کینیڈا کی Queens university کے پروفیسر Dr. Poppenk and Julie Tseng نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ انسانی دماغ سے ہر روز اوسطاً 6200 خیالات ابھرتے ہیں۔ انسانی زندگی کا سارا دارومدار ہی ان خیالات کی نوعیت پر ہوتا ہے اور دنیاوی اور روحانی کامیابی دراصل انہی خیالات کے مرہون منت ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت کے دماغ میں غیر مرتکز (random) خیالات جنم لیتے ہیں۔ جس بناء پر دنیاوی و روحانی زندگی میں کامرانی ان کا مقدر نہیں بنتی ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ جنھوں نے اپنے ذہن سے ابھرنے والے ان خیالات کو کنٹرول کرلیا، وہی دینی وروحانی زندگی میں کامیابی کے زینے طے کرتے ہوئے اولیاء کے لقب کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ فقط شکل و صورت، جبہ و قبہ اور وضع قطع ولایت کا معیار نہیں بلکہ ولایت کا براہ راست تعلق انسانی ذہن سے روزانہ پیدا ہونے والے ان 6200 خیالات سے ہے۔انسانوں کے ساتھ حسنِ معاملات میں منفی خیالات کا قلع قمع کرنے، مثبت خیالات کی افزائش کرنے اور دنیا کی نسبت اپنے رب کے بارے خیالات کو مرتکز اور یکسو کرنے سے بندہ ولی بنتا ہے۔
اگر بندہ پانچوں نمازوں کے دوران ایک فیصد بھی دھیان دنیا کی طرف نہ جانے دے اور 100 فیصد دھیان اپنے رب کی طرف رکھے تو بھی صرف 10 فیصد خیالات کا بہاؤ رب کی طرف ہوتا ہے۔ جبکہ اولیا وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
رِجَالٌ لَّاتُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ.
(النور، 24: 37)
یعنی اللہ کے ولی تجارت، خریدو فروخت اور روز مرہ کے کام کاج کے دوران بھی اپنا دھیان اپنے رب کی طرف لگائے رکھتے ہیں۔ گویا ہر حال میں خیالات کے بہاؤ کا رخ اپنے رب کی طرف کیے رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے مرد قرار دیا ہے۔
انسانی شخصیت میں مثبت و منفی رجحانات اور اخلاقیات و عادات کا پروان چڑھنا انہی خیالات کے مرہون منت ہوتا ہے۔ کسی ایک طریق پر خیالات کے کچھ عرصہ تک بہاؤ سے وہ طریق ایک software بن کر لاشعور میں انسٹال ہو جاتا ہے اور یہ software ایک عادت یا وصف کا ڈرائیور بن جاتا ہے۔ حسد، لالچ، غصہ، ہوس، تکبر، بدگمانی اور مایوسی سب وہ عادتیں ہیں جو ان ہی خیالات کے منفی بہاؤ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں سے سب سے تباہ کن عادت مایوسی ہے۔ مسلسل مایوسی کی کیفیت میں رہنے کی وجہ سے خون کے خلیوں (blood cells) کی کیمیائی ترکیب (chemical composition) تبدیل ہو جاتی ہے۔
خیالات دراصل electric signals ہوتے ہیں۔ ہر خیال 0.02kcal انرجی خرچ کرتا ہے۔ ان electric signals کو اگر ایک سمت مل جائے تو زندگی میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔ اگر خیالات منتشر (random) رہیں تو یہ electric signals ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک copper wire میں فری الیکٹرانز ہر وقت بے ترتیب حرکت کرتے رہتے ہیں اور ان کی یہ حرکت بے سود رہتی ہے لیکن جیسے ہی سوئچ آن کیا جاتا ہے تو یہ ایک سمت میں بہنا شروع کر دیتے ہیں جس سے بہت زیادہ انرجی پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح جب ذہنِ انسانی کے 6200 خیالات میں سے ایک بڑا حصہ ایک سمت اختیار کرلیتا ہے تو خیالات کے اس یک طرفہ بہاؤ سے اتنی انرجی پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنے اوپر کنٹرول کھو دیتا ہے۔ عشقِ حقیقی کی صورت میں ایسے لوگوں کی رغبت خلوت اور گوشہ نشینی کی طرف ہوجاتی ہے اور عشق مجازی میں مبتلا لوگ طرح طرح کے نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک صوفی یا ولی زندگی بھر اپنے دماغ سے اٹھنے والے ان 6200 خیالات کی سمت درست کرنے پر شعوری محنت کرتا ہے۔ وہ مراقبہ کرتا ہے، ریاضت و مجاہدہ کرتا ہے اور زندگی کا کچھ حصہ سفر و ہجرت میں بھی گزارتا ہے تا کہ کسی ایک جگہ مسلسل رہنے سے خیالات ایک معمول کے تابع نہ ہوجائیں اور فانی دنیا کہیں لافانی نہ لگنا شروع ہوجائے۔لہذا ایک ولی ریاضت و مجاہدہ کا طویل سفر طے کرکے غصہ کو محبت میں۔۔۔ لالچ و ہوس کو بے نیازی میں۔۔۔ حسد کو رشک میں۔۔۔۔ مایوسی کو امید میں۔۔۔ نفرت کو الفت میں۔۔۔ اور تکبر کو عاجزی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ گویا وہ خیالات پر کنٹرل حاصل کر لیتا ہے اور زندگی بھر منفی خیالات کی بیخ کنی کے ساتھ مثبت خیالات کی آبیاری کی تگ و دو میں رہتا ہے۔
دنیا سے کچھ عرصہ الگ تھلگ ہو کر اپنے خیالات کے بہاؤ کی سمت کو درست کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بکریاں چراتے اور اپنے رب کے بارے غور وفکر کرتے۔۔۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام غاروں میں جاکر اپنے رب کے بارے سوچتے اور عشقِ الٰہی میں گریہ و زاری کرتے۔۔۔ حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر جاتے۔۔۔ اسی طرح کریم آقا علیہ السلام غار حرا میں جایاکرتے تھے۔ گویا انبیاء علیہم السلام اپنے خیالات و تصورات کو اللہ رب العزت کی بارگاہ کی طرف مزید یکسو کرنے کے لیے اس طرح کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنانے کے بعد اپنے اور بندے کے درمیان تعلق کا ذریعہ یا دروازہ بھی ان ہی خیالات کو بنایا ہے۔ ایک شخص جو کبھی اس دروازے سے گزرا ہی نہیں، اس کا اپنے رب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے اور ایک ایسا شخص جو ہر لحظہ اپنے رب سے ملاقات کی حالت میں رہتا ہے، اسی حقیقت کی طرف حضور نبی اکرمﷺ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
أَنْ تَعْبُدَ اللهَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تکُنْ تَرَاہُ فإنَّہُ یَرَاکَ.
(صحیح بخاری، 1: 27، الرقم: 50)
’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو یہ جان لے کہ یقینا وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
گویا یہ شخص اپنے رب کے ساتھ ایک مضبوط تعلق کا حامل ہوجاتا ہے اور وفات کے مرحلہ سے گزرنے کے بعد تو تعلق زیادہ لطیف (transparent) ہوجاتا ہے۔ زندگی بھر کے تزکیہ و تصفیہ کے بعد ’’روح‘‘ کا تعلق اپنی اصل کے ساتھ بحال ہو جاتا ہے اور یہ ارواح فیض کا منبع بن جاتی ہیں۔
وہ شخص جو ظاہری علم اور ترقی کے حوالے سے خواہ جتنی بھی معراج پر ہے مگر ابھی 6200 خیالات کا صرف ایک فیصد حصہ بھی دنیاداری سے نکال کر اپنے رب کی طرف مرتکز نہیں کرسکا۔۔۔ جو ابھی تک اپنی نماز میں بھی دنیاوی معاملات کے تانے بانے بُن رہا ہوتا ہے، کیا وہ اللہ کے اس ولی کی کیفیات اور احوالِ قلبی کو جان سکتا ہے جس نے زندگی بھر ریاضت و مجاہدہ کرکے اپنی زندگی کو ’’جودم غافل سودم کافر‘‘ کا مصداق بنا لیا ہوتا ہے۔