سوال: دواساز کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹرز کو ملنے والے تحائف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ کا ایک واقعہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن التيبہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا، جب وہ (زکوٰۃ وصول کر کے) آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ آپﷺ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے۔ نبی اکرمﷺ منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ان عاملوں کا کیا حال ہے کہ میں ان کو (زکوٰۃ وصول کرنے) بھیجتا ہوں اور یہ آ کر کہتے ہیں:
هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَفَلَا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ، أَوْ فِي بَيْتِ أُمِّهِ، حَتَّى يَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَنَالُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةٌ لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةٌ تَيْعِرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ، هَلْ بَلَّغْتُ؟ مَرَّتَيْنِ.
(بخاری، الصحيح، كتاب الأحكام، باب هدايا العمال، 6: 2624، رقم: 6753)
یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ) کیا گیا ہے۔ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا پھر ہم دیکھتے کہ اس کو کوئی چیز ہدیہ کی جاتی ہے یا نہیں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی ان اموال میں سے کوئی چیز لے گا قیامت کے دن وہ مال اس کی گردن پر سوار ہو گا (کسی شخص کی گردن پر) اونٹ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے ڈکار رہی ہو گی یا بکری منمنا رہی ہو گی۔ پھر آپﷺ نے اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ ہم نے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، اس کے بعد آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ میں نے تبلیغ کر دی ہے۔
اس حدیثِ پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے عہدے پر فائض ہونے کی وجہ سے تحائف وصول کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے کیونکہ کسی عہدہ پر متمکن شخص کو تحائف کی صورت میں رشوت دے کر لوگ غلط کام کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے عُمال و افسران کو دورانِ خدمات ہدیہ وصول کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں عُمال اور صاحبانِ اختیار کو دیئے جانے والے تحائف پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ دورِ حاضر میں دواساز کمپنیوں (Pharmaceutical Companies) کی طرف سے میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف کو دیے جانے والے تحائف بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ فقہائے فتاویٰ ہندیہ کے مطابق اگر کسی صاحبِ اختیار (جیسے زیرِبحث معاملے میں ڈاکٹر یا اس کا سٹاف) کو محض دوستی و تعلق کی بناء پر کوئی تحفہ دیا جائے تو لینے والے کے لیے تحفہ لینا اور دینے والے کے لیے تحفہ دینا‘ دونوں جائز ہیں۔ اس معاملے کی دیگر صورتوں پر فتاویٰ ہندیہ درج ذیل الفاظ میں بحث کی گئی ہے:
نَوْعٌ مِنْهَا أَنْ يُهْدِيَ الرَّجُلُ إلَى رَجُلٍ مَالًا لِيُسَوِّيَ أَمْرَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السُّلْطَانِ وَيُعِينُهُ فِي حَاجَتِهِ، وَإِنَّهُ عَلَى وَجْهَيْنِ: الْوَجْهُ الْأَوَّلُ أَنْ تَكُونَ حَاجَتُهُ حَرَامًا وَ فِي هَذَا الْوَجْهِ لَا يَحِلُّ لِلْمُهْدِي الْإِعْطَاءُ وَلَا لِلْمُهْدَى إلَيْهِ الْأَخْذُ. الْوَجْهُ الثَّانِي أَنْ تَكُونَ حَاجَتُهُ مُبَاحَةً وَإِنَّهُ عَلَى وَجْهَيْنِ أَيْضًا: الْوَجْهُ الْأَوَّلُ أَنْ يَشْتَرِطَ أَنَّهُ إنَّمَا يُهْدِي إلَيْهِ لِيُعِينَهُ عِنْدَ السُّلْطَانِ، وَفِي هَذَا الْوَجْهِ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ الْأَخْذُ وَهَلْ يَحِلُّ لِلْمُعْطِي الْإِعْطَاءُ. تَكَلَّمُوا فِيهِ مِنْهُمْ. الْوَجْهُ الثَّانِي إذَا لَمْ يَشْتَرِطْ ذَلِكَ صَرِيحًا وَلَكِنْ إنَّمَا يُهْدِي إلَيْهِ لِيُعِينَهُ عِنْدَ السُّلْطَانِ، وَفِي هَذَا الْوَجْهِ اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ، وَعَامَّتُهُمْ عَلَى أَنَّهُ لَا يُكْرَهُ۔وَنَوْعٌ آخَرُ أَنْ يُهْدِيَ الرَّجُلُ إلَى سُلْطَانٍ فَيُقَلِّدَ الْقَضَاءَ لَهُ، أَوْ عَمَلًا آخَرَ وَهَذَا النَّوْعُ لَا يَحِلُّ لِلْآخِذِ الْأَخْذُ وَلَا لِلْمُعْطِي الْإِعْطَاءُ كَذَا فِي الْمُحِيطِ.
(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 3: 331)
اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کو اس غرض سے ہدیہ (تحفہ) دینا کہ اس کے اور سلطان (یعنی صاحبِ اختیار) کے درمیان معاملہ ٹھیک رہے اور بوقتِ ضرورت مدد کرے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اگر کوئی حرام حاجت پوری کروانے کے لیے تحفہ دیا گیا ہے تو تحفہ دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تحفہ کسی مباح (ناقابل اعتراض) کام کے لیے دیا جائے تو اس کی بھی مزید دو صورتیں ہیں: اگر تحفہ کسی کام میں مدد کرنے کی شرط کے ساتھ دیا گیا تو اس کا لینا جائز نہیں، البتہ دینے کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تحفہ دیتے ہوئے اگرچہ کوئی شرط نہیں لگائی گئی تاہم مقصد یہی ہے کہ صاحبِ اختیار میری مدد کرے‘ اس صورت میں بھی جواز و عدمِ جواز کا اختلاف ہے، تاہم عامہ مشائخ کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص صاحبِ اختیار کو کسی (عہدہ و منصب کے حصول جیسے) قضاء وغیرہ کے لیے تحفہ دے تو دینے والے کے لیے دینا اور لینے والے کے لیے لینا‘ دونوں جائز نہیں ہے۔
درج بالا تصریحات کو زیرِ بحث معاملے پر منطبق کرنے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر دواساز کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے‘ محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اپنی مصنوعات (Products) متعارف کروانے کے لیے دیا گیا تحفہ بھی وصول کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔
لیکن اگر یہ تحائف، مالی منفعت، کھانے یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی یا طبی معائنہ (medical test) کسی مخصوص لیبارٹری کا ہی قبول کیا جائے گا یا اس طرح کی دیگر شرائط کے ساتھ تحائف دینا اور لینا سراسر حرام ہے۔ اسی طرح غیر شرعی یا غیرقانونی امور کی انجام دہی کے لیے دیئے تحائف وصول کرنا بھی ممنوع ہے۔
سوال: کمیشن کی شرط کے ساتھ مخصوص کمپنی کی دوا تجویز کرنا کیسا ہے؟ادویات کمپنیوں کے نمائندے ڈاکٹروں کے پاس آتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی کی ادویات تجویز کریں اور وہ بدلے میں مختلف آفرز پیش کرتے ہیں کہ ہم آپ کو اس کے بدلے میں 30 یا 40 فیصد کمیشن دیں گے۔ اس صورت میں مریض کو دوائی مارکیٹ کی قیمت کے حساب سے ہی ملتی ہے اور مریض کو اضافی لاگت نہیں آتی ۔ کیا یہ کمیشن لینا جائز ہے؟
جواب: اگر ڈاکٹرز یا طبی عملہ کے افراد اس ’شرط‘ پر کسی کمپنی کی ادویات ترجیحاً تجویز کرتے ہیں یا طبی معائنہ کے لیے کسی مخصوص تجزیہ گاہ (Laboratory) کو لازم کر دیتے ہیں کہ اس کے بدلے کسی خاص تناسب سے کمیشن وصول کریں گے تو ایسا کرنا ممنوع ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
أَنْ يَشْتَرِطَ أَنَّهُ إنَّمَا يُهْدِي إلَيْهِ لِيُعِينَهُ عِنْدَ السُّلْطَانِ، وَفِي هَذَا الْوَجْهِ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ الْأَخْذُ.
(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 3: 331)
اگر کسی صاحبِ اختیار کو کسی کام میں مدد کرنے کی شرط کے ساتھ تحفہ (یا کمیشن) دیا گیا تو اس کا لینا جائز نہیں۔
مشروط ہونے کے بعد یہ کمیشن محض ہدیہ نہیں رہتا بلکہ ایک طرح سے کاروباری معاہدہ بن جاتا ہے جس میں ایک فریق محض اپنے اختیار کی وجہ سے کمیشن لیتا ہے جبکہ اس کا تمام تر مالی بوجھ تیسرا فریق (مریض) اٹھاتا ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ مریض کو دوائی تو اسی قیمت پر ملنی تھی، ڈاکٹر کے کمیشن لینے سے مریض کو اضافی لاگت نہیں آ رہی۔ اس لیے کہ دواساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کے تمام اخراجات خریدار پر ہی ڈالتی ہیں۔ خریدار دوائی کی جو قیمت ادا کرتا ہے، اس میں ڈاکٹرز کو دیے جانے والے کمیشنز اور تَشہير کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دواساز کمپنی و طبی تجزیہ گاہ اور ڈاکٹر کے درمیان ہونے والے کمیشن کے لین دین کا اصل بوجھ مریض کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
اگر ڈاکٹرز محض کمیشن کے لالچ میں غیر معیاری ادویات تجویز کرتا ہے یا غیرضروری طبی معائنہ کرواتا ہے تو اس صورت میں کمیشن لینا اور دینا حرام ہے۔ کیونکہ یہ دوسروں کے مال و جان سے کھلواڑ ہے جو شرعاً و اخلاقاً سخت ممنوع ہے۔
اس کمیشن کے جواز کی صرف ایک ہی صورت ہوسکتی ہے اور وہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح مصنوعات (Products) متعارف کروانے کے لیے دیا گیا تحفہ بھی وصول کرنے کی بھی کوئی ممانعت نہیں۔
سوال: شوہر اور بیوی کے اختلافی قول کی صورت میں کس پر اعتبار کیا جائے؟
جواب: اگر طلاق کے مسئلے پر مرد اور عورت دونوں کے بیان میں تضاد پایا جا رہا ہے۔ خاوند کہتا ہے میں نے دو طلاقیں دی ہیں اور عورت کہتی ہے کہ اس نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں اور گواہ بھی موجود نہیں ہے تو خاوند کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اور اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔الہدایہ میں ہے:
إن اختلفا فی الشرط فالقول قول الزوج إلا ان تقیم المراة البینة لانه متمسک بالاصل وهو عدم الشرط ولانه منکر وقوع الطلاق وزوال الملک والمراة تدعیه فان کان الشرط لا یعلم الا من جهتها فالقول قولها فی حق نفسها.
(مرغینانی، الهدایة شرح البدایة، 1: 252)
اگر میاں بیوی شرط پائے جانے میں اختلاف کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔ ہاں اگر عورت اس کے خلاف ثبوت لائے تو اس کی بات مانی جائے گی۔ اس لئے کہ خاوند اصل سے دلیل لا رہا ہے اور اصل یہ ہے کہ شرط نہ پائی جائے۔ کیونکہ طلاق واقع ہونے اور ملک متع کے زوال کا انکار کر رہا ہے اور عورت اس کی دعویدار ہے۔ ہاں اگر شرط ایسی ہے جو صرف عورت کی طرف سے معلوم ہو سکتی ہے تو عورت کی بات اس کے حق میں مانی جائے گی۔اسی طرح اگر گواہ موجود نہیں اور دونوں حلفاً بھی بیان کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔
سوال: اگر زوجین طویل عرصے تک الگ رہیں اور بعد ازاں بیوی خلع کا کیس کرے تو عدت کا کیا حکم ہے؟
جواب: رخصتی کے بعد اگر میاں بیوی کے درمیان جسمانی تعلق یا خلوتِ صحیحہ(نکاح کے بعد لڑکی لڑکے کا ایسے اکیلا/خلوت میں ہونا کہ مباشرت میں کوئی امر مانع نہ ہو) ثابت ہے تو طلاق، خلع یا عدالتی تنسیخ کا فیصلہ ہونے پر بیوی پر عدت گزارنا واجب ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ.
(الْبَقَرَة، 2: 228)
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔
مندرجہ بالا آیت میں ایسی مطلقہ عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے جس نے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کر لیا ہو یا ان کی خلوتِ صحیحہ ثابت ہوچکی ہو، اور اس عورت کو حیض بھی آتا ہو تو طلاق کے بعد اس پر تین حیض تک عدت گزارنا ضروری ہے۔
عدت سے استثنیٰ صرف غیرمدخولہ کیلئے ہے۔ مطلقہ غیرمدخولہ پر عدت واجب نہیں ہے۔ عدت کا نفاذ/شمار تب سے کیا جائے گا جب شوہر کی وفات، طلاق، خلع یا تنسیخِ نکاح واقع ہوگی، جب تک اِن میں سے کوئی امر واقع نہیں ہوتا اس وقت تک نکاح برقرار رہے گا، چاہے میاں بیوی طویل عرصے تک ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ جب عورت عدالت سے خلع یا تنسیخِ نکاح کا فیصلہ حاصل کرلے تو جس تاریخ کو فیصلہ آئے گا اُس دن سے اس کی عدت شروع ہوگی، جس کی مدت تین حیض تک ہے۔