحل آیت 125 میں ارشاد ہے کہ
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ.
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
’’لوگوں سے اُن کی عقلوں کے مطابق گفتگو کرو‘‘
(ii) جزئیات پر توجہ دینا
اجتماعی زندگی میں اور باہمی تعلقات میں بظاہر چھوٹی دکھائی دینے والی چیزیں حقیتا بہت اہم ہوتی ہیں۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی مہربانیاں بڑی بڑی رقموں کے جمع ہونے کا سبب بن جاتی ہیں اور اس کے بر عکس ان کو نظر انداز کرنے سے بعض اوقات بڑی رقمیں نکل جاتی ہیں۔ مثلاً کسی کی خوشی یا غمی کے مواقع پر شرکت کرنا، کسی کی کامیابی پر اُسے مبارکباد دینا وغیرہ۔ اس طرح کی معمولی باتوں کا خیال رکھنا تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس کرنے سے شکایات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں جو بڑھتے بڑھتے تلخیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خندہ پیشانی سے بھی ملنے کو بھی صدقہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی سے سلام لیتے تو مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ ہوتے اور مصافہ کرنے کی صورت میں جب تک اگلا ہاتھ نہ چھوڑتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ چھڑاتے۔ یہ بظاہر معمولی دکھائی دینے والی باتیں دوسروں کے دلوں کو موہ لینے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ابو انیس صوفی برکت رحمۃ اللہ علیہ نے بقول :
’’دل کی دنیا میں جو مقام دل نوازی کو حاصل ہے کسی اور عمل کو حاصل نہیں‘‘
چنانچہ اسلام کے اندر دوسروں کی دلجوئی کو ایک انتہائی اعلیٰ درجے کی نیکی قرار دیا گیا ہے اور دل آزاری کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من قضیٰ لا حد من اُمتی حاجة يريد ان يسره فقد سرنی و من سرنی فقد سر الله و من سرا الله ادخله الله الجنة.
’’جس شخص نے میرے کسی اُمتی کی حاجت روا ئی کی، اس نیت سے کہ وہ خوش ہو جائے تو اُس نے مجھے خوش کر دیا اور جس نے مجھے خوش کیا اُس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ کو خوش کیا تو اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بقول :
’’ گناہ اورمعصیت کے کاموں کو چھوڑ کر مخلوق کی رضا مندی میں ہی خالق کی رضا مندی ہے‘‘۔
(iii) وعدے کی پابندی
جب کوئی شخص ہمارے ساتھ وعدہ کرے بطور خاص کوئی ایسا وعدہ جس کا تعلق ہماری کسی بنیادی ضرورت سے ہو تو ہمیں اس حوالے سے ایک توقع لگ جاتی ہے اور اُمید قائم ہو جاتی ہے۔ پھر اگر وہ شخص اس وعدے کو من و عن پورا کر دے تو ہماری نظروں میں اُس کا اعتبار اور وقار بڑھ جاتا ہے لیکن اگر وہ وقت آنے پر وعدے کی خلاف ورزی کرے تو ہماری نظر وں میں اُس کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے۔ اور ہمارے ذہن میں اُس کے اکاؤنٹ میں اعتماد کی جو رقم جمع تھی وہ کم ہو جاتی ہے۔ اگر وہ مختلف اوقات میں وعدہ خلافی کرے تو یہ اعتماد کا لیول تقریبا ًصفر پر آ جاتا ہے اور آئندہ ہم اُ س کے کسی وعدے پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ یہ ہی سب کچھ بعینہ اُس وقت بھی ہوتا ہے جب ہم دوسروں کے ساتھ وعدہ کر کے توڑ دیتے ہیں۔ جب ہم کسی کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کرتے ہیں۔ تو اُس کی نظروں میں اپنے اکاؤنٹ کافی رقم جمع کروا دیتے ہیں۔ اور جب ہم وعدہ توڑتے ہیں تو کافی رقم نکلوا لیتے ہیں۔
جب ہم کسی کے ساتھ کیا ہوا وعدہ توڑتے ہیں تو یہی نہیں کہ اُس کی نظروں میں اپنے آپ کو گراتے ہیں بلکہ خود بھی پنی نظروں میں گر جاتے ہیں اور ہمارا تصور ِذات (Self Image) مجروح ہوتا ہے بات یہاں تک ہی نہیں رہتی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگارہ میں بھی ہمارا مرتبہ گھٹ جاتا ہے۔ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں اپنے بندوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ.
(الْمَعَارِج ، 70 : 32)
’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی نگہداشت کرتے ہیں‘‘۔
اور دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لا دين لمن لا عهد له.
’’جو وعدے کی پابندی نہیں کرتا اُس کا کوئی دین نہیں ہے‘‘
غور کریں کہ وعدہ خلافی کے دنیا سے لیکر آخرت تک کتنے نقصانات ہیں۔ وعدہ خلافی ہمیں اپنی نظروں میں بھی گرا دیتی ہے، لوگوں کی نظروں میں بھی ہمارا وقار ختم کر دیتی ہے اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگارہ میں بھی ہمیں مجرم بنا دیتی ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم بہت سوچ سمجھ کروہی وعدہ کیا کریں جس کے متعلق ہمیں یقین ہو کہ ہم پورا کر لیں گے۔ اور پھر حتی ٰ الوسع اُسے پورا کرنے کی کوشش کیا کریں۔ اگر کسی بہت مجبوری کی صورت میں وعدہ کو پورا کرنا ممکن ہی نہ دکھائی دے رہا ہو توپھر فریق ثانی کو قبل از وقت آگاہ کر دیں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو توبعد ازاں اپنی مجبوری بیان کر کے اُس سے معذرت کر لینی چاہیے تاکہ باہمی اعتماد کے لیول کو نقصان نہ پہنچے۔
(جاری ہے)