قرآن مجید کلام اللہ ہے۔ کرۂ ارض کی یہ واحد کتاب ہے جو ساڑھے 14 سو سال کے بعد بھی اپنی اصل کے ساتھ دنیا بھر کے گوشے گوشے میں موجود اور دستیاب ہے اور یہ وہ کتاب مقدس ہے جس نے زیر، زبر کے ساتھ تاقیامت محفوظ و مامون رہنا ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ ربِ کائنات نے خود لے رکھا ہے اور اعلان فرمایا ہے کہ اس کاایک ایک حرف حق و صداقت پر مبنی اور ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ قرآن مجید اللہ کا ایسا کلام ہے جس کا تعلق انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے ہے۔ ایمانیات، اعتقادات، عبادات کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنی زندگی کے شب و روز کس طرح بسر کرنے ہیں اور اپنے سماجی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی امور کس طرح انجام دینے ہیں اُن کے بارے میں بھی اس کتاب ہدایت اور کتاب تربیت میں راہ نمائی مہیا کی گئی ہے۔ اسلام کرۂ ارض کا وہ واحد دین ہے جس نے انسانوں کے خانگی، سماجی معاملات میں بھی تربیت کی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبران پر جو صحائف نازل فرمائے وہ سچائی پر مبنی ہیں اور کسی مسلمان کا اُس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک ہم اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر ایمان نہ لائیں ۔ قرآن مجید حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا اور کریم آقاﷺ نے اس کتابِ ہدایت کے ساتھ اُمت کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی ارکان دین ہیں، کوئی مسلمان استطاعت رکھتے ہوئے ان فرائض کی ادائیگی سے پہلو تہی نہیں کر سکتا تاہم پورا دین ان ارکان کے اندر جمع نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے امور و معاملات ہیں جن کی ادائیگی میں کوتاہی کسی مسلمان کو دائرہ ایمان سے خارج کر سکتی ہے۔ دوسرے معنوں میں اسلام محض عبادت و ریاضت کا دین نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔قرآن مجید نے جہاں حلال، حرام کی واضح تقسیم و تفریق کی ہے وہاں سماجی و معاشرتی زندگی کے آداب بھی بیان کئے ہیں جنہیں نظرانداز کرنے سے اللہ کے ہاں جواب دہی ہوگی۔ بطور مسلمان یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سماجی زندگی کے آداب کو اُسی طرح پیش نظررکھیں جیسے دیگر فرائض ایمانی زندگی کا جزو لاینفک ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے 8 جلدوں پر مشتمل قرآنک انسائیکلوپیڈیا کی صورت میں اہلِ ایمان اور دنیا بھر کے انسانوں کے لئے قرآنِ مجید کو پانچ ہزار موضوعات میں تقسیم کیا ہے۔ ہر موضوع پر متعلقہ آیات کو ایک جگہ پر جمع کرکے حصولِ ہدایت کے طالبین کے لئے قرآن کو آسان فہم بنا دیا ہے۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی جلد پنجم سماجی زندگی کے آداب سے متعلق ہے جس کا مطالعہ ہر کلمہ گو مسلمان خواہ وہ مرد ہے، عورت ہے، جوان ہے یا بوڑھا ہے اُسے ضرور کرنا چاہیے، یوں تو قرآنک انسائیکلوپیڈیا کی آٹھوں جلدیں مختلف موضوعات اور ابواب کی تقسیم میں معارف و معانی کابحر بے کراں ہیں تاہم فی زمانہ دینیات کے اساتذہ اورطلبا و طالبات کو قرآنک انسائیکلوپیڈیا کی جلد پنجم ہمہ وقت زیر مطالعہ رکھنی چاہیے کیونکہ آج اُمت اخلاقی بگاڑ کا شکار اور بداعمالی کے فتنے کی زد پر ہے، اس فتنے کا تدارک کتابِ ہدایت سے ہی ممکن ہے۔ جلد پنجم یتیموں کے حقوق، حسب و نسب اور خونی رشتہ داریوں، آدابِ ملاقات، والدین کے احترام ، رشتہ داروں کے حقوق و فرائض ، سلام و دعا، آدابِ مجلس، مرد و زن کے تعلقات، آداب اکل و طعام، حلال و طیب اشیاء کے استعمال یہاں تک کہ چلنے پھرنے ، اٹھنے بیٹھنے ، مخاطب ہونے کے آداب سے متعلق ہے۔ قرآن مجید نے اجتماعی معاشرتی زندگی کی بنیاد نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ مدد کرنے پر رکھی ہے۔ سورہ المائدہ میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے ’’ اور نیکی اور پرہیز گاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ میں اجتماعی زندگی کے اصول وضاحت کے ساتھ بیان کر دئیے ہیں اور مومنین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کریں اور باہم مل کر گناہ اور ظلم کا راستہ روکیں۔ کچھ کج فہم اور الوہی احکامات سے ناواقف اسلام پر تنگ نظری کا الزام لگاتے ہیں، حقیقت میں وہ خود کم علم اور تنگ نظر ہیں، وہ سنی سنائی باتوں پر الزام تراشی کرتے ہیں اگر وہ صدق دل سے قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اُن کی تنگ نظری وسعت نظرو قلب میں بدل جائے۔
قرآن مجید نے مرد و خواتین کی سماجی زندگی میں باہم تعاون کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اُس کے لئے ایک اصول مقرر کیا ہے، اصول وہی ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔ پہلی آیت کریمہ نیکی کے کاموں میں باہمی مدد کی عمومی ہدایت سے مزین ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ رب العزت نے صراحت کے ساتھ فرمایا ’’ اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ سبحان اللہ کتنے خوبصورت انداز اور الفاظ کے ساتھ مرد و زن کو تعمیر و ترقی اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا مددگار قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ مرد و زن نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں مددگار ہو سکتے ہیں بلکہ اللہ رب العزت نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ کوئی مذہب اور ضابطہ حیات ایسا نہیں ہے جس نے مرد و زن کے دائرہ کار کو اس قدر وسعت عطا کی ہو جو وسعت اسلام میں مرد و زن کو حاصل ہے، شرط یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں انسانیت کی بقاء کے لئے اجتماعی امن، اجتماعی خیر، فلاحِ عامہ اور خدمتِ دین کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔
سماجی زندگی کا ایک اور شعبہ مظلوم، مجبور اور یتیم کی مدد کا ہے ، آج یتیم کا استحصال عام ہے ، کمزور کے حق کو دبا لینا حق سمجھ لیا گیا ہے ، مگر اللہ کے ہاں یہ ایک ایسا گناہ ہے جس پر کوئی معافی نہیں ملے گی، سورہ الماعون میں اللہ رب العزت نے فرمایا ’’ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے؟۔ تو یہ وہ شخص ہے جویتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی استحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)۔ پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز( کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اللہ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)۔ وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں۔‘‘ اگر کوئی ایمان والا اس سورۃ کو اس کے معانی کی روح میں اتر کر اس کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرے تو لرزہ طاری ہو جائے یہاں پر اللہ رب العزت نے بے نمازوں کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ان نمازیوں کی نمازوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو نماز تو پڑھتے ہیں مگر یتیم کا حق غصب کرتے ہیں جو نماز تو پڑھتے ہیں مگر استطاعت رکھنے کے باوجود ضرورت مندوں کی مدد نہیں کرتے، جو استطاعت تو رکھتے ہیں مگر محتاج کو کھانا کھلانے سے اجتناب کرتے ہیں، جو نمازیں تو پڑھتے ہیں مگر غریب رشتہ داروں کو کم تر سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں ، جو نمازیں تو پڑھتے ہیں مگر وعدہ خلافی کرتے ہیں، غلط بیانی کر کے زائد منافع حاصل کرتے ہیں۔ آداب زندگی اور امور مملکت اور نظام حیات کے بارے میں قرآنک انسائیکلوپیڈیا کی جلد پنجم شرح و تعبیر کے حوالے سے مزید کئی جلدوں کی مرہون منت ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے 40 ویں عالمی میلاد کانفرنس میں اپنے خطاب میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ اخلاق حسنہ کی ترویج و اشاعت اور فروغ کے لئے میری باقی زندگی وقف ہے۔بلاشبہ اخلاقی بگاڑ کی اصلاح ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو گی۔ تحریک منہاج القرآن کا ہر دعوتی شعبہ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی اس فکر اور خدمتِ دین کے فروغ کے لئے بروئے کار آئے گا۔ اللہ رب العزت ہمیں فرائض دینیہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ آداب زندگی کے الوہی احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔