میری عقیدت کے آبگینوں میں دمکتی ہوئی شبنم۔ ۔ ۔ ۔ ۔میرے من کی جھیلوں میں اُترتی ہوئی آواز
رنگ و رعنائی کے شہر اسلام آباد میں مجھے کتابوں کی لگن ایک بک سنٹر پہ لے گئی ایک کتاب کے اچھوتے موضوع نے چونکا دیا تجسس نے اس کے مطالعے پہ مجبور کیا تو اس میں دیگر مسالک کے نامور علماء، اکابرین اور صاحبان مسند و ارشاد کے اچھوتے نظریات تھے۔ جوں جوں یہ تحریریں پڑھتا گیا عشق رسول میں تڑپتی ہوئی آنکھ کے آنسو اور مچلتے ہوئے دل کی دھڑکنیں بے قرار ہو گئیں۔ ان تحریروں سے مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنائی جھلک رہی تھی اور ہر جملہ سے عمداً شان و عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کم کرنے کی مذموم کاوشیں عیاں تھیں۔
کتاب میں کہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عام امتی کا یکساں ہونے میں موازنہ کروایا جا رہا تھا۔ ۔ ۔ کسی تحریر کے ذریعے ختم نبوت کے عقیدہ میں نقب لگائی جا رہی تھی۔ ۔ ۔ کسی مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کی نفی کے دلائل دیئے جا رہے تھے۔ ۔ ۔ کوئی صفحہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارات اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انہیں حاصل مقام محبوبیت کی نفی پر مشتمل تھا۔ ۔ ۔ کہیں عدم حیاتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکروہ دلائل کا انبار تھا اور کہیں بشر، بشر اور صرف بشر کے الفاظ کی تکرار موجود تھی۔
جوں جوں میں اس کتاب کے صفحات پلٹتا چلا گیا۔ میرے دل کی بیتابی ان اکابرین کی اس قبیح سوچ پر ہجر کی رات کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی۔ قلم میرے کثیف ہاتھوں سے ان مکروہ و مذموم عقائد کی تفصیلات لکھنے سے قاصر ہے۔ ۔ ۔ کلیجہ منہ کو آ رہا ہے اور خون دل آنکھوں سے رواں ہے۔ اس لئے کہ ہم تو بقول اقبال اس عقیدہ کو سینے میں سجائے ہوئے ہیں کہ
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
ایک اشک ایک آہ
آنسو ہیں کہ پلکوں پہ آ کر جم سے گئے ہیں، آہیں ہیں کہ سینے میں گھٹ سی گئی ہیں، سانس ہیں کہ رکتے ہوئے سے محسوس ہوتے ہیں، دل کی کائنات ہے کہ ڈوبتی ہوئی سی معلوم ہوتی ہے کاش یہ الفاظ پیش نگاہ ہونے سے پہلے ہی میری آنکھیں پتھرا گئی ہوتیں، میرے سینے میں دھڑکتا ہوا دل سنگ و خشت میں تبدیل ہو گیا ہوتا۔ دل ناصبور ہے کہ رکتا ہی نہیں، دھڑکنیں ہیں کہ تھمتی ہی نہیں۔ ۔ ۔آہ میر جیسے لوگ کہاں چلے گئے دنیا ادب کا قرینہ رکھنے اور محبت کرنے والے لوگوں سے کیوں تہی دامن ہو گئی جن میں تکریم و تحریم کا جذبہ اس پیرایہ اظہار سے کم میں ڈھلتا ہی نہیں تھا۔
دور بیٹھا غبار میر اُن سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
دل میں بسا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عقیدت کا آبگینہ ان احساسات کے ساتھ پھوٹ بہا کہ ’’معلوم ہے کچھ تم کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام!‘‘
میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کائنات ہستی کی سب سے بڑی بارگاہ ہے جہاں کبر و ناز، عجز و نیاز کے سانچے میں ڈھل کر روضہ اقدس پہ باریابی کے لئے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذن طلب کرتا ہے۔ ۔ ۔ جہاں ستر ہزار فرشتوں کی نورانی جماعت سلامی کے لئے روزانہ گنبد خضریٰ پہ حاضری دیتی ہے اور پھر قیامت تک اپنی باری کے لئے ترستی ہے۔ ۔ ۔
آہستہ قدم نیچی نگاہ پست صدا ہو
خوابیدہ یہاں روح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی ہے
اے زائربیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد رہے یہ
بے قاعدہ جنبش لب یہاں بے ادبی ہے
جن کی لحد اطہر کو چومنے کے لئے عرش اعظم بھی جھکا رہتا ہے۔ ۔ ۔ جہاں جنید رحمۃ اللہ علیہ و بایزید رحمۃ اللہ علیہ ایسے اولیاء بھی لرزیدہ نفس حاضر ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ جہاں کونین کی نبضیں تھم جاتی ہیں۔ ۔ ۔ جہاں محبت اپنی انتہاؤں کو چھو لیتی ہے۔
اس کے آگے کوئی جادہ ہے نہ منزل نہ مقام
ہم مدینے کے درو بام تک آپہنچے ہیں
صاحب منبر و محراب، حامل جبہ و دستار، زینت مسند و ارشاد، مقام اتنا بلند کہ ہمالہ صفت اور سوچ اتنی پاتال میں کہ عقل حیراں، شعور و ادراک ماؤف اور لب اظہار گنگ مگر عشق کی مُشکبو سوچ میں
دانش مری آداب محبت پہ نظر ہے
قبلہ ہے مرا نقش کف پائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کتاب عشقِ کے عنوان پلٹتا جا رہوں آپ اپنی دیدہ بینا سے
عقل تمام بولہب عشق تمام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی میزان پہ پرکھتے جایئے۔ کہیں یہ خامی ایماں ہی نہ ہو میں اندیشہ جاں کو آپ کے قلب صمیم پہ چھوڑتا ہوں اس کارِ محبت میں بخدا کسی کی دلآزاری مقصود نہیں بلکہ ادب کی پاسداری مطلوب ہے اور یہ امر بہاروں کے پھیلے ہوئے آنگن میں جھومتی ہوئی خوشبو کی طرح ہے کہ
صرف توحید کا شیطاں بھی ہے قائل یوں تو
شرط ایماں ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی یہ نہ بھول
اس سے نسبت نہ ہو گر تو محاسن بھی گناہ
وہ شفاعت پہ ہو مائل تو جرائم بھی قبول
خمیدہ سر یہاں دیکھی ہے خواجگی میں نے
میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو ایسی بارگاہ عز و جاہ ہے کہ یہاں تو سلاطین بھی آتے ہیں تاج سر سے اتار کے، اُن کی خلد آثار گلیوں میں تو مانگتے تاجدار پھرتے ہیں یہاں تو سُوئے ادبی کا ادنیٰ سا شائبہ بھی حبط اعمال اور راندہ درگاہ کر دینے کے لئے کافی ہے کیونکہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اس ژولیدہ فکری کے جواب میں صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبے ہوئے یہ پھول سے الفاظ اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے داغ داغ دلوں کے زخموں کا مرہم اور تڑپتی ہوئی روحوں کے درد کا درماں ہیں وہ بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی عقیدتوں کا عطر بصد عجز و نیاز یوں پیش کرتے ہیں :
’’بعض تنگ نظر مذہبی حلقوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے حوالے سے ایک طرح کی بحث و تکرار کا رنگ جھلکتا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تکرار کے لئے نہیں بلکہ پیار کے لئے تخلیق ہوئی ہے۔ محبت کی انتہا کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ فرق صرف زاویہ نظر کا ہے، وہ نصیب ہو جائے تو سارا منظر بدل جاتا ہے۔ بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے عرفان کے لئے ابوجہل کی آنکھ نہیں بلال رضی اللہ عنہ کا حسن نظر چاہئے۔
ترا پَر تو ہی وجہ سجدہ تھا بزم ملائک میں
ازل سے ہم تو قائل ہیں ترے اکرام بے حد کے
’’مجھے اس وقت ذاتی طور پر بہت الجھن محسوس ہوتی ہے جب کوئی ایسی کتاب نظر سے گزرے جس کا سرنامہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام نامی سے مزّین ہو مگر مندرجات بحث اور حجت سے معمور ہوں۔ اس طرح اگر دو آدمیوں کے درمیان تذکار تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہو مگر نوبت تکرار تک پہنچی ہوئی ہو خواہ مسئلہ کتنا ہی فنی اور کلامی کیوں نہ ہو۔
روکا تھا جس نے بحث و نزاع و جدال سے
موضوع بن گیا ہے وہی قیل و قال کا
مجھے ایسی کتاب کے مصنف اور مقرر کی جسارت پر حیرت ہوتی ہے اور یہ امر آج تک کیوں نہ سمجھ آ سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بحث و تمحیص کا نہیں محبت کا تقاضہ کرتی ہے اور کوچہ محبت، تکرار نہیں پیار چاہتا ہے تو یوں سمجھئے کہ تذکار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں نوبت تکرار تک پہنچی ہوئی ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات نے ہماری زبانیں دراز کر دی ہیں اور ہم ناپ تول اور ظن و تخمین کے چکر میں رہتے ہیں وگرنہ کسے معلوم نہیں کہ وہ کیا ہیں؟ جنید رحمۃ اللہ علیہ و بایزید رحمۃ اللہ علیہ جہاں دم سادھے ہاتھ باندھے ہوئے حاضر ہوتے ہیں، سنجر و سلیم اپنی شوکت کا تاج اور رومی و جامی اپنی فضیلت کی دستار اتار کر یہاں پیش ہوتے ہیں۔
اپنے معیار محبت پہ نگاہ تنقید
نہیں معلوم کس کس کی نظر سے گزرے
آج ہر ترش رو ملا اور تند خو خطیب اپنی بات کا آغاز ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو موضوع بحث بنا کر کرتا ہے۔ ایسے میں اسے کون سمجھائے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت شان کا احاطہ کرنے میں لگے ہوئے ہو جبکہ یہاں یہ عالم ہے کہ
ان کی نعلین کو پیوند لگانے والے
قاب قوسین کی منزل کا پتہ دیتے ہیں
مجھے یہ مزاج کبھی راس نہیں آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نورانیت اور بشریت کے خانے میں رکھ کر گفتگو کو آگے بڑھایا جائے اور ان کے علم کو جانچنے کے لئے دنیاوی پیمانوں کو اپنایا جائے کیا ہم اپنا زاویہ فکر اور نقطہ نظر نہیں بدل سکتے۔ کیا خیال تصور کے دریچے میں پھول نہیں رکھ سکتا؟ نور و بشر کے ضمن میں مکتب و مدرسہ میں کیا کیا مناظرے برپا نہیں ہوتے لیکن کوئی سخن فہم اور صاحب ذوق ہو تو بات کو فرش سے عرش تک پہنچا دیتا ہے اور ساری خشونت کافور ہو جاتی ہے‘‘۔
ان کی عظمت کی جھلک دیکھ کے معراج کی شب
کب سے جبریلؑ کی خواہش ہے کہ بشر ہو جائے
اُمّی وہ آبروئے سخن ور کہیں جسے
مولانا عبدالماجد دریا آبادی اس ضمن میں یوں گہر بار ہیں :
’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ابوجہل اور ابولہب کی طرح جلنے والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو علمی توجیہات اور تاویلات کر کے دلوں سے گھٹانے والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کو اپنی ناپاکیوں اور گندگیوں پر قیاس کرتے ہوئے مسخ کر کے پیش کرنے والے کاش آج اپنے مٹی کے گھروندوں سے باہر نکل کر دیکھیں کہ اس دور یاجوجیت اورا س غلبہ دجالیت کے باوجود کسی یونیورسٹی، کسی کالج، کسی جامعہ، کسی اکیڈمی، کسی کتب خانے، کسی تجربہ گاہ میں، کسی ماہر فن کے لیکچر روم میں، کسی پروفیسر کے حلقہ درس میں وہ کشش وہ دلکشی و رعنائی اور وہ قوت جذب پائی جاتی ہے جو اس مقام میں ہے جہاں اس امی لقب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد ظاہری محو استراحت ہے جو اپنے رب کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا (احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جسے اس کے رب نے سب سے زیادہ تعریف کیا گیا (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ کر پکارا۔
بامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوشیار
شورش کاشمیری مرحوم نے اختر شیرانی کے متعلق لکھا ہے کہ اختر شیرانی اک بلانوش شرابی، محبت کا سخنور اور رومان کا تاجور تھا۔ لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ایک دفعہ چند کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے رومانوی شاعر اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ بلانوش تھے شراب کی دو بوتلیں وہ اپنے حلق میں انڈیل چکے تھے، ہوش و حواس کھو چکے تھے تمام بدن پر رعشہ طاری تھا حتی کہ دم گفتار الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زباں سے نکل رہے تھے۔ ادھر اختر شیرانی کی انا کا شروع ہی سے یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے۔ نجانے کیا سوال زیر بحث تھا فرمایا ’’مسلمانوں میں اب تک تین شخص ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینیس (ذہن و فطین) بھی ہیں اور کامل فن بھی، پہلے ابوالفضل، دوسرے اسداللہ خان غالب، تیسرے ابوالکلام آزاد۔ ۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ہمعصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھے انہیں بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے۔ ۔ ۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا : وہ ناظم ہے۔ ۔ ۔ سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرا دیئے۔ ۔ ۔فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کر کے چپ ہو گئے۔ ۔ ۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا : مشق کرنے دو۔ ۔ ۔ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا : نام سنا ہے۔ ۔ ۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا : میرا شاگرد ہے۔ ۔ ۔
نوجوانوں نے جب دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں تو بحث کا رخ پھیر دیا۔ کہنے لگے حضرت فلاں پیغمبر علیہ السلام کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آنکھیں مستی میں سرخ ہو رہی تھیں، نشے میں چور تھے، زباں پر قابو نہیں تھا لیکن چونک کر فرمایا : کیا بکتے ہو؟ ادب و انشاء یا شعر و شاعری کی بات کرو‘‘۔ ۔ ۔ اس پر کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا کہ اس کے مکالمات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے فرمایا اجی! یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟ یہ ارسطو افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے۔ ہمیں ان سے کیا غرض کہ ہم ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔
ان کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے شہ پا کر ایک ظالم کمیونسٹ نے چبھتا ہوا سوال کیا آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ۔ ۔؟ اللہ اللہ! نشے میں چور اک شرابی۔ ۔ ۔جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اسکے سر پر دے مارا۔ ۔ ۔بدبخت اک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ۔ ۔اک روسیاہ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔اک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔؟ غصے سے تمام بدن کانپ رہا تھا، اچانک رونا شروع کر دیا حتی کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب
باخدا دیوانہ باش بامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوشیار
اس شریر سوال پہ توبہ کرو میں تمہارے خبث باطن کو سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔ اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہاں سنتے تھے۔ اسے محفل سے نکال دیا پھر خود بھی اٹھ کر چل دیئے۔ ساری رات روتے رہے کہتے تھے ’’یہ لوگ اتنے بے باک ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں‘‘۔
رات کے تاریک سناٹوں کی پیداوار لوگ
میکدوں میں سیرت خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ نکتہ چیں
(ماخوذ از مضامین شورش ii۔ مجھے ہے حکم اذاں)
شیطان کا علم علم نہیں بلکہ جہالت کا شاہکار ہے
سائیں توکل شاہ انبالوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت فلاں مولوی نے شیطان کے علم کو جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاک کے علم سے زیادہ کہا ہے کیونکہ وہ بہت پہلے پیدا ہوا تھا اور اس نے حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام کو دیکھا ہوا ہے، امتداد زمانہ کی معلومات اس کے پاس بہت زیادہ ہیں۔ ۔ ۔
آپ نے فرمایا یہ غلط ہے۔ علم اللہ کی صفت ہے اور حقیقی علم وہ ہے جس سے اللہ کی معرفت (پہچان) حاصل ہو۔ علم والا اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے اور ان کاموں سے گریز کرتا ہے جو اس کی ناراضگی کا موجب ہوں جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ اس کائنات رنگ و بو میں اللہ کے بعد سب سے اعلیٰ و افضل ہے اللہ کی جملہ صفات کا پَر تو جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھا۔ علم جو اللہ کی عظیم صفت ہے وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ شیطان جاہل ہے، وہ اللہ کے علم کی صفت نہیں پا سکتا اگر اسے علم حاصل ہوتا تو اسے یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ وہ انکار سجدہ سے ملعون ہو جائے گا اور وہ اس سے باز رہتا مگر اسے اتنا بھی معلوم نہ ہو سکا پھر اسے افسوس بھی نہ ہوا اور نہ توبہ کا خیال آیا، اس سے زیادہ جاہل اور کون ہو سکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ جس کسی کی عمر زیادہ ہو وہ صرف زیادہ عمر کی بنا پر زیادہ عالم نہیں ہو جاتا دعوے کی یہ بنیاد ہی غلط ہے‘‘۔
ایک ثناء گر کے الفاظ میں ’’پروردگار عالم! تیری بسائی ہوئی بستی میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو تیرا ہی کھاتے ہیں مگر تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے اغماض کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اے کائنات کے پالنہار! آج تیرے انسانوں کی اس بستی میں تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم رفیع کو خاکم بدہن پاگل مجنوں اور جانور کا سا علم جاننے والے بھی رہتے ہیں، شیطان اور ملک الموت کے علم کو نصِ قرآنی سے ثابت کیا جاتا ہے اور آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے علم غیب ماننے والوں کو مشرک کہا جاتا ہے۔ ۔ ۔اے خالق ارض و سما! یہ کیسا اندھیر ہے کہ نماز میں گاؤخر کا خیال آئے تو نماز کی تکمیل ہو جائے لیکن تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال آئے تو نماز فاسد ہو جائے۔ ۔ ۔بقول حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ جو کچھ نصاریٰ نے اپنے نبی کے متعلق کہا اسے چھوڑ دے اس کے علاوہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں جو چاہے کہہ اور سن روا ہے۔ آپ کی ذات سے (اس کے علاوہ) جو شرف اور جس قدر عظمت چاہے منسوب کر، آپ کی فضیلت کی کوئی حد نہیں آپ شب ظلمت میں آفتاب کی مانند ہیں جسے دیکھنے سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔(انسان آپ کی عظمت کا صحیح اندازہ ہی نہیں کر سکتا)۔
دل کے سدرہ میں تیری یاد کا جبریل علیہ السلام بسے
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبے کا دل سے احترام کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت و عقیدت ان کی ذات کا نمایاں پہلو تھا اور یہی آپ کی زندگی کا کل سرمایہ پس عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقبال کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی، اسی لئے آپ فرماتے ہیں :
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
پروفیسر طاہر فاروقی سیرت اقبال میں لکھتے ہیں کہ آپ حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر سرشار تھے کہ جب کبھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا آپ بیتاب ہو جاتے اور دیر تک روتے رہتے۔ حکیم محمد حسن قرشی کا بیان ہے کہ ایک پہر میں علامہ کو ملنے گیا، دیکھا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ سبب پوچھنے پر کہنے لگے ابھی ابھی ایک مسلمان نوجوان مجھ سے ملنے آیا تھا، وہ مرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فداہ امُی و ابی) کو بار بار ’’محمد صاحب‘‘ کہہ رہا تھا، مجھے دلی صدمہ ہوا کہ اس قوم کا کیا بنے گا جس کے نوجوان اپنے محسن حقیقی سے اس قدر بے خبر ہوں۔ میں تو اس قدر بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا
حکیم محمدحسن قرشی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں اور سید امجد علی، علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں بال جبریل کی بعض نظموں اور غزلوں پر بحث ہوتی رہی۔ امجد علی نے اس شعر کو بار بار اس انداز سے پڑھا جیسے وہ اس میں کھٹک محسوس کر رہے ہوں :
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
جب ہم علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے بڑی خندہ پیشانی اور محبت سے قریب بٹھایا، ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد امجد علی نے جرات کر کے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی بولے :
ڈاکٹر صاحب! بال جبریل کے مطالعے سے بعض مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر اللہ تعالیٰ سے نوک جھونک کے موڈ میں ہے۔
علامہ نے جن پر پہلے سے تفکر کا عالم طاری تھا چونک کر جواب دیا : بھائی! تمہارا خیال درست ہے لیکن ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ خدا سب کا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا ہے۔ اسلئے جہاں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کا تعلق ہو وہاں ایسی جرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(ماخوذ انجمن از فقیر سید وحیدالدین)
اقبال بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
علامہ اقبال کا جذبہ عشق و احترام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حد تک تھا کہ وہ اپنی عمر کے آخری ایام میں اس درجہ مضطرب و پریشان رہتے تھے کہ مبادا کہیں ان کی عمر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر سے تجاوز نہ کر جائے۔ حکیم احمد شجاع نے ایک دن آپ کو بہت زیادہ فکر مند و پریشان دیکھ کر پوچھا آپ اس قدر مغموم و افسردہ کیوں ہیں؟ ڈاکٹر محمد اقبال نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا احمد شجاع! میں یہ سوچ کر اکثر مضطرب و پریشان ہو جاتا ہوں کہ کہیں میری عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر عزیز سے زیادہ نہ ہو جائے۔ بالآخر یہ عاشق صادق اس اندیشے سے کہ کہیں اس سے عمر کے معاملے میں سوئے ادبی نہ ہو جائے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر تک پہنچے سے قبل ہی اکسٹھ برس کی عمر میں اس دار فانی سے کنارہ کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ عاطفت میں پہنچ گیا۔ (ایضاً)
خاک حجاز کے نگہباں سے
تو ہم آں مے بگیر از ساغر دوست
کہ باشد تا ابد اندر بر دوست
سجودے نیست اے عبدالعزیز ایں
بروبم از مِژہ خاک درِ دوست
تو سلطان حجازی من فقیرم
ولے درکشود و معنی امیرم
’’اے سلطان ابن سعود! تو بھی دوست کے ساغر سے محبت کی ایسی شراب پی کہ ہمیشہ دوست کے دل میں تیرا مقام رہے۔ ۔ ۔ اے عبدالعزیز! جسے تو عدم معرفت اور نافہمی کے سبب سجدہ سے تعبیر کرتا ہے یہ سجدہ نہیں ہے بلکہ میں تو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چوکھٹ پہ پلکوں سے جاروب کشی کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ اے ابن سعود! تو نجد و حجاز کا امیر ہے اور میں تیرے سامنے اک فقیر بے نوا ہوں لیکن جہاں تک معرفت کا تعلق ہے تو میں امیر ہوں اور تو میرے سامنے فقیر بے نوا‘‘۔
خدا لہجے میں تیرے بولتا ہے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک نام لیوا کے الفاظ میں ’’میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ ملتمس ہوں کہ کسی کی عظمت پہچاننے کے لئے بھی تھوڑی بہت عظمت چاہئے چھوٹا ذہن آپ کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ کفار کی سوچ کی رسائی یہیں تک تھی کہ آپ بازاروں میں محو خرام ہوتے ہیں اور لذت کام و دہن سے مستفیض ہوتے ہیں آپ (خاکم بدہن) اللہ کے پیغمبر کیسے ہو سکتے ہیں۔ ۔ ۔؟ فرشتے آپ کے ساتھ کیوں نہیں۔ ۔ ۔؟ حالانکہ فرشتے آپ کے ساتھ تھے (بدر و احد و حنین میں) مگر فرشتوں کو دیکھنے کے لئے بھی تو نگاہ چاہئے۔ کفار کی یہ بھی ہرزہ سرائی تھی کہ آپ کے پاس دولت کیوں نہیں۔ ۔ ۔؟ حالانکہ دولت آپ کے پاس تھی مگر وہ ایمان کی دولت تھی جسے کفار نہیں پہچانتے تھے ان کی کج نظری میں وہ دولت، دولت ہی نہیں تھی۔ جو لوگ آپ کی عظمت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے تھے انہوں نے آپ کو پہچان لیا وہ آپ کے دامان کرم سے وابستہ ہو کر عظمتوں کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ ۔ ۔اور جو بزعم خویش ابوالحکم اور دانشور بنے پھرتے تھے ان کی عقل کا بھانڈہ چوراہے میں پھوٹ گیا اور وہ زمانے کی نگاہ میں ابوجہل ٹھہرے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔آپ ہی کی ذات کریمانہ صفات سے حق و باطل میں امتیاز قائم ہوا۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن کرم سے وابستہ ہیں اور آپ کی ذات کا حُسن جن کے لئے جنت نگاہ ہے وہ اہل حق ہیں۔ ۔ ۔اور جن کی چشم عقیدت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا مقام نہیں وہ اہل باطل ہیں۔ ۔ ۔آنجناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت عظمیٰ سے جہل و دانش کا فرق واضح ہو گیا۔ صاحب دانش وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو پہچانتا ہے، آپ کے ادب و احترام کو دل میں جگہ دیتا ہے۔ ۔ ۔ اور جاہل وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے عیب ذات میں عیب تلاش کرتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے ادبی و گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔
جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بات کرتے وقت ایسے الفاظ و تشبیہات استعمال کرتے ہیں جن سے سوئے ادبی ٹپکتی ہے بلاشبہ یہ چھوٹے لوگ ہیں ان کے ذہن حقیر اور سوچ پست ہے۔ یہ اپنے ذہن کی پست سطح سے اوپر اٹھ ہی نہیں سکتے اگرچہ بزعم خویش یہ عالم و پارسا بنتے ہیں لیکن ہیں جاہل و اشقیاء۔ منافقوں کے متعلق فرقان حمید ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے۔
دانش فرنگ کے اس دور میں آج بھی کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں جن کے سامنے اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت شان بیان کی جائے تو ان کی سوچ کے آبگینے کو ٹھیس پہنچتی ہے حالانکہ آپ کی تعریف سے خدا کی شان کبریائی اور اس کی عظمت و رفعت کی اولیت پر کوئی فرق نہیں آتا بلکہ اس ورفعنالک ذکرک کی اصل انتہا واضح ہو جاتی ہے کہ خدا کو اپنی وحدانیت سے زیادہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پسند ہے۔ جب اللہ کو یہ بات پسند ہو اور اس کے لئے باعث خوشی ہو تو پھر اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام زیادہ سے زیادہ کیوں نہ بلند کیا جائے۔ جب ان کا نام لینا منشائے ایزدی بھی ہو اور ایمان کا تقاضہ و تکمیل بھی تو پھر ثنائے خواجہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیوں نہ اپنی مغفرت کے لئے التماس دعا اور لطف و کرم کا سوال کیا جائے۔
اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی بلندی کا کچھ اس طرح اہتمام کیا ہے کہ ایک طرف خود اور اپنے فرشتوں پر ان کے نام کی تسبیح کو لازم کر کے اسے اذان و صلوٰۃ میں شامل کر دیا ہے اور دوسری طرف اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی حلاوت بسائی ہے کہ اس سے زیادہ لذت کسی اور شے میں نہیں پائی جاتی۔ پس وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہی ہے جس کے بغیر محض خدا کی خدائی کے اقرار سے کوئی مسلماں نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ اذان کسی نومولود کے کان میں ہو یا کسی مسجد کے مینار سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے خالی نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ درود کے بغیر نماز نامکمل ہے اور درود خدا، اس کے فرشتوں اور اہل ایمان کا محبوب مشغلہ ہے۔ غرض مہد سے لے کر لحد تک دینی شعائر میں کوئی عمل یا عقیدہ ایسا نہیں جو اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمولیت کے بغیر معتبر و مقبول بارگاہ الہٰی ہو۔
اللہ کے ساتھ اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیوستگی اس دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا سلسلہ آخرت کی بخشش ونجات تک دراز ہے۔ وہ خدا کا محبوب ہو ہی نہیں سکتا جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب نہ رکھے اور یہ محبوبیت جس درجے میں پائی جائے گی اسی درجے میں کوئی بندہ خدا کا محبوب قرار پائے گا۔ گویا اپنے بندوں کے ساتھ اللہ کی خوشنودی و رضا اور بخشش و عطا کا میزان یہ ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دل میں کیا مقام دیتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹ کر خدا سے نہیں جڑا جا سکتا پس حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی متاع دنیا و دیں ہے۔
پس ایمان کی تکمیل کا انحصار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر موقوف ہے۔ محب کا محبوب کو پکارنا محبت کی فطرت ہے، جسے جس سے محبت ہوتی ہے وہ اسے ضرور یاد کرتا ہے۔ محبت دراصل اپنے محبوب ہی کو پکارنے کا اصطلاحی نام ہے۔ ہمیں ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جانوں سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہیں۔ ایک جان تو کیا ہم ایسی لاکھوں جانیں آپ کے قدموں پہ نثار کر دیں۔ ہم مسلمان اپنا دل محبوبِ حجازی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کر چکے ہیں اسی لئے ہمارا آپس میں گہرا تعلق ہے ہمارا باہمی رشتہ صرف آپ ہی کی محبت کے سبب قائم ہے۔
ہم نے بنیاد دوستی رکھی یاد خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتے سے
اللہ ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے نوازے تاکہ اسلام کا وہ گزرا ہوا دور ایک بار پھر لوٹ آئے، اس گزرے ہوئے دور کی ساری عظمتیں اور برکتیں آپ کی محبت ہی کے دم سے تھیں۔ آپ کی ذات پہ نکتہ چینی اور صفات میں تنقیص کم نصیبی کا موجب ہے اگر کوئی اور ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کلام کرتا تو افسوس نہ ہوتا افسوس تو اپنوں پہ ہوتا ہے غیروں پہ نہیں۔
حالانکہ یہ امر حقیقت ہے کہ آپ کی شان اتنی ارفع و اعلیٰ ہے کہ ہمارے فہم و ادراک میں بھی نہیں آ سکتی۔
دوری کا یہ عالم کہ ورائے حد ادراک
قربت کی یہ حالت کہ قریب رگ جاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم