القرآن: اپنا محاسبہ کیوں ضروری ہے؟

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ.

(الحشر، 59: 18)

’’ اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘

اللہ رب العزت کی توفیق سے ایک مسلمان اگر گناہوں، نافرمانیوں اور معصیت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیتا ہے اور تقویٰ، اطاعت، قربت اور اس کی رضا کے حصول کے راستے کی طرف گامزن ہوجاتا ہے تو اب اسے اس سفر پر کچھ ایسے اعمال و احوال کو اختیار کرنا پڑے گا کہ جن کے سبب وہ اللہ کی قربت کی طرف بڑھتا رہے، اُس سے دوری کے راستوں پر قدم نہ رکھے، گناہ سے بچتا رہے اور آئندہ زندگی تقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ گزارے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اعمال و احوال ہیں کہ بندہ نافرمانی و معصیت سے بچتے ہوئے نیکی پر اپنے آپ کو مضبوطی سے قائم رکھے اور پلٹ کر گناہ کی طرف نہ جائے یعنی نیکیاں کرنے کے بعد ہماری آئندہ زندگی گناہوں سے کیسے محفوظ ہو؟

یاد رکھیں! جس طرح انسان کےاندر گناہ کی طرف پلٹ جانے کے رجحانات اور ملکہ موجود ہوتا ہے، اسی طرح اللہ نے اُسےیہ ملکہ بھی دیا ہے کہ وہ گناہ سے بچ کر نیکی اور تقویٰ پر قائم رہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی مخلوقات میں سے صرف ملائکہ کو نور سے پیدا کیا اور اُن کی تخلیق اور تشکیل میں کوئی ظلمت اور تاریکی نہیں رکھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کی زندگی میں صرف نیکی ہے، گناہ نہیں ہے۔ گناہ ؛ ظلمت اور تاریکی ہے جبکہ نیکی واطاعت نور ہے۔ پس جب ملائکہ کی تخلیق اور تشکیل میں ظلمت ہے ہی نہیں بلکہ صرف نور ہی نور ہے تو ان سے گناہ نہیں ہوسکتا، لہذا وہ گناہ سے معصوم ہیں۔ دوسری طرف اللہ رب العزت نے شیاطین کو صرف ظلمت سے پیدا کیا اور ان میں نور نہیں رکھا۔ چونکہ محض ظلمت اور تاریکی سے پیدا کیا، لہذا شیاطین سے نیکی ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ ہمیشہ نافرمانی اور گناہ ہی کرے گا اور اسی پر اکسائے گا۔

ان دونوں مخلوقات کے برعکس اللہ تعالیٰ نے انسان کو ظلمت اور نور دونوں چیزوں کاجامع بنایا ہے۔ ظلمت اور نور دونوں اس میں رکھنے کے بعد انسانی نفس کو تاریکی کا نمائندہ بنا دیا اور عقل وروح کو نور کا نمائندہ بنا دیا۔ نفس کی رشتہ داری، دوستی، مصاحبت، رفاقت، سنگت، مجانست اور قربت شیاطین اور نفس کے ساتھ رکھ دی جبکہ روح کا تعلق ملائکہ کےساتھ جوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ نفس اپنی اصل خصلتوں کے اعتبار سے شیاطین کے ساتھ ملتا جلتا ہے اور روح اپنی اصل خلقت اور صلاحیت کے اعتبار سے ملائکہ اور عالمِ انوار کے ساتھ موافقت اور مشابہت رکھتی ہے۔ اِس لیے انسان کے اندر طاعت کا ملکہ بھی ہے اور معاصی کا ملکہ بھی ہے۔ یہ نیکیوں کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور گناہوں کی طرف بھی مائل ہوتا ہے۔

یہ اِسی طرح ہے جیسے دھوپ اور سایہ ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ سایہ تاریکی ہے اور دھوپ روشنی ہے۔ دھوپ اور سائے کے درمیان ایک باریک خط (لائن) ہوتا ہے جہاں سے ہم جائزہ لے سکتے ہیں کہ دھوپ کس جگہ پر ختم ہو رہی ہےاور سایہ کہاں سے شروع ہورہا ہے۔ آپس میں اِن دونوں کی حدود ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ پس اسی طرح انسانی زندگی میں بھی طاعت اور معصیت کی حدود ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان ایک باریک خط ہے۔ اِدھر پھسل گئے تو گناہ، معصیت اور نافرمانی شروع ہو جاتی ہے اور اگر دوسری طرف ہوگئے تو نیکی اور اطاعت میں داخل ہوگئے۔ اُس خط (لائن) کی حفاظت کرنا تقویٰ کہلاتا ہےکہ بندے کا پاؤں پھسل کر ظلمت کی طرف نہ چلا جائے۔

نیکیوں کی حفاظت اور ان پر استقامت کیونکر ممکن ہے؟

اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ’’نیکی اور معاصی‘‘ کے ارتکاب کی صورت میں یہ دونوں صلاحیتیں رکھی ہیں مگر اِن دونوں صلاحیتوں میں سے طاعت کے پہلو کو غالب کرنا ہے تاکہ بندہ پلٹ کر گناہوں کی وادی میں نہ جاگرے اور اللہ کی فرمانبرداری اور تقویٰ پر استقامت کے ساتھ قائم رہے۔ نیکیوں کی حفاظت کرنے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے انسان کو اپنے اندر درج ذیل احوال پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہونا ہوگا:

(1) صبر

زندگی کو اطاعت، نیکی اور اللہ کی راہ پر اس طرح گامزن رکھنا کہ وہ دوبارہ گناہوں اور نافرمانیوں کی طرف پلٹ کر نہ جائے، اِس کے لیے بندہ مومن کو ’’صبر‘‘ کو اختیار کرنا ہوگا۔ یاد رکھ لیں کہ صبر کا تعلق صرف پریشانی اور مشکلات میں اختیار کردہ رویہ سے نہیں ہے بلکہ یہ تو صبر کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کہ جب آدمی کو کوئی نقصان، دکھ، تکلیف، اذیت اور پریشانی ہوتی ہے تو اُس پر بندہ دل اور زبان سے شکوہ نہیں کرتا۔ مشکلات میں شکوہ سے بچنا یہ صبر کی ایک حالت اور قسم ہے۔ اسی طرح آسائشوں میں بھی صبر کرنا صبر کی دوسری قسم ہے کہ اللہ نے نعمتیں، آسائشیں، سہولتیں اور مال و دولت دیا تو انھیں عیاشی اور گناہ پر خرچ نہ کرے، اُنہیں اللہ کی نافرمانی کا ذریعہ نہ بنائے اور اُن کا استعمال اِس طرح نہ کرے کہ وہ اللہ کی ناراضگی کا باعث بنے۔ اُن سارے دستیاب وسائل کے غلط استعمال کرنے سے بچے رہنا، یہ آسائشوں پر صبر ہے۔ غربت، فقیری، کمزوری اور نہ ملنےمیں صبرکرنا، یہ چھوٹا صبر ہے اور اِس سے بڑا صبر یہ ہے کہ سب کچھ ملا ہو اور بندہ صابر ہو۔ گویا صبر؛ عطا اور محرومی دونوں حالتوں میں ہوتا ہے۔ بیماری میں بھی صبر ہے اورصحت میں بھی صبر ہے۔۔۔ صبر فقیری میں بھی ہے اور امیری میں بھی ہے۔۔۔ صبر کمزوری میں بھی ہے اور طاقت میں بھی ہے۔

صبر ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس کا اصل معنی یہ ہے کہ اپنے حال کی حفاظت کرنا۔ ایک طرف اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھنا اور دوسری طرف اپنے تقویٰ کی حفاظت کرنا۔۔۔ ایک طرف ساری زندگی اللہ کی اطاعت میں بسر کرنا اور دوسری طرف معاصی اور گناہوں سے محفوظ رہنا۔ محافظت کا یہ مکمل تصور اولیاء اور عرفاء کے ہاں اصل صبر کہلاتا ہے اوراسے ہی ضبطِ نفس کا نام دیا جاتا ہے۔

نفس کو ایسے نظم اور دائرے کے اندر رکھنا کہ ا سے حدیں نہ پھلانگنے دینا تاکہ وہ گناہ میں نہ چلا جائے، لوگوں پر ظلم نہ کرے، حق تلفی نہ کرے، زیادتی نہ کرے اور اللہ کی نافرمانی کی طرف نہ چلا جائے۔ نفس کو ایسا نظم دیے رکھنا، اِس ضبط (کنٹرول) کو صبر کہتے ہیں۔

نفس کو نظم و ضبط اور کنٹرول میں رکھنے کی تین شکلیں ہیں:

1۔ نفس کو اللہ کی رضا پر راضی رکھنا: اللہ کی بارگاہ سے جو بھی مقدر ہوا ہے، اس پر نفس کا راضی رہنا۔ تھوڑا ملا ہے یا زیادہ۔۔۔ عزت ملی ہے یا ناقدری۔۔۔ وسائل کم ملے ہیں یا زیادہ۔۔۔ کمزوری ملی ہے یا طاقت۔۔۔ صحت ملی ہے یا بیماری۔۔۔ سختی ملی ہے یا آسانی۔۔۔ الغرض جو کچھ بھی اللہ کی طرف سے ملا ہے خواہ ہم اسے چاہتے تھے یا نہیں، اُس پر بندہ اپنے نفس کو راضی رکھے، نفس کو نظم میں رکھے اور اس کے اندر گھبراہٹ پیدا نہ ہونے دے۔

2۔ زبان کو ضبط میں رکھنا: زبان پر شکوہ نہ آئے۔

3۔ جسم کے اعضاء کو ضبط میں رکھنا: اعضاء گناہوں کے مرتکب نہ ہوں۔

گویا جس حال میں اللہ رب العزت نے رکھا ہے، اُس حال میں نفس پر کنٹرول رکھنا کہ وہ بگڑے نہیں اوراُس کے اندر بُرائی، طغیانی اورنافرمانی پیدا نہ ہو۔ زبان کو قابومیں رکھنا اور جسمانی اعضاء کو بھی گناہوں کی طرف نہ جانے دینا۔ اگر بندہ یہ تین چیزیں اپنے ضبط اور کنڑول میں اس طرح رکھ لے جیسے اللہ کی ذات چاہتی ہےتو پھر اس سلسلے میں کی جانے والی اُس بندے کی محنت نعمت سے بدل جاتی ہے۔ اُس کی مشقت، تکلیف، ریاضت اور پریشانی خود بخود راحت میں بدل جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے اذیت بھی راحت بن جاتی ہے اور وہ نہ ملنے کے اندر ہی ملنے کا مزہ لیتا ہے۔۔۔ اس کے لیے مصیبت بھی محبوب کی طرف سے تحفہ بن جاتی ہے، جس سے وہ بندہ لطف اندوز ہوتا ہے۔۔۔ مکروہ، ناپسندیدہ اور ناخوشگوار چیز اس کے لیے خوشگوار بن جاتی ہے۔ الغرض بندے کی approach changeہو جاتی ہے۔

2۔ شکر گزاری

زندگی میں اطاعات اور نیکیوں کو محفوظ رکھنے اور ان پر دائمی عمل پیرا ہونے کے لیے دوسری اہم چیز شکر گزاری ہے۔ پانی سے بھرے آدھے گلاس کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ نظر اس کے اس حصہ پر رہے جو پانی والا ہے تو انسان میں نعمت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اگر گلاس کے خالی حصے کو عمر بھر دیکھتے رہے کہ میرا گلاس آدھا خالی ہے یا ایک تہائی خالی ہے تو اللہ اس بندے کو خالی ہی کر دے گا۔ جس کی نگاہ خالی پر ہی پڑے گی، وہ خالی ہی رہے گا اور اُس کے دل اور من کا برتن کبھی نہیں بھرے گا۔ پس اپنی نگاہ ایسی بنائیں کہ جو حصہ بھرا ہوا ہے، صرف وہ نظر آئے، خالی حصہ نظر ہی نہ آئے۔ جسے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ساتھ اپنی زندگی کے برتن کا صرف بھرا ہوا حصہ نظر آتا ہے، اللہ اُس کو ہمیشہ بھرا ہوا رکھتا ہے اور جو صرف خالی حصہ کو دیکھتا ہے، اُس کی زندگی شکوہ سے لبریز ہو جاتی ہے۔ جو ہمیشہ بھرے ہوئے حصے کو دیکھتا ہے، وہ شکرگزار ہوتا ہے اور جو شکر گزار ہوتا ہے، اللہ اسے مزید عطا فرماتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ.

(ابراهيم، 14: 7)

’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا۔ ‘‘

یعنی جو شکرگزار رہتا ہے، اللہ اس کے خالی برتن کو بھی بھردیتا ہے۔ یہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا وعدہ ہے۔ لَئِنْ شَكَرْتُمْ کے الفاظ کا اطلاق بھرے ہوئے حصے پر وارد ہو رہا ہے کہ نگاہ ہمیشہ بھرے ہوئے حصے پر رہے، خواہ بھرا ہوا حصہ آدھا یا ایک تہائی یا ایک چوتھائی، جتنا بھی اللہ نے عطا فرمایا ہے، اس پر شکر ادا کرتا رہے کہ مولیٰ تیرا کرم ہے کہ تو نے اِتنا عطا کردیا، میں تو اِس قابل نہ تھا۔ دل، نفس، عقل ودماغ، زبان، حتی کہ جسم کے تمام اعضاء نے بھی یہ کہا کہ مولیٰ تیرا کرم ہے، میں اِس قابل نہ تھا۔ اس زاویۂ نگاہ کی بدولت پھر مذکورہ آیت کے اگلے حصے لَأَزِيدَنَّكُمْ کا اطلاق ہوتا ہے کہ اب جو باقی آدھا خالی رہ گیا تھا، اللہ اُس کو بھی بھر دے گا۔ بھرے ہوئے حصے کو دیکھتے رہنے والے بھرے رہتے ہیں اور خالی حصوں کو دیکھتے رہنے والے خالی رہتے ہیں۔

مومن توقف کرنے والا ہوتا ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے رک کر سوچتا ہے اور عجلت نہیں کرتا۔ جبکہ منافق لقاف ہوتا ہے اور وہ اپنے قول و عمل میں جلدی کرتا ہے اور عجلت نفاق میں سے ہے۔

پس جو بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اُس کو نعمت جانیں اور اللہ کی اُس عطا اور نعمت پر ہمیشہ شکر ادا کریں۔ جو باطنی طور پر ہمیشہ شکر گزار رہے اوراُس کا اعتراف کرے اور وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کے مصداق اُس نعمت کا ذکر کرتا رہے تو توبہ کے بعد نیکیوں کی طرف گامزن زندگی کی حفاظت کا سامان ہوتا رہے گا۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہماری زبان ہمیشہ شکر کے کلمات ادا کرتی رہے۔۔۔ دل اُس کی نعمت کا ہمہ وقت معترف اور اس پر راضی رہے۔۔۔ جسم کا ہر عضو اُس شکر کو ادا کرنے کے لیے اطاعت، عبادت، نیکی اور بھلائی پر عمل کرنے میں لگا رہے۔

یاد رکھیں! نیکی کا عمل کرنا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ جب ہم نیکیاں ادا کرتے رہتے ہیں تو گویا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کررہے ہیں۔ اس زاویہ نگاہ سے ہم اپنی زندگی کے ہر عمل کو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت گزاری کے راستے پر نہ صرف قائم رکھ سکتے ہیں بلکہ نیکیاں کرنے کے راستے مزید آسان ہوسکتے ہیں۔ مذکورہ بات کو اس حکایت کے ذیل میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے حضرت جبرائیل امین سے کہا کہ

دلني علی أعبد أهل الأرض.

مجھے کوئی ایسا بندہ دکھائیں جو اِس زمین پر سب سے زیادہ اللہ کا عبادت گزار ہو۔ جبرائیل امین نے سیدنا یونس علیہ السلام سے کہا کہ فلاں جگہ جائیں۔ وہاں آپ کو ایک بندہ مل جائے گا، اِس وقت روئے زمین پراللہ کی بارگاہ میں اُس سے بڑا عبادت گزار کوئی نہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام جب وہاں پہنچےتو دیکھا کہ اُس بندے کو ایک ایسا مرض لاحق ہو چکا تھا کہ اُس مرض سے اُس کے ہاتھ بھی کٹ گئے تھے، اُس کے دونوں پاؤں بھی کٹ گئے تھے اوراُس کی آنکھیں بھی چلی گئی تھیں۔ یونس علیہ السلام نے اسے دیکھنے لگے۔ وہ بندہ کہہ رہا تھا:

إلهي متعتني ما شئت أنت و سَلَبْتَني ما شئتَ أنت وأبقيت لي فيك الأمل.

(غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 348)

اے میرے مولیٰ! جو تونے چاہا تونے مجھے دیا۔ جو تونے مجھ سے لے لینا اچھا سمجھا، مجھ سے لے لیا۔ مگر میرے مولیٰ تیرا کتنا کرم ہے کہ ساری باتوں کے باوجود جو تجھ سے میری امید اور آرزو تھی، اُس کو نہیں توڑا۔ وہ آج بھی اُسی طرح قائم ہے، جس طرح روز اوّل سے قائم تھی۔ تیری طرف میری جو لگن، یقین اور توکل تھا اور جس کی وجہ سے میرا من تیرے ساتھ جڑا ہوا تھا، آج بھی وہی حال قائم ہے۔ میرے مولیٰ تیر ا کرم کہ تونے میرے اُس حال کو اپنی ذات کے تعلق میں قائم رکھا۔

گویا اللہ رب العزت نے اس بندے کو صبر اور شکر کی وہ کیفیات عطا کردی تھیں کہ اس کا زاویہ نگاہ یہ ہوگیا کہ جو کچھ اللہ رب العزت نے اسے دیا ہے، اُس کے اوپر شکر ہے اورجو نہیں دیا یا جو لے لیا، اُس پر اس کی نگاہ ہی نہیں تھی۔ اگر ایسا طرزِ عمل ہوجائے تو اسے أعبد أهل الأرضساری زمین پر سب سے بڑا عابد قرار دیا جاتا ہے۔ گویا دل کا اللہ کی ذات پر راضی رہنا، اس سے کوئی شکوہ نہ رہنااور نفس اوردل کا اللہ کے ساتھ خالصیت کی بنیاد پر جڑے رہنا، اِس سے بڑی عبادت روئے زمین پر کوئی نہیں۔

جب بندہ اپنی زندگی کو ان اصولوں پر استوار کرلیتا ہے تو اب انسان کو نیکیاں اور طاعت کا عمل کرنا بھی آجاتاہے، معاصی سے اجتناب بھی آجاتا ہے اور اس کے لیے گناہوں سے بچنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔

(3) محاسبۂ نفس

انسان کی نیکیوں اور طاعت بھری زندگی کو محفوظ بنانے میں تیسرا اہم کردار محاسبۂ نفس کا ہے۔ حضور غوث لاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:

وأما من حاسب نفسه في الدنيا.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 249)

یعنی جس شخص نے اپنے نفس کا دنیا میں محاسبہ کر لیا، جس نے اپنا آڈٹ کرلیا، اپنے نفس کو طاعات پر بڑھتے رہنے اور گناہوں اور نافرمانیوں سے بچتے رہنا کا ایک نظم دے دیا تو قیامت کے دن جو حساب وکتاب کا دن ہے، اس دن اُس کا حساب آسان ہو جائے گا۔

محاسبۂ نفس کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو محاسبہ (audit) خود کریں یا پھر کوئی اور کرے گا۔ اگر کسی اور نے محاسبہ کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ اِس سے حساب لو تو پھر مشکل میں پڑ جائیں گے اور حساب پر پورے نہیں اُتریں گے۔ بہتر وہی شخص ہے جو یہ عرض کرے کہ باری تعالیٰ!حساب کے دن میرا محاسبہ نہ کر۔ جو آدمی ہر روز خود اپنا محاسبہ کرے گا تو اُس کا external audit نہیں ہوگا یعنی باہر سے کوئی محاسبہ کرنے کے لیے مقرر نہیں ہوگا۔

جس طرح ہم اپنی کاروباری زندگی میں روزانہ کی بنیاد پر حساب کتاب کرتے ہیں کہ آج کتنی آمدنی ہوئی، کتنے اخراجات ہوئے اور باقی کیا بچا؟ اسی طرح ہمیں اپنی دینی اور روحانی زندگی کے حوالے سے بھی آمدنی، اخراجات اور بیلنس پر نظر رکھنا ہوگی۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب شام ہو تو بستر پر بیٹھے اور لیٹے ہوئے اپنا محاسبہ (audit ) کریں کہ نیکیوں کی صورت میں آج کیا آمدن ہوئی اور گناہوں کی صورت میں کیا اخراجات ہوئے؟گناہوں کو اخراجات اس لیے کہا کہ وہ نیکیوں کو کھاجاتے ہیں، اس لیے وہ خرچہ (expenses) ہوگئے۔ جب معلوم ہوا کہ گناہ زیادہ ہیں اور آمدن سے بڑھ گئے ہیں تو جان لیں کہ نقصان میں گئے اور اگر نیکیاں زیادہ تھیں، گناہ کم تھے تو اگلی صبح اس کمی و زیادتی کے ساتھ balance sheet یہیں سے شروع ہوگی۔ اس طرح آدمی ہر روز اپنا محاسبہ خود کرتا ہے اور پھر اپنے اخراجات (گناہ) کو کم کرنے اور آمدن (نیکی) کو بڑھانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

نفس کو اللہ کی رضا پر راضی رکھنے اور جسم کے تمام اعضاء کو ضبط میں رکھنے کے لیے کی گئی محنت و ریاضت اور تکلیف کو اللہ تعالیٰ بالآخر راحت میں تبدیل فرمادیتا ہے

اگر بندہ اپنا محاسبہ کرنے والا خود ہو جائے اور اپنی کیفیات، سوچ، خیالات، قلب اور جسم کو نیکیوں کی راہ پر گامزن رکھے، اس میں نظم پیدا کر دے تو پھراُس کی مشقت نعمت سے بدل جاتی ہے۔۔۔ اذیت راحت سے بدل جاتی ہے اور ناخوشگواری خوشگواری میں بدل جاتی ہے۔ بندہ اگرا ِس مشق کو جاری رکھےتو اطاعت اور نیکیوں کا عادی بن جاتا ہے اور بالآخر نیکیاں اُس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اِس کی علامت یہ ہےکہ نیکیوں کا دروازہ اس کے لیے کھل جاتا ہے۔ ایسا کس طرح ہوتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ جب وہ ریاضت کے ذریعے گناہوں کی راہ بند کرے گا تو گناہوں میں اس کے داخل ہونے کا امکان کم سے کم ہو جائےگا، نیکیوں کا دروازہ کھل جائے گا اور وہ نیکیوں میں بڑھتا چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الله تعالى يستحي أن يحاسب الورعين في يوم القيامة.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 249)

’’بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پرہیزگاروں کا محاسبہ کرتے ہوئے حیا فرمائے گا۔‘‘

اس بات کو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک اور انداز میں بیان کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں:

حاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 249)

لوگو!اپنا حساب خود کر لو۔ اُس وقت سے قبل جب تمہارا حساب کیا جائے گا۔ اپنے اعمال کو خود تول لو، اُس دن سے قبل جس دن تمہارے اعمال کو تولا جائے گا۔

(4) ورع (عمل سے پہلے تفکر و تدبر)

اپنے اعمال و احوال کی حفاظت کے لیے تیسرا اہم نقطہ ’’ورع‘‘ ہے۔ حضور سیدنا غوث الاعظم ؒ غنیۃ الطالبین میں محاسبہ کے موضوع پر مذکورہ احادیث کے بیان کے بعد فرماتے ہیں کہ:

وهذا إشارة إلى التوقف في كل شيء وترك الإقدام عليه إلا بإذن الشرع.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 249)

اس میں اِس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے توقف کرے۔ تھوڑی دیر رکے، غور کرےاور دیکھے کہ جو کہنے یا کرنے لگا ہوں، کیا اللہ نے اِس کی اجازت دی ہے۔۔۔؟ کیا اللہ کے ہاں ایسی بات کہناپسندیدہ ہے۔۔۔؟ کیا اللہ کے ہاں ایسا عمل کرنے سے اُس کی رضا ملے گی یا ناراضگی ملے گی۔۔۔؟ کیا یہ بات اللہ کے قریب لے جائے گی یا اللہ سے دور لے جائے گی۔۔۔؟ کیااِس عمل کے کرنے سے کسی کے حق کی ادائیگی ہےیا کسی کی حق تلفی ہے۔۔۔؟ کیا یہ کہنے یا کرنے سے میرے نامۂ اعمال میں نیکی لکھی جائے گی یا گناہ لکھا جائے گا۔۔۔؟ اپنے لفظوں کو بولنے سے پہلے تولنا ہوگا کہ جو بولنے لگا ہوں، اُس کا انجام کیا ہوگا اور وہ مجھے کس سمت لے جائیں گے۔۔۔ میری طاعت میں اضافہ ہوگا یا میرے گناہ اور معاصی میں اضافہ ہوگا۔۔۔؟ مجھے اللہ کے قریب کرے گا، متقی بنائے گا یا نافرمان بنائے گا۔۔۔؟ گویا بندے کو زبان کھولنے اور اعضاء کو حرکت میں لانے سے پہلے ان تمام امور کا خیال رکھنا ہوگا۔

اگر بندہ کوئی بات کہنے اور کوئی فعل کرنے سے پہلے رک کر تحمل کرکے اِتنا سوچ لے کہ اِس عمل کی حقیقت کیا ہے؟ یہ مجھے کسی سمت لے جانے والا ہے تو اس عمل سے بندے نے اپنا نظم کر لیا۔ پھر وہ کبھی کچھ نہیں کھوئے گا بلکہ ہمیشہ پائے گا۔ اس وقف کو ’’ورع‘‘ کہتے ہیں۔

جس طرح دنیا میں کوئی کام کرنے سے پہلے ہم (تخمینہ) feasibility رپورٹ بناتے ہیں اور اس عمل کا ہر ہر زاویہ سے جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کام کیا، کیسے اور کب ہوگا اورنفع و نقصان کیا کیا ہیں؟ یہ توقف آئندہ آنے والے نتیجہ کو دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنے اعمال و احوال کی محافظت کے لیے بھی ہمیں کوئی بھی عمل سرانجام دینے سے قبل توقف یعنی ’’ورع‘‘ کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ حضرت ذوالنون مصریؒ نے فرمایا:

المؤمن فتاش.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 249)

یعنی مومن تفتیش کرنے والا، کسی چیز کی کھوج لگانے والا، غور وخوض کرنے والا اور بات کی تحقیق کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کے واصل ہوئے، جنہیں اللہ کی معرفت و قربت نصیب ہوئی، جنہوں نے تقویٰ میں استقامت پائی اور اپنے آپ کو اللہ کی نافرمانی اور معصیت سے بچا یا، ان کی اس کامیابی کے پیچھے یہی راز ہے کہ وہ ہر عمل اور ہر فعل کرنے سے پہلے تفتیش کرتے تھے، اُس فعل، قول اور کلام میں کھوج لگاتے تھےکہ اِس کی حقیقت کیا ہے؟یہ اللہ کی معصیت ہے یا اللہ کی اطاعت ہے؟ جو بندہ کام کرنے سے پہلے اُس کام کی حقیقت کی تفتیش کر لے، وہ مومن، متقی، صاحبِ ورع اور اللہ کا محبوب و مقرب بندہ بن گیا۔

حضور سیدنا غوث الاعظمؒ مزید فرماتے ہیں کہ:

المؤمن وقاف لا یستعجل والمنافق لقاف فی الاخذ والقول.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 249)

یعنی مومن توقف کرنے والا ہوتا ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے رک کر سوچتا ہے اور عجلت نہیں کرتا۔ یہ مومن کی علامت ہے۔ مومن سوچتا ہے کہ کہیں میرا جملہ، میرا کلام، میری گفتگو کسی کا دل تو نہیں دُکھائے گی، یہ کسی کی غیبت، چغلی، عیب جوئی، عیب گوئی، تضحیک، تذلیل، تنقیص اور کسی کے نقصان کا باعث تو نہیں بنے گی جبکہ منافق لقاف ہوتا ہے یعنی وہ اپنے قول و عمل میں جلدی کرتا ہے، منافق میں عجلت ہوتی ہے اور عجلت نفاق میں سے ہے۔

اللہ والوں کے چراغ نفس، دنیا، مال، حرص، لالچ اور شہوت کی آندھیوں میں بھی جلتے رہتے ہیں اور اُن کے دلوں کے خیمے اللہ سے جڑے ہوئے ہونے کے سبب قائم رہتے ہیں

یاد رکھیں! کبھی کسی بات کے کہنے میں عجلت نہ کریں۔ ضروری نہیں کہ ہم کسی معاملہ میں فوراً آر یا پار کردیں بلکہ اُس سے پہلے سوچیں، تحمل کریں، تامل کریں۔ غور کرنے سے کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ تحمل سے بات کرنے سے بات کا وزن اور وقار بڑھ جائے گا، قدر وقیمت میں اضافہ ہوگا۔ اِس لیے کہ الفاظ ایک تیر ہیں، یہ تیر اُس وقت تک ہمارا ہے جب تک وہ کمان میں ہمارے پاس ہے۔ جب نکل گیا تو پھر وہ ہمارا نہیں ہے۔ اب وہ کسی کو غلط جالگا یا صحیح لگا، اب بہر صورت نتیجہ بھگتنا ہوگا۔ مومن توقف، تحمل، تأمل اور سوچ بچار کے بعد کام کرتا ہے اور وہ اللہ کی رضا، امر اور انجام کو ہمیشہ پہلے دیکھتاہے۔

بولنے، کام کرنے، گمان کرنے اور رائے دینے میں جلدی کرنے سے دین، عزت اور وقار کے بہت سے نقصانات ہیں۔ ہمیشہ جلدی کرنا نفاق کی علامتوں میں سے ہے۔ جو بات کہنی ہے، وہ پرواہ نہیں کرتا کہ میری اس بات کا اثر کیا ہوگا، کسی کا دل ٹوٹے گا، کسی کا پر دہ اُٹھ جائے گا، کسی کا نقصان ہو گا، کسی کی عزت پر حرف آئےگا، کسی کا عیب عیاں ہو جائے، کسی کو تکلیف ہو گی، وہ یہ سب نہیں سوچتا، بس وہ اپنے الفاظ کا تیر مار دیتا ہے۔

حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کا ایک قول ہے جسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور حضور سیدنا غوث الاعظمؒ نے غنیۃ الطالبین میں درج کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

اے لوگو! اگر تم اِتنی نمازیں پڑھو اور اتنے روزے رکھو کہ قیام کرتے کرتے اور روزے رکھتے رکھتے لکڑی کی طرح سوکھ جاؤ یعنی تمہاری نمازوں اور روزوں کا کوئی شمار نہ ہو اور تم قائم اللیل اور صائم النھر بن جاؤ، مگر تمھیں اِس ساری نفلی عبادت کے باوجود ان کا کوئی نفع اس وقت تک نہیں ملے گا جب تک تم ورع اختیار نہیں کرتے۔ جب تک کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتا اور اس کا نفس؛ ضبط، صبر، شکر، تأمل، تحمل، توقف، تقویٰ، تواضع، انکساری، خشوع وخضوع، صدق، اخلاص، امانت، دیانت، صداقت، حلال کی فکر، حرام سے بچنا اور پرہیزگاری اختیار نہیں کرتا تو یہ ساری زندگی راتوں کا قیام اور دن کے نفلی روزے اسے نفع نہیں دیں گے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

كن ورعًا تكن من أعبد الناس.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 250)

تو اپنے نفس کا محاسبہ کر، اپنا ذاتی آڈٹ کرنے والا بن جا، ہر روز اپنے قلب و نفس کے اعمال و احوال اور کیفیات کا محاسبہ کر، اس طرح تو ساری کائنات میں سب سے بڑا عبادت گزار ہو گا۔

حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں:

مثقال ذرة من الورع خير من ألف مثقال من الصوم والصلاة.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 250).

ایک ذرہ کے وزن جتنی ورع اور محاسبۂ نفس ایک ہزار نفلی نمازوں اور روزوں سے بہتر عبادت ہے۔ یعنی ایک طرف ہزار نفلی نمازیں اور روزے ہوں تو ان سے ورع کا ایک ذرہ اعلیٰ اور افضل ہے۔

امام ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب ’’الزہد‘‘ کے اندر نقل فرمایا اور حضور غوث الاعظمؒ نے غنیۃ میں روایت کیا کہ اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی اور فرمایا:

لايتقرب إلى المتقربون بمثل الورع.

(عبدالقادر الجیلانی، الغنیۃ، 1: 250)

دنیا کا کوئی متقرب آج تک میرا اِتنا قرب نہیں پاسکا، جتنا بندے کو میرے قریب ورع کرتی ہے۔

حضور سیدنا غوث الاعظم ؒ نے فرمایا کہ ایک دینار کا چھٹا حصہ بھی اگر کہیں سے مل جائے تو اُس کےلینے سے رک جانا، یہ سوچ کر کہ کہیں حرام کی کمائی نہ ہو، اُس کو واپس لوٹا دینا، اِس قدر چھوٹے سے معاملے میں بھی ورع کا یہ رویہ اختیار کرنا، چھ سو مقبول حج کرنے سے زیادہ افضل ہے۔

ولایت کا یہ تصور حضور سیدنا غوث الاعظم ؒ نے نہایت اعلیٰ طریق پر ہمیں ذہن نشین کروادیا۔ کل اولیاء اور تصوف کی جملہ کتب میں اصل ولایت، تصوف، طریقت، حقیقت، معرفت اور روحانیت کا یہی تصور بیان کیا گیا ہے۔

حقیقتِ تصوف و روحانیت

روحانیت ظاہری رسوم کا نام نہیں ہے۔ روحانیت اور ولایت کسی لباس، قبیلے، نسل، شکل وصورت، رنگ، زبان اور کسی علاقے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہ سارے پیمانے ہم نے بنا رکھے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے اِن چیزوں کو خاص کر رکھا ہے۔ تقویٰ، ولایت، روحانیت اور اونچے مرتبوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ ہاں صرف اُس بندے کی اجارہ داری اللہ تعالیٰ نے قائم کی ہے جو صاحبِ ورع ہے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ نفس کا محاسبہ کرنے سے ہی کوئی فضیل بن عیاض بن گیا اور کوئی ذوالنون مصری، ابراہیم بن ادھم اور بایزید بسطامی رحمھم اللہ بن جاتا ہے۔ الغرض روحانیت کا سفر نفس کے محاسبہ سے شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے نفس کے محاسبہ اور اپنے من کے احوال سے غافل ہیں کہ اندر کیا بیت رہا ہے۔۔۔ ذہنوں میں کیا سوچ چل رہی ہے۔۔۔ دل میں کیا پک رہا ہے۔۔۔ خواہشیں کیا ہیں۔۔۔ نیت کیا ہے۔۔۔؟ وہ کبھی اللہ کی قربت حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی کبھی اپنی نیکیوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ جتنا ورع، تقویٰ، صدق، خالصیت، تواضع، خشوع، خضوع، پاکیزگی، طہارت، امانت، دیانت، انکساری اور بندگی انسان میں بڑھتی چلی جائے گی، اُتنے رتبے اللہ اُس کے بلند کرتا چلا جاتا ہے اور جن کے رتبے اللہ تعالیٰ بلند کرتا چلا جاتا ہے پھر حضرت ابوالحسن خرقانیؒ کی طرح اُن کے چراغ ہمیشہ جلتے رہتے ہیں اور کبھی بجھتے نہیں ہیں۔

محمود غزنوی نے سومنات کا مندر فتح کرنے کے لیے ہندوستان پر کئی حملے کیے مگر اسے فتح نصیب نہ ہوئی۔ اللہ کے حضور التجا کی کہ میرے مولیٰ! میری فوج تو ختم ہو رہی ہے، اگر سومنات کا مندر فتح نہیں ہوگا تو یہ علاقہ کفر و شرک میں ڈوبا رہے گا اور اسلام کے نور سے منور نہ ہوگا۔ اللہ رب العزت نے اسے رات خواب میں دکھایا کہ تمہارے لشکر میں میرا ایک بندہ ہے، اُس کے پاس جاؤ اور دعا کرواؤ۔ پوچھا اُس کی پہچان کیا ہے؟فرمایا: کل آندھی آئے گی اور اُس آندھی میں خیمے اُڑ جائیں گے، چراغ بجھ جائیں گے مگر اس اللہ والے کا نہ خیمہ اڑے گا اور نہ چراغ بجھے گا۔

چنانچہ اگلے دن اچانک سخت آندھی آئی، جس سے خیمے اڑ گئے اور چراغ بجھ گئے۔ محمود غزنوی لشکر کے اندر اس خیمے کی تلاش میں نکلا جو آندھی میں بھی قائم رہا اور جس کا چراغ بھی نہ بجھا۔ بالآخر وہ ایک خیمہ کے پاس پہنچا اور وہاں موجود اپنے ہی لشکر کے ایک سپاہی کے قدموں میں جاگرا اور کہنے لگا کہ میرے لیے دعا کر دیں کہ کل کے حملے میں ہم فتح یاب ہو جائیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں توایک فقیر آدمی ہوں، میں تو آپ کا سپاہی ہوں۔ محمود نے کہا کہ نہیں آپ اصل بادشاہ ہیں۔ جب وہ بھانپ گئے کہ محمود غزنوی کو حقیقت کی خبر ہو گئی ہے تو اُنہوں نے اسے اپنا قمیص دے دیا اور کہا کہ جائیں اور میری قمیص کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگیں جو مانگنا چاہتے ہیں۔ محمود غزنوی نے سومنات کی فتح کی دعا مانگی۔

ابو الحسن خرقانیؒ کی قمیص کے واسطہ سے اللہ نے فتح عطا کردی۔ محمود جب شکریہ ادا کر نے کے لیے آپ کے پاس آیا تو اُنہوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا مانگا تھا؟اس نے کہا کہ میں نے سومنات کی فتح مانگی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے ہمارا قمیص سستا بیچ دیا۔ جب مولیٰ کی بارگاہ میں قمیص کا واسطہ دے ہی دیا تھا تو پورا ہند بھی مانگ لیتا تو اللہ وہ بھی تجھےعطا فرمادیتا۔

ایک دینار کے چھٹے حصہ کو بھی یہ سوچ کر نہ لینا کہ کہیں حرام کی کمائی نہ ہو، اِس قدر چھوٹے سے معاملے میں بھی ورع کا یہ رویہ اختیار کرنا، چھ سو مقبول حج کرنے سے زیادہ افضل ہے۔

اس واقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ والے وہ ہوتے ہیں کہ اِس نفس، دنیا، مال، حرص، لالچ اور شہوت کی آندھیوں میں اُن کے چراغ جلتے رہتے ہیں۔ اُن کے من کے خیمے نہیں اُڑتے، اُن میں اثبات اور استقامت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اُن کے دلوں کے خیمے اخلاص کے ساتھ اللہ سے جڑئے ہوئے ہوتے ہیں اور اللہ کے عشق کا تیل اُن کے چراغوں کو مل رہا ہوتا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے من میں ایسے چراغ جلائیں کہ دنیا اور شہوت کی آندھیاں اُن چراغوں کو بجھا نہ سکیں۔ ظاہر کے سارے چراغ بجھ جاتے ہیں مگرباطن کے چراغ جب اللہ کے تعلق میں جل جائیں تو وہ نہیں بجھتے۔ جن کے من اور باطن کو اللہ رب العزت روشن کردے تو دیکھنے میں بظاہر وہ سپاہی ہے مگرباطن کا بادشاہ ہے۔ ظاہر میں کچھ نہیں رکھا، ظاہر سے ناپ تول نہ کیا کریں۔ کون کیا ہے؟ کسی کی قیمت اُس کے باطن، ورع اور تقویٰ کے حساب سے ہوتی ہے۔ اِسی لیے فرمایا کہ صاحبانِ ورع اپنے نفس کا حساب کرنے والے، اللہ کے حضور طاعت کا پیکر بن کر رہنے والے اور معصیت و نافرمانی سے ہمیشہ ہر حال میں بچنے والے ہوں گے اور یہی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی مجلس میں بیٹھنے والے ہوں گے۔ اللہ رب العزت ہمیں ہمیشہ اپنا محاسبہ کرنے اور ورع و تقویٰ کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ