سوال : روزے کی مقصدیت، مریض کے لئے رعایت اور اس کے کفارہ کے حوالے سے راہنمائی فرمائیں۔
جواب : روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے قرآن پاک میں ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔
(البقره : 183)
اسلام میں آسانی اور رحمت کا پہلو عبادات کی ادائیگی کے اندر بھی موجود ہے۔ کمزور اور ضعیف لوگوں کو روزہ نہ رکھنے کی شرعی رعایت حاصل ہے۔ ارشاد فرمایا :
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.
(البقره : 184)
’’پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو‘‘۔
قرآن حکیم کی سورہ بقرہ میں رمضان کے روزوں کے احکام، تعداد، تقاضے، رخصت و رعایت اور قضا کے احکامات مذکور ہیں۔ ان احکامات میں سے بعض احکام تشریح طلب ہیں جن کو صرف سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ روزے کا کفارہ بھی انہی امور میں سے ہے جس کی وضاحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود ہے۔
روزے کا کفارہ
عقل کی رو سے ہر فعل کی طرح روزہ چھوڑنے کی بھی دو صورتیں ہیں۔
- شرعی عذر کی بناء پر، جیسے بیماری، سفر وغیرہ
- بلا عذر شرعی مثلاً دانستہ روزہ توڑنا یا نہ رکھنا
قرآن کریم میں پہلی صورت کا حکم یعنی قضاء کا ذکر ہے مگر دوسری صورت یعنی دانستہ رمضان کا روزہ رکھنے یا رکھ کر توڑ دینے کا ذکر نہیں مگر منشاء الہٰی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عقدہ حل فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے، اس اثناء میں آپ کی خدمت اقدس میں ایک شخص آیا اور عرض کی یارسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا، فرمایا : تجھے کیا ہوا ہے؟ عرض کی : میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے قربت کر لی۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مملوک ہے جسے آزاد کرو۔ ۔ ۔؟ عرض کی : نہیں۔ ۔ ۔ فرمایا : مسلسل دو مہینے روزے رکھ سکتے ہو۔ ۔ ۔؟ عرض کی : جی نہیں۔ ۔ ۔ فرمایا : ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو۔ ۔ ۔؟ عرض کی : نہیں۔ ۔ ۔ فرمایا : بیٹھ جاؤ۔ ۔ ۔ اسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا، فرمایا : سوال کرنے والا کہاں ہے۔ ۔ ۔؟ عرض کی : جی میں حاضر ہوں۔ ۔ ۔ فرمایا : اسے لے کر صدقہ کر دو۔ ۔ ۔ وہ شخص بولا! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اپنے سے زیادہ غریب و محتاج پر؟ خدا کی قسم، مدینہ منورہ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان کوئی گھرانہ میرے گھرانے سے زیادہ محتاج نہیں۔ ۔ ۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے پھر فرمایا : اسے اپنے گھر والوں کو کھلا دو‘‘۔
(بخاری مسلم بحواله مشکوة : 176)
اس حدیث مبارکہ میں ایک طرف روزے کا کفارہ
- غلام آزاد کرنا۔
- 60 روزے رکھنا۔
- 60 مسکینوں کو کھانا کھلانا واضح ہو رہا ہے اور دوسری طرف اسلام کا رحمت، آسانی اور شفقت کا پہلو بھی عیاں ہے۔
سوال : رمضان المبارک میں روزے نہ رکھنے کی قضا کب کی جائے اگر وہ شخص فوت ہو گیا اور روزے نہیں رکھ سکا اس کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب : 1۔ بیمار آدمی ایام ممانعت کے علاوہ جب چاہے روزوں کی قضا کر سکتا ہے گو جلدی کرنا بہتر ہے کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ جب بھی روزے رکھے گا قضاء ہو جائے گی۔ گرمی ہو یا سردی۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
2۔ جو آدمی فوت ہو گیا اور اسے قضاء کا موقع میسر نہیں آیا۔ اگر مالدار ہے تو جتنے روزے رہ گئے اتنے روزوں کے فدیہ کی وصیت کر جائے تاکہ اس کے مال سے فدیہ دیدیا جائے۔ فدیہ فی روزہ، صدقہ فطر کے برابر ہے۔ اس وصیت پر عمل واجب ہو گا۔ اگر وصیت نہیں کی تو ورثاء اپنی طرف سے فدیہ ادا کر دیں تو بھی فدیہ ادا ہو جائے گا۔ اگر مالدار نہ تھا اور ورثاء بھی ایسا نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا مہربان ہے۔
سوال : سعودی عرب میں پاکستان کی نسبت روزے عموماً پہلے شروع ہوتے ہیں۔ اسی نسبت سے عید بھی پہلے ہوتی ہے۔ پاکستانی شخص جو دوران رمضان وہاں پہنچا، اس کے لئے روزوں اور عید کا شرعی حکم کیا ہو گا؟
جواب : جو شخص رمضان المبارک میں پاکستان سے حجاز مقدس جاتا ہے اور حجاز مقدس میں پاکستان سے دو دن پہلے رمضان کا چاند نظر آ گیا تھا اس صورت میں اس پاکستانی شخص کو پاکستانی حساب سے روزے رکھنے چاہئیں۔ البتہ وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر عید کرے اور دو دن کی بعد میں قضاء کرے۔
سوال : رمضان میں 3 راتوں میں یا ایک رات میں محفل شبینہ قرآن پاک کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب : تین دن میں قرآن کریم کا شبینہ جبکہ سپیکر کی آواز مسجد سے باہر نہ جائے اور اہل علاقہ کے آرام میں خلل نہ آئے، بالکل جائز ہے۔ چند باتوں کو پیش نظر رکھیں۔ شبینہ یا کسی اور صورت میں قرآن کریم اتنا پڑھا جائے جس سے جی اکتا نہ جائے۔ جونہی اکتاہٹ محسوس ہو ختم کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
اقروا القران ما ائتلفت عليه قلوبکم فاذا اختلفتم فقوموا عنه.
’’قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل اس سے مانوس ہوں اور جب اختلاف کرنے لگو، اٹھ کھڑے ہو‘‘۔
(متفق عليه. مشکوٰة ص 190 ج 1)
2۔ تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہ کیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
لم يفقه من قرا القران فی اقل من ثلث.
’’جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا، وہ اسے نہ سمجھ سکا‘‘۔
(ترمذی، ابودائود، دارمی، مشکوۃ ص 191)
اتنا تیز تیز نہ پڑھا جائے کہ حروف کٹ جائیں اور سمجھ میں نہ آئیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرات اس طرح کرتے :
کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقطع قراته يقول الحمد لله رب العلمين ثم يقف ثم يقول الرحمن الرحيم ثم يقف.
(ترمذی، مشکوة ص 171)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قرات جدا جدا کر کے پڑھتے تھے۔ الحمدللہ رب العالمین پڑھ کر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے، پھر ٹھہرتے‘‘۔
یاد رہے کہ اس شبینہ سے مقصود روپیہ جمع کرنا نہ ہو۔ محض اللہ کی رضا کے لئے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من قراء القرآن فيسئال الله به فانه سيجئی اقوام يقرون القرآن يسئالون به الناس.
’’قرآن پڑھنے والا اس کا صلہ اللہ سے مانگے۔ عنقریب کچھ لوگ آئیں جو قرآن پڑھیں گے اور اس کے ذریعے لوگوں سے مانگیں گے‘‘۔
(احمد، ترمذی، مشکوة ص 193)
یہ ارشادات نبوی اتنے واضح ہیں کہ کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ اس کی روشنی میں شبینہ بھی کریں اور دعوت عام بھی دیں۔ بس ان ہدایات کی پابندی کریں۔ اللہ پاک آپ کو اور ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ یہ نہ ہو کہ منتظمین تو دودھ اور پیسوں کے حساب میں مصروف رہیں۔ خود شرکت نہ کریں اور جو غریب قابو آ جائیں انہیں رات بھر باری باری حفاظ صاحبان قرآن سناتے رہیں۔ سنانے والے تو بدلتے رہیں اور آرام کرتے رہیں لیکن جو سیدھے سادھے سامعین قابو آ جائیں، رات بھر کھڑے کھڑے تھک کر چور ہو جائیں اور آئندہ اس کام کی طرف رغبت محسوس نہ کریں۔