دورِ جدیدمیں نسلِ نَو کی تربیت کے تقاضے

ڈاکٹر حسن محی الدین قادر ی

بچوں کی تربیت کرنا ایک حساس اور سنجیدہ نوعیت کا موضوع ہے۔ اگر اس موضوع کے تمام تقاضوں اور پہلوؤں کو صحیح طور پر پورا کریں تو ہم نئی نسل اور مستقبل کے اِن ستاروں کوصحیح سمت اور ڈگر پر گامزن کرسکتے ہیں۔بچوں کے حوالے سے والدین، اساتذہ اور معاشرے نے تربیت کے تقاضوں کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا اور نہ آداب ، اخلاق اور تربیتی نظام کو سنجیدگی سے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے۔جو زندگی ہم گزار رہے ہیں، وہ در حقیقت خود سے چل رہی ہےاور راستے میں جو کچھ آ جاتا ہے،ہم اُسے ڈیل کرلیتے ہیں۔ یاد رکھیں! تربیت معاملات کو روزمرہ معمول کے مطابق سرانجام دینے کا نام نہیں بلکہ تربیت اُس لباس کو پہننے کا نام ہے جو ابتداء سے انتہاء تک حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔۔۔آقا علیہ السلام کی بارگاہ کی عطا کردہ تربیت کے دھاگوں سے جُڑا ہوا ہو۔۔۔ اور اُسوہ مصطفیٰ ﷺ سے مزیّن ہو۔ اس حوالے سے اگر ہم صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا جائزہ لیں کہ انھیں تربیت کیسے میسر آئی تو صحابہ کرامؓ کہا کرتے تھے کہ ہم تو عرب کے وہ بدو ہیں کہ ہمیں اخلاقیات، آداب اور تعلیم و تربیت کی کوئی خبر نہ تھی۔ ہمیں نہ دین کاپتہ تھا اور نہ دنیا کی خبر تھی، ہم اپنی ہی زندگی میں مست انسان تھے۔ اللہ رب العزت نے ہم پر یہ کرم کیا کہ ہم میں حضور نبی اکرم ﷺ کو بھیج دیا۔ پھر جو حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا، اس پر ایمان لاتے رہے اور جیسا حضور نبی اکرم ﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا، وہ ہمارے لیے اُسوہ اور قدوہ بن گیا۔حضور نبی اکرم ﷺ کے کہنے پر ہم نے اللہ کو مانا اور کفر و شرک سے توبہ کی۔ الغرض جو جو حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے رہے، ویسے ویسے ہم کرتے رہے اور اس طرح ہمارا دین مکمل ہو گیا۔

آج اگر ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ہم میں تربیت اور اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم آداب، روایات اور اسلامی کلچر سے محروم ایک ہجوم ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگلی نسل کے ایمان کی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ہمارے آباؤ اجداد کی اپنی تربیت اچھی تھی تو کسی حد تک ہم بچ گئے اور پھر ہمیں آج کے دور میں منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صحبت میسر آگئی، جس کے سبب کچھ نہ کچھ اخلاقیات اور آداب ہمارے اندر موجود ہیں۔ اپنے ایمان کی مزید حفاظت کے لیے ہمیں تجدید و احیائے دین کی اس عالمگیر تحریک کے ساتھ اپنے تعلق کو مزید مضبوط و مستحکم کرنا ہوگا۔ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی صورت میں ہمیں دراصل حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامl کا فیض میسر آیا ہے کہ آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں اللہ رب العزت نے یہ کرم کیاکہ ہمیں دینِ محمدی کی حقیقی تعلیمات سے آشنا کرنے والا مل گیا جن کی پیروی سے ہم نے دین اسلام کی تعلیمات کو ان کی حقیقی روح کے ساتھ پہچانا اور اس پر عمل پیرا ہوئے۔

الغرض جیسے بھی تھا، کچھ نہ کچھ ایمان کو ہم نے محفوظ کرلیا مگر اب لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگلی نسل کے لیے بہت سے چیلنجز موجود ہیں اور ان کے لیے اپنا ایمان محفوظ رکھنا بڑا دشوار ہے۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے، اِسے ہمیں قبول بھی کرنا ہوگا اور اِس کو چیلنج سمجھتے ہوئے اس سے نبرد آزما بھی ہونا ہوگا۔ پہلے ہماری زندگیوں میں سادگی تھی، اٹھارہ سال کا بچہ بھی بڑی مشکل سے کوئی چیز یں سیکھتا تھا مگر آج چھ سات سال کا بچہ بھی وہ باتیں کہہ دیتاہےجو ہم سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں بھی کہتے ہوئے شرماتے تھے۔ آج کے دور میں جنم لینے والے بچے کی approach بھی موجود زمانے کی ترقی، ڈویلپمنٹ اور ٹیکنالوجی کی طرح بلند ہے۔ اس approach اور آج سے 60/50 سال قبل جنم لینے والے بچے کی approach میں واضح فرق ہے۔ آج کے بچے کی سوچ، اُس کی کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت اور ذہانت پچھلے دور کی نسبت اونچے درجے کی ہے۔ ہم تو سوال کرتے ہوئے جھجکتے تھے اور از خود جانتے تھے کہ والدین کے کچھ آداب ہیں،جنھیں ملحوظ رکھنا ہوگا جبکہ آج کے بچے کو آداب سکھانے پڑیں گے، انھیں بتانا پڑے گا کہ والدین کے آداب اور مقام کیا ہے۔۔۔؟ بڑوں کی عزت کیوں کی جاتی ہے۔۔۔؟ادب اور اخلاق کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ کس طرح کے رویے اپنانے چاہیےاور کس طرح کے مزاج اور طور طریقوں کو چھوڑ دینے چاہیے۔۔۔؟

ہمیں آج کے اس جدید دور کے بچے کی اُس طرح پرورش کرنا ہے،جس طرح کا زمانہ ہے۔ وہ دور گئے کہ والد نے بچے کو ڈانٹ دیا کہ بیٹھ جا تووہ شام تک اسی طرح بیٹھا رہا۔ آج بچے سوال کرتے ہیں کہ مجھے جس کام سے روکا جارہا ہے، اس کا سبب کیا ہے کہ میں اسے نہ کروں۔۔۔؟ مجھے جس کام کے کرنے کا کہا جارہا ہے، مجھے بتائیں کہ کیا وجہ ہے کہ میں یہ کام کروں۔۔۔؟ لہذا ہمیں پہلے انھیں سمجھانا پڑے گا۔ غصہ تو دور کی بات، اُس کو نصیحت کرنے سے پہلے بھی سمجھانا ہے کہ اسے نصیحت کیوں کی جارہی ہے۔۔۔؟ ہم نے اُسے سمجھانا بھی ہے، سلیقہ بھی دینا ہے اور معاشرے کے ہر طبقے کے آداب اور اخلاق کی خبر بھی دینی ہے۔ اسے اٹھنے بیٹھنے، پڑھنےلکھنے، سیکھنے، چلنے، کھانے پینے، دوستی، معاشرے، سکول، مدرسے، کتاب، قلم الغرض ہر چیز کے ادب اور مقام سے آگاہ کرنا ہے۔ آج ہم صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ کر لیں، لہذا ایسا کرلو۔ بچہ ہم سے اس کی وجہ اور سبب پوچھتا ہے۔ اس کے سوال کے جواب میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے جیسے میں نے کہہ دیا، بس ایسے ہی کرو۔ وہ دور گیاجب ہم اس طرح بچوں کو ڈیل کرتے تھے۔ اب اسے ہر بات کی logic سمجھانی ہے،اس لیے کہ سائنسی دور ہے، اسے پیار سے سمجھانے اور diplomatically deal کرنے کی ضرورت ہے، حکمت کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، آج حکم دینے سے پہلےاپنی عزت کوسنبھالنا زیادہ ضروری ہے۔ کمپیوٹر سائنس سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا نے ہمارے بچوں کو proactive کردیا ہے۔

تربیتِ اولاد (قرآن مجید کی روشنی میں):

اولاد کی تربیت کے باب میں حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنی بیٹے کو نصیحتیں ایک ایسا پیکج ہے کہ ہمیں اس کی روشنی میں تربیتِ اولاد کا اہتمام کرنا ہوگا۔ یہ چارٹر آف ٹریننگ نہایت جامع ہے۔ ذیل میں حضرت لقمان علیہ السلام کی ان ہی نصائح کی روشنی میں موجودہ حالات اور تقاضوں کے مطابق تربیتِ اولاد کے ضمن میں چند اہم نکات درج کیے جارہے ہیں:

(1) شکر گزاری

سیدنا لقمان نے اپنے بیٹے کو سب سے پہلی نصیحت یہ کی کہ ہر شے کی اصل شکر گزاری ہے۔ آپ نے فرمایا:

أَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ.

(لقمان، 31: 12)

کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔

یعنی اے میرے بیٹے! اگر تو نے زندگی میں کچھ بننا ہے تو اپنی طبیعت میں شکر گزاری پیدا کرو اور اللہ کی بارگاہ سے ملنے والی نعمتوں پر اس کے حضور شکر بجا لاؤ۔ پھر فرمایا:

وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ.

(لقمان، 31: 12)

اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے شکر کرتا ہے۔

(2) عقیدہ کی اصلاح

چارٹر آف ٹریننگ کا دوسرا نقطہ آپ نے اصلاحِ عقیدہ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے فرمایا:

يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ.

(لقمان، 31: 13)

اے میرے فرزند!اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

یعنی آپ نے شکرگزاری سکھائی اور پھر فرمایا کہجس ذات کی شکر گزاری سکھا رہا ہوں، اس ذات کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہ بنانا۔ یاد رکھیں! کوئی بھی تربیت جس کا ہم تعین کریں، اُس کا آغاز سمت سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے direction (سمت) اور راستے کو متعین کرنا اور سمجھنا پڑتا ہے، جس پر ہم نے چلنا ہے۔اگر راستہ درست ہو گاتو صحیح طریقے سے منزل تک پہنچ پائیں گے۔ پہلا قدم اگر صحیح اُٹھا لیا جائےتو آخری قدم کی فکر نہیں ہوتی اور اگر پہلا قدم ہی غلط اُٹھا لیا جائے ، خواہ والدین کی وجہ سے، استاد کی وجہ سے، صحبت کی وجہ سے یا معاشرے کی وجہ سے تو پھر سو قدم بھی درست کرتےرہیں،بڑی مشکل سےصحیح سمت واپس آتے ہیں۔

سیدنا لقمان نے اپنے بیٹے کی توجہ بھی اسی پہلے قدم کی طرف دلوائی اور اسے عقیدہ کی واضحیت کی نصیحت کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح دینی عقائد اور تعلیم وتربیت ہر بچے کے لیے پہلا قدم ہے۔ عقیدہ، سوچ اور اعتقاد کا درست ہونا لازمی امر ہے۔ ہم لوگ بدقسمتی سے اِس پہلو پر توجہ نہیں دیتے۔ہم کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کا یہی عقیدہ ہے ، وہ اِسی طرح کرتے رہے ہیں، ہم بھی اسی طرح کرتے رہیں گے۔ اولاد کے عقائد اور خیالات کی تطہیر کے لیے آج پہلے ہمیں خود قرآن و سنت کے دلائل سے مزین ہونا ہوگا اور پھر اولاد کو اعتقادی اور روحانی طور پر دلائل کی بنیاد پر صحیح راستے پر گامزن کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ آج کا بچہ ہر چیز کے بارے میں کیا؟ کیوں؟ کیسے؟ کا سوال کرتا ہے، لہذا اسے عقلی و نقلی ہر حوالے سے مطمئن کرنا ہوگا۔

اگر والدین کا اپنا ذہن اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوگی، وہ خود کہیں سیکھتے اور سکھاتے نہیں ہوں گے، علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی صحبت میں بیٹھ کر سیکھتے نہیں ہوں گےتو وہ اولاد کی تربیت کے باب میں مشکل میں پڑ جائیں گے۔ جب بچے اِدھر اُدھر سے بات سنیں گے،سکول، اساتذہ، معاشرے اور غلط صحبت کے سبب ان کے ذہن میں اگر ایسی چیزیں ڈال دی جائیں گی، جو صحیح عقیدہ نہ ہوا تو پھر والدین اپنی کم علمی کے سبب انھیں سنبھال نہ پائیں گے۔ لہذا ہمیں اپنی اولادکے عقیدے کو درست رکھنے اور انھیں درست سمت پر گامزن رکھنے کے لیے خود بھی پڑھنا اور سننا ہوگا۔ ہمیں عقیدہ by default مل گیا ہے لیکن آج کے دور میں عقیدہ by default آگے منتقل نہیں ہوگابلکہ اس کے لیے ہمیں ذاتی سطح پر محنت، کوشش اور جدوجہد کے ساتھ منطقی طور پر چیزوں کو سمجھنا اور سمجھانا پڑے گا۔

اسی تناظر میں ہمارے ہاں رائج خرافات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم دین کو سمجھنے کے معاملہ میں تساہل پسندی اور سستی کا شکار بھی ہیں۔ ہم دین کو by default سمجھتے ہیں اور عقائد کی درستگی کے لیے کسی اور سے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے یا اگر کرتےبھی ہیں تو اس میدان کے حقیقی ماہر کے پاس جانے کے بجائے جذباتی، سطحی اور نااہل لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور پھر ان کی طرف سے جو بھی ملتا ہے، اس کو حقیقی سمجھ لیتے ہیں۔ یا بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ جب دین کی بات آجائے تو ہم خود ہی مفکر اعظم بن جاتے ہیں، شریعت کی بات ہو تو مفتی اعظم بن جاتے ہیں۔ اس رویہ کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین کو تساہل پسندی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیشہ دین کو سنجیدگی سے سمجھیں اور اُن سے سمجھیں جن کے پاس دین کا حقیقی فہم ہے۔ ہم غلط لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر اور ان سے دین کے مسائل سمجھ کر بچوں کو بھی غلط ڈگر پر ڈال دیتے ہیں۔ اِس لیے عقیدے کی اصلاح تربیت کے باب میں انتہائی ضروری ہے۔

(3) والدین کی شکر گزاری

حضرت لقمان علیہ السلام نے تیسری نصیحت اپنے بیٹے کو یہ کی کہ اپنے والدین کا شاکر اور اپنے والدین کا تابعدار بنے رہو۔ جنہوں نے انگلی پکڑ کر تمہیں چلنا سکھایا اور تمھارے لیے مشکلات برداشت کیں، اُن والدین کے ادب کو کبھی نہ بھولیں۔ ارشاد فرمایا:

أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ.

(لقمان، 31: 14)

(یہ حکم دیا) کہ تومیرا(بھی ) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔(تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

یعنی والدین بھی اولاد کے حوالے سے اللہ کا شکر ادا کریں اور پھر اولاد بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی شکر گزار بنے۔

(4) تلقینِ عبادت

حضرت لقمان علیہ السلام اولاد کی ہمہ جہتی تربیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اُسے چوتھی وصیت عبادت کے حوالے سے کرتے ہیں کہ :

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ.

(لقمان، 31: 17)

اے میرے فرزند! تو تماز قائم کر۔

گویا اولاد کو حقوق اللہ کی ادائیگی اور اللہ کی بندگی کے آداب کی طرف بھی متوجہ کرنا نہایت ضروری امر ہے۔ ہم اس حوالے سے بھی کوتاہی کا شکار ہیں۔

(5) امر بالمعروف و نہی عن المنکر

حضرت لقمان علیہ السلام نے تربیت اولاد کے حوالے سے عقائد کی اصلاح، اللہ تعالیٰ کے شکر، والدین کی فرمانبرداری اور قیام نماز کے بعد مزید معاشرتی آداب اور اخلاقیات کی طرف متوجہ کیا۔ فرمایا:

وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ.

(لقمان، 31: 17)

نیکی کا حکم دے اور بُرائی سے منع کر۔

اولاد کو نیکی اور بھلائی کی ترغیب اور حکم دینے کی طرف متوجہ کرنا بھی تربیت کا حصہ ہے۔ اسی طرح برائی کو روکنے کی ترغیب دینا اور تلقین کرنا بھی تربیتِ اولاد کا لازمی جزو ہے۔ آج ہمارے بچے اور اولاد تو بڑی دور کی بات ہم خود بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا نہ کرسکنے کے سبب ہی معاشرہ میں روحانی و اخلاقی ا قدار زوال پذیر ہو رہی ہیں۔ ہمیں خود بھی اس حکم الہٰی پر کاربند ہونا ہے اور بچوں کی تربیت بھی اس نہج پر کرنی ہے کہ وہ بھی ہر سطح پر اس فریضہ کی ادائیگی میں کبھی لیت و لعل سے کام نہ لیں۔

(6) تکلیف پر صبر

حضرت لقمان علیہ السلام تربیتِ اولاد کے ذیل میں نہایت اہم امر کی طرف اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ.

(لقمان، 31: 17)

اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔

یعنی اللہ کی طرف سے اگر تمہیں تکلیف اور آزمائش آجائے تو ا س پر صبر کرنے والے بنو۔ گویا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شکوہ و شکایت اور گلہ نہ کرنے کے حوالے سے بھی بچوں کو متوجہ کرنا ضروری ہے۔ اسی سے اُن کے اندر قناعت اور توکل جنم لے گا۔ بصورتِ دیگر وہ آزمائشوں اور امتحانات میں صبر کا دامن نہ تھامنے کے سبب اللہ کی رحمت سے مزید دور ہوتے چلے جائیں گے۔

(7) غرور کی ممانعت

اخلاقی تربیت کے مزید معاشرتی پہلو اور آداب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ.

(لقمان، 31: 18)

اور لوگوں سے ( غرور کے ساتھ ) اپنا رخ نہ پھیر۔

یعنی اگر کوئی شخص تم سے بات کرے تو غرور والے انداز سے چلتے نہ جایا کرو بلکہ ٹھہر کر اس کی بات سنا کرو۔ ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ماڈرن طریقہ ہے، یہ آداب ہیں۔ حالانکہ آقا علیہ السلام ، انبیاء علیھم السلام اور اولیاء ، صالحین کے ایسے آداب تو نہ تھے۔

حضرت لقمان علیہ السلام نے جہاں اپنے بیٹے کو رویے اور مزاج میں غرور و تکبر سے منع کیا وہاں اسے چلنے کے انداز میں بھی غرور و تکبر کی ممانعت کی۔ فرمایا:

وَ لَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ.

(لقمان، 31: 18)

اور زمین پر اکڑ کر مت چل۔ بے شک اللہ ہر متکبر، اترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔

گویا اس حد تک وہ اپنے بیٹے کو آداب سے آشنا کررہے ہیں کہ چلنے تک کے طریقہ کار سے آگاہ کررہے ہیں کہ اکڑ کر چلنا بھی بے ادبی ہے اور دینی تعلیمات کے منافی ہے۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اسی خوبی کے حاملین کو عبادالرحمن قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا.

(الفرقان، 25: 63)

اور (خدا ئے) رحمان کے (مقبول ) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں۔

(8) اعتدال و توازن

سیدنا لقمان علیہ السلام نے بھی پہلے اپنے بیٹے کو اس انداز سے چلنے سے منع کیا جو خدا کوپسند نہیں اور پھر اپنے بیٹے کو چلنے کے بھی آداب سکھائے اور فرمایا:

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ.

(لقمان، 31: 19)

اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کرو۔

چلنے میں میانہ روی کو اختیار کرنے میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ زندگی کے ہر عمل میں میانہ روی اور اعتدال و توازن ضروری ہے۔ اگر چلنے میں میانہ روی کو لازم قرار دیا جارہا ہے تو زندگی کے بقیہ امور میں میانہ روی کو اختیار کرنے کی ضرورت و اہمیت از خود واضح ہوجاتی ہے۔ اسی بات کو حضرت لقمان علیہ السلام نے آواز کو پست رکھنے کے ذیل میں واضح کردیا کہ آواز بھی زیادہ بلند نہ ہو بلکہ اس میں بھی میانہ روی اور آہستگی و شائستگی جھلکتی ہوئی نظر آئے۔ فرمایا:

وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ.

(لقمان، 31: 19)

اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کر۔

حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو روزمرہ معمول کے چھوٹے سے چھوٹے ادب کو پیشِ نظر رکھنے کی نصیحت کی حتی کہ بولنے کے بھی آداب سکھادیئے کہ گفتگو کیسے کرنی ہے اور دوسروں سے کلام کرتے ہوئے کیا طریقہ اپنانا ہے۔ یعنی اپنی آواز کو نہ بہت بلند کرو، نہ بہت آہستہ کرو بلکہ میانہ روی کے ساتھ بولو۔ اُس پیاری آواز سے بولو کہ جو کسی کے کانوں میں پڑے تو وہ رس گھولتی چلی جائے، وہ اس قدر خوشگوار اور مٹھاس بھری ہو کہ وہ بات کانوں سے اُترے اور دل میں جا گزین ہو جائے۔ پھر آگے اُنہوں نے مثال بھی دے دی اورفرمایا:

إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ.

(لقمان، 31: 19)

بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔

حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو مندرجہ بالا نصائح کی روشنی میں ہمیں بھی اپنی اولاد کو ان ہی معاشرتی آداب کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔

(جاری ہے)