حکمت اور نصیحت، دانائی اور دانشمندی کی ایسی بات کو کہتے ہیں جو خیر اور بھلائی کے ارادے سے کی جائے اور جس کے ذریعے لوگوں کو فلاح کی طرف بلایا جائے۔ اسلام اسی قولِ خیر کا حکم دیتا ہے اور اسی راہ ہدایت کی طرف ہمیں بلاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ.
(النحل: 125)
’’(اے رسولِ معظّمﷺ!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے۔‘‘
اس مضمون کے گزشتہ حصہ (شائع شدہ نومبر2023ء) میں ہم علم و حکمت کی اہمیت اور خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوالِ حکمت کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ ذیل میں ائمہ اہل بیت اطہار علیہم السلام اور سلف صالحین رحمھم اللہ کے کچھ ایسے اقوال درج کیے جارہے ہیں جو سراسر حکمت اور نصیحت پر مشتمل ہیں۔ ان اقوال پر عمل کرنا یقینی طور پر انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی اور اللہ کی بارگاہ میں سرخروئی عطا کرتا ہے۔
1۔ امام زین العابدین علیہ السلام
(1) لوگ تین طرح کی عبادات کرتے ہیں : ایک عبادت خوف کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ یہ عبادت غلاموں کی سی ہے۔ دوسری عبادت کسی غرض سے کی جاتی ہے۔ یہ تاجروں کی عبادت ہے۔ ایک عبادت شکر کے ساتھ کی جاتی ہے۔ یہ عبادت حقیقتاً اللہ کی عبادت ہے۔
(2) گناہ سے خوشی حاصل نہ کرو اس لیے کہ گناہ سے خوش ہونا گناہ سے بڑھ کر گناہ ہے۔
(3) نیک بخت وہ ہےجس کا غصہ اُسے حق سے باہر نہ کرے۔
(4) کم عمر شخص کے گناہ اپنے گناہوں سے کم جان کر اُس کی عزت کرو۔
(5) جوبُری جگہ جاتا ہے وہ اپنے اوپر الزام لگوا لیتا ہے۔
(6) شکایت کا ترک کرنا بھی صبر ہے۔
2۔ سیدنا امام محمد باقر علیہ السلام
(1) تین باتوں میں دنیااور آخرت کا کمال پوشیدہ ہے: جو تم پر ظلم وزیادتی کرے اُسے معاف کر دو۔ جو تم سے قطع تعلق کرے اس کے ساتھ صلہ رحمی کر و۔ جو تم سے جہالت کا برتاؤ کرے تم اس کے ساتھ عالمانہ برتاؤ کرو۔
(2) دین میں جو شخص سستی کرتاہے، وہ حق ادا نہیں کرپاتا اور جو کم حوصلہ ہوتا ہے وہ حق پر صبر نہیں کرپاتا۔
(3) فروتنی وعاجزی یہ ہے کہ انسان مجلس میں اپنی مخصوص جگہ سے کم تر مقام پر بیٹھے اور جس سے بھی ملاقات کرے سلام میں پہل کرے۔
(4) جنت ناگواریوں اور صبر میں گھری ہوئی ہے اس بنا پر جوشخص دنیا کی ناگوار چیزوں پر مسرت کا اظہار کرے گا، وہی جنت کا مستحق ہوگا اور جنت میں داخل ہوگا۔ اس کے برعکس دوزخ شہوتوں اور لذتوں سے گھر ی ہوئی ہے۔
3۔ سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام
(1) انسان اگر چھپ کر گناہ کرے تو صرف اکیلے خودہی کو نقصان پہنچاتاہے، اگر اعلانیہ گناہ کرے اور اُس کو اس سے نہ روکا جائے تو پھر سارے معاشرے کو نقصان پہنچائے گا۔
(2) تغیر اس کائنات کی اساس ہے۔ پانی کہیں سحاب بنتا ہے اور کہیں موتی بنتا ہے اور کہیں آنسو بنتا ہے۔
(3) بُرے لوگ سخت پتھر کی مانند ہیں جس سے پانی نہیں نکلتا اور برے لوگ اُس درخت کی مانند ہیں جس کے پتے سبز نہیں ہوتے اور بُرے لوگ اُس زمین کی طرح ہیں جس سے نباتات اور پودے نہیں اُگتے۔
(4) جب وقتِ مصیبت آئے تو پھر آرام تلاش نہ کرو۔ اس لیے کہ مصیبت میں آرام تلاش کرنا خود ایک مصیبت میں مبتلا ہونا ہے۔
(5) جاہل کی عادت یہ ہے کہ وہ سننے سے پہلے جواب دینے لگتا ہے اور سمجھنے سے پہلے جھگڑنے لگتا ہے اور جس چیز کے بارے میں نہیں جانتا اُس کے بارے میں حکم لگانے لگتا ہے۔
(6) دل کی آنکھ عبادت سے کھلتی ہے، اس کی رسائی لامکاں تک ہوتی ہے اور اس سے کائنات کا کوئی راز پوشیدہ نہیں رہتا۔
(7) دنیا دار خود غرضیوں اور خود فریبیوں کے درمیان الجھے رہتے ہیں اور آپس میں محبت والفت کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے اُن کے دل بچھوؤں سے بھرے ہوتے ہیں۔
(8) بہترین جہاد یہ ہے کہ تم انتقام کی قدرت و طاقت رکھتے ہوئے غصے کو پی جاؤ اور اُس کا بدلہ اور انتقام نہ لو۔
4۔ سیدنا امام علی رضا علیہ السلام
(1) خود پسندی کے کئی درجے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کو اپنے بُرے اعمال بھی اچھے لگیں اور اپنے بُرے عمل پر وہ بہت زیادہ خوش ہو اور یہ گمان کرے کہ اس نے بہت اچھا کام کیا ہے۔
(2) دوستوں کو انکساری کے ساتھ ملواور دشمنوں کو ہوشیاری کے ساتھ ملو اور عام لوگوں کے ساتھ کشادہ روی کے ساتھ ملو۔
(3) ایمان فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کا نام ہے۔ ایمان زبان سے اقرار کرنے اور دل سے پہچاننے اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے کا نام ہے۔
5۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
(1) علم کا اخلاص یہ ہے کہ دہ عمل کے ساتھ مطابقت پیدا کرے۔
(2) گناہ گار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مصیبت آنے پر شکوہ وشکایت کرے۔
(3) اگر کسی میں کثرت کے ساتھ برائیاں دیکھو اور اس میں اچھائیاں قلیل ہوں تو اسکی اچھائیوں کو نظر میں رکھو۔
(4) جس عہدہ اور منصب کی تم میں قابلیت نہ ہو، اُسے ہرگز قبول نہ کرو۔
(5) شاگردوں کے ساتھ ایسے خلوص ومحبت سے پیش آؤ کہ کوئی دیکھے تو یہ کہے کہ وہ تمہاری اولاد ہیں۔
(6) رذیل اور گھٹیا لوگوں سے دوستی نہ کرو۔ بے غرض ہوجاؤ گے تو امیر بن جاؤ گے۔
6۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ
(1) لوگوں کے پاس اپنی ضرورتیں کم لے کر جاؤ کیونکہ اس میں ذلت اور رسوائی ہے۔
(2) پست خیال ، آوارہ مزاج اور فحش لوگوں سے دور رہو۔ (3)ناپسندیدہ باتوں سے چشم پوشی کرو اور برد باری سے کام لو۔
(4) اگر اللہ کی اطاعت میں لوگوں کی نافرمانی ہوجائے تو کوئی بات نہیں مگر لوگوں کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی ہرگز نہ ہو نے دو۔
(5) جس شخص نے تجھے راز دار بنایا ہے اس کا راز ہر گز افشا نہ کرو۔
(6) علم زیادہ معلومات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک نور کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔
(7) اچھی رائے دو، اچھی گفتگو کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔
(8) عالم کا کام غور و فکر کرکے کسی چیز کو قبول کرناہے جبکہ جاہل کاکام کسی سنی سنائی بات کو آگے روایت کر دینا ہے۔
7۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
(1) علم کا پھول حقدار پر کھلتا جائے گا ، اس کی خوشبو بڑھتی جائے گی۔
(2) جب کام زیادہ ہو تو سب سے پہلے اہم کام کو ترجیح دو۔
(3) عزت کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بہتر ہے، بہ نسبت اس زیادہ کے جس کے ساتھ ذلت اُٹھانا پڑے۔
(4) جو شخص تکبر اور انانیت کے ساتھ علم حاصل کرناچاہے، وہ کبھی فلاح نہیں پا سکے گا اور جو شخص عاجزی وانکساری کے ساتھ علم حاصل کرے گا، وہی فوز وفلاح پائے گا۔
(5) مخلوق میں ہماری سب سے زیادہ ہمدردی کے قابل وہ لوگ ہیں جو تنگ دستی کے باوجود عزم و ہمت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔
(6) دوستی اور رضا مندی کی آنکھ سے کوئی عیب اور نقص دکھائی نہیں دیتا جبکہ ناراضگی و دشمنی کی آنکھ سے صرف برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں۔
(7) تمہاری زبان تمہارے دل کی کھیتی کی حیثیت رکھتی ہے ، جیسی فصل دل میں بوؤ گے ویسی ہی کاٹو گے۔
(8) تواضع بلند کردار لوگوں کی صفت ہے جبکہ تکبر بد خلق لوگوں کی علامت ہے۔
(9) اہل علم دانش اپنے عیوب پر نظر رکھتے ہیں جبکہ دوستوں کے عیوب سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
(10) بہت بُرا اور ظالم شخص وہ ہے کہ جب اُسے بلند مرتبہ حاصل ہو تو وہ اپنے اقارب اور رشتے دارں پر سختی کرے اور ان کے احسانات کا انکار کرے۔
(11) میں جب اپنی بات کو صحیح سمجھتا ہوں تو اس میں غلطی کا امکان بھی تسلیم کرتا ہوں، اسی طرح میں دوسروں کی بات کو جب غلط سمجھتا ہوں تو اس میں صحت کا امکان بھی تسلیم کرتا ہو۔
(12) سب کو خوش رکھنا بہت مشکل کام ہے ، اس لیے صرف اللہ تعالیٰ سے ہی اپنا معاملہ رکھو اور کسی کی خوشی نا خوشی کی پرواہ بھی نہ کرو۔
(13) جاہل کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ عالم ہے ، اس لیے وہ کسی کی بھی بات نہیں مانتا ہے۔
(14) جس طرح بصارت کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح عقل سے حاصل ہونے والی بصیرت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
(15) زمانے نے مجھے جس قدر علم و حکمت سکھایا ہے اور جتنا تجربہ سکھایا ہے اور جس قدر میرے علم میں اضافہ کیا ہے، اسی قدر میرے علم وتجربے میں اضافہ ہوتا گیا اور میرے عقل کے نقائص اور میری جہل کے عیوب مجھ پر منکشف ہوتے چلے گئے۔
(16) ایک عالم کا سب سے بُرا عیب یہ ہے کہ اس چیز میں دلچسپی لے جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے منع کیا ہے اور اس چیز سے بیزاری کا اظہار کرے جس کے کرنے کا اللہ رب العزت نے اُسے حکم دیا ہے۔
(17) فضل اور عقل والوں میں قرابت کی نسبت علم کی وجہ سے ہے۔
8۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
(1) قرآن ایک ایسا دریچہ ہے جس کے ذریعے ہم اگلی دنیا کا نظار ہ کر سکتے ہیں۔
(2) خواہ مخواہ کی دشمنی سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
(3) نظر اُس وقت تک پاک رہتی ہے جب تک جھکی رہے۔
(4) اخلاص ،اعمال کو خرابیوں سے نجات دے دیتا ہے۔
9۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ
(1) محنت شاقہ کے بغیر اسرارِ الہٰیہ حاصل نہیں ہوتے ہیں۔سعادت اور راحت کی منزل کو بغیر تکلیف ومصیبت کے نہیں پاسکتے۔
(2) خوشی ومسرت ، رنج والم کے ازالے کا نام ہے۔
(3) انسانی اوصاف میں اعلی ترین صفت انسان کا علم سے مزین ہوناہے اور انسانی رذائل میں سے بد ترین وصف جہالت سے وابستہ ہونا ہے۔
(4) قرآنی اسرار ومعارف الفاظ قرآنی میں ہی چھپے ہوتے ہیں۔ جو شخص قرآن و حکیم کے اسرار ورموز کو پانے سے غافل رہے، وہ قرآن حکیم کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔
10۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
(1) اپنے آ پ کو سب سے زیادہ بہتر اور قابل سمجھ لینا جہالت ہے۔ ہر آدمی کو اپنے سے بہتر سمجھنا چاہیے۔
(2) جب انسان گناہ کر تا ہے تو اللہ کی بنائی ہوئی معصوم فطرت متاثر ہونے لگتی ہے اور آدمی کے مسلسل گناہ کرنے کی وجہ سے اُس کی فطرت بدل جاتی ہے اور وہ رفتہ رفتہ گناہ سے محبت کرنے لگتا ہے لیکن جب کوئی شخص توبہ کے ارادے سے گناہوں سے بچنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو پھر نفس کی ترغیبوں اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود اپنے دامن کو گناہوں سے بچانے کی سعی شروع کر دیتا ہے یوں اس کےدل کےآئینے سے گناہ دور ہونے لگتے ہیں۔
(3) حاسد کی مثال اُس شخص جیسی ہے جو اپنے دشمن کو مارنے کے لیے پتھر پھینکے اور وہ پتھر دشمن کو لگنے کے بجائے کسی چیز سے ٹکرا کر اُس کی اپنی ہی دائیں آنکھ پر آلگے اور آنکھ پھوٹ جائے۔ اس سے حاسد کو اور زیادہ غصہ آئے اور پھر وہ ہاتھ اُٹھائے اور پوری قوت سے اپنے محسود کو دوبار ہ پتھر مارے، وہ پتھر پھر پہلے کی طرح اُس کی دوسری آنکھ کو پھوڑ دے۔ اس طرح حاسد دشمن کی طرف مسلسل پتھر پھینک پھینک کر خود ہی کو مجروح کرتا ہے۔
(4) میں علم کے اس درجے پر اس لیے پہنچا ہوں کہ میں نے علم کا سوا ل کرنے میں کبھی کوئی عار اور شرمندگی محسوس نہیں کی۔
(5) مخلوق کے ساتھ اس طرح معاملہ کرو جیسے اپنے حق میں پسند کرتے ہو۔
(6) نماز میں حضور قلب کی تدبیر یہ ہے جو کچھ بھی تلاوت کرو، اُ س کا معنی و مفہوم کو سمجھو اور اُن معانی ومطالب میں اپنے خیال کو جمائے رکھو۔
(7) کھانا ہمیشہ بھوک سے کم کھاؤ تاکہ قوتِ عبادت بھی میسر آئے اورمحنت بھی لگے۔ زیادہ کھانے سے نفس کی خواہش پوری ہوگی، عبادت میں غفلت آئے گی اور صحت میں خرابی آئے گی۔
(8) تکلیف کو محسوس کرنا محبت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
(9) مجلس میں بیٹھ کر قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کی مزاج پرسی کرو۔
(10) حوادثِ زمانہ کو بُرا نہ کہا کرو اور زمانے کو بُر اکہنا خُدا کو گالی دینا ہے۔
(11) اے انسان! اگر تجھے کوئی طبیب کبھی یہ کہہ دے کہ فلاں غذا تیرے لیے مضر ہے تو تو اسے فوراً چھوڑ دیتا ہے ، اگر کوئی بچہ تجھے یہ خبر دے کہ تیرے کپڑوں میں بچھو ہے تو تو فورا اُن کپڑوں کو اُتار پھینکتا ہے لیکن اگر رسول اللہﷺ تمھیں یہ خبر دیں کہ تمہارا فلاں عمل تم کو آگ میں لے جانے والا ہے توتم اس پر ہزار دلیل مانگتے ہو، تمہارا یہ انداز عجب ہے۔
(12) اپنی آنکھوں کی حفاظت کیا کرو اس لیے کہ ہر کام کی ابتداء آنکھ سے ہوتی ہے۔
11۔ حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
(1) جب تک تمہارا اترانا اور غصہ کرنا باقی ہے خودکو اہلِ علم شمار نہ کرو۔ جو اللہ کی معرفت پالیتاہے وہ مخلوق خدا کے سامنے متواضع ہو جاتاہے۔
(2) کوئی نعمتِ دنیاوی مجھے ایسے اپنا پابند نہ بنائے کہ وہ منعم سے ہی مجھے غافل کر دے۔
(3) جو شخص اپنے نفس کا معلم نہیں ہو سکتا، وہ دوسرے لوگوں کا معلم کیسے ہو سکتا ہے۔
(4) عمل کرنے والے کو عمل میں اخلاص پید ا کرنا چاہیے ورنہ اس کا عمل فضول ہو جائے گا۔
(5) دوسروں سے بدظن نہ رہو، اپنے نفس پر بدظن رہو اور دوسروں کے بارے میں نیک گمان رہو۔
(6) تمہارے دل کی بات تمہارا کلام بتانے والا ہے۔ عاقل پہلے اپنے دل سے پوچھتا ہے پھر زبان کو کھولتاہے۔
(7) ایذا اسے ہی پہنچتی ہے جس میں کوئی خوبی ہوتی ہے اور جس میں کو ئی خوبی نہیں ہوتی ، اُسے کوئی ایذا بھی نہیں پہنچتی ہے۔
(8) دنیا دار دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اورخود دنیا اہل اللہ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
(9) تم نفس کی تمنا پوری کرنے میں مصروف ہو او روہ نفس تمہیں برباد کرنے میں مشغول ہے۔
(10) ظلم دل کو تاریک بنا دیتا ہے اور چہرے کو سیاہ کر دیتاہے ، اس لیے نہ خود ظلم کر اور نہ کرنے والے کا مد د گار بن۔
(11)صبر ایک پہلوان ہے جو سب آفات و بلیات کو پچھاڑ دیتاہے۔
(12) اے بندے تو اللہ کی مخلوق سے غم خواری کر، اللہ تیری غم خواری کرے گا۔
(13) حقیقی تصوف شریعت کی پابندی اور مطابقت کا نام ہے ، اس لیے شریعت کی پابندی کے بغیر کسی قسم کی کوئی روحانی ترقی نہیں ہوتی ہے۔
(14) مرید اپنی طلب کی بنا پر تکلیف میں ہوتاہے۔
(15) فقر ، صبر اور سلامتی کے برابر کسی شے کو نہ سمجھو۔
12۔ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ
(1) علم کی عظمت انسان کے حِلم سے معلوم ہوتی ہے اورحلم کی رفعت انسان کے علم سے پتہ چلتی ہے۔
(2) عقلمند بولنے سے پہلے سوچتاہے اور بیوقوف بولنے کے بعد سوچتا ہے۔
(3) دنیا کو اپنی سواری جانو، اگر تم اس پر سوار ہو تو تم اسے اپنی منزل پر لے جاؤ گے اور اگر تم نے اسے خود پر سوار کیا تو یہ تمہارے لیے ذلت اور ہلاکت ہے۔
(4) انسان کو بھیڑوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ بھیڑ جب اپنے چرواہے کی آواز سنتی ہے تو چرنا چھوڑ دیتی ہے اور چرواہا جس جانب اشارہ کرتاہے، اُسی جانب وہ چل پڑتی ہے جبکہ انسان اپنے رب کی آواز نہیں سنتا ہے بلکہ اپنے نفس کی آواز سنتاہے اور جس طرف نفس کہتا ہے ، اُس طرف چل پڑتا ہے اور ر ب کے حکم کو نہیں مانتا ہے۔
13۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ
(1) جو وقت گزر گیا اس پر مت پچھتاؤ اور جو وقت آنے والا ہے اس کا اندیشہ نہ کرو اور جو وقت موجود ہے اس کی قدر اور حفاظت کرو۔
(2) جسم کی صحت تھوڑا کھانے میں ہے اور روح کی صحت تھوڑا گناہ کرنے میں ہے۔
(3) اللہ کو تلاش کرنا ہے تو اسے شکستہ دلوں میں تلاش کرو۔
(4) صدق سیف اللہ ہے۔ یہ تلوار جس پر پڑی ہے اس کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔
(5) اخلاص یہ ہے کہ مشکل میں بھی صبرکرتے ہوئے زبان پر شکوہ نہ آنے دیا جائے۔
(6) دل کے روحانی طور پر بیمار ہونے کی چار علامات ہیں : اس دل میں اطاعت کی حلاوت ہی محسوس نہ ہو۔ دل میں خوفِ خُدا باقی نہ رہے۔ دنیا کے واقعات کو عبرت کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ جو علم سنے یا سیکھے اُس پر عمل نہ کرے۔
(7) عام توبہ یہ ہے کہ گناہوں سے بچا جائے اور خاص توبہ یہ ہے کہ غفلت سے بچا جائے۔
(8) یقین کی تین علامتیں ہیں : کسی چیز کے حرام ہونے پر اللہ کی ذات پر کامل بھر وسہ رکھنا، ہر کام میں اُسی کی طرف رجوع کرنا اور ہر حال میں رب ہی ہے مدد مانگنا۔
14۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
(1) میں نے قرآن کو دائیں باتھ میں لیا ہے اور سنت رسولﷺ کو بائیں ہاتھ میں لیا ہے۔ ان دونوں کی روشنی میں انسان نہ شبھات کے غار میں پڑ تا ہے اور نہ ہی ہلاکت کی تاریکی میں ڈوبتا ہے۔
(2) میں نے دوسو بزرگوں کی خدمت کی ہے اور ان میں سے صرف سات ہی پیروی کے قابل تھے۔
(3) ایک شخص نے مسجد میں سوال کیا تو میں نے دل میں خیال کیا یہ تو تندرست و توانا آدمی ہے، یہ خو د کام کیوں نہیں کرتا اور یہ مانگنے کی ذلت کیوں برداشت کرتاہے ؟ رات کو اس کے بارے میں سوچا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ میرا اب سوچنا تو دلی غیبت ہے ، اگر اس کا اظہار اس سائل کے سامنے کر دیتا تویہ اُس کے لیے نصیحت ہو جاتی۔
خلاصۂ کلام
ہماری حیات کے اثاثوں میں سے مال بھی ہے ، جائیداد بھی ہے ، عہد ہ ومنصب بھی ہے مگر ہمارا سب سے بڑا اثاثہ فکر و سوچ اور حکمت و نصیحت کی باتیں ہیں، اسی پر ہماری زندگی کے افعال کی بنیاد اور ہمارے کردار کی عمارت کھڑی ہے۔
رسول اللہﷺ کے ارشاد کے مطابق ایک مسلمان ساری زندگی طالبِ علم ، طالبِ خیر اور طالبِ حکمت ہی رہتاہے۔ اس لیے ہمیں زندگی میں حکمت اور نصیحت کی بات کو بہر صورت قبول کرنا اور اس پر عمل کو یقینی بنانا ہے۔نصیحت اور حکمت کی بات ہمیں اپنے من میں ڈوب کر رازِ حیات کو پانے کا سلیقہ دیتی ہے۔ اسی طرف دعوت دیتے ہوئے علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن